خلاصہ خطبہ جمعہ

خلاصہ خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمد خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 25؍ ستمبر 2020ء

آنحضرتﷺ کے عظیم المرتبت بدری صحابی حضرت بلال بن رباح رضی اللہ عنہ کے اوصافِ حمیدہ کا تذکرہ

آنحضرتﷺ نے فرمایا کہ بلال شہداءاور مؤذنوں کا سردار،کیا ہی اچھا انسان ہے۔

قیامت کےدن سب سےلمبی گردن والے حضرت بلالؓ ہوں گے۔ بلال کو جنّت میں ایک اونٹنی دی جائے گی اور وہ اس پر سوار ہوں گے

پانچ مرحومین مولانا طالب یعقوب صاحب مبلغ سلسلہ ٹرینی ڈاڈ ٹوباگو، مکرم انجینئر افتخار علی قریشی صاحب سابق وکیل المال ثالث،نائب صدر مجلس تحریکِ جدید، محترمہ رضیہ سلطانہ صاحبہ اہلیہ حکیم خورشید احمد صاحب سابق صدر عمومی ربوہ ، مکرم محمد طاہر احمد صاحب نائب ناظر بیت المال قادیان اور
عزیزم عقیل احمد ابن مرزا خلیل احمد بیگ صاحب استاد جامعہ احمدیہ انٹرنیشنل گھانا کا ذکرِخیر اور نمازِجنازہ غائب

خلاصہ خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 25؍ ستمبر 2020ء بمطابق 25؍ تبوک 1399 ہجری شمسی بمقام مسجد مبارک،اسلام آباد،ٹلفورڈ(سرے)، یوکے

امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ  بنصرہ العزیزنےمورخہ 25؍ ستمبر 2020ء کو مسجد مبارک، اسلام آباد، ٹلفورڈ، یوکے میں خطبہ جمعہ ارشاد فرمایا جو مسلم ٹیلی وژن احمدیہ کے توسّط سے پوری دنیا میں نشرکیا گیا۔ جمعہ کی اذان دینےکی سعادت مکرم رانا عطاءالرحیم صاحب کے حصے میں آئی۔تشہد،تعوذ،تسمیہ اور سورةالفاتحہ کی تلاوت کے بعد حضورِانورایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:

حضرت بلالؓ کا ذکر چل رہا تھا ایک مرتبہ رسولِ خداﷺ نے حضرت بلالؓ سے پوچھا کہ کیا وجہ ہے کہ تم جنّت میں مجھ سے آگے رہتے ہو۔ کل شام جب مَیں جنّت میں داخل ہوا تو مَیں نے اپنے آگے تمہارے قدموں کی چاپ سنی۔ حضرت بلالؓ نے عرض کیا کہ مَیں جب بھی اذان دیتا ہوں تو دو رکعت نفل نماز پڑھتا ہوں۔ جب بھی میرا وضو ٹوٹ جاتا ہے تو مَیں وضو کرلیتا ہوں۔ اپنے نزدیک تو مَیں نے اس سے زیادہ امید والا عمل اور کوئی نہیں کیا کہ رات اور دن میں جب بھی مَیں نے وضو کیا تو مَیں نے اُس وضو کے ساتھ نماز ضرور پڑھی ہے۔

حضورِانور نے فرمایا کہ اس کا صرف یہ مطلب ہے کہ پاکیزگی اور مخفی عبادت کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے آپؓ کو یہ مقام دیا کہ جنّت میں بھی آپؓ رسولِ خداﷺ کے بالکل اسی طرح ساتھ ساتھ ہیں جیسے عید کے روز نیزہ پکڑ کر آنحضرتﷺ کے آگے چلتے تھے۔

ایک روایت میں ہے کہ رسولِ خدا ﷺ نے فرمایا کہ مَیں نے جنّت میں کسی کے قدموں کی چاپ سنی تو جبرئیل سے دریافت کیا کہ یہ قدموں کی چاپ کیسی ہے جبرئیل نے کہا یہ بلال ہیں۔ حضرت ابوبکرؓ نے کہا کہ اے کاش! مَیں بلال کی ماں کے بطن سے پیدا ہوتا ۔اے کاش! بلال کا باپ میرا باپ ہوتا۔ کیا اعلیٰ مقام ہے اُس بلال کا جسے ایک وقت میں حقیر سمجھ کر پتھروں پر گھسیٹا گیا۔

حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ فرماتے ہیں کہ حضرت عمرؓ کے دورِ خلافت میں جب شام فتح ہوا تو ایک دفعہ عمرؓ کے اصرار پر بلالؓ نے اذان کہی تو حضرت عمرؓ سمیت تمام اصحاب اتنا روئے کہ ہچکی بندھ گئی۔

ایک موقعے پر حضرت خلیفة المسیح الثانیؓ نے مستورات سے خطاب فرماتے ہوئے سورة الکہف کی آیت 46کےذیل میں الباقیات الصالحات کے متعلق حضرت بلالؓ کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ چند دن پیشتر ایک عرب آیا جس نے کہا کہ مَیں بلال کی اولاد میں سے ہوں۔ معلوم نہیں اس نے سچ کہا تھا کہ جھوٹ، مگر میرا دل اس وقت چاہتا تھا کہ مَیں اس سے لپٹ جاؤں کہ یہ اس شخص کی اولاد میں سے ہے جس نے محمدرسول اللہﷺ کی مسجد میں اذان دی تھی۔ آج بلالؓ کی اولاد اور جائیدادیں کہاں ہیں؟ مگر وہ اذان جواس نے محمد رسول اللہﷺ کی مسجد میں دی تھی وہ اب تک باقی ہے، اور باقی رہے گی۔ یہ وہ نیکیاں ہیں جو باقی رہنے والی ہیں۔

بلالؓ سے چوالیس احادیث مروی ہیں۔ صحیحین میں چار روایات آئی ہیں۔ ایک روایت میں ہے کہ آنحضرتﷺ نے فرمایا کہ جنّت تین لوگوں علی،عمار اوربلال سے ملنے کی بہت مشتاق ہے۔ ایک مرتبہ عمرؓ نے حضرت ابوبکرؓ کے فضائل بیان کرتے ہوئے بلالؓ کی طرف اشارہ کیا اور فرمایا کہ یہ بلال جو ہمارے سردار ہیں یہ حضرت ابوبکرؓ کی نیکیوں میں سے ایک نیکی ہیں کیونکہ آپؓ نے ہی بلالؓ کو آزاد کرایا تھا۔

حضرت سلمانؓ،صہیبؓ اور بلال ؓ ایک مجمع میں تھےکہ ابوسفیان آئے۔ اس پر ان لوگوں نے کہا کہ اللہ کی تلواریں اللہ کے دشمن کی گردن پرنہ پڑیں۔ ابوبکرؓ نے یہ بات سنی تو انہیں ٹوکا۔ جب حضرت ابوبکرؓ نے یہ بات آنحضرتﷺ کو بتائی تو آپؐ نے فرمایا کہ شاید تم نے انہیں ناراض کردیا ہے اگر تم نے انہیں ناراض کیا تو یقیناً تم نے اپنے ربّ کو ناراض کیا۔ حضرت ابوبکرؓ فوری واپس گئے اور اُن غریب صحابہ سے معافی مانگی۔

حضرت علیؓ سے مروی روایت کے مطابق رسولِ خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت بلالؓ کو اپنے 14نقباء میں شمار فرمایا۔ اسی طرح ایک موقعے پر آپؐ نے فرمایا کہ بلال شہداء اور مؤذنوں کا سردار،کیا ہی اچھا انسان ہے۔ قیامت کےدن سب سےلمبی گردن والے حضرت بلالؓ ہوں گے۔ فرمایا بلال کو جنّت میں ایک اونٹنی دی جائے گی اور وہ اس پر سوار ہوں گے۔ رسولِ خداﷺ نے بلالؓ کی اہلیہ سے فرمایا کہ بلال مجھ سے منسوب جو بات تم تک پہنچائیں وہ یقیناً سچی ہوگی ۔تم بلال پر کبھی ناراض نہ ہونا ورنہ تمہارا اس وقت تک کوئی عمل قبول نہ ہوگا جب تک تم نے بلال کو ناراض رکھا۔

