ہر کام کی بنیاد حق الیقین پر ہونی چاہئے (قسط اوّل)
حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ
حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓنے یہ مضمون سورہ الم نشرح کی تفسیر کرتے ہوئے درس میں بیان فرمایا تھا جسے افادۂ عام کے لیے مورخہ 15؍ اپریل 1946ء کو روزنامہ الفضل میں شائع کیا گیا اور اب اِسے قارئین کے استفادہ کے لیے دوبارہ شائع کیا جا رہا ہے۔(ادارہ)
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلیٰ رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ
سورۃ الم نشرح کی تفسیر کے وقت درس القرآن کے موقع پر فرمایا:
قرآن کریم نے یقین کے مختلف مدارج بیان کئے ہیں۔ یوں تو اس کے ہزاروں مدارج ہیں مگر موٹے موٹے تین مدارج ہیں۔ علم الیقین، عین الیقین، حق الیقین۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی کتابوں میں جو خاص اصولی مضامین ہیں ان میں سے ایک یہ بھی مضمون ہے جو مراتب یقین کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے بیان فرمایا۔ میں یہ نہیں کہتا کہ پہلے صوفیاء کی کتابوں میں اس کا ذکر نہیں پہلے صوفیاء کی کتابوں میں بھی بے شک اس کا ذکر ملتا ہے مگر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اس مضمون میں جو جِدتیں پیدا کی ہیں وہ ان لوگوں کی تشریحات میں نہیں ہیں۔ بعض لوگ اس حقیقت کو نہ سمجھنے کی وجہ سے اعتراض کر دیا کرتے ہیں کہ یہ باتیں تو امام غزالی ؒکی کتابوں میں بھی پائی جاتی ہیں یا فلاں فلاں مضامین انہوں نے بھی بیان کئے ہیں۔ جیسے ڈاکٹر اقبال نے کہہ دیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اس قسم کے مضامین صوفیاء کی کتابوں سے چرا لئے تھے حالانکہ اگر غور وفکر سے کام لیا جائے تو دونوں کے تقابل سے معلوم ہو سکتا ہے کہ انہوں نے مضمون میں وہ باریکیاں پیدا نہیں کیں جو ایک ماہرِ فن پیدا کیا کرتا ہے اور نہ مضمون کی نوک پلک انہوں نے نکالی ہے لیکن حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جس مضمون کو بھی لیا ہے ایک ماہرِ فن کے طور پر اس کی باریکیوں اور اس کے خدوخال پر پوری تفصیل کے ساتھ روشنی ڈالی ہے اور کوئی پہلو بھی تشنۂ تحقیق رہنے نہیں دیا اور یہی ماہر کا کام ہوتا ہے کہ دوسروں سے نمایاں کام کر کے دکھا دیتا ہے۔ مثلاً تصویرکھینچنا بظاہر ایک عام بات ہے ہر شخص تصویرکھینچ سکتا ہے میں بھی اگر پنسل لے کر کوئی تصویر بنانا چاہوں تو اچھی یا بُری جیسی بھی بن سکے کچھ نہ کچھ شکل بنا دوں گا مگر میری بنائی ہوئی تصویر اور ایک ماہرِ فن کی بنائی ہوئی تصویر میں کیا فرق ہوگا یہی ہوگا کہ ماہرِ فن اس کی نوکیں پلکیں خوب درست کرے گا اور میں صرف بے ڈھنگی سی لکیریں کھینچ دینے پر اکتفا کر دوں گا۔ پس کسی مضمون کا خالی بیان کر دینا اَور بات ہوتی ہے اور اس کی نوک پلک درست کر کے اسے بیان کرنا اور بات ہوتی ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے گو بعض جگہ وہی مضامین لئے ہیں جو پُرانے صوفیاء بیان کرتے چلے آئے تھے مگر آپ کے بیان کردہ مضامین اور پہلے صوفیاء کے بیان کردہ مضامین میں وہی فرق ہے جو ایک اناڑی اور ماہر مصور کی بنائی ہوئی تصاویر میں ہوتا ہے۔ انہوں نے تصویر اس طرح کھینچی ہے جیسے ڈرائنگ کا ایک طالب علم کھینچتا ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے تصویر اس طرح کھینچی ہے جس طرح ایک ماہرِ فن تصویر کھینچ کر اپنے کمالات کا دنیا کے سامنے ثبوت پیش کرتا ہے اور پھر ہر بات پر قرآن کریم سے شاہد پیش کر کے بتایا ہے کہ اس مضمون کا بتانے والا قرآن کریم ہے۔
