یادِ رفتگاں

محمد اسلم خالد صاحب

(شمائلہ معظم)

آج قلم کشائی کا مقصد ایک ایسی ہستی کو خراج تحسین پیش کرنا ہے جن کے بنا میرے لیےزندگی کا تصور محال تھا۔ مگر ہر ذی روح کو خدا کے حضور بہرحال حاضر ہونا ہے سو دل کو یہی تسلی ہے کہ رب کی ذات نے بہت بلند درجات کیے ہوں گے ایک ایسے شخص کے جن کی انگلی پکڑ کر میں نے چلنا سیکھا یعنی میرے والد محترم محمد اسلم خالدصاحب۔

میرے پیارے ابو یکم جنوری 1941ء کوحضرت شیر محمد چودھری اور رحمت بی بی کے گھر کھماچوں ضلع لدھیانہ میں پیدا ہوئے۔ یہ وہ دَور تھا جب مسلمانوں کا ایک الگ مملکت حاصل کرنے کاجوش اور ولولہ عروج پہ تھا۔ ایسے حالات میں جنم لینا اور پھر ایک تاریخ کو اپنے ہوش و حواس میں رقم ہوتے دیکھنا یقیناً ایک انمول تجربہ ہے۔

احمدیت کی آمد

میرے دادا شیر محمد چودھری صاحب کے والد محمد ابراہیم صاحب کو 1905ءمیں ان کے ایک دوست جمال دین صاحب نے آ کر بتایا کہ ایک شخص یہ کہتا ہے کہ میں مسیح موعود ہوں۔ میں نے تو بیعت کر لی ہے تم بھی کر لو۔ اس طرح انہوں نے 1905ء میں بیعت کی اور وصیت بھی کی اور ہمارے خاندان کے لیے نعمت حق کا وسیلہ ظفر بنے۔

جب 14؍ اگست 1947ء کو پاکستان معرض وجود میں آیا تو ہمارا خاندان ہندوستان میں اپنے گھر وں میں بہت سکون سے بیٹھا تھا۔ شاید اس یقین سے کہ جن اضلاع میں یہ لوگ مقیم تھے وہ پاکستان کا حصہ بنیں گے۔ مگر قسمت کی ستم ظریفی کہ وہ علاقے پاکستان کا حصہ نہ بن سکے۔ پس میرے خاندان کے بزرگوں کو اپنے خون پسینے کی محنت کی کمائی سے بنا مال و اسباب سب چھوڑ کر ہجرت کرنا پڑی۔ میری دادی جان کو میرے ابو سے بہت پیار تھا۔ میرے ابو بڑے بھائی کے 12سال بعد اپنے ماں باپ کی دوسری اولاد تھے۔ اس وجہ سے دادی جان کے خاص نورنظر تھے۔ دادی جان خاص ابو کے لیے کھانے بناتی تھیں اوران سے خوب لاڈکرتیں۔ دادی جان اس خوف سے کہ راستے میں ان کے فرزند کو کوئی گزند نہ پہنچے، ان کو ساتھ لانے کے لیے تذبذب کا شکار تھی۔ کچھ سمجھ نہ آتی تھی مگرآخر کار اللہ پر یقین کر کے میرے والد کو بھی ساتھ لے لیا۔ اس طرح یہ لوگ پیدل لدھیانہ سے لاہورآگئے۔ بعد ازاں بڑے بھائی سے مشورے کے بعد ان کو لاہور رہنے کے لیے کہا اورخود پھر وہاں سے جھنگ صدر آ گئے اور وہاں مقیم ہوئے۔

ابتدائی تعلیم

والد صاحب نے ابتدا ئی تعلیم جھنگ کے سکول سے حاصل کی اور پھر فیصل آباد کالج میں داخلہ لیا۔ آپ بہت ہی ذہین اور لائق طالب علم تھے اور پڑھنے کا بے حد شوق رکھتے تھے۔ آپ نے فیصل آباد کالج سے بی سی ایس (حیوانیات۔ نباتیات۔ کیمسٹری) کے مضامین میں تعلیم حاصل کی۔ والد صاحب ایک وسیع شخصیت کے مالک تھے اور تعلیم کے علاوہ سیرو تفریح، خوش خوراک، خوش لباس وغیرہ اور خاص طور پر دین سے محبت قابل دید تھی۔ حضرت مسیح موعودؑ اور آپ کے خلفاء کی تصانیف سے خاص شغف تھا۔ آپ کی پسندیدہ کتب میں حضرت چوہدری سر ظفراللہ خان صاحبؓ کی کتاب ’’تحدیث نعمت‘‘ شامل تھی۔

