بدھ رہ نما دلائی لامہ کی تاریخ و تعارف (قسط اوّل)
مذاہب عالم کی تاریخ میں چھٹی صدی قبل مسیح خاص اہمیت کی حامل ہے۔ یہ وہ دَور تھا جب مشرق میں روحانیت کے متعدد نئے چشمے پھوٹے۔ الٰہی نور سے منور فرستادگان ِخدا ہدایت کے لیے مبعوث ہوئے اور اپنے اپنے علاقہ اور دیس کےباسیوں کو باری تعالیٰ کی طرف بلایا۔ ان پیغمبروں میں ایک حضرت گوتم بدھؑ بھی تھے۔
بدھ ازم کاآغاز 563قبل مسیح میں کپل وستو کی ریاست (موجودہ نیپال) میں حضرت گوتم بدھؑ کی پیدائش سےہوا۔ آپؑ کی وفات 483قبل مسیح میں ہوئی۔ حضرت گوتم بدھ علیہ السلام کی زندگی میں بدھ ازم شمالی ہندوستان کے علاقہ جات میں ہی محدود رہا۔ تیسری صدی قبل مسیح میں اشوک بادشاہ کے زیر سایہ بدھ مت نے پھیلنا شروع کیا اور مشرق ومغرب میں دُور دُور تک پھیل گیا۔ تاریخ کے ایک طویل دَور میں بدھ ازم بر اعظم ایشیا کا سب سے بڑا مذہب رہ چکا ہے۔ مگرپھر امتداد زمانہ کے ساتھ بدھ ازم کے متبعین بھی اپنی تعلیمات کو بھولتے چلے گئے۔ نت نئے عقائد اور رسومات ان میں راسخ ہوتی چلی گئیں۔
عصر حاضرمیں بدھ ازم آبادی کے لحاظ دنیا کا چوتھا بڑا مذہب ہے۔ اس کے پیروکاروں کی موجودہ تعداد کے متعلق کئی اندازے لگائے گئے ہیں۔ بیشترکے مطابق بدھ ازم کےپیروکار وں کی تعداد50کروڑ سے 100کروڑتک ہے۔ اس میں سے نصف کے قریب لوگ اپنے آپ کو بدھ ازم کا متبع کہلاتے ہیں جبکہ باقی نصف بدھ ازم کو مذہب کے طور پر نہیں اپناتے مگر ان کی تہذیب و تمدن اور معاشرت بدھ تعلیم کے مطابق ہے۔
محققین کے نزدیک بدھ ازم کی مذہبی حیثیت زیر بحث رہی ہے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ موجود ہ بدھ تعلیمات بظاہرخدائے واحد کی نفی کرتی ہوئی دکھائی دیتی ہیں۔ ان محققین کی اکثریت مغربی دہریت سے متاثر ہے۔ بدھ تعلیمات کا اگربنظر ِتعمّق مطالعہ کیا جائے تو ہم بآسانی اس نتیجہ پر پہنچ سکتے ہیں کہ بدھ ازم دراصل ایک مذہب ہی ہے۔ حضرت گوتم بدھ علیہ السلام کے حالات زندگی انبیا ء کے حالات کے مشابہ ہیں۔ اس میں خدا اورجنت دوزخ کا تصور ملتا ہے۔ بعد ازاں امتداد زمانہ کے ساتھ یہ مذہبی نقوش دھندلاتے چلے گئے اور غیر مذہبی نظریات نے ان کی جگہ لے لی اور یہی تاریخ کا نچوڑ ہے۔ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام اس ضمن میں فرماتے ہیں :
