معاندین اسلام احمدیت کو دعوت مباہلہ اور ان کا انجام
فَمَنۡ حَآجَّکَ فِیۡہِ مِنۡۢ بَعۡدِ مَا جَآءَکَ مِنَ الۡعِلۡمِ فَقُلۡ تَعَالَوۡا نَدۡعُ اَبۡنَآءَنَا وَ اَبۡنَآءَکُمۡ وَ نِسَآءَنَا وَ نِسَآءَکُمۡ وَ اَنۡفُسَنَا وَ اَنۡفُسَکُمۡ ۟ ثُمَّ نَبۡتَہِلۡ فَنَجۡعَلۡ لَّعۡنَتَ اللّٰہِ عَلَی الۡکٰذِبِیۡنَ (آل عمران :62)
پس جو تجھ سے اس بارے میں اس کے بعد بھی جھگڑا کرے کہ تیرے پاس علم آ چکا ہے تو کہہ دے: آؤ ہم اپنے بیٹوں کو بلائیں اور تمہارے بیٹوں کو بھی اور اپنی عورتوں کو اور تمہاری عورتوں کو بھی اور اپنے نفوس کو اور تمہارے نفوس کو بھی۔ پھر ہم مباہلہ کریں اور جھوٹوں پر اللہ کی لعنت ڈالیں۔
سیدناحضرت اقدس مسیح موعودعلیہ السلام کی بعثت کااہم مقصدمخلوق کاتعلق اپنے خالق سے قائم کرنا، دین اسلام کوازسرنوزندہ کرنااورشریعت محمدیہ میں جو غلط باتیں رواج پاگئی تھیں ان کی اصلاح کرکے دوبارہ قائم کرناتھا۔ آپ نے اپنے دعاوی کی صداقت اور اپنے مقاصدکی تکمیل کے لیے قرآن کریم اوراحادیث نبویہﷺ سے دلائل پیش فرمائے۔ حضرت اقدس مسیح موعودعلیہ السلام کے مخالفین جن میں مولوی، مشائخ اورسجادہ نشین اورغیرمسلم علماء سب شامل ہیں کے درمیان مذہبی مباحثوں، مناظروں اورعلمی اورروحانی مقابلوں کاسلسلہ شروع ہوگیا۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت اقدس مسیح موعودعلیہ السلام کو ان مباحثوں میں غیر معمولی کامیابی عطافرمائی اور بہت سی سعیدروحوں کواسلام قبول کرنے کی توفیق ملی۔ بہتوں کے لیے یہ مباحثے ازدیادایمان کا باعث بنے۔ مخالفین احمدیت نے اپنی شکست کودیکھتے ہوئے مخالفت کاایک طوفان برپاکردیا۔
وہ مسلمان علماء جواپنے عقائدکی وجہ سے ایک دوسرے کے دشمن تھے اورایک دوسرے پرکفرکے فتوے لگاتے تھے حضرت اقدس مسیح موعودعلیہ السلام کی مخالفت میں متحدہوگئے۔ جبکہ وہ غیرمسلم علماء جوآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سخت دشمن تھے اورآپ کی ذات بابرکات کی توہین کے مرتکب ہوئے تھے اوراسلام کی تعلیمات پرانتہائی گندے حملے کرنے پرحضرت اقدس مسیح موعودعلیہ السلام سے شکست فاش کھا چکے تھے۔ اس وقت اِن مسلمان کہلانے والے علماء، مشائخ اورسجادہ نشینوں نے محض حضرت اقدس مسیح موعودعلیہ السلام کی مخالفت میں اُن غیرمسلم علماء سےمل کر جوگستاخ رسولﷺ اور دشمنان اسلام کے میں سے تھے حضرت اقدس مسیح موعودعلیہ السلام کومشترکہ دشمن قراردے دیا۔ اورحضرت اقدس مسیح موعودعلیہ السلام کی ایذارسانی کے منصوبے بنانے لگے۔ مگراللہ تعالیٰ نے ان کوہرقدم پرناکام ونامرادکیا۔
پنڈت لیکھرام سے مباہلہ
آریہ سماج تحریک ہندوؤں کی ایک مذہبی تحریک تھی۔ یہ تحریک بڑی تیزی سے ہندوؤں میں اورجلدہی سارے ہندوستان میں مقبول ہوگئی۔ آریہ سماج کابنیادی فلسفہ اورمقصد اسلام، قرآن کریم اورآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پربے سروپااعتراضات، غلیظ اوراہانت آمیززبان استعمال کرکے توہین کرناتھا۔ پنڈت لیکھرام پشاوری آریہ سماج کاایک بہت بدزبان اورشوخ طبیعت پنڈت تھا جوآنحضورصلی اللہ علیہ وسلم کی توہین اوربدگوئی میں سب سے بڑھاہواتھا۔ قرآن کریم کی آیات کے ایسے ایسے گندے ترجمے شائع کرتاتھاجس کوپڑھنا کسی بھی شریف آدمی کے لیے مشکل ہے۔
حضرت اقدس مسیح موعودعلیہ السلام نے مارچ 1885ء میں اللہ تعالیٰ کے حکم سے ماموراورمجددوقت ہونے کااعلان فرمایااورمذاہب عالم کے بڑے لیڈروں اورمقتدرزعماء کونشان نمائی کی دعوت دی نیزفرمایاکہ اگرکوئی طالب حق بن کرآپ کے پاس ایک سال تک قیام کرے گاتوضروردین اسلام کی حقانیت کے چمکتے ہوئے نشان مشاہدہ کرے گا۔ اگرایک سال رہ کربھی آسمانی نشان سے محروم رہے توانہیں دوسوروپیہ ماہوارکے حساب سے چوبیس سوروپیہ بطورہرجانہ پیش کیاجائے گا۔
پنڈت لیکھرام نے اس دعوت کوقبول کیا۔ وہ نومبر 1885ء کو قادیان آیااورچندروزحضرت اقدس مسیح موعودعلیہ السلام کے مخالفوں کے پاس ٹھہرارہا۔ اورانہیں کاآلہ کاربنارہا۔ اورجاتے وقت حضرت اقدس مسیح موعودعلیہ السلام کی خدمت میں ایک خط لکھاکہ
’’اچھاآسمانی نشان تودکھاویں۔ اگربحث نہیں کرناچاہتے تورب العرش خیرالماکرین سے میری نسبت کوئی نشان تومانگیں تافیصلہ ہو‘‘ .