حضرت مسیح موعو دعلیہ الصلوٰۃ والسلام کی اس تشریح کے مطابق علم الیقین تو یہ ہوتا ہے کہ زید یابکر ہمارے پاس آئے اور وہ ہمیں بتائے کہ فلاں بات یوں ہے جیسے ایک شخص ہمارے پاس آتا ہے اور کہتا ہے کہ میں نے تمہارے گھر میں گوشت پہنچا دیا ہے۔ ہم اُس کی بات سنتے اور خیال کر لیتے ہیں کہ اس نے ٹھیک ہی کام کیا ہوگا حالانکہ ہو سکتا ہے کہ اس نے گوشت نہ پہنچایا ہو اور محض دھوکا دینے کے لئے ہمیں ایک غلط خبر دے دی ہو۔
دنیا میں بہت سی خرابیاں بِالعموم علم الیقین سے پیدا ہوتی ہیں۔ اگر کاموں کی بنیاد علم الیقین کی بجائے حق الیقین پر رکھی جائے اور اُس وقت تک انسان اطمینان حاصل نہ کرے جب تک اُسے یہ یقین حاصل نہ ہو جائے کہ جو کام میرے سپرد کیا گیا تھا یا جو کام میں کرنا چاہتا تھا وہ اپنی تکمیل کو پہنچ گیا ہے تو وہ نقائص جو عموماً واقع ہوا کرتے ہیں اور جن کی بناء پر بعض دفعہ بڑی بڑی خرابیاں پیدا ہو جایا کرتی ہیں کبھی واقع نہ ہوں۔
مجھے اپنی ساری عمر میں لوگوں سے کام لینے میں اگر کوئی دقت پیش آئی ہے تو وہ یہی ہے کہ جو شخص بھی کام کرتا ہے علم الیقین پر اس کی بنیاد رکھتا ہے حق الیقین پر بنیاد نہیں رکھتا۔ میں نے مختلف صیغہ جات مقرر کئے ہوئے ہیں، مختلف محکمے کام کی سہولت کے لئے قائم کئے ہوئے ہیں اور مختلف لوگ ان محکموں کے انچارج ہیں مگر جب بھی کسی محکمہ میں کوئی نقص واقعہ ہوتا ہے اس کی بنیادی وجہ یہی ہوتی ہے کہ کام کی اہمیت کو نظر انداز کر کے علم الیقین پر بنیاد رکھ لی جاتی ہے اور یہ خیال کر لیا جاتا ہے کہ کام ہو گیا ہوگا حالانکہ وہ کام نہیں ہوا ہوتا۔ میں نے پرائیویٹ سیکرٹری کے محکمہ کو دیکھا ہے جب بھی ان سے کہو کہ فلاں کام اس طرح کر دیا جائے او رپھر دو گھنٹہ کے بعد پوچھا جائے کہ کام ہو گیا ہے تو پرائیویٹ سیکرٹری جواب دے گا، میں نے فلاں کو کہہ دیا تھا اس سے پوچھ کر جواب دیتا ہوں کہ کام ہو گیا ہے یا نہیں۔ حالانکہ فلاں کو کہہ دینا یہ علم الیقین ہے بلکہ علم الیقین سے بھی پہلے کی چیز ہے اور اس پر اپنے کاموں کی بنیاد رکھ کر فرض کر لینا کہ کام ہو گیا ہے یا ہو رہا ہے بالکل ویسی ہی بات ہوتی ہے جیسے ہمارے ہاں مشہور ہے کہ کوئی شخص کسی کے گھر مہمان آیا۔ اُس نے اپنے نوکر کو ہر قسم کے ضروری آداب سکھائے ہوئے تھے جس کی وجہ سے وہ بروقت اور نہایت عمدگی سے کام کرنے کا عادی تھا۔ اتفاقاً مہمان کے سامنے میزبان کو کسی چیز کی ضرورت پیش آ گئی مثلاً دہی کی ضرورت محسوس ہوئی اور اس نے اپنے نوکر کو دہی لانے کے لئے بازار بھیج دیا اور اس دوست سے کہا کہ میرا نوکر بہت مؤدب اور فرض شناس ہے جو کام بھی اسے کرنے کے لئے کہا جائے ٹھیک وقت کے اندر اسے سرانجام دیتا ہے۔ چنانچہ کہنے لگا دیکھ لیجئے میں نے اسے دہی لینے کے لئے بازار بھیجا ہے اور دُکان تک دو چار منٹ کا راستہ ہے۔ اب چونکہ ایک منٹ گزر چکا ہے اس لئے مجھے یقین ہے کہ وہ فلاں جگہ تک پہنچ گیا ہوگا تھوڑی دیر کے بعد کہنے لگا اب مجھے یقین ہے کہ وہ دُکان تک پہنچ گیا ہوگا، پھر کچھ وقت انتظار کرنے کے بعد جو سودا خریدنے پر صرف ہو سکتا تھا اس نے کہا اب مجھے یقین ہے کہ وہ دہی لے کر وہاں سے چل پڑا ہوگا، تھوڑی دیر کے بعد کہنے لگا اب وہ فلاں نکڑ تک پہنچ گیا ہوگا، کچھ اور دیر گزری تو کہنے لگا مجھے یقین ہے کہ اب وہ ڈیوڑھی میں آ چکا ہے۔ چنانچہ اس نے آواز دی کہ کیوں میاں دہی لے آئے؟ نوکر نے جواب دیا حضور! حاضر ہے۔ یہ نمونہ ایسا اعلیٰ درجہ کا تھا کہ اسے دیکھ کر ہر شخص کی طبیعت خوشی محسوس کرتی تھی۔ چنانچہ مہمان بھی بہت خوش ہوا اور اس نے فیصلہ کیا کہ میں بھی اپنے نوکر کی ایسی ہی تربیت کروں گا مگر وہ مہمان خود اُجڈ اور جاہل تھا۔ اس نے اپنے نوکر (کو)تہذیب و شائستگی کے اصول کیا سکھانے تھے اس کے اپنے کاموں میں بھی کوئی باقاعدگی نہ پائی جاتی تھی مگر اُس کے دل پر ایسا اثر ہوا کہ اس نے کہا اب میں بھی اپنے نوکر کو ایسی ہی تہذیب سکھاؤں گا۔ چنانچہ اس نے واپس جا کر اپنے نوکر کو سکھانا شروع کر دیا مگر وہ اُجڈ، اَن پڑھ اور جاہل تھا اُس پر اِن سبقوں کا کیا اثر ہو سکتا تھا پانچ چھ ماہ گزر گئے تو اس نے اپنے شہری دوست کی دعوت کی اور اسے کہا کہ گاؤں کی آب و ہوا اچھی ہوتی ہے آپ میرے ہاں تشریف لائیں۔ چنانچہ وہ اس دعوت پر اس کے گاؤں میں گیا۔ جب دستر خوان بچھا تو اُس نے بھی نقل کرنی شروع کر دی۔ زمینداروں کے گھروں میں عام طور پر دہی ہوتا ہے مگر اس نے چونکہ اپنے دوست کو یہ بتانا تھا کہ میرا نوکر بھی بڑا ہوشیار اور فرض شناس ہے اس لئے اسے آواز دے کر کہنے لگا میاں ذرا جانا اور فلاں دکاندار کے ہاں سے دہی تو لے آنا۔ پھر تھوڑی دیر کے بعد کہنے لگا میرا نوکر بڑا ہوشیار اور مؤدب ہے اب وہ فلاں جگہ پر پہنچ چکا ہوگا، تھوڑی دیر کے بعد کہا مجھے یقین ہے کہ اب وہ دُکان تک پہنچ چکا ہوگا، پھر کچھ وقفے کے بعد کہا اب وہ دہی لے رہا ہوگا، تھوڑی دیر کے بعد اس نے کہا اب وہ دہی لے کر وہاں سے ضرور چل پڑا ہے، ایک منٹ کے بعد کہنے لگا اب وہ فلاں جگہ پہنچ چکا ہوگا، پھر کچھ وقت گزرا تو کہا اب مجھے یقین ہے کہ وہ دہی لے کر ڈیوڑھی میں پہنچ چکا ہے۔ چنانچہ اُسے آواز دے کر کہنے لگا کیوں میاں دہی لے آئے؟ نوکر کہنے لگا ’’تُسیں اینے کاہلے کیوں پے گئے ہو مَیں جتی تے لبھ لواں فیر دہی وی لے آواں گا‘‘۔ یعنی آپ اتنی جلدی کیوں کرتے ہیں مَیں جوتی تو تلاش کر لوں پھر دہی بھی لے آؤں گا۔ دیکھو یہ علم الیقین تھا جس پر اس نے اپنے کام کی بنیاد رکھی اور شرمندگی اور ندامت اسے حاصل ہوئی۔ اسی طرح ہندوستانی مینٹلیٹی (MENTALITY) ایسی ہے کہ جب کسی شخص کے سپرد کوئی کام ہو وہ کبھی حق الیقین پر اس کی بنیاد نہیں رکھتا۔ اور یہ تو علم الیقین سے بھی پہلے کی بات ہے کہ جب انسان دوسرے سے دریافت کرے کہ کیا فلاں کام ہو گیا ہے؟ تو وہ جواب دے کہ جی ابھی پوچھ کر بتاتا ہوں۔ پھر جب پوچھا جاتا ہے اور پتہ لگتا ہے کہ کام نہیں ہوا تو دفتر والے جواب دیتے ہیں کہ ہم نے تو فلاں سے کہہ دیا تھا مگر کمبخت گیا نہیں۔ چنانچہ پھر اُسے ڈانٹا جاتا ہے کہ کیوں تم نے یہ کام نہیں کیا۔ مَیں کہتا ہوں تم کیوں اپنے علم کو عین الیقین بلکہ حق الیقین سے نہیں بدل لیتے تا کہ یہاں تک نوبت ہی نہ پہنچے۔
٭…٭…(جاری ہے)…٭…٭