’’ ہم بیان کر چکے ہیں کہ بدھ شیطان کا بھی قائل ہے۔ ایسا ہی دوزخ اور بہشت اور ملائک اور قیامت کو بھی مانتا ہے اور یہ الزام جو بدھ خدا کامنکر ہے یہ محض افتراء ہے۔ بلکہ بدھ وید انت کا منکر ہے اور ان جسمانی خداؤں کا منکر ہے جو ہندو مذہب میں بنائے گئے تھے۔ ہاں وہ وید پر بہت نکتہ چینی کرتا ہے اور موجودہ وید کو صحیح نہیں مانتااور اس کو ایک بگڑی ہوئی اورمحرّف و مبدّل کتاب خیال کرتا ہے۔ ‘‘
(مسیح ہندوستان میں، روحانی خزائن جلد 15صفحہ91)
بدھ ازم کے تین بڑے مکاتب فکر ہیں جن میں (Theraveda)تھیرا ویدا بدھ ازم، (Mahayana)مہایانہ بدھ ازم اور(Vajrayana)وجرایانہ بدھ ازم شامل ہیں۔
وجرایانہ بدھ ازم کی سب سے اہم شاخ تبتی بدھ ازم ہے۔ تبتی بدھ ازم کی ایک دلچسپ خصوصیت جو باقی بد ھ فرقوں سے اس کو ممتاز کرتی ہے وہ گوتم بدھ کی روحانی جانشینی کا سلسلہ ہے جو گذشتہ چھ سو سال سے ان میں جاری ہے۔ تبتی بدھ ازم کے موجودہ امام یا رہ نما کو دلائی لامہ کہا جاتا ہے۔ تبتی بدھ ازم والےدلائی لامہ کو گوتم بدھ کا نیا جنم بھی قرار دیتے ہیں۔ بدھ ازم میں جاری اس نظام کا ذکر حضرت مسیح موعووؑ نے اپنی معرکہ آراء تصنیف مسیح ہندوستان میں اس طرح فرمایا ہے:
’’(تناسخ کی)دوسری وہ قسم جس کو تبت والوں نے اپنے لاموں میں مانا ہے۔ یعنی یہ کہ کسی بدھ یا بدھ ستواکی روح کا کوئی حصہ موجودہ لاموں میں حلول کر آتا ہےیعنی اس کی قوت اورطبیعت اور روحانی خاصیت موجودہ لامہ میں آ جاتی ہےاور اس کی روح اس میں اثر کرنے لگتی ہے۔ ‘‘
(مسیح ہندوستان میں، روحانی خزائن جلد 15صفحہ90تا91)
دلائی لامہ تبتی بدھ ازم میں سب سے اہم شخصیت ہے۔ دلائی لامہ تبتی بدھ ازم کے سب سے بڑےفرقہ (Gelug) میں سب سے زیادہ مؤثر اور طاقتور لامہ ہوتا ہے۔ اگرچہ تنظیمی اعتبارسے دلائی لامہGelugفرقہ کا سربراہ نہیں ہوتا(جیسا کہ عام طور پر خیال کیا جاتا ہے) مگر چونکہ دلائی لامہ کو مکتبہ فکر میں سب سے اعلیٰ مقام حاصل ہے اورایک طویل عرصہ تک اسی نے تبت میں حکومت کی باگ ڈور سنبھالے رکھی ہےاس وجہ سے Gelugفرقہ کا روحانی اور انتظامی لیڈر دلائی لامہ ہی ہے۔
تبتی بدھ ازم کے مطابق دلائی لامہ بدھی ستوا Avalokitesvaraیا Chenrezig کی مجسم صورت ہے۔ (بدھ ازم کے مطابق بدھی ستوا سے مراد وہ وجود ہے جو نروان (یعنی معرفت الٰہی )حاصل کرنے کے بعد اپنی نجات دوسروں کو ہدایت دینے کی غرض سے موخر کر دیتا ہے)۔ دلائی لامہ کو تبتی بدھ والےگوتم بدھ کا نیا جنم بھی قرار دیتے ہیں۔ نیز یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ اس کو انسانی تکالیف کی وجوہات اور ان کے ازالہ کا مکمل شعورحاصل ہے۔
(Tibet, a Reality By M. G. Chitkara Page 25 to 26)
لفظ دلائی لامہ کا مطلب
