پیغام حق پہنچانے میں پریس اور میڈیا سے کس طرح کام لیا جاسکتا ہے؟ (قسط چہارم)
مظالم کے مقابلہ میں برداشت اور استقلال
خاکسارنے ایک مضمون میں اس بات پر تبصرہ کیاکہ سپریم کورٹ کے فیصلہ کے مطابق احمدی اپنے آپ کو مسلمان نہیں کہلا سکتے اور نہ ہی اسلامی اصطلاحات کا استعمال کر سکتے ہیں۔ 1974ء اور 1984ء کے فیصلہ جات اور آرڈیننس پر تبصرے کے علاوہ اس مضمون میں جماعت احمدیہ کا تعارف کروایا۔
مزید لکھا کہ جماعت احمدیہ ارکان اسلام پر پورا یقین رکھتی اور عمل کرتی ہے۔ جماعت احمدیہ بھائی چارہ اوراخوت پر عمل کرتی ہے اور جماعت اس وقت 130 ممالک میں پھیل چکی ہے۔ جماعت احمدیہ کسی کے لیے بھی کسی رنگ میں خطرہ نہیں ہے اور نہ اس کے قیام کا یہ مقصد ہے۔ لیکن جماعت شروع دن سے ہی تکالیف اور مظالم کا نشانہ بنی ہوئی ہے جو اس کی صداقت پر دلیل ہے۔
احمدیت نے بڑے جلیل القدر سپوت پیدا کیے ہیں مثلاً سر محمد ظفراللہ خان صاحب جو کہ پاکستان کے پہلے وزیر خارجہ تھے اور عالمی عدالت کے جج۔ ڈاکٹر عبدالسلام صاحب نوبیل انعام یافتہ، ایئرمارشل ظفر چوہدری، ایم ایم احمد صاحب چیئرمین پلاننگ کمیشن۔
اس مضمون میں 1974ء کے اسمبلی کے فیصلہ اور 1984ء کے آرڈیننس کا ذکر کر کے لکھا کہ یہ سب مذہبی آزادی اور بنیادی حقوق کی پامالی ہیں جو کسی بھی مہذب معاشرے میں قابل قبول نہیں۔ ان قوانین سے احمدی مسلمانوں کو تکالیف اور ظلم کا نشانہ بنایا جا رہا ہے بہت سارے احمدی صرف کلمہ پڑھنے، بسم اللہ لکھنے پر اور السلام علیکم کہنے پر پاکستان کی جیلوں میں مقیّد ہیں۔ اور 4 احمدیوں کو تو اس پاداش میں سزائے موت بھی سنائی جا چکی ہے جبکہ 6 احمدیوں کو عمر قید کی سزا دی گئی ہے۔ یہ سب سزائیں ہمارے نزدیک غیر اسلامی ہیں۔ احمدیوں کا پورا بھروسہ اور توکل خداتعالیٰ کی ذات پر ہےاورہر قدم پر قانون کی پاسداری کرتے ہیں۔
اخبار نے یہ مضمون خاکسار کی ایک تصویر کے ساتھ شائع کیا۔ یہ ¾ صفحہ کا مضمون تھا جبکہ باقی ¼ صفحہ پر خدام اجتماع کی خبر تھی۔
٭…دی پاکستان پوسٹ نےستمبر 1993ء کی اشاعت کے صفحہ 11 پر پورے صفحہ کی خبر دی جس میں دو امور بیان ہوئے۔
اخبار نے ٹائٹل دیا
’’Islam Today‘‘
حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ کی تصویر کےساتھ یہ عنوان لگایا کہ
Muslim Caliph ¼ million members one night.
