حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز

جماعت میں کون داخل ہوتا ہے

دسویں شرط بیعت(حصہ پنجم)

………………………………………………

جماعت میں کون داخل ہوتا ہے

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں: ’’ہماری جماعت میں وہی داخل ہوتاہے جو ہماری تعلیم کو اپنا دستور العمل قرار دیتاہے اور اپنی ہمت اور کوشش کے موافق اس پر عمل کرتاہے۔ لیکن جو محض نام لکھا کر تعلیم کے موافق عمل نہیں کرتا تو یاد رکھے کہ خداتعالیٰ نے اس جماعت کو ایک خاص جماعت بنانے کا ارادہ کیاہے اور کوئی آدمی جو دراصل جماعت میں نہیں ہے محض نام لکھوانے سے جماعت میں نہیں رہ سکتا۔ اس پر کوئی نہ کوئی وقت ایسا آ جائے گا کہ وہ الگ ہوجائے گا۔ اس لئے جہاں تک ہو سکے اپنے اعمال کو اس تعلیم کے ماتحت کرو جو دی جاتی ہے‘‘۔

وہ تعلیم کیا ہے؟ آپ فرماتے ہیں کہ ’’فتنہ کی بات نہ کرو۔ شر نہ کرو۔ گالی پر صبر کرو۔ کسی کا مقابلہ نہ کرو۔ جو مقابلہ کرے اس سے سلوک اور نیکی سے پیش آؤ۔ شیریں بیانی کا عمدہ نمونہ دکھلاؤ۔ سچے دل سے ہر ایک حکم کی اطاعت کرو کہ خدا تعالیٰ راضی ہو اور دشمن بھی جان لے کہ اب بیعت کرکے یہ شخص وہ نہیں رہا جو کہ پہلے تھا۔ مقدمات میں سچی گواہی دو۔ اس سلسلہ میں داخل ہونے والے کو چاہئے کہ پورے دل، پوری ہمت اور ساری جان سے راستی کا پابند ہو جاوے۔ دنیا ختم ہونے پر آئی ہوئی ہے۔ ‘‘

(ملفوظات۔ جدید ایڈیشن۔ جلد سوم۔ صفحہ 620-621)

اب یہاں جس طرح آپؑ نے فرمایاکہ فتنہ کی بات نہ کرو۔ بعض لوگوں کو عادت ہوتی ہے کہ صرف مزا لینے کے لئے عادتاًایک جگہ کی بات دوسری جگہ جا کر کردیتے ہیں اور ان سے فتنہ پیدا ہونے کا اندیشہ ہوتاہے۔ مختلف قسم کی طبائع ہوتی ہیں، جس کے سامنے بات کی اور بات بھی اس کے متعلق کی تو قدرتی طورپر اس شخص کے دل میں اس دوسرے شخص کے بارہ میں غلط رنجش پیدا ہوگی جس کی طرف منسوب کرکے وہ بات کی جاتی ہے اور وہ بات اسے پہنچائی گئی ہے۔ تو یہ رنجش گو میرے نزدیک پیدا نہیں ہونی چاہئے ایسے فتنوں کو روکنے کا بھی یہ طریقہ ہے کہ جس کی طرف منسوب کرکے بات پہنچائی گئی ہواس کے پاس جا کر وضاحت کردی جائے کہ آیا تم نے یہ باتیں کی ہیں یا نہیں، یہ بات میرے تک اس طرح پہنچی ہے۔ تو وہیں وضاحت ہو جائے گی اور پھرایسے فتنہ پیدا کرنے والے لوگوں کی اصلاح بھی ہوجائے گی۔ تو بعض دفعہ اس طرح بھی ہوتاہے کہ ایسے لوگ، فتنہ پیداکرنے والے، خاندانوں کو خاندانوں سے لڑا دیتے ہیں۔ ایسے فتنہ کی باتوں سے خود بھی بچو اور فتنہ پیدا کرنے والوں سے بھی بچو۔ اور اگر ہو سکے تو ان کی ا صلاح کی کوشش کرو۔ پھر شر ایک تو براہ راست لڑائی جھگڑوں سے، گالی گلوچ سے پیدا ہوتاہے، اس سے فتنہ بھی پیدا ہوتاہے۔ تو فرمایا کہ اگر تمہیں میرے ساتھ تعلق ہے اور میری اطاعت کا دم بھرتے ہو تو میری تعلیم یہ ہے کہ ہر قسم کے فتنہ اور شرّ کی باتوں سے بچو۔ تم میں صبر اور وسعت حوصلہ اس قدرہو کہ اگرتمہیں کوئی گالی بھی دے تو صبر کرو۔ پھر اس تعلیم پر عمل کرکے تمہارے لئے نجات کے راستے کھلیں گے۔ تم خداتعالیٰ کے مقربین میں شامل ہوگے۔ کسی بھی معاملے میں مقابلہ بازی نہیں ہونی چاہئے۔ سچے ہوکر جھوٹوں کی طرح تذلل اختیار کرو۔ اور جو مرضی تمہیں کوئی کہہ دے تم محبت پیار اور خلوص سے پیش آئو۔ ایسی پاک زبان بنائو، ایسی میٹھی زبان ہو، اخلاق اس طرح تمہارے اندر سے ٹپک رہاہو کہ لوگ تمہاری طرف کھنچے چلے آئیں۔ تو تمہارے ماحول میں یہ پتہ چلے، ہر ایک کو یہ پتہ چل جائے کہ یہ احمدی ہے۔ اس سے سوائے اعلیٰ اخلاق کے اورکسی چیز کی توقع نہیں کی جاسکتی۔ تمہارے یہ ا خلاق بھی دوسروں کو کھینچنے اور توجہ حاصل کر نے کا باعث بنیں گے۔