دلائی لامہ ایک اصطلاح ہےجو دو الفاظ کا مجموعہ ہے۔ دلائی منگول لفظ ہے جس کا مطلب ہے’’سمندر ‘‘۔ لامہ سے مراد ہے ’’گرو، استادیا پیشوا‘‘۔ پس دلائی لامہ سے مرادہے وہ استادیا پیشوا جس کا علم اور مقام سمند رکی طر ح عظیم اور گہرا ہے۔
(A Dictionary of Philosophy of Religion, edited by Charles Taliaferro, Elsa J. Marty, Page 57)
مختصر تاریخ
دلائی لامہ کی تاریخ کا آغاز Gelugمکتبہ فکر سے شروع ہوتاہے۔ Gelugمکتبہ فکرکی بنیاد Ganden خانقاہ سے پڑی جسے چودھویں صدی کے مشہوربدھ عالمJe Tsongkhapa 1357–1419نےقائم کیا۔ Tasongkhapaکےبعداس کےجانشین Khedrupنے اس نئے بدھ مکتبہ فکر کی حدود وقیود کا تعین کیا جو بعد میں Gelug Schoolکے نام سے مشہور ہوا۔
Tasongkhapaکے قابل اور ذہین شاگردوں میں سے ایک شاگرد کانام Gendun Drupتھا۔ Gendun Drupکی وفات کے بعداس فرقہ کے علماء نے ایک اور بچے کو (جسے بعد میں Gendun Gyatsoنام دیا گیا ) Gendun Drupکا نیا جنم قرار دیا۔ ان دونوں بدھ راہبوں کو پہلے دو دلائی لامہ قرار دیا جاتا ہے۔ مگر ان کواپنی زندگی میں دلائی لامہ کا خطاب نہیں ملا۔
دلائی لامہ کا خطاب پہلی مرتبہ تیسرے دلائی لامہ (1543–1588) Sonam Gyatsoکودیا گیا۔ اس کو منگول بادشاہ الطا ن خان نے منگولیہ بلایا اور اسے منگول لقب سے نوازا جس کا ترجمہ یوں ہے:
The Vajra-Holder Excellent, Splendid, Meritorious Ocean
تبتیوں نے اس لقب کو مختصر کر کے Dalaiکا لفظ اختیارکر لیا۔ اس وقت سے Sonam Gyatsoکو Dalai Lamaکہا جانے لگا اوراس کے تمام جانشینوں کو یہ لقب دیا گیا۔ اس وقت چودھویں دلائی لامہ Tenzin Gyatsoاس فرقہ کی پیشوائی کے فرائض سر انجام دے رہے ہیں۔
موجودہ تبتی بدھ ازم میں دلائی لامہ کو مرکزی حیثیت حاصل ہے۔ ابتدا میں دیگر فرقہ جات کے بڑے لامہ بھی بڑا مقام رکھتے تھے۔ سترہویں صدی سے جب Gelugفرقہ کو تبت میں غلبہ ملا، تو دلائی لامہ کی طاقت اور مقام میں اضافہ ہوتا گیا اور اسےتبت میں سب سے بڑے روحانی پیشوا کا مقام حاصل ہو گیا۔ تیرہویں دلائی لامہ نے اپنے دَور میں تبت کی آزادی کا اعلان کیا اور اپنی وفات تک تبت پر حکومت کی۔ 1959ء میں جلاوطنی کے بعد دلائی لامہ کو عالمی لیڈر کے طور پر جانا جانے لگا اور اس کے عزت ووقار میں مزید اضافہ ہوا۔ جلاوطنی کے بعد سےدلائی لامہ نے ہی تمام دیگر فرقوں کی عالمی سطح پر نمائندگی کی۔ پس اب دلائی لامہ کو نہ صرف Gelug Schoolبلکہ تمام دیگرتبتی بدھ فرقوں کا روحانی پیشوا تسلیم کیا جاتا ہے۔ موجودہ زمانہ میں دلائی لامہ ہی عالمگیر سطح پر بدھ ازم کی پہچان ہے۔