طنزومزاح

میرے ابو کی بہترین خصوصیات میں حس مزاح کا ذکر نہ کرنا نا انصافی ہو گی۔ نوجوان بچوں سے گھل مل کر ان کی باتوں کو اہمیت دینا اور ادب کو ملحوظ رکھتے ہوئے ہنسنا کھیلنا معمول تھا۔ وہ جس محفل میں جاتے تھے اس کی رونق بن جاتے تھے۔ وسعت نظری کی وجہ سے کسی بھی موضوع پر سیر حاصل بحث کیا کرتے تھے۔

شخصیت اور مزاج

والد صاحب جاذب نظر شخصیت کے مالک تھے۔ شخصیت میں رعب اور دبدبہ بھی تھا مگر انداز ہمیشہ اپنائیت کا تھا۔ دراز قد، آواز میں بھاری پن مگر لہجہ دوستانہ ہوا کرتا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ انسان اپنے خونی رشتوں سے لازمی نبھا کرتا ہے مگر جو شخص انسانی رشتوں کو بھی اپنائیت، محبت اور بے لوث جذبوں سے سینچنا جانتا ہو وہ ہمیشہ کے لیے لوگوں کے دلوں میں گھر کر جاتا ہے۔ Pakistan Ordinance Factoryمیں 25سالہ نوکری کے دوران بہت سے اچھے دوست بنائے اور دکھ سکھ کے وقت دوستی کے فرائض بخوبی ادا کیے۔ مگر یہ نوکری چھوٹنے کے بعد ابو کو اسلام آباد میں نوکری کی وجہ سے دوستوں کو وقت نہ دے پانے کا خیال تھا۔ اس لیے تمام دوستوں سے صلاح اورمشورے کے بعد یہ طے پایا کہ ہفتے کی رات کو سب دوستوں کی محفل کسی ایک کے گھر سجا کرے گی۔ اور پھر تمام دوست اس فیصلے کی اہتمام سے پابندی کیا کرتے تھے۔ اور تمام دوست اپنے ضروری کام بھی اکثر چھوڑ کر پابندی سے شامل ہوا کرتے تھے۔ عام طور پر ابو کے چار بہترین دوست جو POF سے ہی تعلق رکھتے تھے اس محفل کا لازمی حصہ ہوا کرتے تھے۔ اکثر مذاقاًکہا کرتے تھے کہ ہفتہ کی رات کو تو مرنا بھی نہیں ہے۔ مگر ابو کی وفات پر ایک دوست نے آبدیدہ ہوکر محبت بھری شکایت کی کہ دیکھو ہمیں کہا کرتا تھا کہ ہفتے کو تو مرنا بھی نہیں ہے مگر خود ہفتے کے روز ہی ہمیں چھوڑ کرچلا گیا۔

مہمان نوازی

میرے والد صاحب کو اچھا کھانا پکانے اور کھانے کا نہایت شوق تھا۔ شادی سے پہلے دوستوں کے ساتھ رہنے کی وجہ سے کھانا بنانے میں خوب ماہر تھے۔ ریٹائر منٹ کے بعد دوبارہ کچن سنبھال لیا تھا اور ہر تقریب میں یا مہمان کے آنے پر خاص اہتمام کیا کرتے تھے۔ بہترین کھانے بناتے اور خوب داد وصول کیا کرتے تھے۔ اس طرح امی جان کی مدد بھی مقصود ہوتی تھی اور خود کو کسی کام میں مصروف رکھنا بھی۔ میرا اور میرے شوہر کا جب جانا ہوتا تو بہت شوق سے پسند کی ڈشیں بنایا کرتے۔ نیز سب بچوں کے سسرال والوں کی خوب آؤ بھگت کیا کرتے۔

شادی اور اولاد

ابو کی شادی 28سال کی عمر میں اپنی پھوپھی زاد(سلمہ خالد) کے ساتھ 24؍ دسمبر 1969ءکو ہوئی۔ آپ کو تعلیم کے بعد POF واہ کینٹ میں نوکری مل گئی۔ شروع میں آپ واہ کینٹ میں اکیلے رہتے تھے بعد میں گھر مل گیا تو میری والدہ کو بھی ہم راہ لے گئے۔