پھر یہ ہوتاہے کہ بعض لوگ مقدمات میں ذاتی مفاد کی خاطر جھوٹی گواہیاں بھی دے دیتے ہیں، جھوٹا کیس بھی اپنا پیش کر دیتے ہیں۔ تو فرمایا کہ تمہارا ذاتی مفاد بھی تمہیں سچی گواہی دینے سے نہ روکے۔ بعض لوگ یہاں بھی اور دوسرے ملکوں میں بھی بعض دفعہ باہر آنے کے چکر میں غلط بیانی سے کام لیتے ہیں، توان باتوں سے بھی بچو۔ جو صحیح حالا ت ہوں اس کے مطابق اپنا کیس داخل کروائو اور اس میں اگر مانا جاتاہے تو ٹھیک ہے ورنہ واپس چلے جائیں۔ کیونکہ غلط بیانیوں کے باوجود بھی بعضوں کے کیس ریجیکٹ (Reject) ہو جاتے ہیں توسچ پر قائم ر ہتے ہوئے بھی آزما کر دیکھیں انشاء اللہ فائدہ ہی ہوگا۔ یا اگر ریجیکٹ ہوں گے بھی تو کم از کم اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کا باعث تو نہیں بنیں گے۔

آپس میں اخوت و محبت پیدا کرو اور خدا تعالیٰ سے سچا تعلق پیدا کرو

پھر آپس میں محبت اور بھائی چارے کی تعلیم دیتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ

’’آپس میں اخوت اورمحبت کو پیدا کرو اور درندگی اور اختلاف کو چھوڑ دو۔ ہرایک قسم کے ہزل اور تمسخر سے مطلقاً کنارہ کش ہو جائو کیونکہ تمسخر انسان کے دل کو صداقت سے دور کر کے کہیں کا کہیں پہنچا دیتاہے۔ آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ عزت سے پیش آئو۔ ہر ایک اپنے آرام پر اپنے بھائی کے آرام کو ترجیح دیوے۔ اللہ تعالیٰ سے ایک سچی صلح پیدا کرلو اور اس کی اطاعت میں واپس آجائو۔ …ہرایک آپس کے جھگڑے اور جوش اور عداوت کو درمیان میں سے اٹھا دو کہ اب وہ وقت ہے کہ تم ادنیٰ باتوں سے اعراض کر کے اہم اور عظیم الشان کاموں میں مصروف ہو جائو‘‘۔

(ملفوظات۔ جلد اول۔ صفحہ 266تا268)

(باقی آئندہ)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button