(الاستفتاء صفحہ7)
فروری 1886ء میں حضرت مسیح موعودعلیہ السلام پرپنڈت لیکھرام کے متعلق بعض انکشافات ہوئے۔ حضرت اقدس مسیح موعودعلیہ السلام نے پنڈت لیکھرام سے پوچھاکہ ان کااظہارکردیاجائے یانہیں ؟ لیکھرام نے اس پر نہایت درجہ بےباکی سے تحریری اجازت بھجوادی۔ پھرپنڈت لیکھرام نے اپنی کتاب ’’تکذیب براہین احمدیہ‘‘صفحہ311پرلکھاکہ
’’یہ شخص(یعنی حضرت مسیح موعودعلیہ السلام)تین سال کے اندرہیضہ سے مرجائے گاکیونکہ(نعوذباللہ) کذاب ہے۔ ‘‘
نیزیہ بھی لکھا:
’’تین سال کے اندراس کاخاتمہ ہوجائے گااوراس کی ذریت میں سے کوئی بھی نہیں رہے گا۔ ‘‘
(تکذیب براہین احمدیہ حصہ دوم۔ بحوالہ کلیات آریہ مسافر160)
ادھرسیدناحضرت اقدس مسیح موعودعلیہ السلام نے اللہ تعالیٰ سے خبرپاکر20؍فروری1893ء کواس شاتم رسول کے عبرتناک انجام کی خبردی کہ20؍فروری1893ء سے چھ برس کے اندرلیکھرام پرایک دردناک عذاب آئے گاجس کانتیجہ موت ہوگی شائع کردی۔ ساتھ ہی عربی زبان میں یہ الہام بھی شائع کیاجولیکھرام کی نسبت تھایعنی
عِجْلٌ جَسَدٌلَّہٗ خُوَارٌلَہٗ نَصَبٌ وَّعَذَابٌ
(آئینہ کمالات اسلام، روحانی خزائن جلد5صفحہ650)
یعنی یہ شخص گوسالہ سامری کی طرح ایک بچھڑاہے جویونہی شورمچاتاہے ورنہ اس میں روحانی زندگی کاکچھ حصہ نہیں۔ اس پرایک بلانازل ہوگی اورعذاب آئے گا۔
اسی20؍فروری1893ء کے اشتہارمیں درج ایک اورالہامی خبر حضرت اقدس مسیح موعودعلیہ السلام اپنے الفاظ میں بیان کرتے ہیں جولیکھرام کے عذاب کے وقت کاتعین کرتی ہے:
’’آج 20؍ فروری 1893ء روز دوشنبہ ہے۔ اس عذاب کاوقت معلوم کرنے کیلئے توجہ کی گئی توخداوندکریم نے مجھ پرظاہرکیاکہ آج کی تاریخ سے جو 20 فروری1893ء ہے چھ برس کے عرصہ تک یہ شخص اپنی بدزبانیوں کی سزامیں یعنی ان بے ادبیوں کی سزامیں جواس شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حق میں کی ہیں عذاب شدید میںمبتلاہوجائے گا۔‘‘
(اشتہار20؍فروری1893ء شامل کتاب آئینہ کمالات اسلام)
پھرحضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے ایک اَور الٰہی خبراپنی کتاب ’’برکات الدعا‘‘میں ان الفاظ میں شائع کی:
’’آج جو 2؍ اپریل 1893ء مطابق 14؍ ماہ رمضان 1310ھ ہے صبح کے وقت تھوڑی سی غنودگی کی حالت میں مَیں نے دیکھاکہ میں ایک وسیع مکان میں بیٹھا ہوا ہوں اور چند دوست بھی میرے پاس موجود ہیں۔ اِتنے میں ایک قوی ہیکل مہیب شکل گویا اس کے چہرے پرخون ٹپکتا ہے میرے سامنے آکرکھڑاہوگیا۔ میں نے نظراُٹھاکردیکھاتومجھے معلوم ہواکہ وہ ایک نئی خلقت اورشمائل کاشخص ہے۔ گویاانسان نہیں ملائک شدادغلاظ میں سے ہے اوراس کی ہیبت دِلوں پر طاری تھی اورمیں اُس کودیکھتاتھاکہ اس نے مجھ سے پوچھاکہ لیکھرام کہاں ہے…تب میں نے اُس وقت سمجھاکہ یہ شخص لیکھرام …کی سزادہی کے لئے مامورکیاگیاہے…اوریکشنبہ کادن اور4بجے صبح کاوقت تھا۔ فالحمدللّٰہ ذالک۔ ‘‘
(برکات الدعا، روحانی خزائن جلد6صفحہ33)
پھرلیکھرام کی ہلاکت کے بارے میں مزیدواضح کرنے والی خبروہ عربی اشعارکے دوالہامی مصرعے تھے جنہیں حضرت اقدس مسیح موعودعلیہ السلام نے اپنی کتاب کرامات الصادقین میں شائع کیاجواس طرح تھے۔
واِنّی انا الرحمٰن ناصِرُ حِزۡبِہٖ
ترجمہ:اورمیں ہی رحمٰن اپنی جماعت کی مددکرنے والا اورجوشخص میرے گروہ میں سے ہواسے غلبہ اورنصرت دی جا ئے گی۔
(وَبَشَّرَنِی رَبِّیْ وَقَالَ مُبَشِّرًا)
سَتَعۡرِفُ یَوْمَ الْعِیْدِ وَالْعِیْدُ اقْرَبُ
ترجمہ:میرے ربّ نے مجھے بشارت دی اوربشارت دے کرکہاتوعنقریب عیدکے دن پہچان لے گااورعیداس سے قریب ترہوگی۔
(کرامات الصادقین، روحانی خزائن جلد7صفحہ96)
