میرا گھر میری جنت
اپنے گھر کو صاف ستھرا رکھیں
گھر،گ۔ھ۔ر تین الفاظ کا مجموعہ،ماں باپ اور بچے تین رشتوں کا بندھن۔ اور ان رشتوں سے منسلک اور خوبصورت رشتے جن سب سے مل کر ایک جنت نما گھر کی تشکیل ہوتی ہے جو اس کے مکینوں کے لیے باعث سکون ہوتا ہے۔انگلش کا محاورہ ہے۔East or West Home is the best یعنی آپ مشرق میںرہیں یا مغرب میں آپ کا گھر ہی سب سے بہترین جگہ ہے۔ ایک صاف ستھرا گھرجہاں آپ داخل ہوں تو ایک سکون کا احساس ہو۔صفائی ایمان کا حصہ ہے اور ایک گھر کو جنت بنانے میں صفائی کا بھی ایک اہم کردار ہے۔ اور اس کی ہماری زندگی میں بہت اہمیت ہے۔
سورۃ البقرۃ میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
اِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ التَّوَّا بِیْنَ وَ یُحِبُّ الْمُتَطَھِّرِیْنَ
ترجمہ: یقیناً اللہ کثرت سے توبہ کرنے والوں سے محبت کرتا ہے اور پاک صاف رہنے والوں سے (بھی) محبت کرتا ہے۔(سورۃ البقرۃ: 223)
یعنی خدا تعالیٰ پاک ہے اور پاک صاف رہنے والوں سے محبت رکھتا ہے۔ اس صفائی سے مراد صرف روحانی اور جسمانی صفائی ہی نہیں بلکہ اپنے گھر اپنے ماحول کی بھی صفائی ہے۔ اگر آپ کو اپنا گھر صاف ستھرا رکھنے کی عادت ہو گی تو پھر آپ اپنے ارد گرد بھی صفائی رکھیں گے۔
ہم اپنے بچوں کی تعلیم و تربیت کی طرف تو بہت توجہ دیتے ہیں۔ بچپن سے ان کو یہ سکھاتے ہیں کہ آپ نے بڑے ہو کر مربی سلسلہ، ڈاکٹر،انجنیٔر بننا ہے ماسٹرز کرنا ہے۔عبادات کی طرف بھی ان کی توجہ مبذول کراتے رہتے ہیں لیکن ان کو یہ بھی سکھانا چاہیےکہ آپ نے گھر کو بھی صاف ستھرا رکھنا ہے۔اپنے کمرے کو صاف رکھنا ہے۔ آجکل کے دور میں زیادہ تر بچوں کے پاس اپنا کمرہ ہوتا ہے لیکن بعض بچوں کا کمرہ اکثر بے ترتیب ہوتا ہے۔ اسکول،کالج سے آکر وہ اپنے کپڑے جوتے سب ادھر اُدھر پھینک دیتے ہیں،ان کی کتابیں یا کھلونے سب کمرے میں بکھرے پڑے ہوتے ہیں،صبح اٹھ کر اسکول جاتے ہیں تو کمرے کا وہی رات والا حال ہوتا ہے،یہ بے ترتیبی ان کی روز مرہ زندگی میں بھی نظر آتی ہے اور یہی بچے اور بچیاں جب بڑ ے ہو کر اپنی زندگی شروع کرتے ہیں تو ان کو کافی مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ایک عورت جو صفائی پسند ہے اگراس کا خاوند گھر آکر اپنے جوتے، کپڑے اِدھر اُدھر پھینک دے، لیپ ٹاپ، فون صوفے پر پڑے نظر آئیں، صبح باتھ روم کو استعمال کے بعد اس حال میں چھوڑ کر جائے کہ بے ترتیبی کا کوئی حال نہ ہو تو عورت کے لیے کافی مشکل ہوتی ہے۔ان ممالک میں اور انڈیا، پاکستان میں بھی ہر گھر میں نوکر کی سہولت ہر ایک کو میسر نہیں ہوتی۔خاتون خانہ کو خود ہی سارے کام کرنے پڑتے ہیں۔ایسے میں اگر مرد بچپن سے اپنی چیزیں سمیٹ کر رکھنے کا عادی ہے صفائی پسند ہے اور گھر آکر اپنی ہر چیز ترتیب سے رکھتا ہے تو عورت کے دل میں اس کے لیے محبت اور شکر گزاری کا جذبہ اَور بڑھ جاتا ہے۔اسی طرح اگر ایک مرد صفائی پسند ہے لیکن اس کی بیوی کسی حد تک لاپروا ہے توایسی صورت میں جب وہ کام سے گھر واپس آتا ہے اور اس کو کچن بکھرا ہوا، اپنا اور بچوں کاکمرہ صبح کی طرح بکھرا ہوا نظر آتا ہے،کھانا بھی وقت پر تیار نہیں تو اس کو اسُ گھر میں آکر سکون حاصل نہیں ہو گا۔ایسے گھر جنت کا نمونہ نہیں بن سکتے۔