دلائی لامہ کی تلاش
تبتی بدھ ازم کے مطابق جب ایک دلائی لا مہ وفات پاتا ہے تو اس کی روح چند سالوں بعد ایک نئے جسم میں دوبارہ ظہور پذیر ہوتی ہے۔ اس نئی پیدائش کو تلاش کیا جاتا ہے۔ دلائی لامہ کی تلاش ایک اہم اور طویل امر ہے۔ دلائی لامہ کی وفات پر Nechung Oracle(تبت کے سرکاری پیشن گو کوNechung Oracleکہتے ہیں )کی ہدایات کے مطابق نئے دلائی لامہ کی تلاش شروع کی جاتی ہے۔
روایتی طور پر یہ ذمہ داری Gelugمکتبہ فکر کے بڑے راہبوں اور تبتی حکومت کی ہے کہ وہ Tulku(وہ بچہ جس کو نیا دلائی لامہ بننا ہے)کو تلاش کرے۔ تلاش کا یہ کام 2سے 3سال تک محیط ہو سکتا ہے۔ عام طورپر دلائی لامہ کی تلاش تبت میں سے ہی کی جاتی ہےلیکن تبت کے علاقہ کے باہر سے بھی دلائی لامہ کو تلاش کیا جا سکتا ہے۔ ( چوتھا دلائی لامہ منگولیہ سے تھا، چھٹا دلائی لامہ بھوٹان سے تھا)۔
بڑے لامہ عام طور پرنئے tulku (وہ بچہ جس کو نیا دلائی لامہ بننا ہے)کو تلاش کرنے کےلیے کئی طریق اختیار کرتے ہیں۔ ان میں ایک طریق یہ ہے کہ لامہ مقدس جھیل Lhamo La-tso کی زیارت کرتے ہیں اوروہاں مراقبہ کرتے ہیں۔ لامہ اس جھیل میں سے کسی نشان کے ظاہر ہونے کا انتظار کرتے ہیں۔ یہ نشان کوئی کشف یا کسی طرح کااشارہ بھی ہو سکتا ہے(چودھویں دلائی لامہ کی تلاش اسی جھیل سے ملنے والے اشارہ سے ہوئی۔ )تبتی بدھ از م میں روایتاً کہا جاتا ہے کہ اس جھیل کی محافظ روحPalden Lhamoنے پہلے دلائی لامہ سے عہد کیا تھا کہ وہ دلائی لاموں کے سلسلہ کی حفاظت کرے گی۔
ایک اور طریق یہ ہے کہ کسی بڑے لامہ کو خواب میں نئے Tulku (وہ بچہ جس کو نیا دلائی لامہ بننا ہے)کے بارے میں خبر مل جائے یا اگر دلائی لامہ کی نعش کو جلایا جائےتو لامہ اس بات کا مشاہدہ کرتے ہیں کہ چِتا جلا نے کے وقت دھواں کس سمت کو جا رہا ہے تاکہ اس علاقہ سے دلائی لامہ کے نئے جنم کو تلاش کیا جائے۔ اس علاقہ میں پہنچ کر یہ تلاش کیا جاتا ہے کہ کس بچہ کی غیر معمولی پیدائش ہوئی ہےیا اس کی پیدائش کے وقت کوئی نشان ظاہر ہوا ہو۔
جب بڑے لامہ اس گھر اور بچہ تک پہنچ جاتے ہیں جسے وہ دلائی لامہ کا نیا جنم سمجھتے ہیں تو اس بچہ کے کئی امتحان لیے جاتے ہیں۔ وہ اس بچہ کے سامنے کچھ چیزیں رکھتے ہیں جن میں سے بعض گذشتہ دلائی لامہ کی ہوتی ہیں۔ اگر بچہ ان میں سے صحیح چیزوں کو اپنے لیے منتخب کرے تو یہ بات بھی دلائی لامہ کے انتخاب میں ایک اہم نشان ہوتی ہے۔