6؍ مارچ 1897ء شام لاہور میں پنڈت لیکھرام حضرت اقدس مسیح موعودعلیہ السلام کی پیشگوئی میں بیان کردہ الٰہی خبروں کے عین مطابق ہلاک ہوا۔ اورآپؑ کی پیشگوئی لفظ بلفظ پوری ہوئی۔ اوردین اسلام، سیدناحضرت اقدس محمدمصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم اورحضرت مسیح موعودعلیہ السلام کی صداقت کاعظیم الشان نشان بنی۔
ڈاکٹرجان الیگزنڈرڈوئی سے مباہلہ
امریکہ میں ایک شخص ڈاکٹرجان الیگزنڈرڈوئی نے 1899ء میں پیغمبرہونے کادعویٰ کیا۔ اس نے امریکہ ویورپ کی عیسائی اقوام کوسچاعیسائی بنانے اوراُن کی اصلاح کاذمہ اُٹھایا۔ یہ امریکہ کا ایک مشہوراورمالدارشخص تھا۔ اس نے1901ء میں ایک شہرصیہون(Zion)آبادکیا۔ جواپنی خوبصورتی، وسعت اورعمارات کے لحاظ سے تھوڑے ہی عرصہ میں امریکہ کے مشہورشہروں میں شمارہونے لگا۔ اسی شہرسے ڈاکٹرڈوئی کااپناایک اخبار’’لیوزآف ہیلنگ‘‘(Leaves of Healing)نکلتاتھا۔اس اخبارسے اس کوبہت شہرت حاصل ہوئی۔ اورامریکہ میں بہت جلدشہرت کا اعلیٰ مقام حاصل کرلیا۔ یہ شخص اسلام اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کابدترین دشمن تھااورہمیشہ اسی کوشش اورفکرمیں رہتاتھاکہ جس طرح بھی ہوسکے اسلام کوصفحہ ہستی سے مٹادے۔
سیدناحضرت اقدس مسیح موعودعلیہ السلام کوجب ڈاکٹرڈوئی کے دعاوی کاعلم ہواتوآپ نے 8؍ اگست 1902ء کوایک خط لکھاجس میں حضرت مسیح ؑکی وفات اورسرینگرمیں ان کی قبرکاذکرکرتے ہوئے اسے مباہلہ کادرج ذیل چیلنج دیا۔ اورتحریرفرمایاکہ
’’غرض ڈوئی باربارکہتاہے کہ عنقریب یہ سب ہلاک ہوجائیں گے۔ بجزاس گروہ کے جویسوع مسیح کی خدائی مانتاہے اورڈوئی کی رسالت۔ اس صورت میں یورپ اورامریکہ کے تمام عیسائیوں کو چاہئے کہ وہ بہت جلدڈوئی کومان لیں تاہلاک نہ ہوجائیں …ہم ڈوئی کی خدمت میں با ادب عرض کرتے ہیں کہ اس مقدمہ میں کروڑوں مسلمانوں کومارنے کی کیاضرورت ہے؟ایک سہل طریق ہے جس سے اس بات کافیصلہ ہوجائے گاکہ آیاڈوئی کاخداسچاہے یاہماراخدا۔ وہ بات یہ ہے کہ ڈوئی صاحب تمام مسلمانوں کوباربارموت کی پیشگوئی نہ سنائیں بلکہ ان میں سے صرف مجھے اپنے ذہن کے آگے رکھ کریہ دعاکریں کہ ہم دونوں میں سے جوجھوٹاہے وہ پہلے مرجائے‘‘
(ریویوآف ریلیجنزستمبر1902ء)
ڈاکٹرڈوئی نے توحضرت اقدس مسیح موعودعلیہ السلام کے اس چیلنج کاکوئی جواب نہ دیامگرامریکہ کے اخبارات نے اس پیشگوئی کاذکراچھے ریمارکس کے ساتھ کیا۔ چنانچہ ایک اخبار’’اوگوناٹ‘‘سان فرانسسکونے اپنی یکم دسمبر1902ء کی اشاعت بعنوان’’اسلام وعیسائیت کامقابلہ دعا‘‘میںلکھاکہ
’’مرزاصاحب کے مضمون کاخلاصہ جوانہوں نے ڈوئی کولکھایہ ہے…ہم میں سے ہرایک اپنے خداسے یہ دعا کرے کہ ہم میں سے جوجھوٹاہے خدااسے ہلاک کرے۔ یقیناًیہ ایک معقول اورمنصفانہ تجویزہے۔ ‘‘
جب ڈوئی نے حضرت اقدس مسیح موعودعلیہ السلام کوکوئی معقول جواب نہ دیااورمباہلہ پر آمادگی کااظہاربھی نہ کیاتوحضرت اقدس مسیح موعودعلیہ السلام نے1903ء میں خط کے ذریعہ اپنے مباہلہ کے چیلنج کوپھردہرایااورلکھاکہ
’’میں سترسال کے قریب ہوں اورڈوئی جیساکہ وہ بیان کرتاہے پچاس برس کاجوان ہے۔ لیکن میں نے اپنی عمرکی کچھ پروانہیں کی کیونکہ مباہلہ کافیصلہ عمروں کی حکومت سے نہیں ہوگابلکہ خداجواحکم الحاکمین ہے اس کافیصلہ کرے گااوراگرڈوئی مقابلہ سے بھاگ گیاتب بھی یقیناًسمجھوکہ اس کے صیہون پرجلدترآفت آنے والی ہے‘‘
(اشتہار23؍اگست1903ء ریویوآف ریلیجنز اردو اپریل 1907ء صفحہ143تا144)
حضرت اقدس مسیح موعودعلیہ السلام کے اس چیلنج کاتذکرہ امریکہ کے بہت سے اخبارات میں ہوا۔ جن میں سے23اخبارات کے مضامین کاخلاصہ حضرت اقدس مسیح موعودعلیہ السلام نے تتمہ حقیقۃ الوحی میں درج فرمایاہے۔ جب لوگوں نے کثرت سے ڈوئی کوبہت تنگ کیااورجواب دینے کامطالبہ کیاتواس نے اپنے اخبارکے دسمبرکے شمارہ میں لکھاکہ