اخبار نے لکھا کہ جماعت احمدیہ کے خلیفہ مرزا طاہر احمد نے یکم اگست 1993ء کو عالمی بیعت لی جس میں…نَو احمدیوں نے احمدیت میں شمولیت اختیار کی۔
اس جلسہ میں 15ہزار لوگوں نے دنیا کے مختلف ممالک سے شرکت کی جس میں یو ایس اے، کینیڈا، رشیا، پاکستان انڈونیشیا، جاپان، بازنیا، مغربی جرمنی، بنگلہ دیش، انڈیا، سیرالیون، نائیجیریا، گھانا، آئیوری کوسٹ، سینیگال، فلسطین، ایسٹ افریقن ممالک اور یورپین ممالک شامل ہیں۔ جلسہ کی تقاریر کا رواں ترجمہ 8 دیگر زبانوں میں بھی نشر ہوا۔
حضرت مرزا طاہر احمدصاحبؒ نے اپنے خطاب میں بتایا کہ باوجود اس قدر مخالفت کے جس میں حکومت پاکستان بھی شامل ہے پھر بھی اللہ تعالیٰ نے جماعت کی تائید اور مدد فرمائی اور ہر سطح پر ہر جگہ کامیابی عطا ہوئی۔ 9 سال کی ترقیات کا نقشہ اس میں دیا گیا ہے۔ اس وقت تک 50 سے زائد زبانوں میں قرآن کریم کا ترجمہ ہوا تھا اور اخبار نے لکھا کہ قرآن مجید کا 100 زبانوں میں ترجمہ کرنے کا منصوبہ ہے۔
¼ صفحہ پر خلیج کی جنگ کے بارے میں تبصرہ تھا۔ اس جنگ میں مسلمان ممالک کا یہ خیال غلط تھا کہ اس جنگ سے مسلمان ممالک میں امن قائم ہو گا اور مسلمان اس میں جیت جائیں گے۔ اُس وقت صرف اور صرف ایک ہی آواز تھی جو مسلمانوں کو تنبیہ کر رہی تھی اور وہ جماعت احمدیہ کے خلیفہ حضرت مرزا طاہر احمد صاحبؒ کی تھی جنہوں نے خلیج کی جنگ کے موضوع پر پے در پے خطابات دیے اور مسلمانوں کو اس جنگ سے باز رہنے کی تلقین کے ساتھ ساتھ اسلامی تعلیمات بھی بتائی گئیں کہ وہ امریکہ اور دوسرے ممالک کو اس جنگ سے باہر رکھیں اور مسلمان ممالک مل کر اس کا حل سوچیں اور ثالثی کو ترجیح دیں۔
حضرت مرزا طاہر احمدصاحبؒ نے اپنے خطبات میں جو کتابی شکل میں بھی شائع ہو چکے ہیں بتایا کہ یہ یورپین ممالک کی طرف سے مسلمانوں کے خلاف ایک پراپیگنڈا اور ناانصافی کی زبردست مثال ہے۔ جو لوگ یہ خطابات اور اس کتاب کو پڑھیں گے وہ ضرور حقیقت حال سے واقف ہوں گے۔
٭…انڈو امریکن نیوز کے صفحہ 16پر ہمارا ایک اشتہار حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تصویر کےساتھ شائع ہوا جس کا عنوان تھا۔ ’’مسیح موعود آچکے ہیں ‘‘۔ جماعت کے تعارف کے ساتھ اس اشتہار میں احمدیہ مشن ہیوسٹن کا ایڈریس اور فون نمبر بھی دیا گیا۔
٭…وائس آف ایشیا کی ایک اشاعت میں حضرت مسیح موعودؑ اورحضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ کی تصاویر، نیز حضرت مسیح موعودؑ کی کتاب ’’ایام الصلح ‘‘میں سے اقتباسات انگریزی ترجمہ کے ساتھ دیے گئے۔
اس وقت حضورؒ کے خطبات سیٹیلائٹ چینل پر جمعہ کے دن نشر ہوتا تھا۔ اس کی تفصیل اور مشن کا ایڈریس اور فون نمبر درج کیا گیا۔
٭…وائس آف ایشیا کی اشاعت 27؍ستمبر 1993ء میں صفحہ 42 پر پورے صفحہ پر ایک تبصرہ ہے جو کہ M.M. Clarke of Birmingham UK کا ہے۔ انہوں نے جماعت احمدیہ پر تبصرہ کرتے ہوئے سپریم کورٹ کے 3؍ جولائی 1993ء کے فیصلہ پر لکھا ہے۔ اس کا عنوان یہ تھا
Is there a patent for ideas and practices of Islam.