ایک موقع پر آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
’’خاوند کے گھر کی عمدگی کے ساتھ دیکھ بھال کرنے اور اسے اچھی طرح سنبھالنے والی عورت کو وہی ثواب اور اجر ملے گا جو اس کے خاوند کو اپنی ذمہ داریاں ادا کرنے پر ملتا ہے۔‘‘ (اسد الغابہ معرفۃ الصحابہ)
حضرت ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحبؓ اپنی بیٹی حضرت سیدہ مریم صدیقہ صاحبہ (چھوٹی آپا )کی شادی پر انہیں ایک نصیحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ’’جس بی بی کو گھر کی صفائی، پکانا،سینا اور خانہ داری آتی ہے وہ خاوند کو زیادہ خوش رکھ سکتی ہے۔بہ نسبت اُس کے جو نکمی ناولیں یا قصے ہی پڑھتی رہتی ہے یا اپنے بناؤ سنگھار میں لگی رہتی ہے۔‘‘
(روزنامہ الفضل 5؍ستمبر2009ء صفحہ 5)
حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہؓ بچیوں کو نصیحت کرتے ہوئے فرماتی ہیں :
’’میاں جب باہر سے آئے تو تیار رہو۔جب باہر جائے تب بھی تمہار ا حلیہ درست ہو تاکہ جب وہ تمہارا تصور کرے تو خوشکن ہو نہ کہ بال پھیلائے ہو ئے ایک بد بودار عورت کا۔‘‘
(سیرت سوانح سیدہ نواب مبارکہ بیگم صاحبہ صفحہ 255)
بعض اوقات ہماری خواتین رات کے ہی کپڑوں میں دن گزار دیتی ہیں۔خاوند جب گھر واپس آتا ہے تو وہ اسی حالت میں نظر آتی ہیں۔ بہترہے کہ خاوند کے آنے سے پہلے صاف ستھرے کپڑے پہن کر بیشک ہلکا پھلکا سا تیار ہوکر بچوں کو بھی اسکول کے کپڑے تبدیل کروا کر ان کا استقبال کریں تاکہ خاوند جب گھر آئے تو اس کا دل اپنے صاف ستھرے گھر، بیوی بچوں کو دیکھ کر خوشی اور سکون سے بھر جائے۔
حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں کہ
’’ اللہ تعالیٰ پاک صاف رہنے والوں سے محبت کرتا ہے جیساکہ اس آیت (سورۃ البقرہ :223۔ ناقل)میں فرمایا ہے کہ اصل اللہ تعالیٰ کا محبوب انسان اس وقت بنتا ہے جب توبہ استغفار سے اپنی باطنی صفائی کا بھی ظاہری صفائی کے ساتھ اہتمام کرے۔ہم میں سے ہر احمدی کا فرض بنتا ہے کہ ایمان کا دعویٰ کرنے کے بعد ہم اپنی ظاہری و باطنی صفائی کی طرف خاص توجہ دیں تاکہ ہماری روح و جسم ایک طرح سے اللہ کی محبت کو جذب کرنے والے ہوں۔ ‘‘
(روزنامہ الفضل 16؍مارچ 2016ء صفحہ 3)
مختصر یہ کہ وہ گھر جو صاف ستھرا ہو جس میں بچے بڑے صاف ستھرے ہوں،میاں بیوی کا آپس میں اور بچوں کا بڑوں سے ایک محبت کا تعلق ہو،گھر میں پنج وقتہ نمازوں کی پابندی ہو اور صبح سویرے قرآن کریم کی تلاوت کی آواز گھر میں سنائی دے،جماعت اور خلافت سے اطاعت اور محبت نظر آئے وہی گھر قابلِ تعریف ہے اور جنت نظیر بھی۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اپنے گھروں کو پُرسکون بنانے کی توفیق دے آمین۔
٭…٭…٭