تو کیا پھر علماء کا عقیدہ صحابہؓ کے اجماع کے برخلاف ہے؟
صحابہ کے لیے رسول کریمﷺ کے وصال کا یقین کرنا مشکل امر تھا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ جیسے صحابی یہ کہہ رہے تھے
وَعُمر یَخْطُبُ النَّـاسَ ویَتَکلَّمُ وَیَقُوْلُ اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہ لَا یَمُوْتُ حَتّٰی یُفْنِی اللّٰہُ عزَّ وَجَلَّ الْمُنَافِقِیْنَ
(مسند احمد حدیث نمبر 26365مسند عائشہ)
’’اس وقت حضرت عمر لوگوں کے سامنے تقریر اور گفتگو کر رہے تھے اور کہہ رہے تھے کہ نبی علیہ السلام کا وصال اس وقت تک نہیں ہوگا جب تک اللہ منافقین کو ختم نہ فرما دے ‘‘۔
(مترجم مسند امام احمد بن حنبل جلد نمبر 11 مترجم مولانا محمد ظفر اقبال صفحہ نمبر 498)
اس موقع پر حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے رسول کریمﷺ کی وفات کا اعلان کچھ اس طرح کیا۔
اَنَّ ابَا بَكْرٍ رَضِيَ اللّٰهُ عَنْهُ خَرَجَ وَعُمَرُ رَضِيَ اللّٰهُ عَنْهُ يُكَلِّمُ النَّاسَ، فَقَالَ: اجْلِسْ فَأَبَى، فَقَالَ: اجْلِسْ فَأَبَى، فَتَشَهَّدَ أَبُو بَكْرٍ رَضِيَ اللّٰهُ عَنْهُ فَمَالَ إِلَيْهِ النَّاسُ وَتَرَكُوا عُمَرَ، فَقَالَ: أَمَّا بَعْدُ، فَمَنْ كَانَ مِنْكُمْ يَعْبُدُ مُحَمَّدًا صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَإِنَّ مُحَمَّدًا صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ مَاتَ، وَمَنْ كَانَ يَعْبُدُ اللّٰهَ فَإِنَّ اللّٰهَ حَيٌّ لَا يَمُوتُ، قَالَ اللّٰهُ تَعَالَى: وَمَا مُحَمَّدٌ إِلَّا رَسُولٌ إلى الشَّاكِرِينَ (سورة آل عمران آية 144) وَاللّٰهِ لَكَأَنَّ النَّاسَ لَمْ يَكُونُوا يَعْلَمُونَ أَنَّ اللّٰهَ أَنْزَلَ الآيَةَ حَتّٰى تَلَاهَا أَبُو بَكْرٍ رَضِيَ اللّٰهُ عَنْهُ فَتَلَقَّاهَامِنْهُ النَّاسُ، فَمَا يُسْمَعُ بَشَرٌ إِلَّا يَتْلُوهَا.
(صحیح بخاری حدیث نمبر 1241کتاب:جنازے کے احکام و مسائل باب:میت کو جب کفن میں لپیٹا جا چکا ہو تو اس کے پاس جانا ( جائز ہے ))
’’ابوبکر رضی اللہ عنہ(اس کے بعد حجرے سے)نکلے اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ لوگوں سے باتیں کر رہے تھے۔ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے کہا :آپ بیٹھیے۔ وہ نہ مانے حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے پھر کہا بیٹھیے وہ نہ مانے۔ آخر ابو بکر رضی اللہ عنہ نے کلمہ شہادت پڑھا، لوگ سب ان کی طرف جھک گئے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو چھوڑ دیا۔ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے کہا اما بعد مسلمانو! تم میں جو شخص محمدﷺ کی عباد ت کرتا تھا تو ان کا آج وصال ہوچکا ہے، جو اللہ کی عبادت کرتا تھا وہ اللہ ہمیشہ زندہ ہے۔ کبھی اس پر موت واقع نہ ہو گی۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے
وَمَا مُحَمَّدٌ اِلَّا رَسُوْلٌ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِہِ الرُّسُلُ…الشَّاکِرِیْنَ(محمدﷺ)
