قرآنی قسموں کا فلسفہ
مَیں نے دیکھا ہے کہ آریہ اور عیسائی اعتراض کر دیتے ہیں کہ قرآن شریف میں قسمیں کیوں کھائی ہیں۔ اور پھر اپنی طرف سے حاشیہ چڑھا کر اس کو عجیب عجیب اعتراضوں کے پیرایہ میں پیش کرتے ہیں۔ حالانکہ اگر ذرا بھی نیک نیتی اور فہم سے کام لیا جاوے تو ایسا اعتراض بیہودہ اور بےسود معلوم دیتا ہے۔ کیونکہ قسموں کے متعلق یہ دیکھنا ضروری ہوتا ہے کہ قسم کھانے کا اصل مفہوم اور مقصد کیا ہوتا ہے۔ جب اس کی فلاسفی پر غور کر لیاجاوے تو پھر یہ خود بخود سوال حل ہو جاتا ہے اور زیادہ رنج اٹھانے کی نوبت ہی نہیں آتی۔ عام طور پر یہ دیکھا جاتا ہے کہ قسم کا مفہوم یہ ہوتا ہے کہ قسم بطور قائم مقام گواہ کے ہوتی ہے۔ اور یہ مسلّم بات ہے کہ عدالت جب گواہ پر فیصلہ کرتی ہے تو کیا اس سے مراد یہ ہوتی ہے کہ وہ جھوٹ پر فیصلہ کرتی ہے۔ یا قسم کھانے والے کی قسم کو ایک شاہدِصادق تصور کرتی ہے۔ یہ روز مرہ کی بات ہے۔
جہالت یا تعصب سے اعتراض کرنا اَور بات ہے لیکن حقیقت کو مد نظر رکھ کر کوئی بات کہنا اَور۔
اب جب کہ یہ عام طریق ہے کہ قسم بطور گواہ کے ہوتی ہے۔ پھر یہ کیسی سیدھی بات ہے کہ اسی اصول پر قرآن شریف کی قسموں کو دیکھ لیا جاوے۔ کہ وہاں اس سے کیا مطلب ہے۔
اﷲ تعالیٰ نے جہاں کوئی قسم کھائی ہے تو اس سے یہ مراد ہے کہ نظری امور کے اثبات کے لئے بدیہی کو گواہ ٹھہراتا ہے۔ جیسے فرمایا:
وَ السَّمَآءِ ذَاتِ الرَّجْعِ۔ وَ الْاَرْضِ ذَاتِ الصَّدْعِ۔ اِنَّهٗ لَقَوْلٌ فَصْلٌ (الطّارق: 12تا 14)
اب یہ بھی ایک قسم کا محل ہے۔ نادان قرآن شریف کے حقائق سے ناواقف اور نابلد اپنی جہالت سے یہ اعتراض کر دیتا ہے کہ دیکھو زمین کی یا آسمان کی قسم کھائی لیکن اس کو نہیں معلوم کہ اس قسم کے نیچے کیسے کیسے معارف موجود ہیں۔
اصل یہ ہے کہ اﷲ تعالیٰ وحی الٰہی کے دلائل اور قرآن شریف کی حقانیت کی شہادت پیش کرنی چاہتا ہے اور اس کو اس طرز پر پیش کیا ہے۔
اب اس قِسم کی قسَم پر اعتراض کرنا بجز ناپاک فطرت یا بلید الطبع انسان کے دوسرے کا کام نہیں۔ کیونکہ اس میں تو عظیم الشان صداقت موجود ہے۔ صحیفۂ فطرت کی عام شہادت کے ذریعہ اﷲ تعالیٰ کلام الٰہی اور نزول وحی کی حقیقت بتانا چاہتا ہے۔ سماء کے معنی بادل کے بھی ہیں۔ جس سے مینہ برستا ہے۔ آسمان اور زمین میں ایسے تعلقات ہیں جیسے نر و مادہ میں ہوتے ہیں۔ زمین میں بھی کنوئیں ہوتے ہیں لیکن زمین پھر بھی آسمانی پانی کی محتاج رہتی ہے۔ جب تک آسمان سے بارش نہ ہو زمین مردہ سمجھی جاتی ہے اور اس کی زندگی اس پانی پر منحصر ہے جو آسمان سے آتا ہے۔ اسی واسطے فرمایا ہے۔
اِعْلَمُوْۤا اَنَّ اللّٰهَ يُحْيِ الْاَرْضَ بَعْدَ مَوْتِهَا(الـحدید: 18)
اور یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ جب آسمان سے پانی برسنے میں دیر ہو اور امساک باراں ہو تو کنوئوں کا پانی بھی خشک ہونے لگتا ہے۔ اور ان ایام میں دیکھا گیا ہےکہ پانی اتر جاتا ہے۔ لیکن جب برسات کے دن ہوں اور مینہ برسنے شروع ہوں تو کنوؤں کا پانی بھی جوش مار کر چڑھتا ہے کیونکہ اوپر کے پانی میں قوت جاذبہ ہوتی ہے اب براہموں سوچیں کہ اگر آسمانی پانی نازل ہونا چھوڑ دے تو سب کنوئیں خشک ہو جائیں اسی طرح پر ہم یہ مانتے ہیں کہ اﷲ تعالیٰ نے ایک نور قلب ہر انسان کو دیا ہے۔ اور اس کے دماغ میں عقل رکھی ہے۔ جس سے وہ بُرے بھلے میں تمیز کرنے کے قابل ہوتا ہے۔ لیکن اگر نبوت کا نور آسمان سے نازل نہ ہو اور یہ سلسلہ بند ہو جاوے تو دماغی عقلوں کا سلسلہ جاتا رہے اور نور ِقلب پر تاریکی پیدا ہو جاوے اور وہ بالکل کام دینے کے قابل نہ رہے۔ کیونکہ یہ سلسلہ اسی نور نبوت سے روشنی پاتا ہے۔ جیسے بارش ہونے پر زمین کی روئید گیاں نکلنی شروع ہو جاتی ہیں اور ہر تخم پیدا ہونے لگتا ہے۔ اسی طرح پر نور نبوت کے نزول پر دماغی اور ذہنی عقلوں میں ایک صفائی اور نورِ فراست میں ایک روشنی پیدا ہوتی ہے۔ اگرچہ یہ علیٰ قدر مراتب ہوتی ہے اور استعداد کے موافق ہر شخص فائدہ اٹھاتا ہے۔ خواہ وہ اس امر کو محسوس کرے یا نہ کرے لیکن یہ سب کچھ ہوتا اسی نور نبوت کے طفیل ہے۔
نزول وحی کی ضرورت کا ثبوت
غرض اس قَسم میں نزول وحی کی ضرورت کو ایک عام مشاہدہ کی رو سے ثابت کیا ہے کہ جیسے آسمانی پانی کے نہ برسنے کی وجہ سے زمین مرجاتی اور کنوئوں کا پانی خشک ہونے لگتا ہے۔ یہی قانون نزول وحی کے متعلق ہے۔
رَجْعٌ پانی کو کہتے ہیں۔ حالانکہ پانی زمین پر بھی ہوتا ہے لیکن آسمان کوذَاتِ الرَّجْعِ کہا ہے۔ اس میں یہ فلسفہ بتایا ہے کہ اصلی آسمانی پانی ہی ہے۔
(ملفوظات جلد 4صفحہ 440۔ 443۔ ایڈیشن 1984ء)