اللہ تعالیٰ نے ان کو 2بیٹے اور 2بیٹیوں سے نوازا۔ سب سے پہلی اولاد میری ہمشیرہ ڈاکٹر تومانا وسیم زوجہ ڈاکٹر وسیم احمد چودھری تھیں جو23؍ مارچ 1971ء کو پیدا ہوئیں۔ آج کل دنیا پور میں مقیم ہیں۔ پھر میرے بڑے بھائی احسن شیروز 18؍ مئی 1975ءکوپیدا ہوئے۔ آپ اس وقت جرمنی میں مقیم ہیں۔

اس کے بعد میرے دوسرے بھائی اطرش اسلم 5؍ مئی 1978ء کو پیدا ہوئے جو لاہور میں مقیم ہیں اور پھر خاکسار شمائلہ معظم زوجہ معظم ممتاز 21؍جون 1980ء کو پیدا ہوئی اور اپنے شوہر کے ساتھ اسلام آباد میں مقیم ہوں۔

اولاد کی تعلیم و تربیت

والد صاحب نےاپنی اولاد کے لیے بہترین تعلیم کے حصول اور بچوں کو روشن مستقبل مہیا کرنےکےلیے کسی قربانی سے دریغ نہیں کیا۔ ہم سب بہن بھائیوں کو اچھی سے اچھی جگہ تعلیم دلوائی اور بچوں کی تعلیمی سرگرمیوں میں خصوصی دلچسپی لینا ان کی اولین ترجیح تھی۔ بچپن سے ہمیں اچھے اسکولوں میں تعلیم دلوائی۔ اگرچہ ان کی تنخواہ اتنی زیا دہ نہ تھی مگر محدود وسائل کے باوجود ابو نے ہماری تعلیم کے لیےاخراجات کرنےمیں کبھی پریشانی کا اظہارنہ کیا۔

سب سے پہلے ہمشیرہ نے ایف۔ ایس۔ سی کی تو ان کا میڈیکل کالج میں ایڈمیشن کچھ نمبروں سے رہ گیا۔ ابو نے بہت کوشش کی اور فیکٹری کے چیئرمین کے پاس گئے۔ وہاں سے پتہ چلا کہ فیکٹری کے ملازمین کے لیے کوٹہ مختص کیا گیا ہے جس سے استفادہ کر کے باجی کو میڈیکل میں ایڈمیشن ملنا ممکن ہو سکا۔ ابو کی کوشش سے باجی کا ایڈمیشن ایف جے ایم سی لاہور میں ہو گیا اور وہ اللہ کے فضل سے ڈاکٹر بننے میں کامیاب ہو گئیں۔ اس کے بعد بہت سے لوگوں نے کوٹہ کی اس سہولت سے فائدہ اٹھایا حالانکہ اس سے قبل صرف اعلیٰ عہدیدار ہی اس سہولت سے استفادہ کیا کرتے تھے اور عام لوگوں کی کم علمی کی وجہ سے بہت سے لوگ اس سہولت سے محروم رہ جاتے۔

بڑے بھائی نے جب ایف۔ ایس۔ سی کی تو ان کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی معاملہ ہوا اور پھر ابو نے پتہ کروایا کہ یونیورسٹی میں کھلاڑیوں کے لیے بھی کوٹہ مخصوص ہوتا ہے۔ بھائی کو والد صاحب لے کر چلے گئے اور وہاں پر بھائی کا ٹیسٹ ہوا تو بھائی بولنگ میں فرسٹ پوزیشن حاصل کر گئے اور ان کی سلیکشن ممکن ہو سکی۔ یوں بڑے بھائی زرعی یونیورسٹی فیصل آباد کا حصہ بن گئے۔ بڑے بھائی نے زرعی یونیورسٹی سے بعدازاں بی ایس سی آنرز اور ایم ایس سی آنرز مکمل کیا۔

اس کے بعد چھوٹے بھائی نے جب ایف ایس سی کی تو زمانہ ہی الگ تھا اور ہر طرف کمپیوٹر کا دور دورہ تھا۔ ابو نے ان کو کمپیوٹر کے شعبہ میں بی سی ایس کروایا۔ آخر میں خاکسار نے بی سی ایس اور پھر ایم سی ایس کیا۔

