اکتوبر 1952ء رسالہ خالد کا اجراء اور حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ کا خصوصی پیغام
خدام الاحمدیہ مرکز پاکستان کی مجلس شوریٰ 1329ہش /1950ء میں یہ تجویز منظور ہوئی کہ مجلس کی طرف سے ساٹھ صفحے کا ایک سہ ماہی رسالہ جاری کیا جائے۔
ان دنوں مجلس کی مالی حالت اس کے گراں اخراجات کی متحمل نہ تھی اس لئے ’’الطارق‘‘ نام سے 36صفحات کے ایک ماہوار رسالہ کی تجویز ہوئی اور 1330ہش/1951ء سے اس کے ڈیکلریشن کی جدوجہد شروع کردی گئی۔
ابتدائی محکمانہ تحقیقات مکمل ہوئی تو عین آخری مرحلہ پر یہ اطلاع ملی کہ اسی نام کا ایک اور رسالہ بھی جاری ہے اور ضروری ہے کہ کوئی اور نام تجویز کیا جائے مجلس نے سیدنا حضرت مصلح موعودؓ کی خدمت میں نئے نام کے لئے درخواست کی۔ حضورؓ نے فرمایا :’’خالد نام رکھ دیں۔‘‘
چنانچہ 31؍امان 1331ہش/مارچ 1952ء کو خالد کے ڈیکلریشن کی درخواست دی گئی۔
کئی ماہ کی یاد دہانیوں اور دفتری پیچیدگیوں اور محکمانہ کارروائیوں کے بعد6؍ستمبر1952ء کو ڈیکلریشن کی باضابطہ منظوری ہوئی اور ساتھ ہی ایک ہزار روپیہ کی ضمانت کا مطالبہ بھی ہوا جس کے داخل کرانے کی آخری تاریخ 16؍ستمبر تھی۔ مجلس کے پاس اس قدر روپیہ نہیں تھا بڑی دوڑ دھوپ کے بعد 17؍ستمبر کو روپیہ کا انتظام ہوسکا لیکن جھنگ پہنچ کر معلوم ہوا کہ وقت پر ضمانت داخل نہ کرنے پر ڈیکلریشن منسوخ کردیا گیا ہے اس پر دوبارہ درخواست دی گئی اور بالآخر 2؍اکتوبر1952ء کو ڈیکلریشن ملا اور زر ضمانت داخل کرادی گئی۔ اس طرح نہایت لمبی جدوجہد اور صبر آزما حالات میں سے گزرنے کے بعد اکتوبر 1952ء میں رسالہ’’خالد‘‘جاری ہوا۔
خالد کے پہلے دو پرچے مولوی غلام باری صاحب سیف پروفیسر جامعہ احمدیہ، مولوی خورشید احمد صاحب شاد پروفیسر جامعہ احمدیہ اور مولوی محمد شفیع صاحب اشرف کے زیر صدارت چھپے۔ اس کے بعد مولوی غلام باری صاحب سیف مدیر مقرر ہوئے۔ مینیجر کی خدمت شروع ہی میں سید عبدالباسط صاحب نائب معتمد کے سپرد کی گئی۔
اداریہ کے علاوہ مشعلِ راہ، جواہر پارے، روشن ستارے، ہماری مساعی دنیا کے کناروں تک، کوائف ربوہ اور اطفال الاحمدیہ اس کے مستقل فیچر قرار پائے۔ اس ابتدائی دور میں پہلے سال رسالہ ’’خالد‘‘ کو جو قلمی معاونین میسر آئے ان میں ملک سیف الرحمٰن صاحب پرنسپل جامعہ احمدیہ مفتی سلسلہ احمدیہ، مولانا ابو العطاء صاحب جالندھری، جناب حسن محمد خاں صاحب عارف نائب وکیل التبشیر، مولوی نور الحق صاحب انور فاضل (مبلغ امریکہ) بھی شامل تھے۔ حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے اس کے اجراء پر حسب ذیل پیغام سپرد قلم فرمایا:
بکوشید اے جواناں تابہ دیں قوت شود پیدا
بہار و رونق اندر روضہ ملت شود پیدا
(آئینہ کمالات اسلام سرورق مطبوعہ1893ء)