اگر لاماؤں نے ایک ہی بچہ بطور دلائی لامہ کے منتخب کر لیا ہو تو وہ تین بڑی خانقاہوں کے دیگر اہم راہبوں اور سرکاری نمائندوں کو بلاتے ہیں تاکہ وہ ان کی تلاش کی تصدیق کریں اور پھر وہ مرکزی حکومت کو دلائی لامہ کے مل جانے کی اطلاع دیتے ہیں۔ پھر اس بچہ اور اس کے خاندان کو Drepung خانقاہ لے جایا جاتا ہے اور اس کی تعلیم و تربیت کی جاتی ہے تاکہ وہ بڑا ہو کر تبتی بدھ ازم کی قیادت سنبھال سکے۔
1751ء میں آٹھویں دلائی لامہ کے انتخا ب کے وقت Amban(تبت میں تعینات کردہ چینی سفیر)اور چینی منچو حکومت نے دلائی لامہ کے انتخاب کو اپنے ہاتھ میں لینے کی کوشش کی مگر اس میں زیادہ کامیاب نہ ہوئے۔
(Buddhism, Reincarnation, and Dalai Lamas of Tibet By M. G. Chitkara P.121 – 122)
اٹھارھویں صدی کے آخر پردلائی لامہ کے انتخاب میں ایک اور بات کا اضافہ کیا گیا۔ 1792ء میں منچو بادشاہ Qianlongنےیہ قانون پاس کیا کہ آئندہ سے دلائی لامہ کے ایک سے زیادہ امیدوارہونےپرسونے کی صراحی (Golden Urn) میں سب امیدواروں کے نام لکھ کر ڈالے جائیں گے اور پھرسرکردہ لامہ، بدھ راہب اور چینی سفیر (Amban)شاہی محل میں جمع ہو کر اس میں سے ایک نام نکالیں گے اور اس امیدوار کو بطور Tulkuمنتخب کیا جائے گا۔ پھر چینی حکومت اس کی منظوری دے گی۔ اس قانون سے منچو بادشاہ کا مقصد یہ تھا کہ دلائی لامہ کے انتخاب پرتبتیوں کی اجارہ داری ختم کر سکے اور نئے Tulkuکی منظوری چینی حکومت دے۔ 1792ء سے 1959ء تک اس چینی قانون پر شاذونادر ہی عمل ہوا کیونکہ تبت میں موجود چینی سفیر زیادہ طاقت ور نہیں ہوتے تھے۔
(Spinning the Wheel: Policy Implications of the Dalai Lama‘s Reincarnation By Julia Famularo: P.56)
عصر حاضر میں تبت چونکہ چین کےتحت ہے اس لیے موجودہ دَور میں چینی حکومت اس بات کی مختارہے کہ وہ نئے دلائی لامہ کے نام کی منظور ی دے۔ دلائی لامہ اور چین کے کشیدہ تعلقات کی وجہ سے چینی حکومت اس بات کے انتظار میں ہے کہ جیسے ہی موجودہ دلائی لامہ کی وفات ہو تو وہ کسی ایسے شخص کوبطور دلائی لامہ نامزد کریں جو چین کا حامی ہو۔
اِس خدشہ کے پیش نظر Tenzin Gyatsoنے یہ رائے ظاہر کی ہے کہ اُس کا نیا جنم چین میں نہیں ہوگا اور یہ بھی ممکن ہے کہ شاید اس کا نیا جنم نہ ہواور دلائی لامہ کا عہدہ اُسی پر ختم ہو جائے۔ ایک اور موقع پر موجودہ دلائی لامہ نے کہا ہے کہ دلائی لامہ کا منصب اپنے مقاصد پور ے کر چکا ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ میرے بعد کسی اور شخص کو بطور دلائی لامہ منتخب نہ کیا جائے کیونکہ ایک کمزور دلائی لامہ اس مقام کی عزت میں کمی کا باعث ہو گا۔
