احمد علیہ السلام۔ سیرت و سوانح
باغ میں ملّت کے ہے کوئی گلِ رعنا کھلا
صاحبزادہ مرزا غلام قادرصاحب(حصہ دوم)
جیسا کہ ذکر کیا گیا ہے کہ صاحبزادہ مرزا غلام قادر صاحب کی کوئی اولاد نہ تھی۔ جو دو بچے پیدا ہوئے وہ چھوٹی عمر میں ہی فوت ہوگئے تو انہوں نے حضرت صاحبؑ سے درخواست کرکے ان کے بیٹے یعنی اپنے بھتیجے مرزا سلطان احمدصاحب کو اپنے پاس رکھ لیا۔
حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمدصاحبؓ بیان فرماتے ہیں کہ’’بیان کیا مجھ سے حضرت والدہ صاحبہ نے کہ جب تمہارے تایا (مرزا غلام قادر صاحب یعنی حضرت صاحب کے بڑے بھائی ) لاولد فوت ہوگئے تو تمہاری تائی حضرت صاحب کے پاس روئیں اور کہا کہ اپنے بھائی کی جائیداد سلطان احمد کے نام بطور متبنّٰی کے کرا دو وہ ویسے بھی اب تمہاری ہے اور اس طرح بھی تمہاری رہے گی۔ چنانچہ حضرت صاحب نے تمہارے تایا کی تمام جائیداد مرزا سلطان احمد کے نام کرا دی۔ خاکسار نے والدہ صاحبہ سے پوچھا کہ حضرت صاحب نے متبنّٰی کی صورت کس طرح منظور فرمالی؟ والدہ صاحبہ نے فرمایا یہ تو یونہی ایک بات تھی ورنہ وفات کے بعد متبنّٰے کیسا۔ مطلب تو یہ تھا کہ تمہاری تائی کی خوشی کے لئے حضرت نے تمہارے تایا کی جائداد مرزا سلطان احمد کے نام داخل خارج کرا دی اور اپنے نام نہیں کرائی۔ کیونکہ اس وقت کے حالات کے ماتحت حضرت صاحب سمجھتے تھے کہ ویسے بھی مرزا سلطان احمد کو آپ کی جائیداد سے نصف حصہ جانا ہے اور باقی نصف مرزا فضل احمد کو۔ پس آپ نے سمجھ لیا کہ گویا آپ نے اپنی زندگی میں ہی مرزا سلطان احمد کا حصہ الگ کر دیا۔‘‘
(سیرت المہدی جلداول روایت نمبر24)
خاکسار نے یہ روایت اس لیے درج کی ہے کہ عموماً یہ لکھاجاتاہے اور اس وقت کے سرکاری کاغذات میں بھی یہ ہے کہ مرزا سلطان احمدصاحب مرزا غلام قادرصاحب کے متبنیٰ تھے۔ اس کی توجیہ اور وضاحت مندرجہ بالاروایت میں صراحت سے پائی جاتی ہے۔
بابرکت پیدائش
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی پیدائش سے ہی اس خاندان پر غیر معمولی برکات وافضال کی بارش ہونے لگی۔ ان میں سے ایک قابل ذکر برکت یہی کچھ کم نہ تھی کہ حضورؑ کے خاندان کو ان کی کھوئی ہوئی جاگیر کا کچھ حصہ واپس کر دیا گیا۔ پنجاب میں جہاں حضورعلیہ السلام کی پیدائش ہوئی مہاراجہ رنجیت سنگھ بر سر اقتدار تھا جس نے 1806ء میں بھنگی مسل کے سرداروں کو شکست دے کر امرت سر پر قبضہ کر لیا اور مہاراجہ کا لقب اختیار کیا۔ اس نے آہستہ آہستہ قصور، جموں، کا نگڑہ، اٹک، جھنگ، ملتان، ہزارہ، بنوں اور پشاور تک کے علاقے زیر نگیں کر لئے۔ اور17-1816ء میں رام گڑھیوں کو شکست دے کر قادیان کی ریاست بھی اپنی عملداری میں شامل کر لی۔ حضرت بانئ سلسلہ احمدیہ کی پیدائش سے چند ماہ قبل اس نے حضرت مرزا غلام مرتضیٰ صاحب کو قادیان کے اردگرد کے پانچ گاؤں ان کی خاندانی ریاست میں سے انہیں واپس کر دیئے۔ اور اس طرح آپ کے خاندانی مصائب و مشکلات کے دور کو فراخی اور کشائش میں بدل ڈالا اور آپ کی پیدائش خاندان کے لئے مادی اعتبار سے بھی باعث صد برکت ثابت ہوئی۔ چنانچہ حضرت اقدس علیہ السلام کی والدہ ماجدہ آپ کو مخاطب کرتے ہوئے اکثر فرمایا کرتی تھیں کہ ہمارے خاندان کے مصیبت کے دن تیری ولادت کے ساتھ پھر گئے اور فراخی میسر آگئی۔ اور اسی لئے وہ آپ کی پیدائش کو نہایت مبارک سمجھتی تھیں۔ حضرت اقدس علیہ السلام اسی امر کا تذکرہ کرتے ہوئے خود فرماتے ہیں :
’’وسمعتُ اُمی تقول لی مرارًا ان ایامنا بُدّلت من یوم ولادتک وکنا من قبلُ فی شدائد و مصائب وذاأنواع کروبٍ و مِحَنٍ فجاءنا کل خیر بمجیئک وانت من المبارکین‘‘
(التبلیغ: آئینہ کمالات اسلام، روحانی خزائن جلد 5صفحہ 544)
ترجمہ: میں نے اپنی والدہ ماجدہ سے سنا ہے وہ اکثر فرمایا کرتی تھیں کہ تیری پیدائش سے ہمارے دن [فراخی اور کشائش میں ]بدل گئے۔ اس سے پہلے ہم شدید تنگی اور مصیبت میں تھے اور طرح طرح کی تکلیفیں اور تنگیاں ہم پر واردتھیں لیکن تیرے آنے کے ساتھ ہی طرح طرح کی خیراوربھلائی نازل ہونے لگی اورتیراآنا ہمارے لئے بہت ہی مبارک ثابت ہوا۔
اسی غیر معمولی برکت کا تذکرہ کرتے ہوئے ایک اور جگہ آپ علیہ السلام یوں فرماتے ہیں :
’’میری پیدائش سے پہلے میرے والد صاحب نے بڑے بڑے مصائب دیکھے۔ ایک دفعہ ہندوستان کا پیادہ پا سیر بھی کیا۔ لیکن میری پیدائش کے دنوں میں ان کی تنگی کا زمانہ فراخی کی طرف بدل گیا تھا۔ اوریہ خداتعالیٰ کی رحمت ہے کہ میں نے ان کے مصائب کے زمانہ سے کچھ بھی حصہ نہیں لیا۔ ‘‘
(کتاب البریہ، روحانی خزائن جلد13صفحہ177-178حاشیہ)
حضرت اقدس علیہ السلام کا پاکیزہ بچپن
حضرت اقدس علیہ السلام کا بچپن ملکی ماحول کی بے شمار آلودگیوں کے باوجود معجزانہ طور پر نہایت درجہ پاکیزہ اور مقدس تھا۔ آپؑ کے بچپن کے معصومانہ انداز کی جھلک بھی ہمیں ان معدودے چند واقعات میں نظر آتی ہے جو کہ سلسلہ کی تاریخ میں صحابہؓ اور دیگر راویان کے ذریعہ ہمارے پاس محفوظ ہیں۔ ہمارے ذہن میں یہ قول ہمیشہ رہنا چاہیے کہ
اَلصَّبِیُّ صَبِیٌّ وَلَوْ کَانَ نَبِیٌّ
