عبادات میں جسم اور روح کی شمولیت ضروری ہے
ظاہری نماز اور روزہ اگر اس کے ساتھ اخلاص اور صدق نہ ہو کوئی خوبی اپنے اندر نہیں رکھتا۔ جوگی اور سنیاسی بھی اپنی جگہ بڑی بڑی ریاضتیں کرتے ہیں۔ اکثر دیکھا جاتا ہے کہ ان میں سے بعض اپنے ہاتھ تک سکھادیتے ہیں اور بڑی بڑی مشقتیں اٹھاتے اور اپنے آپ کو مشکلات اور مصائب میں ڈالتے ہیں۔ لیکن یہ تکالیف ان کو کوئی نور نہیں بخشتیں اور نہ کوئی سکینت اور اطمینان ان کو ملتا ہے بلکہ اندرونی حالت ان کی خراب ہوتی ہے۔ وہ بدنی ریاضت کرتے ہیں۔ جس کو اندر سے کم تعلق ہوتا ہے۔ اور کوئی اثر ان کی روحانیت پر نہیں پڑتا۔ اسی لئے قرآن شریف میں اﷲ تعالیٰ نے یہ فرمایا۔
لَنْ يَّنَالَ اللّٰهَ لُحُوْمُهَا وَ لَا دِمَآؤُهَا وَ لٰكِنْ يَّنَالُهُ التَّقْوٰى مِنْکُمْ(الـحج:38)
یعنی اﷲ تعالیٰ کو تمہاری قربانیوں کا گوشت اور خون نہیں پہنچتا بلکہ تقویٰ پہنچتا ہے۔ حقیقت میں خدا تعالیٰ پوست کو پسند نہیں کرتا بلکہ وہ مغز چاہتا ہے۔ اب سوال یہ ہوتا ہے کہ اگر گوشت اور خون نہیں پہنچتا بلکہ تقویٰ پہنچتا ہے تو پھر قربانی کرنے کی کیا ضرورت ہے؟ اور اس طرح نماز روزہ اگر روح کا ہے تو پھر ظاہر کی کیا ضرورت ہے؟ اس کا جواب یہی ہے کہ یہ بالکل پکی بات ہے کہ جو لوگ جسم سے خدمت لینا چھوڑ دیتے ہیں ان کو روح نہیں مانتی اور اس میں وہ نیاز مندی اور عبودیت پیدا نہیں ہوسکتی جو اصل مقصد ہے اور جو صرف جسم سے کام لیتے ہیں روح کو اس میں شریک نہیں کرتے وہ بھی خطرناک غلطی میں مبتلا ہیں۔ اور یہ جوگی اسی قسم کے ہیں۔ روح اور جسم کا باہم خدا تعالیٰ نے ایک تعلق رکھا ہوا ہے اور جسم کا اثر روح پر پڑتا ہے۔ مثلاً اگر ایک شخص تکلّف سے رونا چاہے تو آخر اس کو رونا آہی جائے گا۔ اور ایسا ہی جو تکلّف سے ہنسنا چاہے اسے ہنسی آہی جاتی ہے۔ اسی طرح پر نماز کی جس قدر حالتیں جسم پر وارد ہوتی ہیں۔ مثلاً کھڑا ہونا یا رکوع کرنا۔ اس کے ساتھ ہی روح پر بھی اثر پڑتا ہے اور جس قدر جسم میں نیاز مندی کی حالت دکھاتا ہے۔ اسی قدر روح میں پیدا ہوتی ہے۔ اگر چہ خد انرے سجدہ کو قبول نہیں کرتا مگر سجدہ کو روح کے ساتھ ایک تعلق ہے۔ اس لئے نماز میں آخر ی مقام سجدہ کا ہے۔ جب انسان نیاز مندی کے انتہائی مقام پر پہنچتا ہے تو اس وقت وہ سجدہ ہی کرنا چاہتا ہے۔ جانوروں تک میں بھی یہ حالت مشاہدہ کی جاتی ہے۔ کتے بھی جب اپنے مالک سے محبت کرتے ہیں تو آکر اس کے پائوں پر اپنا سر رکھ دیتے ہیں اور اپنی محبت کے تعلق کا اظہار سجدہ کی صورت میں کرتے ہیں۔ اس سے صاف پایا جاتا ہے کہ جسم کو روح کے ساتھ خاص تعلق ہے ایسا ہی روح کی حالتوں کا اثر جسم پر نمودار ہو جاتا ہے۔ جب روح غمناک ہو تو جسم پر بھی اس کے آثار ظاہر ہوتے ہیں اور آنسو اور پژمردگی ظاہر ہوتی ہے۔ اگر روح اور جسم کا باہم تعلق نہیں تو ایسا کیوں ہوتا ہے؟دوران خون بھی قلب کا ایک کام ہے مگر اس میں بھی شک نہیں کہ قلب آبپاشی جسم کے لئے ایک انجن ہے۔ اس کے بسط اور قبض سے سب کچھ ہوتا ہے۔