مضمون لکھنے والے نے لکھا کہ سپریم کورٹ کا فیصلہ جو احمدیوں کو اسلامی اصطلاحات کو استعمال کرنے سے منع کرتا ہے اور جماعت احمدیہ کی اس بارے میں اپیلوں کو مسترد کیا گیا ہے جبکہ جماعت احمدیہ کہتی ہے کہ کسی اسمبلی، حکومت یا عدالت کو کسی کے ایمان کا فیصلہ کرنے کا قانونی حق نہیں پہنچتا۔
مذہبی عقائد کا تعلق مذہبی لیڈرز یا اس شخص سے تعلق رکھتے ہیں جو اپنے آپ کو اس مذہب سے منسلک رکھتا ہے اور اس کی باتوں پر عمل کرتا ہو۔ اس بات کی ہر قانون اجازت دیتا ہے اور یہ انسان کا بنیادی حق ہے کہ جس مذہب کا وہ چاہے اعلان کرے دوسرے کو اختیار نہیں ہے کہ اس میں دخل اندازی کرے۔ جماعت احمدیہ کے خلاف آرڈیننس xx ان کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہے اور مکمل طور پر ناانصافی ہے اور واضح طور پر امتیازی سلوک ہے۔ انہوں نے لکھا کہ سپریم کورٹ مکمل طور پر صحیح انصاف فراہم کرنے میں ناکام رہی ہے اور انہوں نے احمدیوں کی اپیل کو بلاوجہ مسترد کیا ہے۔
مضمون نگار نے سپریم کورٹ کے فیصلہ کو تحریر کر کے اس پر تنقید کی ہے کہ سپریم کورٹ کا یہ فیصلہ ان سب لوگوں کے لیے عالمی سطح پر بھی شاک گزرے گا اور حیرانگی کا باعث ہو گا جو ان چیزوں کو انسان کا بنیادی حق سمجھتے ہیں اور مذہب کو انسان اور اس کے پیدا کرنے والے کا حصہ سمجھتے ہیں۔ اس سے احمدیوں کو ان کے بنیادی حقوق سے محروم کیا گیا ہے۔
یہ بھی خیال رہے کہ قانون مذہبی آزادی کی ضمانت دیتا ہے لیکن احمدیوں کے لیے یہ نہیں ہے۔ وہ جو اپنا ایمان اور عقائد سمجھتے ہیں اس کے مطابق ان کو عمل کرنے نہیں دیا جاتا بلکہ ان کے بنیادی حقوق کی پامالی کی جارہی ہے۔
سپریم کورٹ کے فیصلہ سے جماعت احمدیہ پر مزید عرصہ حیات تنگ ہو گا اور ان کے بنیادی حقوق پامال ہوں گے۔ مثلاً کلمہ طیبہ، احمدیوں کا بنیادی ایمان ہے اور اگر کوئی احمدی کلمہ پڑھتا ہے تو اسے جیل کی سلاخوں کے پیچھے ڈال دیا جائے گا۔ اور اس پر 298C کے مقدمات چلیں گے جو کہ عالمی سطح پر بھی قابل قبول نہیں ہیں۔ کورٹ نے صرف اسی پر بس نہیں کی بلکہ احمدیوں کے خلاف یہ ایک ایسا قانون بنا ہے جس کی بنیاد پر وہ توہینِ مذہب اور توہینِ رسالت کے مرتکب قرار دیے جا کر سزا کے مستحق ہوں گے۔
اسی اخبار نے اپنی 27؍ستمبر 1993ء کی اشاعت میں ’’پاکستان کی سپریم کورٹ کا فیصلہ‘‘ پر ایک اور تبصرہ بھی شائع کیا ہے جو کہ اوپر لکھے ہوئے مضمون سے ملتا جلتا ہے کہ جماعت احمدیہ کے خلاف سپریم کورٹ نے اپنے فیصلہ میں ایک امتیازی سلوک روا رکھا ہے جس سے جماعت احمدیہ کے افراد کے بنیادی حقوق کی پامالی کی گئی ہے اور اس کی بنیاد 1974ء میں قومی اسمبلی کا فیصلہ اور 1984 میں آرڈیننس XX ہے۔ جس کی بنیاد پر احمدیوں کے خلاف 5 کیسز سپریم کورٹ میں دائرکیے گئے مگر سپریم کورٹ نے انصاف کے تقاضوں کو بالائے طاق رکھ کر اپنے فیصلہ کو مزید احمدیوں کے خلاف کیا۔ جس سے ان کے حقوق کی مزید پامالی کی گئی۔ دیکھنے والی بات یہ ہے کہ عالمی سطح پر اس فیصلہ کو کیسے دیکھا جا ئے گا۔
٭…انڈوامریکن نیوز کی اشاعت 27؍ستمبر 1993ء میں
Asia Watch Concern on Alleged Rights Abuse.