مجھے مولوی غلام باری صاحب سیف معتمد مجلس خدام الاحمدیہ مرکزیہ ربوہ نے اطلاع دی ہے کہ ان کی مجلس مرکزیہ کے زیر انتظام ایک ماہواری رسالہ ’’خالد‘‘ نامی جاری ہورہا ہے اور سیف صاحب نے جنہیں ’’خالد‘‘کے نام کے ساتھ ایک اہم تاریخی جوڑ حاصل ہے مجھ سے درخواست کی ہے کہ میں بھی اس رسالہ کے پہلے نمبر کے لئے کوئی مختصر سا پیغام لکھ کر دوں جو جماعت کے نوجوانوں کی ہمتوں کو بڑھانے والا ہو اور ان میں کام کی روح پھونکنے والا ہو۔ سو مجھے اس پیغام کے لئے سب سے زیادہ موزوں اور مناسب حضرت مسیح موعودؑ کا وہ فارسی شعر نظر آیا ہے جو میرے اس نوٹ کا عنوان ہے اور جس کا اردو زبان میں سلیس اور آزاد ترجمہ یہ ہے کہ اے احمدیت کے نوجوانوں ! دین کے رستہ میں اپنی کوششوں، اپنی جدوجہد کو اس اخلاص اور اس ذوق و شوق اور اس جذبہ قربانی کے ساتھ جاری رکھو کہ تمہاری اس مجاہدانہ مساعی کے نتیجہ میں دین کو غیر معمولی مضبوطی حاصل ہوجائے اور اسلام کا باغ و مرغزار پھر دوبارہ ایک نئی رونق و بہار کے ساتھ مخالفوں کی آنکھوں کو خیرہ کرنے لگے پس یہی وہ مقصد و منتہیٰ ہے جو ہمارے نوجوانوں کو ہمیشہ اپنے سامنے رکھنا چاہئے۔ فاروق ہوں یا خالد اور قلم ہو یا سیف۔ سب اپنے اپنے میدان میں اور اپنے اپنے وقت پر اسلام اور صداقت کے خادم ہیں۔ صرف مومن کی نیت پاک و صاف ہونی چاہئے اور اس کے قلب میں سیمابی ولولہ پھر اس کے آگے رستہ بالکل صاف ہے۔
کتب اللّٰہ لاغلبن انا و رسلی (المجادلہ) (لاحول ولاقوہ الا باللّٰہ العظیم)
یہ وقت خاص خدمت کا ہے کیونکہ احرار کی مخالفت نے جماعت کے لئے تبلیغ کا راستہ اس طرح کھول دیا ہے کہ اس سے پہلے کبھی اس طرح نہ کھلا تھا۔ بے شک مخالفت بہت سخت اور اس کا دائرہ بہت وسیع ہے لیکن یہی وہ وقت ہے جب کہ سعید روحیں خواب غفلت سے بیدار ہو کر تحقیق کی طرف مائل ہورہی ہیں اور حضرت مسیح موعودؑ کا یہ فرمان بڑی صراحت اور وضاحت کے ساتھ پورا ہورہا ہے کہ الٰہی جماعتوں کے لئے مخالفت وہی کام دیا کرتی ہے جو ایک عمدہ کھیت کے لئے کھاد دیتی ہے۔
پس اے عزیزو اور بھائیو !! زندگی کی ان قیمتی گھڑیوں کو غنیمت جانو۔ تمہیں کیا معلوم ہے کہ ماحول کا یہ زریں موقعہ کب بدل جائے یا تمہاری اپنی زندگی کا یہ دور کب ختم ہوجائے؟ اسی لئے ہمارے آقا اور امام نے جہاں وہ شعر ارشاد فرمایا ہے جو اس نوٹ کے عنوان میں درج ہے وہاں دوسری جگہ یہ انتباہ بھی فرمایا ہے کہ:
اے بے خبر بخدمت فرقاں کمر ببند
زاں پیشتر کہ بانگ برآید فلاں نماند
(اشتہار اہل اسلام کی فریاد بحوالہ درثمین فارسی صفحہ 383 ناشر محمد احمد اکیڈمی رام گلی نمبر3 لاہور)
اور اسی پر میں اپنا یہ مختصر پیغام ختم کرتا ہوں اللہ تعالیٰ آپ لوگوں کے ساتھ ہو اور آپ کی جملہ نیک مساعی میں آپ کا حافظ و ناصر رہے- آمین یا ارحم الراحمین۔
والسلام
خاکسار مرزا بشیر احمد۔ ربوہ
(منقول از ماہنامہ خالد ماہِ اخاء1331ہش/اکتوبر1952ء صفحہ5-6)
(ماخوذ ازتاریخ احمدیت جلد 14 صفحہ 413)
٭…٭…٭