’’ہندوستان کا ایک بےوقوف محمدی مسیح مجھے باربارلکھتاہے کہ یسوع مسیح کی قبرکشمیرمیں ہے اورلوگ مجھے کہتے ہیں کہ توکیوں اس شخص کوجواب نہیں دیتا۔ مگرکیاتم خیال کرتے ہوکہ میں ان مچھروں اورمکھیوں کاجواب دوں گا۔ اگرمیں ان پراپناپاؤں رکھوں توان کوکچل کرماردوں گا۔ ‘‘
حضرت اقدس مسیح موعودعلیہ السلام کوجب ڈاکٹر ڈوئی کی اس گستاخی اوربے ادبی اورشوخی وشرارت کی اطلاع ملی توآپؑ نے اللہ تعالیٰ کے حضوراس فیصلہ میں کامیابی کے لیے زیادہ توجہ اورالحاح سے دعائیں کرناشروع کردیں۔ اس دوران ڈاکٹرڈوئی مزید شہرت حاصل کرتاجارہاتھا۔ اوربڑے بڑے جلسوں میں اکثر اپنی شاندارصحت، جوانی اورعروج پرفخرکرتاتھا۔ مگراسلام کاخدااسے تمام دنیامیں مشہورکرنے کے بعدذلیل ورسواکرناچاہتاتھاتادنیاجان لے کہ خداکے ماموروں کے مقابلہ پرآنے والے خواہ بظاہر کتنے ہی طاقتور اورعظیم شخصیت کے مالک ہوں ان کاانجام غضب ناک ہوتاہے۔
آخرکارخدائی پیشگوئی کے مطابق اللہ تعالیٰ کاغضب اورقہرعین اس وقت فالج کے حملہ کی صورت نازل ہواجب وہ اپنے عالی شان شہرZionمیں ہزاروں کے مجمع کوخطاب کررہا تھا۔ اوراپنے شہر کے مالی بحران کودورکرنے کے لیے میکسیکومیں کوئی بڑی جائیدادخریدنے کامنصوبہ اپنے مریدوں کے سامنے رکھ رہاتھا۔ تاان سے قرض حاصل کرکے اس منصوبے کومکمل کرے۔
چنانچہ تقریرکے دوران ہی خدائے منتقم قادروقیوم نے اس کی زبان کوبند کردیا جس زبان سے وہ حضرت خاتم الانبیاء محمدمصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف بدزبانی اوراہانت کیاکرتا تھا۔ اس نے بہت کوشش کی کہ وہ اس بیماری سے نجات حاصل کر سکے اس کے لیے اس نے بہت کوشش کی شہرشہر کی خاک چھانی اوربہت علاج کروائے مگرناکام رہا۔
دوسری طرف وہ جس شخص کوZionمیں اپنانائب مقررکرگیاتھااسی نے بعد میں اعلان کردیاکہ ڈوئی کیونکہ غرور وتعلّی، فضول خرچی، عیاشی اورلوگوں کے پیسوں پرتعیش کی زندگی بسرکرنے کا مجرم ہے اس لیے اب وہ ہمارے چرچ کی قیادت کرنے کے قطعاًنااہل ہے۔ Zionشہراوراس کی رونق بھی آہستہ آہستہ کم ہونے لگی اورڈوئی پرکئی لاکھ روپے کے غبن کا الزام لگایاگیا۔ چرچ سے اسے کلیۃً بے دخل کردیاگیا۔ جس کے نتیجہ میں اس کی صحت روزبروزمزیدخراب ہوتی چلی گئی۔ بقول اس کے ایک مریدمسٹرلنڈزکے ان ایام میں نہ صرف فالج بلکہ دماغی فتوراور کئی بیماریوں کاشکارہوگیا۔ بیماری کے ایام میں اسے نہ صرف اس کے مریدوں بلکہ اس کے اہل وعیال نے بھی چھوڑدیا۔ اور صرف دوتنخواہ دار ملازم اس کی دیکھ بھال کرتے تھے اور ایک جگہ سے اُٹھاکردوسری جگہ لے جاتے تھے۔ جس کے دوران اس کاپتھرجیسابھاری جسم کبھی کبھی ان کے ہاتھوں سے چھوٹ کرزمین پرگرجاتاتھا۔ اورحضرت اقدس مسیح موعودعلیہ السلام کی پیشگوئی کے مطابق خدائی غضب اورعذاب کی مصیبتیں سہتاہواآخر9؍مارچ1907ء کونہایت ذلت کی حالت میں اس جہان سے رخصت ہوا۔
ڈوئی کی موت کے بعدامریکن اخبارات نے پیشگوئی کے پوراہونے کا واضح اعتراف کیا۔ چنانچہ’’ڈونول گزٹ‘‘نے اس واقعہ کاذکرکرکے لکھا:
’’اگراحمداوران کے پیرواس پیشگوئی کے جوچندماہ ہوئی پوری ہوگئی ہے نہایت صحت کے ساتھ پوراہونے پر فخرکریں توان پرکوئی الزام نہیں ‘‘
(ڈونول گزٹ7؍جون1907ء)
بوسٹن امریکہ کے اخبار’’ہیرلڈ‘‘ نے لکھا:
’’ڈوئی کی موت کے بعدہندوستانی نبی کی شہرت بہت بلندہوگئی ہے۔ کیونکہ کیایہ سچ نہیں کہ انہوں نے ڈوئی کی موت کی پیشگوئی کی تھی کہ یہ ان کی یعنی مسیح کی زندگی میں واقع ہوگی۔ اوربڑی حسرت اوردکھ کے ساتھ اس کی موت ہوگی۔ ڈوئی کی عمرپینسٹھ(65)سال کی تھی اورپیشگوئی کرنے والے کی پچھتر(75)سال کی۔ ‘‘