کے عنوان کے تحت اسلام آباد روئٹرز نیوز کے حوالے سے مندرجہ بالا سپریم کورٹ کے فیصلہ پر خیالات کا اظہار ہے کہ اس فیصلہ سے انسان کے بنیادی حقوق کو پامال کیا گیا ہے اور یہ خصوصاً جنرل ضیاء الحق کے وقت سے زیادہ ہوا ہے۔ اور یہ قانون بنایا گیا تھا سیاسی اغراض کے مقاصد کے لیے۔ اس قانون کے تحت سینکڑوں لوگوں کو اب تک قید کیا گیا ہے اسی طرح حکومت کا توہین مذہب و رسالت کے قانون نے بھی ایک ’’امتیازی سلوک‘‘ کی طرف رجحان ڈال دیا ہے اور اس سے اقلیتوں کے حقوق پامال کیے گئے ہیں۔ 1980ء کے بعد سے اب تک دو ایسے قوانین وضع کیے گئے ہیں جن میں احمدیوں کو زیادہ ٹارگٹ بنایا گیا ہے اور انہیں نہ صرف مشکلات کا سامنا ہے بلکہ اسلامی اصطلاحات کے استعمال پر پابندی ہے۔
اخبار نے مزید لکھا کہ 1992ء جنوری میں ایک عیسائی ٹیچر کو قتل کر دیا گیا تھا کہ اس کے سکول میں ایک پوسٹر توہین مذہب کی نشاندہی کر رہا تھا۔ اسی طرح جولائی 1992ء میں ایک احمدی کو بھی اسی وجہ سے مار دیا گیا تھا۔
ایشیا واچ نے حکومت پاکستان پر زور دیا ہے کہ وہ تمام اقلیتوں کو مذہبی آزادی کے ساتھ ان کے بنیادی حقوق کی بھی ضمانت دے۔
٭…ہیوسٹن کرانیکل …ہیوسٹن کا سب سے بڑا اخبار ہے اور اس وقت اس کی 70 ہزار سے زائد اشاعت تھی۔ اس کے مذہبی کالم کی انچارج Cecile Holmes White تھیں۔ یہ ہفتہ میں ایک دفعہ اس خبار میں مذہبی کالم لکھتیں یا کسی مذہبی لیڈر کا انٹرویو شائع کرتیں۔ یا عقائد پر تبادلہ خیالات کرتیں یا کسی مذہبی خبر کو شائع کرتیں۔
خاکسار نے ان کے ساتھ بڑے اچھے روابط رکھے۔ اور انہوں نے بھی دل کھول کر جماعتی خبریں اور جماعت کا موقف اور مضامین شائع کیے۔ جب خاکسار کی فیملی 5سال بعد ہیوسٹن آئی تو ایک دفعہ انہوں نے کہا کہ وہ ہمارا انٹرویو لینا چاہتی ہیں۔ چنانچہ وہ مشن ہاؤس تشریف لائیں اور انٹرویو لیا میرا بھی اور میری اہلیہ صفیہ سلطانہ صاحبہ کا بھی اور قریباً پورے صفحہ پر مبنی انٹرویو اور دو تصاویر شائع کیں۔ ایک تصویر خاکسار کی نماز پڑھتے ہوئے (سجدے کی حالت ) ہے۔ اور دوسری تصویر میں میرے ساتھ میری اہلیہ پردہ میں ہیں جبکہ خاکسار ہاتھ میں قرآن شریف پکڑے ہوئے ہے۔
انٹرویو میں انہوں نے خبر کو اس طرح شروع کیا کہ اگرچہ احمدیوں کو دیگر مسلمانوں نے اسلام سے خارج کیا ہوا ہے اور احمدی ان مسلمانوں کے سخت مظالم کا نشانہ بھی بنے ہوئے ہیں اور پاکستان میں خاص طور پر احمدیوں کو اپنے آپ کو مسلمان کہلانے کی اجازت نہیں ہے بلکہ بعض اوقات تو ان کے لیے اپنے آپ کو مسلمان کہلانا بہت بڑا خطرہ مول لینے والی بات ہے۔ 1984ء کے قانون کے مطابق تو اگر وہ اپنے آپ کو مسلمان کہیں تو 3 سال کے لیے قید ہو جائیں گے۔ سید شمشاد احمد ناصر جو کہ پاکستانی ہیں اور یہاں پر جماعت احمدیہ کے مبلغ ہیں، کہتے ہیں کہ یہ ناقابل برداشت بات ہے اور حال ہی میں سپریم کورٹ آف پاکستان نے انہیں بنیادی حقوق سے بھی محروم کیا ہے اور انہیں اس کے مطابق اپنی عبادت کرنے کا بھی کوئی حق نہیں ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ جب ان باتوں کو قانونی حیثیت حاصل ہوگئی ہے تو ملاں کی مخالفت بھی بہت زیادہ ہو گئی ہے۔ اس کے باوجود وہ اپنی تبلیغ کو جاری رکھے ہوئے ہیں۔