رسول اللہﷺ نے بلالؓ سے فرمایا کہ بلال! غریبی میں مرنا اورامیری میں نہ مرنا ورنہ آگ ٹھکانہ ہوگی۔ یعنی کسی سائل کودھتکارنا نہیں اور یہ نہیں کہ صرف جوڑتے رہو اور خرچ نہ کرو۔ بلالؓ جب بستر پر لیٹتے تو یہ دعا پڑھا کرتے اے اللہ!تُو میری خطاؤں کومعاف فرما اور میری کوتاہیوں کے متعلق مجھے معذور سمجھ۔

حضرت بلالؓ کی وفات بیس ہجری میں دمشق یاحلب میں ہوئی۔ بوقتِ وفات آپؓ کی عمر ساٹھ سال سے زائد تھی۔

حضرت خلیفة المسیح الثانیؓ حضرت بلالؓ کا مقام و مرتبہ بیان کرتے ہوئےفرماتے ہیں کہ رسول کریمﷺ مکّے میں پیدا ہوئے پھر عرب قوم میں پیدا ہوئے اور عربوں میں بھی قریش کے قبیلے میں پیدا ہوئےجو دوسری عرب قوموں کو بھی ذلیل سمجھتا تھا۔ رسول کریمﷺ ان لوگوں میں سے نہیں تھے جن کے نزدیک کوئی غیرقوم مقہوروذلیل ہوتی ہے ۔آپؐ کو یونانیوں اور حبشیوں سے بھی ویسا ہی پیار تھا جیسا عربوں سے تھا۔ غیر قوموں سے آپؐ کی جنگیں ہوئیں جس کے نتیجے میں اُن اقوام کی حکومتیں ختم ہوگئیںاس کے باوجود اُن میں آنحضرتﷺ کےلیے ایک محبت پیدا ہوگئی۔ حضرت مسیحؑ کے پیروکاروں میں ایسی محبت کی کوئی مثال نہیں ملتی جیسی محبت کےنمونے رسول کریمﷺ پر ایمان لانے والےغلاموں نے دکھائے، وہ آپؐ پر ایمان لائے تو پھر وہیں کے ہوکر رہ گئے۔ ہم جائزہ لیتے ہیں کہ بلال جو حبشی غلام تھے کیا انہوں نے آنحضرتﷺ کی محبت کو رواداری یا دل رکھنے کا ایک عمل سمجھا یا اسے حقیقی محبت جانا۔ حضرت مصلح موعودؓ نے دَورِخلافت حضرت عمرؓ میں بلالؓ کے اذان دینے کے واقعےکو بیان کرکے فرمایا۔ بلال جو حبشی تھے، جن سے عربوں نے خدمتیں لیں۔ جنہیں عربوں سے کوئی خونی رشتہ نہیں تھا۔ ان کے دل پر اس واقعے کا کیا اثر ہوا کہتے ہیں انہوں نےاذان ختم کی تو بےہوش ہوگئے اور چند منٹ بعد فوت ہوگئے۔ یہ گواہی تھی رسولِ کریمﷺ کے دعوے پر کہ میرے نزدیک عرب اور غیر عرب میں کوئی فرق نہیں۔ یہ محبت اور عشق جو غیرقوموں نے آپؐ کےذریعے دکھایا یہ سب سے بڑی عملی گواہی ہے کہ آپؐ نے انہیں یقین کروادیا تھا کہ اُن کی اپنی قوم بھی ویسی محبت ان سے نہیں کرسکتی جو محمد رسول اللہﷺ نے اُن سے کی ہے۔

حضورِانورنے فرمایا کہ یہ تھے ہمارے سیّدنا بلالؓ جنہوں نے اپنے آقا و مطاع سے عشق و وفا اور اللہ تعالیٰ کی توحید کو دل میں بٹھانے اورپھر اس کے عملی اظہار کے وہ نمونے قائم کیے جو ہمارے لیے اسوہ اور نمونہ ہیں۔آج ہماری نجات اسی میں ہےکہ توحید کے قیام اور عشقِ رسولِ عربیﷺ کے ان نمونوں پر قائم ہوں اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے۔ حضرت بلالؓ کا ذکر آج یہاں ختم ہوتا ہے۔