اس طرح اس مباہلہ سے صداقت اسلام اورصداقت حضرت مسیح موعود علیہ السلام ایک دفعہ پھر دنیا پر واضح اور آشکار ہوگئ خاص طور پر مغربی دنیا پر حجت تمام ہوئی۔
مخالف مسلمان علماءکومباہلے کی دعوت
جب 1897ء میں حضرت اقدس مسیح موعودعلیہ السلام نے پادری عبداللہ آتھم کے متعلق پیشگوئی فرمائی(یادرہے عبداللہ آتھم نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کونعوذباللہ دجال کہا تھا)تومخالف علماء نے کھلم کھلا عیسائیوں کاساتھ دیا۔
اس پرآپؑ نے ان علماء کومخاطب کرکے ایک اشتہارمباہلہ شائع فرمایاجس میں پہلے آپ نے اپنے منصب مسیح موعودکوپیش کیااورفرمایاکہ مسیح موعودکاکام ہی کسرصلیب ہے۔ اس کے لیے زبردست حربہ وفات مسیح ناصری کاثابت کرناہے۔ حضورعلیہ السلام نے علماء کی اس روش پرافسوس کااظہارکیاکہ وہ نصوص قرآن اورحدیث کی پرواہ نہ کرکے کھلم کھلا اس مسئلہ میں پادریوں کاساتھ دے رہے ہیں۔ اس کے بعد آپ نے تمام مخالف علماء وسجادہ نشینوں کومخاطب کرتے ہوئے یہ چیلنج دیاکہ
’’سواب اُٹھواورمباہلہ کے لئے تیارہوجاؤ۔ تم سُن چکے ہوکہ میرادعویٰ دوباتوں پرمبنی تھا۔ اول نصوص قرآنیہ اورحدیثیہ پر۔ دوسرے الہامات الٰہیہ پر۔ سوتم نے نصوص قرآنیہ اورحدیثیہ کوقبول نہ کیااورخدا کی کلام کویوں ٹال دیاجیساکہ کوئی تنکاتوڑکرپھینک دے۔ اب میرے بناء دعویٰ کادوسراشق باقی رہا۔ سومیں اس ذات قادرغیورکی آپ کوقسم دیتاہوں جس کی قسم کوکوئی ایماندارردنہیں کرسکتاکہ اب اس دوسری بناء کی تصفیہ کے لئے مجھ سے مباہلہ کرلو۔ اوریوں ہوگاکہ تاریخ اورمقام مباہلہ کے مقررہونے کے بعدمیں ان تمام الہامات کے پرچہ کوجولکھ چکاہوں اپنے ہاتھ میں لے کرمیدان مباہلہ میں حاضرہوں گا۔ اوردعاکروں گاکہ یاالٰہی اگریہ الہامات جومیرے ہاتھ میں ہیں میراہی افتراء ہے اورتوجانتاہے کہ میں نے ان کواپنی طرف سے بنالیاہے یااگریہ شیطانی وساوس ہیں اورتیرے الہام نہیں توآج کی تاریخ سے ایک برس گزرنے سے پہلے مجھے وفات دے۔ یاکسی ایسے عذاب میں مبتلا کرجوموت سے بدترہواوراس سے رہائی عطانہ کر۔ جب تک کہ موت آجائے۔ تامیری ذلت ظاہرہواورلوگ فتنہ سے بچ جائیں کیونکہ میں نہیں چاہتاکہ میرے سبب سے تیرے بندے فتنہ اورضلالت میں پڑیں۔ اورایسے مفتری کامرناہی بہترہے۔ لیکن اے خدائے علیم وخبیر اگرتوجانتاہے کہ یہ تمام الہامات جومیرے ہاتھ میں ہیں تیرے ہی الہام ہیں۔ اورتیرے منہ کی باتیں ہیں۔ توان مخالفوں کوجواس وقت حاضرہیں۔ ایک سال کے عرصہ تک نہایت سخت دکھ کی مارمیں مبتلا کر۔ کسی کواندھاکردے کسی کومجذوم اورکسی کومفلوج اورکسی کومجنون اورکسی کومصروع اورکسی کوسانپ سگ دیوانہ کاشکاربنا۔ اورکسی کے مال پرآفت نازل کراورکسی کی جان پراورکسی کی عزت پر۔ اورجب میں یہ دعاکرچکوں تودونوں فریق کہیں کہ آمین۔ …گواہ رہ اے زمین اوراے آسمان کہ خداکی لعنت اس شخص پرکہ اس رسالہ کے پہنچنے کے بعد نہ مباہلہ کے لئے حاضرہواورنہ تکفیراورتوہین کوچھوڑنے اورٹھٹھاکرنے والوں کی مجلسوں سے الگ ہو۔ اوراے مومنو!برائے مہربانی تم سب کہوکہ آمین۔ ‘‘
(انجام آتھم، روحانی خزائن جلد11صفحہ65تا72)
حضرت اقدس مسیح موعودعلیہ السلام نے مباہلے کے چیلنج کی عبارت لکھنے کے بعداُن تمام مشہورعلماء اورسجادہ نشینوں کے نام بھی لکھ دیے جن کویہ دعوت مباہلہ بذریعہ رجسٹری ڈاک بھجوایاگیا۔ اوریہ بھی لکھ دیاکہ کہ اگریہ مباہلے کاخط اتفاقاًکسی صاحب کونہ ملے تووہ اطلاع دیں تاکہ ان کودوبارہ بھجوایاجاسکے۔ حضرت اقدس مسیح موعودعلیہ السلام نے آخرپریہ بھی لکھ دیاکہ ہرشخص گھربیٹھے بٹھائے بھی مباہلہ کرسکتاہے بشرطیکہ وہ مباہلے کی معین عبارت کواپنے دستخطوں سے مشتہر کردے۔ اس فہرست میں 58علماء اور50سجادہ نشینوں کے نام شامل تھے۔