مبلغ جس بلڈنگ میں یہاں ہیوسٹن میں رہتے ہیں اس کے ساتھ ہی ایک اور کمرہ میں اس کی کمیونٹی کے لوگ ہر جمعہ کو صبح کے وقت اکٹھے ہو کر حضرت مرزا طاہر احمدصاحبؒ جو ان کے عالمگیر روحانی پیشوا ہیں کا خطبہ جمعہ Live سنتے ہیں جو کہ لندن سے نشر ہوتا ہے۔ اور پھر جمعہ کے وقت نماز جمعہ بھی ادا کرتے ہیں۔
جماعت احمدیہ اٹھارویں صدی میں ساؤتھ ایشیا ہندوستان میں شروع ہوئی اور وہ اپنے آپ کو مسلمان کہتے ہیں اور احمدیہ جماعت کے بانی کو وہ امتی نبی سمجھتے ہیں جو کہ اسلام کی نشاۃ ثانیہ کے لیے آئے تھے۔ یہ عقیدہ باقی مسلمانوں کے عقیدہ کے خلاف ہے وہ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کو آخری نبی سمجھتے ہیں۔
شمشاد نے کہا ہے کہ وہ یہاں پر صرف اپنے احمدیہ ممبران کے لیے نہیں ہیں بلکہ اپنے عقائد کی تبلیغ کرتے ہیں اور دوسرے لوگوں تک اپنا پیغام پہنچاتے ہیں۔ اس سے قبل انہوں نے مڈویسٹ ریجن میں 5 سال تک خدمت کی ہے۔ وہ اس ریجن میں اپنا پیغام پہنچا رہے ہیں اور میکسیکو میں بھی تبلیغ کرنے جاتے ہیں۔
خبر اور انٹرویو میں انہوں نے یہ بھی لکھا کہ اس علاقہ میں قریباً 250احمدی ہیں ٹیکساس کے علاوہ پاکستانی، ہندوستانی نائیجیرین اور دیگر لوگ احمدیہ مشن میں اپنے عقیدہ کے مطابق عمل کرتے ہیں اور یہ سب لوگ آخری زمانہ میں آنے والے موعود پر ایمان رکھتے ہیں۔
اس کے بعد وہ لکھتی ہیں کہ مرزا غلام احمد قادیانی نے 19 ویں صدی کے شروع میں جب دیکھا کہ اسلام کو دیگر مذاہب کا سامنا اور چیلنج ہے خصوصاً عیسائیت اور ہندو ازم سے تو انہوں نے ان کا مقابلہ کیا اور انہوں نے اپنے مسیح و مہدی ہونے کا دعویٰ بھی کیا۔ مرزا غلام احمد صاحبؑ کا یہ دعویٰ کہ وہ نبی ہیں دیگر مسلمانوں کے لیے اس کو قبول کرنا بہت مشکل ہے۔ ان خیالات کا اظہار ڈاکٹر سید سعید نے کیا جو واشنگٹن میں اسلامک آفیسرز کے نگران ہیں۔ انہوں نے کہا کہ احمدیوں کے اس عقیدہ کی وجہ سے وہ اسلام سے باہر ہیں۔ ڈاکٹر سلینہ احمد جو کہ گریٹر ہیوسٹن کے میڈیا کی ڈائریکٹر ہیں نے کہا ہے کہ ان کے لیے احمدیوں کے بارے میں جج کرنا یا خیالات کا اظہار کرنا مشکل ہے وہ کہتی ہیں کہ ان کا اس بارے میں علم کچھ زیادہ نہیں ہے۔ البتہ پاکستان میں انہیں غیرمسلم قرار دیا گیا ہے۔ اس کے برعکس ہندوستان میں وہ مسلمان سمجھے جاتے ہیں۔ ڈاکٹر سلینہ احمد نے کہا کہ میرے نزدیک سب برابر ہیں میں یہ سمجھتی ہوں کہ جو پانچ ارکان اسلام پر ایمان نہ لائے وہ مسلمان نہیں ہے۔
انٹرویو کے آخر میں وہ لکھتی ہیں اس کے برعکس شمشاد اور ان کی اہلیہ صفیہ سلطانہ سمجھتے ہیں کہ یہ ان کی ذمہ داری ہے کہ اسلام کا پیغام صحیح صورت میں دوسروں تک پہنچائیں جو کہ ہر قسم کے نسلی امتیاز سے پاک ہو۔
صفیہ نے کہا کہ وہ اپنے بچوں کو شروع ہی سے اسلامی تعلیم سکھا رہی ہیں۔ اخبار نے خاکسار کے چاروں بچوں کے نام اور ان کی عمریں لکھ کر بتایا کہ ان سب نے چھوٹی عمر ہی میں قرآن کریم پڑھ لیا ہے جو کہ مسلمانوں کی کتاب ہے۔ شمشاد نے بتایا کہ اسلام تو امن اور پیار کا مذہب ہے، ہر شخص کو بلاامتیاز اسلام کا پیغام پہنچانا ہمارا کام ہے۔