اللہ کے فضل سے ابو نے اپنی ہمت اور حوصلے سے کم وسائل میں بھی اپنے بچوں کی اعلیٰ تعلیم کے شوق بھی پورے کیے اور دور جدید کے علمی تقاضوں کو مدنظر رکھتے ہوئے بہترین تعلیم مہیا کی۔ یہی وجہ تھی کے ہماری نظروں کے سامنے ہوتی ہوئی قربانیوں کی وجہ سے اولاد بھی ان سب قربانیوں کو قدر کی نگاہ سے دیکھتی ہے۔ بلکہ بڑے بھائی تو جب بھی ابو کے پاس آتے تو عقیدت سے ابو کے پیر دباتے۔ وفات سے ایک مہینہ پہلے بھی جب بڑے بھائی فیملی کے ساتھ آئے تو ابو ان کی آمد پر آبدیدہ ہو گئے۔ اور پھر بھائی نے کافی وقت ابو کو دبا یا اور محبت سے ان کی دلجوئی کی۔

سب بچوں کی شادیاں اللہ کے فضل سے احمدی گھرانوں میں ہوئیں اور ابو اکثر کہا کرتے تھے کہ یہ بچے تو احمدیہ جماعت کی پانچویں نسل ہیں ان پر تو اللہ کا فضل ہونا ہی ہے۔

خدمت دین

نوکری سے ریٹائرمنٹ کے بعد جماعت کا کام زورو شور سے شروع کر دیا۔ بہت ہی نیک نیتی سے سارے فرائض ادا کرتے اور نظام جماعت میں عملی طور پر اپنا حصہ ڈالنے کو خوش نصیبی گردانتے۔

جلسہ سالانہ قادیان میں شمولیت

اللہ کے فضل سے دسمبر 2006ء میں ہماری والدہ صاحبہ کے ہم راہ جلسہ سالانہ قادیان میں شرکت کی۔ ان کے لیے وہ بہت ہی روح پرور سفر تھا۔ قادیان کے تمام مقدس مقامات پر گئے ۔تصاویر بنوائیں۔

جلسہ سالانہ یوکے میں شمولیت

اللہ تعالیٰ کے فضل سے آپ کو جولائی 2008ء میں صدسالہ خلافت جوبلی کے سال میں جلسہ سالانہ یوکے میں شرکت کی توفیق ملی اور حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ سے ملاقات کا شرف حاصل ہوا۔

والد صاحب کی جب حضور انورسے ملاقات ہوئی تو گفتگو اردو میں ہوئی شروع مگر پھر ابو نے حضور سے عرض کی کہ حضور مزا نہیں آرہا پنجابی میں بات کرتے ہیں۔ اور پھر بقیہ گفتگو پنجابی میں ہوئی۔ دوران ملاقات والد صاحب نے حضورانور کی خدمت میں جھنگ کا ایک واقعہ کچھ یوں پیش کیا۔

ابو کے والد اور ان کے بھائی ایک ہی گھر میں رہتے تھے۔ جمعہ کے روز دونوں بھائی جلد ہی دکان سے گھر آ جایا کرتے تھے۔ اور آ کر اپنی پگڑی اور کپڑے تیار کرنے لگتے۔ کبھی ایک بھائی دوسرے کو اور کبھی دوسرا پہلے کو آواز دے کر کہتے۔

’’چل شیریا اج حضرت صاحب دے پچھے جمعہ پڑھ آئیے۔ ‘‘

اس طرح دونوں بھا ئی ربوہ جا کر حضور کے پیچھے جمعہ پڑھتے۔ جب جمعے کے بعد حضور سے ملاقات ہوتی اور مصافحہ ہوتا تو دونوں بھائیوں نے گھر آ کر سب کو بتا نا اور بے حد خوش ہوتے ہوئے کہنا کہ’’اج تے موجاں ہی ہو گیاں۔ ‘‘

یہ واقعہ سننے کے بعد حضور انور نے میرے ابو سے پوچھا کہ آپ کی اولاد میں سے اب کوئی ایسا کہتا ہے؟ تو ابو نے کہا کہ حضور ہماری پانچویں نسل چل رہی ہے اور یہ بھی ویسے ہی ہیں۔ اس جواب پر حضورانور مسکرا دیے۔ پھر ابو نے حضور کے ساتھ یادگار کے لیے تصاویر بنوائیں۔

خدمت خلق

ابو نہایت خوش گو اور نرم دل انسان تھے۔ دوسروں کی مدد کرنا پسند تھی اور اکثر کہا کرتے تھے کہ نیک نیتی کے ساتھ کام کرو تو تمہارے سارے کام خود ہی ٹھیک ہو جائیں گے۔