(http://www.dailymail.co.uk/news/article-2748756)
اسی بات کا ذکر حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے ایک تقریب میں بھی فرمایاہے۔
یہاں یہ مناسب معلوم ہوتا ہےکہ اب تک منتخب کردہ 14دلائی لاموں کا مختصر تعارف بھی کرایاجائے۔ یہ مختصرتعارف دلائی لامہ کی آفیشل ویب سائٹwww.dalailama.comسے لیا گیا ہے۔ جس جگہ کسی اور کتاب یاویب سائٹ سے کوئی بات اخذ کی گئی ہے اس کا حوالہ بھی ذیل میں درج کر دیا گیا ہے۔
Gedun Drupaپہلادلائی لامہ
پہلے دلائی لامہ کا نامGedun Drupaتھا۔ اس کی پیدائش وسطی تبت (Tsang) میں 1391ء میں ہوئی۔ اس کے والدین نے اسےPema Dorje نام دیا۔ اس کے گھر والے خانہ بدوش تھے۔ سات سال کی عمر تک اِس نے بکریاں چرائیں۔ پھر دینی علوم کی تحصیل شروع کی۔ 14سال کی عمرمیں اس نے Narthang خانقاہ کے نگران کی شاگردی اختیار کی، جس نے اسے Gedun Drupaنام دیا۔ 1411ء میں 20برس کی عمر میں اس نے اپنی تعلیم مکمل کی۔
1416ء میں اس نے Tsongkhapaکی شاگرد ی اختیارکی۔ Tsongkhapaکی کامل اطاعت اوروفاداری نے اسے اپنے استاد کا خاص شاگرد بنا دیا۔ Tsongkhapaنے اسے نشان کے طور پر چوغا دیا اور کہاکہ میرا یہ شاگرد تبت میں بدھ مذہب پھیلائے گا۔ 1447ء میں Gedun DrupaنےShigatseمیںTashilhunpo Monasteryقائم کی، جو کہ Gelug School کی بڑی درس گاہوں میں سے ایک ہے۔ Gedun Drupaمشہور بدھ سکالر تھا۔ اس نے بدھ فلاسفی پر مشتمل آٹھ کے قریب کتب تصنیف کیں۔ اس کی وفات 1474ء میں ہوئی۔ اس کو اپنی زندگی میں دلائی لامہ کا خطاب نہیں ملا۔
Gedun Gyatsoدوسرا دلائی لامہ
Gedun Gyatsoکی پیدائش1475ء میں وسطی تبت میں ہوئی۔ ا س کا تعلق زراعت پیشہ خاندان سے تھا۔ اس کا باپ تینترک علوم(جادو کے متعلق علوم) کا ماہر تھا۔ روایات کے مطابق Gedunجب بولنے کی عمر تک پہنچا تو اس نے اپنے والدین کو بتایاکہ اس نام Pema Dorjeہے ( جو پہلے دلائی لامہ کا پیدائشی نام تھا)۔ Gedun جب چار سال کا ہوا تو اس نے اپنے والدین سے اس خواہش کا اظہار کیا کہ وہ Tashilhunpoخانقاہ میں رہنا چاہتا ہے۔ کچھ روایات کے مطابق اسے چار سال اور کچھ روایات کے مطابق آٹھ سال کی عمر میں اسےپہلے دلائی لامہ کا نیا جنم قرار دے دیا گیا۔ اس کے باپ نے خواب میں دیکھاکہ کسی نےاسے کہا ہے کہ تمہارا یہ بیٹا پرانی زندگیوں کو جمع کرنے والا ہے۔ 