غرض جسمانی اور روحانی سلسلے دونوں برابر چلتے ہیں۔ روح میں جب عاجزی پید اہو جاتی ہے پھر جسم میں بھی پیدا ہو جاتی ہے۔ اس لئے جب روح میں واقع میں عاجزی اور نیاز مندی ہو تو جسم میں اس کے آثار خود بخود ظاہر ہو جاتے ہیں اور ایسا ہی جسم پر ایک الگ اثر پڑتا ہے تو روح بھی اس سے متاثر ہو ہی جاتی ہے۔ اس لئے ضروری ہے کہ جب خدا تعالیٰ کے حضور نماز میں کھڑے ہو تو چاہیے کہ اپنے وجود سے عاجزی اور ارادت مندی کا اظہار کرو۔ اگر چہ اس وقت یہ ایک قسم کا نفاق ہوتا ہے۔ مگر رفتہ رفتہ اس کا اثر دائمی ہو جاتا ہے اور واقعی روح میں وہ نیا زمندی اور فروتنی پیدا ہونے لگتی ہے۔
بعض لوگ کہتے ہیں کہ ہم کو نمازوں میں لذت نہیں آتی۔ مگر وہ نہیں جانتے کہ لذت اپنے اختیار میں نہیں ہے اور لذت کا معیار بھی الگ ہے۔ ایسا ہوتا ہے کہ ایک شخص اشد درجہ کی تکلیف میں مبتلا ہوتا ہے مگر وہ اس تکلیف کو بھی لذت ہی سمجھ لیتا ہے۔ دیکھو ٹرانسوال[اس وقت ٹرانسوال کی جنگ جاری تھی۔ (ایڈیٹر الحکم)] میں جو لوگ لڑتے ہیں۔ باوجود یکہ اس میں جانیں جاتی ہیں اور عورتیں بیوہ اور بچے یتیم ہوتے ہیں۔ مگر قومی حمیت اور پاسداری ان کو ایک لذت اور سرور کے ساتھ موت کے منہ میں لے جارہی ہے۔
ان کو قومی حمیت اور پاسداری موت کے منہ میں خوشی کے ساتھ لے جاتی ہے۔ ادھر قوم ان کی محنتوں اور جانفشانیوں کی قدر کر رہی ہے۔ جبکہ اغراض قومی متحد ہیں۔ پھر ان کی محنتوں کی قدر کیوں ہوتی ہے؟ ان کے دکھ اور تکالیف کی وجہ سے۔ ان کی محنت اور جانفشانی کے باعث۔
غرض ساری لذت اور راحت دکھ کے بعد آتی ہے۔ اسی لئے قرآن شریف میں یہ قاعدہ بتایا ہے۔
اِنَّ مَعَ الْعُسْرِ يُسْرًا(الم نشـرح: 7)
اگر کسی راحت سے پہلے تکلیف نہیں تو وہ راحت راحت ہی نہیں رہتی۔ اسی طرح پر جو لوگ کہتے ہیں کہ ہم کو عبادت میں لذت نہیں آتی۔ ان کو پہلے اپنی جگہ سوچ لینا ضروری ہے کہ وہ عبادت کے لئے کس قدر دکھ اور تکالیف اٹھاتے ہیں۔ جس قدر دکھ اور تکالیف انسان اٹھائے گا۔ وہی تبدیل صورت کے بعد لذت ہو جاتا ہے۔ میری مراد ان دکھوں سے نہیں کہ انسان اپنے آپ کو بے جا مشقتوں میں ڈالے اور مالا یطاق تکالیف اٹھانے کا دعویٰ کرے۔
(ملفوظات جلد 4صفحہ420۔ 423۔ ایڈیشن 1984ء)