ان کی ایک بات مجھے بہت اچھی لگتی۔ وہ کہا کرتے تھے کہ اپنے دکھ کسی کو نہ بتایا کرو سوا ئےاس کے جو واقعی تمہارے لیے کچھ کر گزرے۔

عموماً والد صاحب ہمیں خاص طور پر کوئی نصیحت نہیں کرتے تھے بلکہ جو بھی سمجھانا مقصود ہوتا تھا وہ عملی طور پر اپنے نمونے کے ذریعہ سمجھاتے۔

آخری علالت اور وفات

اگست 2015ء کو سب اہل خانہ کے ساتھ کالام کی سیرو تفریح کے بعد گھر پہنچے تو طبیعت ناساز ہوئی۔ کچھ مہینے ٹیسٹ ہوتے رہے اور پھر جگر کے کینسر کی تشخیص ہوئی۔ اللہ تعالیٰ کا کرنا تھا کہ ایک سال پہلے ہی میرے بھائی کی نوکری لاہور منتقل ہو گئی اور وہ فیملی سمیت لاہور شفٹ ہو گئے تھے۔ شوکت خانم لاہور سے ان کا علاج تقریبا ًآٹھ مہینے جاری رہا۔ دسمبر میں ٹی اے سی ای ٹیسٹ بھی کیا اور اس کے بعد طبیعت قدرے سنبھلنے لگی۔ 18؍فروری 2016ءکو واہ کینٹ اور اسلام آباد کا چکر بھی لگایا۔ مگر اپریل کے مہینہ میں طبیعت پھر خراب ہونا شروع ہو گئی۔ 18؍ رمضان المبارک کو جمعے کی رات کو بھائی ابو کو شوکت خانم میموریل ہسپتال لے گئے اور ابو کو داخل کر لیا گیا۔ ڈاکٹرز نے ان کا علاج شروع کر دیا۔ ابو کی طبیعت زیادہ خراب ہو گئی اور ہفتے کی شام 19؍رمضان المبارک بمطابق 25؍جون 2016ء مغرب کے وقت اپنے خالق حقیقی سے جا ملے۔ انا للّٰہ و انا الیہ راجعون

میرے والد صاحب کی عمر 75سال تھی۔ اللہ کے فضل سے آپ مو صی تھے۔

نماز جنازہ اور تدفین

شوکت خانم سے ان کو ربوہ لے جایا گیا۔ میرے جرمنی والے بھائی بھی پاکستان پہنچ گئے اور والد صاحب کو غسل دینے میں بھی شامل ہوئے۔ آپ کی تدفین بہشتی مقبرہ توسیع میں عمل میں آئی۔

میری زندگی میں جتنی خوشیاں ہیں ان کی بنیاد میرے ابو نے رکھی۔ کم عمری میں جب شعوری طور پر بالغ نہیں تھی تو والدین کے احسانات ایک کتابی سی بات لگتی تھی۔ آج میں خود ماں ہوں اور جب میں اپنے ماضی میں اپنے والد کی قربانیوں کے بارے میں سوچتی ہوں تو احساس ہوتا ہے کہ میں تو 100 مرتبہ بھی پیدا ہو جاؤں تو کبھی ماں باپ کی قربانی اور احسان کا بدلہ نہیں چکا سکتی۔

میں خوش قسمت ہوں کہ میرے والد نے اتنی قربانیوں اور کوششوں سے میری زندگی کو میرے لیے سہل بنایا۔ اور خود اپنی ساری زندگی کی خوشیوں کو اپنی اولاد کے سکون اور کامیابی کی امیدوں پر خوشی سے قربان کر دیا۔

میری تحریر میرے والد صاحب کو خراج تحسین پیش کرنے کی ایک معمولی کوشش ہے۔ مگر خواہش ہے کہ قارئین ماں باپ کی شکل میں اس انمول نعمت کی اہمیت کا احساس کریں۔ دین نے جو ماں باپ کی خدمت کا اسلوب بیان کر دیا ہے اس کی حکمت کو سمجھیں اس سے پہلے کے بہت دیر ہو جائے۔ آپ زندگی کے چاہے کسی بھی حصے میں چلے جائیں والدین کا رشتہ ہمیشہ آپ کے لیے انمول رہے گا۔ یقین نہ آئے تو کسی ضعیف بزرگ کے سامنے والدین کا ذکر چھیڑ کر ان کی آنکھوں میں اداسی کی جھلک دیکھ لیجیے۔

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button