٭…انڈوامریکن نیوز اپنی اشاعت 4؍اکتوبر 1993ء میں خاکسار کے حوالے سے کمیونٹی نیوز میں لکھتا ہے کہ بہت سے لوگ یہ خیال کرتے ہیں کہ عراق پر بمباری کرنے سے، بوسنیا میں مسلمانوں کا بے رحمی سے قتل عام، بمبئی میں خون بہانے سے، اسلام تنزل کی طرف جائے گا۔ اس کے برعکس لاکھوں لوگ اسلام میں داخل ہورہے ہیں۔ اس خبر میں حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ کی تصویر بھی شائع ہوئی ہے۔ اخبار لکھتا ہے کہ اس قسم کی خبر ملین لوگوں نے ساری دنیا میں اس وقت دیکھی جب جرمنی میں ان کے اٹھارھویں جلسہ سالانہ پر جماعت احمدیہ کے روحانی پیشوا مرزا طاہر احمدؒ نے 10 ستمبر 1993ء کو شرکت کی اور 18 ہزار لوگ اس میں شامل ہوئے۔ جلسہ سالانہ کے دوسرے دن ’’احمد‘‘ نے لوگوں کے سوالوں کے جواب بھی دیے اور 1600 سے زائد یورپین لوگوں نے آپ کے ہاتھ پر بیعت بھی کی۔ اس سال جولائی میں یوکے میں 20 ہزار سے زائد لوگوں نے وہاں جلسہ سالانہ میں شرکت کی تھی۔ ’’احمد‘‘ نے لوگوں کو تلقین کی کہ وہ اپنی زندگیاں قرآن کریم کی تعلیمات کے مطابق ڈھالیں۔
٭…وائس آف ایشیا نے بھی اپنی اشاعت 18 ؍اکتوبر 1993ء میں یہی جلسہ جرمنی کی خبر اسی طرح دی۔
٭…انڈوامریکن نیوز نے اپنی اشاعت 18؍اکتوبر 1993ء صفحہ 14 میں خاکسار کا ایک خط شائع کیا ہے جس میں خاکسار نے لکھا ہے کہ
Four Million Ahmadis Denied vote‘s rights.
خاکسار نے اس خط میں ایڈیٹر کے نام یہ لکھا ہے کہ پاکستان میں احمدیوں کو غیرمسلم اقلیت ٹھہرایا گیا اور اسے قانونی حیثیت دے کر انہیں ان کے بنیادی حقوق سے محروم کیا گیا۔ خاکسار نے خصوصی طور پر جنرل ضیا کے XX آرڈیننس کا ذکر کیا اور سپریم کورٹ کے فیصلے کے بارے میں بھی ذکر کیا اور احمدیوں کو ان کے بنیادی حقوق سے محروم کرنے کے بارے میں لکھا۔
٭…انڈو امریکن نیوز اپنی اشاعت 18؍اکتوبر 1993ء میں صفحہ 26پرہندوستان میں زلزلہ کے بارے میں رپورٹ دیتے ہوئے لکھتا ہے کہ بہت سے لوگوں اور بچوں نے مہاراشٹر کے علاقہ میں جو زبردست اور ہلاکت خیز زلزلہ آیا تھا اس کے لیے فنڈز اکٹھے کیے ہیں۔ اس موقع پر ایک تقریب میں دیگر مذہبی لیڈروں نے دعائیں بھی کیں۔ جماعت احمدیہ کے مشنری سید شمشاد احمد ناصر نے قرآن کریم کی تلاوت اور اس کا ترجمہ پیش کیا اور پھر پروگرام کے آخر میں کہا کہ یہ زلزلہ لوگوں کے لیے بہت نقصان کا موجب ہوا ہے اور بہت سی جانیں اس میں ضائع ہوئی ہیں۔ جماعت احمدیہ نے انڈیا افریقہ فنڈ جاری کیا ہوا ہے جو لوگوں کی مدد کرتا ہے۔
٭…ہیوسٹن کا ایک اور اخبار Port Lavaca The Waveنے اپنے سٹاف رائٹر Charlyn Finn کے حوالے سے لکھا کہ شمشاد احمد پاکستانی مبلغ جو جماعت احمدیہ سے تعلق رکھتا ہے یہاں اس شہر میں آیا (Port Lavaca پورٹ لواکا) انہوں نے احمدی فیملیز کا یہاں وزٹ کیا اور ان کی خواہش ہے کہ یہاں پر بھی لوگوں کو اسلام کا پیغام پہنچایا جائےتا یہاں پر بھی مسلمانوں کی عبادت گاہ (مسجد)بنائی جائے۔