خطبے کے دوسرے حصّے میں حضورِانورایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نےپانچ مرحومین کا ذکرِ خیر اور نمازِ جنازہ غائب پڑھانے کا اعلان فرمایا:

پہلا ذکر مکرم مولانا طالب یعقوب صاحب ابن محترم طیب یعقوب صاحب مبلغ سلسلہ ٹرینی ڈاڈ ٹوباگو کا تھا۔ مرحوم 8؍ستمبر کو تریسٹھ سال کی عمر میں وفات پاگئے۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّآ اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔ آپ نے 1979ء میں زندگی وقف کی اور جامعہ احمدیہ ربوہ میں دخلہ لیا جہاں سے 1989ء میں شاہد کی ڈگری حاصل کی۔مرحوم کودنیا کے مختلف ملکوں میں نہایت اخلاص کے ساتھ خدمت کی توفیق ملی۔آپ نے پسماندگان میں ایک بیٹا ،دو بیٹیاں، دو بھائی اور تین بہنیں سوگوار چھوڑی ہیں۔

دوسرا جنازہ مکرم انجینئرافتخار علی قریشی صاحب سابق وکیل المال ثالث ،نائب صدر مجلس تحریکِ جدید کا تھا۔ آپ 3؍جون کو99برس کی عمر میں وفات پاگئے۔

اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّآ اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔

سرکاری ملازمت سے سبکدوشی کے بعد 1983ءمیں مرحوم نے وقف کیااورمتعدد خدمات کی توفیق پائی۔

تیسراذکرِ خیر محترمہ رضیہ سلطانہ صاحبہ اہلیہ حکیم خورشید احمد صاحب سابق صدر عمومی ربوہ کا تھا۔مرحومہ موصیہ تھیں اور81برس کی عمر میں وفات پاگئیں۔

(اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّآ اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ)

پسماندگان میں ایک بیٹی یادگار چھوڑی ہیں۔

چوتھا جنازہ مکرم محمد طاہر احمد صاحب نائب ناظر بیت المال قادیان کا تھا جو 28؍ مئی کو بعارضہ جگر کینسر ستاون سال کی عمر میں نور ہسپتال قادیان میں وفات پا گئےتھے۔

اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّآ اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔

مرحوم نے 1989ء سے تادم آخر اکتیس سال تک مختلف اداروں میں خدمت کی توفیق پائی۔مرحوم کے پسماندگان میں ضعیف والدین کے علاوہ اہلیہ اور دو بیٹے شامل ہیں۔

اگلا جنازہ عزیزم عقیل احمد ابن مرزا خلیل احمد بیگ صاحب استاد جامعہ احمدیہ انٹرنیشنل گھانا کا تھا۔ عزیزم پاکستان گئے ہوئے تھے جہاں مختصر علالت کےبعد13سال کی عمر میں بقضائے الٰہی وفات پاگئے۔

اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّآ اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔

حضورِانورنے دعا کی کہ اللہ تعالیٰ مرحوم کے درجات بلند فرمائے اور والدین اور بہنوں کو صدمہ برداشت کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

خطبے کے اختتام پر حضورِانور نے فرمایا کہ آج کل چونکہ یہاں جنازے حاضر نہیں آتے اس لیے بہت سارے لوگ جنازہ پڑھانے کی درخواست کرتے ہیں ۔ وقت کی کمی کی وجہ سے تمام جنازوں کا ذکر نہیں ہوسکتا ۔ اس لیے نام بولے بغیر ہی بتادوں کہ مَیں جو بھی جنازے یہاں پڑھاتا ہوں اس میں وہ سب شامل ہوجاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان سب سے مغفرت کا سلوک فرمائے اور سب کے لواحقین کو بھی صبر عطا فرمائے اور ان کی نیکیاں جاری رکھنے کی توفیق بخشے۔ آمین

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button