پیغمبر ہی تو ہیں (خدا نہیں) ان سے پہلے بھی کئی رسول گذر چکے کیا اگر یہ وصال فرما جائیں یا شہید کر دئے جائیں تو تم الٹے پاؤں پھر جاؤ گے ؟ اور جو الٹے پاؤں پھر جائے گا (دین سے منحرف ہوجائے گا ) تو وہ اللہ کا نقصان نہیں کرے گا اور اللہ تو شکر گزاروں کو عنقریب جزا دے گا۔ خدا کی قسم ایسا معلوم ہوا کہ گویا لوگ جانتے ہی نہ تھے کہ اللہ نے یہ آیت بھی نازل کی ہوئی ہے۔ حتّی کہ ابو بکر رضی اللہ عنہ نے اسے تلاوت کیا ‘‘
(صحیح بخاری جلد اول صفحہ نمبر 581 ترجمہ مولانا عبد الرزاق دیوبندی مکتبہ رحمانیہ اقرا سنٹر غزنی سٹریٹ اردو بازار لاہور )
غور طلب امور
(1)آیت کریمہ میں گذشتہ انبیاء کے گزرنے کی دو صورتیں بتائی گئیں کہ وفات یا قتل یعنی شہید۔ اگر گذشتہ کسی ایک نبی کے گزرنے کی کوئی اور صورت ہوتی تو اس کا تذکرہ بھی ہونا چاہیے تھے۔ یعنی جسم سمیت زندہ آسمان پر جانا۔ اس چیز کا ذکر نہ ہونا بتاتا ہے کہ گذشتہ انبیاء کے گزرنے کی صرف یہی دو صورتیں تھیں۔ یا تو ان کی وفات ہوئی اور یا وہ قتل (شہید)ہوئے۔
(2)حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کا آیت کریمہ پیش کرنے کا مقصد یہ استدلال کرنا تھا کہ رسول کریمﷺ کی وفات ہوچکی ہے کیونکہ صحابہ کو رسول کریمﷺ کی وفات کا یقین نہیں ہورہا تھا۔ یہ مقصد اور یہ استدلال اسی صورت میں ہوسکتا تھا جب گذشتہ انبیاء کے گزرنے کی دو صورتیں ہی ہوں یعنی وفات یا قتل۔ اگر تیسری صورت یعنی زندہ جسم سمیت آسمان پر جانے کا علم کسی ایک صحابی کو ہوتا یا قرآن کریم کی کسی ایک آیت میں بھی زندہ جسم سمیت جانے کی صورت بیان ہوتی یا رسول کریمﷺ کی کسی ایک حدیث میں بھی آسمان پر جانے کا ذکر ہوتا تو کوئی ایک ہی صحابی وہ آیت یا حدیث پیش کرکے حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کے استدلال کو کمزور کر سکتاتھا۔ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے استدلال کے بالمقابل کسی صحابی کا کوئی بات نہ کرنا بلکہ استدلال کو درست تسلیم کرتے ہوئے رسول کریمﷺ کی وفات کا یقین کرلینا بتاتا ہے کہ گذشتہ انبیاء کے گزرنے کی دو صورتوں یعنی وفات یا قتل کے علاوہ تمام صحابہ کے علم میں کوئی اَور صورت نہ تھی۔ جبکہ آج کل کے نام نہاد مسلمان صحا بہ کرام کے پہلےاجماع کے برخلاف گذشتہ انبیاء میں سے ایک نبی یعنی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے زندہ جسم سمیت آسمان پر جانے کی صورت پر ایمان لائے بیٹھے ہیں۔
(3) رسو ل کریمﷺ کے وصال مبارک کے بعد سب سے اہم امر خلافت تھا۔ جس کے حوالے سے صحابہ کے دلائل کا باہم تبادلہ ہوا۔ کئی آراء کا تذکرہ ہوا۔ بہرحال باہم گفتگو اور دلائل کے بعد حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کی خلافت پر صحابہ کا اتفاق ہوا۔ پھر بھی چند ایک کبار صحابہ میں سے بعض نے اس موقع پر بیعت نہیں کی۔ وصال النبیﷺ کے حوالے سے بھی بعض صحابہ کو شبہ پیدا ہوا لیکن حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کے استدلال کے بعد کسی ایک صحابی کا اس استدلال پر بحث نہ کرنا بتاتا ہے کہ وہ استدلال بہت مضبوط اور تمام صحابہ کا متفقہ عقیدہ تھا۔ حالانکہ خلافت سے بھی زیادہ اہم امر وصال النبیﷺ تھا۔ اگر کسی ایک صحابی کے علم میں بھی یہ بات ہوتی کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام زندہ جسم سمیت آسمان پر موجود ہیں تو وہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے استدلال کے بالمقابل اس کا تذکرہ لازماً کرتے۔
(مرسلہ: عبد الکبیر قمر)