کہ بچہ، بچہ ہی ہوتا ہے اگرچہ وہ نبی ہی کیوں نہ ہو۔ اس فطری اور طبعی اصول کو ہمیں کبھی فراموش نہیں کرنا چاہیے۔ یہ وہ اصول ہے کہ جس کو چھوڑکر قاری یا مصنف کبھی کبھی دوانتہاؤں کی طرف نکل جاتے ہیں۔ جو دونوں ہی غیر طبعی اور ناموزوں ہوتی ہیں۔ ایک وہ طبقہ ہے جو اپنے مقدس پیشواؤں کی بزرگی اورتقدس میں اتنا مبالغہ کرناچاہتاہے کہ وہ اس کے بچپن کی معصومیت کو اپنی مزعومہ اور فرضی تقدس کی اونچی اونچی دیواروں میں مقیدکردیتاہے اور ایک مافوق الفطرت انسان کے روپ میں اسکو دیکھنا چاہتاہے اور چاہتاہے کہ باقی بھی سب اسی نظر سے دیکھنے کی کوشش کریں۔ گویا اس کے نزدیک اس کے بزرگ ہرقسم کے انسانی اوربشری تقاضوں سے ماوراء تھے۔
جبکہ دوسری طرف ایک ایسا طبقہ اٹھتاہے کہ وہ اپنے زمانے کے مامور اورمرسل کی مخالفت میں اتنا اندھا ہوچکا ہوتاہے کہ خداکے اس مامور کی زندگی میں وہ عیب ہی عیب ڈھونڈنے کی سعیٔ ِ ناکام ولاحاصل میں ہلکان ہواجاتاہے۔ اور جب اس کو اس کی زندگی میں کوئی عیب نظر نہیں آتا تو وہ اس کے بچپن کی معصومیت کا گلا گھونٹنے کے دَرپے ہوجاتاہے۔ اور وہ واقعات اور روایات جو دوسروں کی زبانی پہنچی ہوتی ہیں وہ صحیح ہوں یانہ ہوں یہ ایک الگ بحث ہے لیکن اگر صحیح ہوں بھی تو زندگی کے گلستان کی یہ ننھی ننھی کلیوں کی ایک معصومانہ چٹک اور ادا کے سوا اور کچھ بھی نہیں ہوتیں لیکن وہ اس پر بھی معترض ہوتے ہیں۔ ایسے درندہ صفت اور اجڈاورگنوار لوگ کلیوں کو یونہی مسل دینے کے سوا اورکربھی کیاسکتے ہیں۔ آئیے ان بدذوق اور کرخت لوگوں کو انکے حال پر چھوڑتےہوئے حضرت اقدس علیہ السلام کے پاکیزہ اور معصومانہ بچپن کو ان روایات کے جھرمٹ میں تاکنے کی کوشش کرتے ہیں جو مختلف کتب میں مذکور ہیں۔
بچپن کاایک معصومانہ واقعہ
حضرت اقدس علیہ السلام اپنے بچپن کا ایک واقعہ یوں بیان کرتے تھے:
’’بیان کیا مجھ سے والدہ صاحبہ نے کہ ایک دفعہ حضرت صاحب سناتے تھے کہ جب میں بچہ ہوتا تھا تو ایک دفعہ بعض بچوں نے مجھے کہا کہ جاؤ گھر سے میٹھا لاؤ میں گھر میں آیا اور بغیر کسی سے پوچھنے کے ایک برتن میں سے سفید بورا اپنی جیبوں میں بھر کر باہر لے گیا اور راستہ میں ایک مٹھی بھر کر منہ میں ڈال لی۔ بس پھر کیا تھا میرا دم رک گیا اور بڑی تکلیف ہوئی کیونکہ معلوم ہوا کہ جسے میں نے سفید بورا سمجھ کر جیبوں میں بھرا تھا وہ بورا نہ تھا بلکہ پسا ہوانمک تھا۔ ‘‘
(سیرت المہدی جلد اول روایت نمبر244)
حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ اپنی تصنیف ’’سیرت المہدی‘‘ میں یہ روایت لائے ہیں۔ لیکن ساتھ ہی ایک اَور واقعہ بھی بیان کیاہے جس سے معلوم ہوتاہے کہ بچے تو بچے رہے بڑے بھی کبھی کبھی اس طرح کر بیٹھتے ہیں اور اسکے لئے کسی ایک واقعہ کی ضرورت بھی نہیں ہرانسان کی خود اپنی زندگی میں یا اسکے گھر میں ایسا کبھی نہ کبھی بلکہ کبھی کبھی ہوتاہی رہتاہے۔ بہرحال حضرت صاحبزادہ صاحبؓ ایک اَور اس طرح کا دلچسپ واقعہ بیان کرتے ہوئے پہلے واقعہ کی ملاحت دوبالا کررہے ہیں۔ آپؓ بیان فرماتے ہیں :
’’خاکسار عرض کرتا ہے کہ مجھے یاد آیاکہ ایک دفعہ گھر میں میٹھی روٹیاں پکیں کیونکہ حضر ت صاحب کو میٹھی روٹی پسند تھی۔ جب حضرت صاحب کھانے لگے تو آپ نے اس کا ذائقہ بدلا ہوا پایا۔ مگر آپ نے اس کا خیال نہ کیا کچھ اور کھانے پر حضرت صاحب نے کڑواہٹ محسوس کی اور والدہ صاحبہ سے پوچھا کہ یہ کیا بات ہے کہ روٹی کڑوی معلوم ہوتی ہے ؟ والدہ صاحبہ نے پکانے والی سے پوچھا اس نے کہا میں نے تو میٹھا ڈالا تھا والدہ صاحبہ نے پوچھا کہ کہاں سے لے کر ڈالا تھا ؟ وہ برتن لاؤ۔ وہ عورت ایک ٹین کا ڈبہ اٹھا لائی۔ دیکھا تو معلوم ہوا کہ کونین کا ڈبہ تھا اور اس عورت نے جہالت سے بجائے میٹھے کے روٹیوں میں کونین ڈال دی تھی۔ اس دن گھر میں یہ بھی ایک لطیفہ ہو گیا۔‘‘
(سیرت المہدی جلد اول روایت نمبر244)
ہمجولیوں کےساتھ شکار
اپنے بچپن میں آپؑ اپنے دوسرے ہمجولیوں کےساتھ شکار وغیرہ بھی کیاکرتے تھے۔ اس کے متعلق ایک دوروایات جو ملتی ہیں وہ یہ ہیں:
’’بیان کیا مجھ سے والدہ صاحبہ نے کہ حضرت صاحب فرماتے تھے کہ ایک دفعہ میں بچپن میں گاؤں سے باہر ایک کنوئیں پر بیٹھا ہوا لاسا بنارہا تھا کہ اس وقت مجھے کسی چیز کی ضرورت ہوئی جو گھر سے لانی تھی۔ میرے پاس ایک شخص بکریاں چرا رہا تھا میں نے اسے کہا کہ مجھے یہ چیز لا دو۔ اس نے کہا۔ میاں میری بکریاں کون دیکھے گا۔ میں نے کہا تم جاؤ میں ان کی حفاظت کروں گا اور چراؤں گاچنانچہ اس کے بعد میں نے اسکی بکریوں کی نگرانی کی اور اس طرح خدا نے نبیوں کی سنت ہم سے پوری کرا دی۔ خاکسارعرض کرتا ہے کہ لاسا ایک لیس دار چیز ہوتی ہے جو بعض درختوں کے دودھ وغیرہ سے تیار کرتے ہیں۔ اور جانور وغیرہ پکڑنے کے کام آتا ہے۔ نیز والدہ صاحبہ فرماتی تھیں کہ حضرت صاحب فرماتے تھے کہ ہم بچپن میں چڑیاں پکڑا کرتے تھے اور چاقو نہ ہوتا تھا تو تیز سرکنڈے سے ہی حلال کر لیتے تھے۔ ‘‘
(سیرت المہدی جلداوّل روایت نمبر251)
(باقی آئندہ)
٭…٭…٭