اخبار مزید لکھتا ہے کہ سید بہ نسبت اپنے ملک پاکستان کے اس ملک میں آزادانہ عبادت کر سکتا ہے کیونکہ 1984ء میں پاکستان میں ایسے قوانین بنائے گئے جن کی وجہ سے وہ اپنے ملک میں آزادانہ عبادت بھی نہیں کر سکتے۔ اگر وہ کریں گے تو انہیں جیل بھجوا دیا جائے گا۔
اس کے بعد اخبار نے جماعت کا تعارف لکھا ہے کہ یہ جماعت 1889ء میں ہندوستان سے شروع ہوئی۔ سید جماعت احمدیہ کا مبلغ اپنی زندگی وقف کرنے کے بعد بنا اور مشنری ٹریننگ کالج میں تعلیم حاصل کی۔ جو لٹریچر وہ یہاں پر تقسیم کر رہے ہیں اس کو پڑھنے سے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ بعض چیزوں میں اسلام اور عیسائیت کی مشابہت ہے۔ مسلمان خدا کو ’’اللہ‘‘ کے نام سے یاد کرتے ہیں۔ سید نے ہیوسٹن میں تبلیغ مرکز قائم کیا ہوا ہے جو کامیابی کے ساتھ چل رہا ہے۔ سید کہتا ہے کہ اس نے انگریزی بولنا گھانا مغربی افریقہ میں سیکھا۔
٭…وائس آف ایشیا کی یکم نومبر 1994ء کی اشاعت میں ہمارا ایک اشتہار شائع ہوا ہے جس میں ایک طرف حضرت مسیح موعودؑ کی تصویر ہے اور دوسری طرف حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ کی۔ جس میں عنوان ہے کہ حضرت مرزا غلام احمد نے فرمایا اور پھر نیچے دس شرائط بیعت انگریزی میں درج ہیں۔
٭…انڈو امریکن نیوز نےیکم نومبر کی اشاعت میں خاکسار کا ایک خط شائع کیا ہے جس میں خاکسار نے لکھا ہے کہ سپریم کورٹ کو یہ اختیار نہیں ہے کہ کسی کے عقیدہ کی تعریف کرے یا اپنا فیصلہ کسی پر ٹھونسے کہ وہ یہ عقیدہ اختیار کرے۔
٭…دی فجی سن نے اپنی اشاعت میں اکتوبر 1993ء میں یوکے کے مسٹر ایم ایم کلارک کا تبصرہ شائع کیا ہے جو اس سے قبل لکھا جا چکا ہے۔
واشنگٹن میں مسجد کا سنگِ بنیاد
٭…دی فجی سن نے نومبر 1993ء کی اشاعت میں خاکسار کے حوالے سے یہ خبر دی کہ اسلام میں مسجد کی کیا اہمیت ہے۔ آنحضرتﷺ کی ہدایت کے مطابق مسلمان مسجد بناتے ہیں اور جماعت احمدیہ اس وقت دنیا میں مساجد بنانے میں مصروف ہے تاکہ لوگ خدائے واحد کی عبادت کر سکیں۔ دوسری طرف پاکستان میں جماعت احمدیہ کے افراد پر ظلم ہو رہے ہیں اور انہیں مساجد بنانے سے روکا جارہا ہے بلکہ بعض جگہوں پر جماعت احمدیہ کی مساجد کو گرا دیا گیا۔ بعض جگہ مساجد کے مینار گرا دیے گئے اور بعض جگہ مسجدوں کو آگ لگا دی گئی۔
اللہ تعالیٰ کےفضل سے واشنگٹن کے علاقہ میں ’’مسجد احمدیہ‘‘ کا سنگ ِ بنیاد رکھا گیا جو 3 ملین ڈالر کے خرچ سے تعمیر کی جائے گی۔ مضمون میں یہ بھی لکھا گیا ہے کہ اگرچہ اس مسجد کا سنگِ بنیاد کچھ عرصہ ہوا جماعت احمدیہ کے روحانی پیشوا حضرت مرزا طاہر احمدصاحبؒ نے رکھا تھا اب مسجد کی تعمیر کے لیے کام شروع کیا گیا ہے اور اس کی بنیادوں کی کھدائی کے کام کا آغاز مکرم ایم ایم احمد صاحب امیر جماعت امریکہ کی دعاؤں سے شروع ہوا۔ قریباً 500آدمیوں نے اس موقع پر شرکت کی۔ ایم ایم احمد صاحب نے اس موقع پر تقریر کرتے ہوئے کہا کہ مسجد اسلام میں ایک اہم مقام رکھتی ہے جہاں پر مومن پانچ وقت اکٹھے ہو کر خدائے واحد کی عبادت کرتے ہیں اس کے علاوہ بچوں کی تعلیم و تربیت اور دیگر مذہبی امور کے لیے استعمال ہوتی ہے۔ خداتعالیٰ نے قرآن مجید میں یہ بھی فرمایا ہے کہ اس شخص سے زیادہ ظالم کون ہے جو خدا کی عبادت سے لوگوں کو روکتا ہے اور تاریخی طور پر یہ بھی ثابت ہے کہ آنحضرتﷺ نے نجران کے عیسائیوں کو مسجد نبوی میں ایک خدا کی عبادت کرنے کی اجازت دی۔ اس سے معلوم ہوگیا ہے کہ بانی اسلام کس قدر ان باتوں کا خیال رکھتے تھے۔