11برس کی عمر میں اسے Tashilhunpoخانقاہ کا سجادہ نشین بنا دیا گیا۔ 1486ء میں اس نے Panchen Lungrigکی شاگردی اختیار کی۔ 1517ء میں اسے Drepungخانقاہ کا نگران بنا دیا گیا۔ 1525ءمیں اسے Seraخانقاہ کا بھی سجادہ نشین بنا دیا گیا۔ Gedun Gyatsoبھی ایک نامور بدھ عالم تھا۔ Gedun Gyatsoکی وفات 1542ء کو مراقبہ کے دورا ن ہوئی۔ Gedun Gyatsoکوبھی اس کی زندگی میں دلائی لامہ کا خطاب نہیں ملا تھا۔
Sonam Gyatso تیسرا دلائی لامہ
Sonam Gyatsoکی پیدائش 1543ء میں ہوئی۔ اس کا پیدائشی نام Ranusi (یعنی جسے بکری کا دودھ پلا کر بچایا گیا ہو)تھا۔ 1546ء میں Ranusiجب تین سال کا ہواتو اسے Gendun Gystsoکا نیا جنم قرار دیتے ہوئے چُن لیا گیا۔ پنچن لامہ نے اس کو Sonam Gyatsoنام دیا۔ (پنچن لامہ بھیGelugفرقہ کی اہم ترین شخصیات میں سے ایک ہے۔ تبتی بدھ ازم کے مطابق روحانی امور میں یہ دلائی لامہ کا نائب تصور کیا جاتاہے۔ دلائی لامہ کے انتخاب میں پنچن لامہ کو اہم مقام حاصل ہے۔ )اس کو Drepung monasteryلے جایا گیا اور تخت نشین کیا گیا نیز اس کی تعلیم و تربیت کا آغاز کیا گیا۔ 22برس کی عمر میں اس نےتعلیم مکمل کی۔ 1552ءمیں اسے Drepungخانقاہ کی سجادہ نشینی دی گئی۔ 1558ءمیں Sera خانقاہ کی نگرانی بھی اس کے پاس آ گئی۔
Sonam Gyatsoکی عمرجب30برس ہوئی تو منگول بادشاہ الطان خان نے اسے منگولیہ آنے کی دعوت دی اوراسے لینے کے لیے منگول وفد بھیجا۔ Sonam Gyatsoنے ان کے ساتھ جانے پر آمادگی کا اظہار کیا۔ طویل سفرکے بعد یہ وفد منگول دربار میں پہنچ گیا۔ الطان خان اور Sonam Gyatsoکے درمیان جلد ہی اچھے تعلقات استوار ہو گئے۔ Sonam Gyatsoنے الطان خان کو بدھ تعلیمات اور تینترک علوم سکھائے جبکہ اِس کے بدلہ میں الطان خان نے اُس کی سرپرستی کرنے کا عہد کیا اور اسے Dalai Lama کے خطاب سے نوازا۔
(Tibet a history, By sam van schaik P.138- 140)
Sonam Gyatsoنے الطان خان کو Brahmaلقب دیا یعنی مذہب کا بادشاہ۔ تیسرے دلائی لامہ کی وفات 1588ء میں منگولیہ میں ہی ہو گئی۔
Yonten Gyatsoچوتھا دلائی لامہ
چوتھادلائی لامہ Yonten Gyatsoمنگول نسل سے تھا۔ Yonten Gyatso الطان خان کاپڑپوتا تھا۔ اس کی پیدائش1589ءمیں ہوئی۔ اس کی غیر معمولی پیدائش اور سرکاری پیشن گو کی بیان کر دہ علامتوں کی وجہ سے Ganden خانقاہ کے نگران نے اسے تیسرے دلائی لامہ کی نئی پیدائش کے طور پر تسلیم کر لیا۔ چوتھے دلائی لامہ نے ابتدائی تعلیم منگولیہ میں ہی حاصل کی۔