اگرچہ ان جھوٹے علماء میں سے اکثرحضرت اقدس مسیح موعودعلیہ السلام کے مقابلے پر تونہ آئے لیکن سچائی چھپانے کی پاداش میں بہت سے مخالف علماء کچھ جلداورکچھ بدیرآسمانی سزاؤں سے پکڑے گئے۔ جس نے حضرت اقدس مسیح موعودعلیہ السلام کی صداقت کی کھلے عام تصدیق کردی۔ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کی تکذیب اورتکفیرکرنے والے علماء میں سے کوئی بھی باقاعدہ مباہلے کے لیے تیارنہ ہوالیکن بعد کی تاریخ بتارہی ہے کہ ان میں سے اکثرخاص طورپران کے لیڈرالٰہی تقدیرسے سزاپارہے تھے۔
مولوی رشیداحمدگنگوہی
مولوی رشید احمد گنگوہی نے1891ء میں حضرت اقدس مسیح موعودعلیہ السلام کی طرف سے تحریری یاتقریری مباحثے کی ہرکوشش کو ٹھکرادیاتھا۔ یہ بھی حضرت اقدس مسیح موعودعلیہ السلام کے شدیدترین مخالفین کی فہرست میں سے تھا۔ اس نے حضرت اقدس مسیح موعودعلیہ السلام کے مقابلے میں نہ صرف یہ کہاکہ’’لعنت اللّٰہ علی الکاذبین‘‘بلکہ اپنے ایک اشتہارمیں حضرت اقدس مسیح موعودعلیہ السلام کانام شیطان رکھا۔ یہ مولوی صاحب سانپ کے کاٹنے کے دم کی شہرت رکھتے تھے۔ لیکن حضرت اقدس مسیح موعودعلیہ السلام نے مباہلہ کی دعامیں یہ لکھاتھاکہ اگرکوئی ان میں مباہلہ کرے کوئی ان میں سے اندھاہوجائے اور کوئی مفلوج اور کوئی دیوانہ اور کسی کی موت سانپ کے کاٹنے سے ہو۔ حضرت اقدس مسیح موعودعلیہ السلام کی دعاکے بعدمولوی رشیداحمدگنگوہی پہلے اندھاہواپھرسانپ کے کاٹنے سے فوت ہوگیا۔
(روحانی خزائن جلد22حقیقۃالوحی صفحہ313)
مفتی غلام رسول عرف رُسل باباامرتسری
اس نے حضرت اقدس مسیح موعودعلیہ السلام کے عقیدہ وفاتِ مسیح کوغلط ثابت کرنے کے لیے ایک رسالہ حیات مسیح لکھا جس میں اس نے حضرت اقدس مسیح موعودعلیہ السلام کے خلاف بہت سخت زبان استعمال کی۔ اُن دنوں طاعون ہرطرف پھیلی ہوئی تھی یہ کہاکہ اگربقول مرزاصاحب یہ طاعون کی وبامسیح موعودیعنی حضرت اقدس مسیح موعودعلیہ السلام کی صداقت کی نشانی ہے تووہ اسے کیوں نہیں ہوجاتی آخرطاعون نے مولوی رسل باباکوآن پکڑااوروہ 8؍دسمبر1902ء کوصبح ساڑھے پانچ بجے اس دارفانی سے کوچ کرگیا۔
(حقیقۃ الوحی، روحانی خزائن جلد22صفحہ312تا313)
مولوی غلام دستگیرقصوری
یہ بھی حضرت اقدس مسیح موعودعلیہ السلام کے شدیدمخالفین میں شامل تھا۔ انہیں جب علم ہواکہ خواجہ غلام فریدصاحب چاچڑاں شریف نے حضرت اقدس مسیح موعودعلیہ السلام کی صداقت کی تصدیق کی ہے تووہ اُن کے گاؤں پہنچے اورانہیں حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کی تکذیب پرآمادہ کرنے کی کوشش کی لیکن وہ برابرتصدیق کرتے رہے اوراپنی تصنیف اشارات فریدی میں حضرت مسیح موعودعلیہ السلام پرمخالفین کے اعتراضات کےجواب بھی دیے۔ مولوی غلام دستگیرنے حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کی مخالفت میں ایک کتاب’’فتح رحمانی‘‘لکھی جو1897ء میںلدھیانہ سے شائع ہوئی جس میں مباہلہ کے رنگ میں حضرت اقدس مسیح موعودعلیہ السلام کے خلاف ایک بددعابھی لکھی جس میں لکھاکہ
اللّٰھُمَّ ذوالجلال والاکرام یامالک الملک
جیساکہ تونے ایک عالم ربانی حضرت محمدطاہرمؤلف مجمع بحارالانوارکی دُعااورسعی سے اس مہدی کاذب اورجعلی مسیح کابیڑہ غرق کیا(جواُن کے زمانے میں پیداہواتھا)ویساہی دُعااورالتجااس فقیرقصوری کان اللّٰہ لہُ سے ہے جوسچے دل سے تیرے دین متینِ کی تائیدمیں حتی الوسع ساعی ہے کہ تومرزاقادیانی اوراس کے حواریوں کوتوبۃ النصوح کی توفیق عطافرمااوراگریہ مقدرنہیں توان کومورداس آیت فرقانی کابنا۔
فقطع دابرالقوم الذین ظلمواوالحمدللّٰہ ربّ العلمین انّک علیٰ کلّ شَیءٍ قدیروبالاجابتہ جدیرٌ۔ آمین
یعنی جولوگ ظالم ہیں وہ جڑسے کاٹے جائیں گے اورخداکے لئے حمدہے توہرچیزپرقادرہے اوردعاقبول کرنے والاہے آمین۔ اورپھرصفحہ26کتاب مذکورکے حاشیہ میں مولوی مذکورنے میری نسبت لکھاہے