٭…دی لیڈر۔ اخبار اپنی اشاعت 25؍نومبر 1993ء صفحہ 36 پر یہ خبر دیتا ہے کہ ’’بہت اہم، تاریخی اور نہایت کامیاب پیشوایان مذاہب کا جلسہ‘‘ جماعت احمدیہ ہیوسٹن نے سپانسر کیا جو کہ 6؍نومبر 1993ء کو منعقد ہوا۔ اس کانفرنس کا مقصد بیان کرتے ہوئے مبلغ نے بتایا کہ یہ اور اس قسم کی کانفرنسیں مذاہب میں آپس میں یکجہتی، اخوت اور ایک دوسرے کو بہتر طور پر سمجھنے میں مدد دیتی ہیں۔ اس موقعہ پر ہندو مت، بدھ مت، سکھ مت، عیسائیت اور اسلام کے نمائندوں نے تقاریر کیں۔ نمائندگان نے اپنی اپنی کتب سے ’’امن‘‘ کی ضرورت اور اہمیت کو بیان کیا۔
سید شمشاد احمد ناصر نے حاضرین کو خوش آمدید کہتے ہوئے مرزا غلام احمد قادیانی مسیح موعودؑ کی تحریرات سے کچھ اقتباسات پیش کیے جن میں تمام مذاہب کے بارے میں اسلام کی تعلیم کو بیان کیا گیا تھا۔ تمام مقررین کی تقاریر کے بعد ایک خاص پروگرام محفل سوال و جواب کا بھی منعقد ہوا۔ قریباً 300 لوگوں نے اس کانفرنس میں شرکت کی۔
٭…انڈو امریکن نیوز نے اپنی اشاعت 22؍نومبر 1993ء میں بھی یہی خبر دی ہے اور ہر دو اخبار نے مقررین کی تصاویر بھی شائع کی ہیں۔
٭…وائس آف ایشیا نے بھی مندرجہ بالا خبر اپنی اشاعت 22؍نومبر 1993ء کو صفحہ 40پر سامعین اور مقررین کی تصاویر کے ساتھ دی۔
٭…دی فجی سن نے بھی یہی خبر اپنی نومبر کی اشاعت میں ایک تصویر کے ساتھ شائع کی۔ اخبار نے عیسائی پادری کی تقریر کرتے ہوئے تصویر دی اور لکھا کہ پادری مسلمانوں کی بین المذاہب میٹنگ میں مسلمانوں کی تعریف کر رہا ہے۔ ہیڈ ٹیبل پر مقررین کانفرنس بیٹھے ہیں اور کلمہ طیبہ لا الٰہ الااللّٰہ محمد رسول اللّٰہ کا بینر بھی بہت نمایاں تھا جس کے نیچے انگریزی میں ترجمہ لکھا ہواتھا۔
٭…دی لیڈر اپنی نےاشاعت 24؍فروری 1994ء میں ’’احمدیہ مسلم جماعت‘‘ کے عنوان سے خبر لگائی۔رمضان المبارک کے پروگراموں کی تفصیل دیتے ہوئے لکھاکہ پانچوں نمازوں، نماز تراویح اور درس کا باقاعدہ انتظام ہو گا۔ اس کےعلاوہ جماعت احمدیہ کے روحانی پیشوا حضرت مرزا طاہر صاحبؒ کا درس القرآن بھی ہر ہفتہ اور اتوار کو Live نشر ہوا کرے گا۔ روزانہ درس حدیث شمشاد احمد ناصر نماز عشاء کے بعد دیا کریں گے۔
٭…ویسٹ سائڈ سن نے 10؍فروری 1994ء کی اشاعت کےصفحہ 5 پر خبر دی اور خاکسار کا انٹرویو رمضان کے حوالےسے شائع کیا۔ یہ انٹرویو اخبار کے رپورٹر Kim Coeplin نے لیا تھا۔ اسی انٹرویو میں رمضان المبارک کے حوالے سے معلومات دی گئی ہیں۔ یہ انٹرویو اخبار کی اشاعت 2؍مارچ 1994ء صفحہ 6A پر شائع ہوا۔ اس سال رمضان 12؍فروری سے 13؍مارچ تک تھا۔
٭…انڈو امریکن نیوز نے بھی رمضان کے بارے میں ہماری یہی خبر دی کہ 12؍فروری 1994ء سے رمضان شروع ہو رہا ہے اور مسلمان طلوع فجر سے سورج غروب ہونے تک روزہ رکھیں گے۔
(جاری ہے)