1601ءمیں Yontenکو اس کے والد اور Gandenخانقاہ کے نگران کے ہم راہ تبت لا یا گیا۔ 1614ءمیں چوبیس برس کی عمر میں اس نے اپنی تعلیم مکمل کی۔ اس کی وفات 1617ء میں ہوئی۔
(http://www.rigpawiki.org/index.php?title=Yönten_Gyatso)
Ngawang Losang Gyatsoپانچواں دلائی لامہ
پانچویں دلا ئی لامہ کی پیدائش1617ء میں لاسہ میں ہوئی۔ اس کا پیدائشی نام Kunga Nyingpo تھا۔ چوتھے دلائی لامہ کےخاص خادمSonam Choephelکو یہ بات معلوم ہوئی کہ لاسہ کے فلاں خاندان کے ہاں ایک غیر معمولی بچے کی پیدائش ہوئی ہے۔ چنانچہ Sonam Choephelگذشتہ دلائی لامہ کی چیزیں کچھ دیگر چیزوں میں ملا کر اس بچہ کے پاس لے کر گیا جن میں سے بچے نے دلائی لامہ کی چیزوں کو صحیح طور پر پہچان لیا۔ اس پر Sonam Choephelنے اسے چوتھے دلائی لامہ کی نئی پیدائش کے طور پر شناخت کر لیا۔ لیکن اس با ت کو مخفی رکھا کیونکہ تبت کے سیاسی حالات اس وقت کشیدہ تھے۔ حالات بہتر ہونے پراسےDrepungخانقاہ لایا گیااوراس کی مقدس رسومات ادا کی گئیں۔
سترہویں صدی کے آغاز میں Gelugفرقہ کمزورحالت میں تھا۔ منگول بادشاہ گوشی خانGushi Khanنے 1642ء میں تبت پر حملہ کیا اور یہاں کے حاکم کوشکست دیتے ہوئے تبت کی حکومت دلائی لامہ کو بطور تحفہ دے دی۔
1642ء میں Lobsang Gyatsoکو لاسہ میں تخت نشین کیا گیا۔ اب دلائی لامہ کو تبت میں سیاسی اور مذہبی دونوں امور کی حکومت مل گئی۔
1645ء میں دلائی لامہ نے پوٹالا محل (Potala Palace) کی تعمیر شروع کروائی۔ یہ محل 43سال میں مکمل ہوا۔
1649ء میں دلائی لامہ کو منچو بادشاہ Sunzhiنےبیجنگ بلایا۔ دلائی لامہ چین کے دورہ پر گیا۔ 1653ء میں دلا ئی لامہ کی واپسی ہوئی۔
Lobsang Gyatsoایک نامور عالم تھا اور سنسکرت زبان میں ماہر تھا۔ اس نے کئی کتب تصنیف کیں۔ اس نے عام لوگوں اور راہبوں کے لیے دوتعلیمی ادارہ جات بھی قائم کیے۔ اس نےNechung Monasteryتعمیر کروائی اور اس کو State Oracleقرار دیا۔ اس کی وفات 1682ء میں ہوئی۔ مرنے سے قبل اس نے Desi(سیاسی امور کے لیے دلائی لامہ کا مقرر کردہ نائب) کو نصیحت کی کہ وہ اس کی وفات کی خبر کو ایک عرصہ تک مخفی رکھے جب تک پوٹالا محل تعمیر نہ ہو جائے۔
پانچویں دلائی لامہ نے خانہ جنگیوں کے ایک طویل دَور کے بعد تبت کو دوبارہ متحد کیا اور وسطی تبت کے بیشتر علاقہ پر حکومت کی۔ یہ تبتی سلطنت کا با اختیار مذہبی اور سیاسی حاکم تھا اور اس نے چین اور قریبی علاقہ جات کے بادشاہوں سے سفارتی تعلقات بھی قائم کیے۔ اس کو عام طور پر the Great Fifthبھی کہا جاتا ہے۔
(باقی آئندہ)