تَبًّالَہٗ وَلِاَتْبَاعِہٖ
یعنی وہ اوراُس کے پیروہلاک ہوجائیں۔ پس خداتعالیٰ کے فضل سے میں اب تک زندہ ہوں اورمیرے پیرواُس زمانہ سے قریباًپچاس حصہ زیادہ ہیں۔ اورظاہرہے کہ مولوی غلام دستگیرنے میرے صدق یا کذب کا فیصلہ آیت
فَقُطِعَ دَابِرُ الۡقَوۡمِ الَّذِیۡنَ ظَلَمُوۡا(الانعام46)
پرچھوڑاتھا۔ جس کے اس محل پریہ معنی ہیں کہ جوظالم ہوگااُس کی جڑکاٹ دی جائے گی اوریہ امرکسی اہل علم پرمخفی نہیں کہ آیت ممدوحہ بالا کامفہوم عام ہے جس کااُس شخص پراثرہوتاہے جوظالم ہے پس ضرورتھا کہ ظالم اُس کے اثرسے ہلاک کیاجاتالہٰذاچونکہ غلام دستگیرخداتعالیٰ کی نظرمیں ظالم تھااس لئے اس قدربھی اس کومہلت نہ ملی جواپنی اس کتاب کی اشاعت کودیکھ لیتااس سے پہلے ہی مرگیااورسب کومعلوم ہےکہ اس دعاسے چندروزبعد ہی فوت ہوگیا۔
(حقیقۃ الوحی، روحانی خزائن جلد22 صفحہ343تا344)
مولوی غلام دستگیرقصوری نے اس یک طرفہ مباہلہ میں ظالم کی جڑکاٹنے کی دعاکی جواس کی نظرمیں حضرت مسیح موعودعلیہ السلام تھے مگریہ بددعااُلٹی مولوی غلام دستگیرقصوری پرپڑگئی اوراپنی دعاکے چندروزبعدہی فوت ہوگیاجب کہ حضرت اقدس مسیح موعودعلیہ السلام مولوی صاحب کی بددعاکے بعد11سال تک زندہ رہے بلکہ ان کی جماعت کی تعدادبھی لاکھوں تک جاپہنچی۔
مخالفین اورمکذبین جوموت سے ہم کنارہوئے ان کی ایک لمبی فہرست ہے۔چندایک نام یہ ہیں۔ مولوی نذیرحسین دہلوی، مولوی فتح علی ،اللہ بخش تونسوی، مفتی مولوی محمد، مولوی عبداللہ، مولوی شاد دین، فقیرمرزاموضع دوالمیال پنڈدادخان، نوراحمد، کریم بخش، حکیم حافظ محمددین، امدادعلی، مولوی عبدالرحمٰن محی الدین صاحب لکھوکے والے، مولوی اصغرعلی، مولوی عبدالمجیددہلوی، ماسٹرسعداللہ لدھیانوی، مولوی محمدحسین فیضی وغیرہ۔
حضرت اقدس مسیح موعودعلیہ السلام کے 1897ء کے فیصلہ کن مباہلہ کے چیلنج کے مقابلے پراگرچہ کوئی مولوی کھڑانہ ہوا۔ اورآسمانی سزاؤں کے وارد ہونے کاایک ایسا سلسلہ شروع ہواکہ جلدیابدیربہت سے علماء ہلاک ہوتے چلے گئے۔ کسی نے اشارۃًبھی چیلنج کیاتووہ سزاسے بچ نہ سکا۔ حضرت اقدس مسیح موعودعلیہ السلام کے ان چیدہ چیدہ روحانی معرکوں کاذکرہے جوآپ کے اورمعاندین اورمکفرین کے درمیان ہوئے۔ مضمون کے طویل ہونے کی وجہ سے بیسیوں مناظروں کاذکرچھوڑتے ہیں۔
اس مضمون کے اختتام پرایک ایسے مباہلہ کاذکرکیاجاتاہے جس کاتعلق عصرحاضرسےہے۔اس مباہلےکاچیلنج حضرت مرزاطاہراحمدصاحب خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ نےاُس وقت دیاتھاجب ضیاء الحق کی ڈکٹیٹرانہ اورآمرانہ حکومت قائم تھی۔ 26؍اپریل1984ء کوجنرل ضیاالحق نے بدنامِ زمانہ امتناع ِقادیانیت آرڈیننسXXکے ذریعے احمدیوں کی مذہبی آزادی پرحملہ کیااوران پربعض پابندیاں عائدکردیں۔ اس قانون کے تحت کلمہ پڑھنے، اذان دینے، مسجدکومسجدکہنے پرقابلِ تعزیرجرائم ٹھہرائے گئے۔ احمدیوں کے لیے خودکومسلمان ظاہرکرنے پرقیدکی سزامقررکی گئی۔ اوربعض القابات کااستعمال قابلِ تعزیربنادیاگیا۔ اس قانون کے ذریعہ احمدیوں کے مذہبی امورپرکاری ضرب لگائی گئی تھی۔ قانون کی زد براہ ِراست ہراحمدی پرپڑتی تھی۔
جب یہ صورت حال اپنی انتہاکوپہنچ گئی توحضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ نے10؍جون1988ء کے خطبہ جمعہ میں اَئمۃ المکفرین، مکذبین اورمعاندین کومباہلہ کاچیلنج دیتے ہوئے اعلان فرمایا:
’’پس اب ظلم کی اس انتہاکے بعد باوجود اس کےکہ بار بار اس قوم کوہر رنگ میں سمجھانےکی کوشش کی۔ اب میں مجبور ہو گیا ہوں کہ مکفرین اور مکذبین اور ان کےسربراہوں اور ان کے ائمہ کو قرآن کریم کے الفاظ میں مباہلہ کا چیلنج دوں …‘‘
(خطبہ جمعہ فرمودہ10؍جون1988ء مطبوعہ خطبات طاہر جلد7صفحہ410)
حضوررحمہ اللہ نے فرمایا:
’’مجھے خداکی غیرت سے، اس کی حمیت سے توقع ہے کہ وہ ان کے خلاف اورجماعت احمدیہ کی صداقت اورحضرت مسیح موعودعلیہ السلام کی صداقت کے حق میں عظیم الشان نشان دکھائے گا۔ ‘‘
(خطبہ جمعہ فرمودہ10؍جون1988ء مطبوعہ خطبات طاہر جلد7صفحہ420)
ملاؤں نے خاص کرمولوی منظورچنیوٹی نے ایک شخص اسلم قریشی کی پہلے گمشدگی اوربعدمیں اس کے قتل ہونے کے متعلق جماعت احمدیہ کی سازش قراردیااور حضرت خلیفۃالمسیح الرابع رحمہ اللہ پریہ الزام لگایاکہ انہوں نے اسلم قریشی کو پہلے اغواکرواکر قتل کروادیاہے۔ اوراس کومقتول قراردے کراس کی متعددنمازہائے جنازہ پڑھ دی گئیں۔ نہ جانے کتنے جلسے منعقدکیے گئے اورجلوس نکالے گئے۔ کئی تحریکیں چلائی گئیں اورہنگامے اورفسادبرپاکیے گئے۔ معصوم احمدیوں کی جانوں، اموال اورجائیدادوں کونقصان پہنچایاگیا۔مساجدمسمارکی گئیں۔ مولوی منظورچنیوٹی نے یہاں تک اعلان کیا کہ اگرمرزاطاہراحمد اسلم قریشی کاقاتل ثابت نہ ہوتواسے برسرعام گولی ماردی جائے یاپھانسی دے دی جائے۔
مباہلہ کے چیلنج کے تقریباًایک ماہ کے بعداسلم قریشی جس کوعلماء سومردہ قراردیتے تھے ساڑھے پانچ سال گم رہنے کے بعدایران سے پاکستان پہنچ گیا۔ گویامباہلے کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ نے ایک مردہ کوزندہ کردیااورمعاندین احمدیت کوزندہ ہی ماردیا۔ غرص مباہلہ کی تلواردودھاری چلی۔
جنرل ضیاء الحق کاانجام
مباہلے کے اعلان کے بعدسب کی نظریں جنرل ضیاء الحق کے انجام کی طرف بھی تھیں کیونکہ وہی مکفرین اورمکذبین احمدیت کاامیرتھا۔ حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ نے اس کے بارے میں یکم جولائی1988ء کے خطبہ جمعہ میں واضح طورپراعلان فرمایا:
’’جہاں تک صدرپاکستان ضیاء صاحب کا تعلق ہے …ہم انتظارکرتے ہیں کہ خداکی تقدیردیکھیں کیاظاہرکرے لیکن چیلنج قبول کریں یانہ کریں چونکہ تمام اَئمۃ المکفرین کے امام ہیں اورتمام اذیت دینے والوں میں سب سے زیادہ ذمہ داری اس ایک شخص پرعائدہوتی ہے۔ جنہوں نے معصوم احمدیوں پرظلم کئے ہیں۔ ‘‘
حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ نے مورخہ12؍اگست1988ء کے خطبہ جمعہ میں اپنی ایک رؤیاکاذکرتے ہوئے فرمایاتھا کہ یہ شخص اپنے انجام کوپہنچنے والا ہے۔ آپؒ نے فرمایایوں معلوم ہوتاہے کہ یہ سزاایک قسم کامقدربن گئی ہے۔ چنانچہ اس خطبہ کے پانچویں روز17؍اگست 1988ء کو جنرل ضیاء الحق امریکی ساخت کے مضبوط ترین ہوائی جہازسی130کے ذریعہ بہاولپورفوجی اڈے سے واپس آتے ہوئے ایک فضائی حادثہ میں 28اعلیٰ فوجی افسران کے ساتھ ہلاک ہوگیا۔ اُس کی لاش ٹکڑے ٹکڑے ہوکر جل کر بکھرگئی۔ اوراَئمۃ المکفرین کاامام عبرت کانشان بن گیا۔
حضرت اقدس مسیح موعودعلیہ السلام ایسے ہی دشمنان اسلام ِاحمدیت کے متعلق فرماتے ہیں !
مقابل پر میرے یہ لوگ ہارے
کہاں مرتے تھے پر تو نے ہی مارے
شریروں پر پڑے اُن کے شرارے
نہ اُن سے رُک سکے مقصد ہمارے
اُنہیں ماتم ہمارے گھر میں شادی
فسبحان الذی اخزی الاعادی
حضرت مسیح موعودعلیہ السلام اورآپؑ کے خلفاء کے عہدمبارک سے لے کرآج تک جماعت احمدیہ اور دیگرمذاہب اورمسلمان فرقوں کے مابین دنیابھرمیں جومباحثے، مناظرے اورمباہلے ہوئے وہ سب صداقت حضرت مسیح موعودعلیہ السلام اور صداقت احمدیت کازندہ ثبوت ہیں۔ ان کے ذریعہ لاکھوں سعیدروحیں احمدیت یعنی حقیقی اسلام میں داخل ہوئیں اورہورہی ہیں۔
دعا ہے کہ معاندین احمدیت اپناعنادچھوڑکرسو سال سے زائد تاریخ سے عبرت حاصل کریں اورزمانےکے امام کو مان کراس کے عافیت کے حصار میں داخل ہوں۔ آمین۔
٭…٭…٭