راہِ خدا میں چندہ دو اور جنت کی راہ لو
انفاق فی سبیل اللہ کی قدر و منزلت، حقائق و سچےواقعات کےساتھ
اللہ تعالیٰ نے جنّت کے حصول کے لیے کئی راہیں بتائی ہیں۔ ایک اُن میں سے اللہ کی راہ میں خرچ کرنا بھی ہے۔ لیکن یہ راستہ بڑا ہی کٹھن اور دشوار گزار ہے۔ اس راہ میں شیطان ہر وقت ڈیرا ڈال کر بیٹھا رہتاہے۔ اور ہر جانے والے کو کئی قسم کے وساوس میں ڈالنے کی کوشش کرتا ہے۔ کبھی کہتا ہے خرچ نہ کرنا تُو غریب ہو جائے گا۔ کبھی للکارتا ہے تیرے تو اپنے اہل وعیال کو ضرورت ہے۔ کبھی کہتا ہے ابھی بہت وقت ہے بعد میں دے دینا۔ کبھی مال کو جمع کرنے کی طرف راغب کرنےکی کوشش کرتا ہے اور کبھی اِس کام کو بے سود اور بےفائدہ بناکر دکھاتا ہے۔ بعض کو وہ یوں مخاطب ہوتاہےکہ سلسلہ کو تیری اِس تھوڑی سی رقم کی کیا ضرورت ہے۔ کسی کو کہتا ہے جماعت اب بہت امیر ہو گئی ہے تم نہ بھی دو تو کیا فرق پڑتا ہے۔ جسمانی بیمار کو اُس کی بیماری کے ٹھیک ہونے تک انتظار کرنے کا کہتاہے کہ شاید ضرورت پڑ جائے۔ کوئی گھر بنا رہا ہو تو اُس کو کہتا کہ ابھی تو تمہیں واقعی ضرورت ہے۔ کسی کے گھر شادی کی خوشی آ رہی ہو تو کہتا ہے چندہ لینے والے کو تو معلوم تھا کہ میرے گھر میں شادی ہے پھر یہ بےوقت کیوں آ گیا ؟ اگر کوئی ان تمام راستوں میں سےگزربھی جائے تو پھر یوں مخاطب ہو کر بھی کہتاہے لو جی تمہیں کون سا کسی نے یاددہانی کروائی ہے؟ جب کوئی یاددہانی کروائے گا تو دے دیں گے۔ مندرجہ بالا وساوس کا سامنا چندہ دینے والوں کو گاہے بگاہے کرنا پڑتاہے۔ پچھلے سال الفضل انٹرنیشنل میں شائع ہونے والے ایک مضمون ’’اللہ تعالیٰ کی راہ میں مالی قربانی۔ برکات و ثمرات‘‘ کی قسط نمبر 2 میں ایک ایمان افروز واقعہ درج ہےجس میں شیطانی وساوس کا ذکر کیا گیا ہے کہ کس طرح شیطان چندہ نہ دینے کی تحریک بار بار کرتا ہے: چنانچہ ’’ شیطان کے ہر حملے کا پسپا ہونا اور قرض کی رقم کی فوری واپسی ‘‘کے تحت لکھا گیا ہے :
’’ایک جماعت میں اجلاس عام میں احباب جماعت کو لازمی چندہ جات کے بقایاجات جلد ازجلد اور جنہیں توفیق ہو، انہیں فوری اداکرنے کی تحریک کی تو اجلاس میں موجود تقریباً سب دوستوں نے کچھ نہ کچھ چندہ ادا کردیا۔ صرف ایک دوست ایسے تھے جنہوں نے مسجد میں بیٹھے ہوئے نہ ہی کوئی ادائیگی کی اورنہ ہی ادائیگی کا کوئی وعدہ۔ اجلاس ختم ہونے پر جب ہم لوگ مسجد کے اندرونی دروازے سے باہر نکل رہے تھے تو انہوں نے اپنی جیب سے 5000 روپے کا ایک نوٹ نکالااور میرے ساتھ کھڑے سیکرٹری صاحب مال مقامی کو پکڑاتے ہوئے کہنے لگے کہ میرا سالانہ چندہ 12,000 روپے ہے۔ اس وقت نومبر کا مہینہ ہے اور اب تک 5000 روپے چندہ بنتا ہے، یہ وصول کرلیں۔ ابھی وہ دوست سیکرٹری صاحب مال کو وہ رقم پکڑا ہی رہے تھے کہ مسجد کے بیرونی دروازے پر دستک ہوئی۔ ہمارے پاس ان چندہ دینے والے صاحب کا بیٹا بھی کھڑا تھا، وہی باہر گیا اور چند منٹ بعد جب واپس آیا تو اس کے ہاتھ میں کافی زیادہ رقم تھی جو اس نے اپنے والد صاحب کو دیتے ہوئے کہا کہ ابا جی! ساتھ والے گاؤں کا فلاں (کسی کا نام لیا) غیراحمدی آدمی آیا تھا اور کہہ رہا تھا کہ میں نے آپ کے والد صاحب کی قرض کی رقم واپس کرنی تھی۔ میں آپ کے گھر سے ہو کر آگیا۔ یہ رقم اپنے والد صاحب کو دے دو اور میرا بتا دینا۔
ان صاحب …نے اپنے بیٹے سے رقم لے کر بغیر گنے اس میں سے 7000 روپے الگ کرکے سیکرٹری صاحب مال کو دیے اور کہا جب اللہ تعالیٰ نے رقم بھجوا دی ہے تو پھر میں پورے سال کا چندہ ابھی اسی وقت ادا کررہا ہوں۔ میں بھی ان کے پاس ہی کھڑا یہ نظارہ دیکھ رہا تھا۔ خاکسار نے موصوف سے سوال کیا کہ مجھے اس بات کی سمجھ نہیں آرہی کہ مسجد میں بیٹھے ہوئے آپ کے سامنے تقریباً سب دوستوں نے چندہ ادا کیا اور آپ مسجد میں خاموش بیٹھے رہے۔ لیکن مسجد کے دروازے سے باہر نکلتے وقت آپ نے سیکرٹری صاحب کو 5000 روپے چندہ ادا کردیا۔ یہ کیا قصہ ہے اور پھر یہ جو رقم آپ کو ملی ہے اس کے پیچھے کیا کہانی ہے؟ میری یہ بات سن کر موصوف ہنس پڑے اور کہنے لگے۔ جب ہم لوگ مسجد میں بیٹھے ہوئے تھے اور آپ نے مالی قربانی کی تحریک کی اور مسجد میں بیٹھے دوسرے لوگ چندہ ادا بھی کررہے تھے تو اس وقت میرے اندر ایک جنگ لگی ہوئی تھی۔ ایک زبردست مقابلہ ہورہا تھا۔ میں بھی اسی وقت چندہ ادا کرنا چاہتا تھا۔ اتفاق سے اس وقت میری جیب میں 5000روپے کا صرف ایک ہی نوٹ تھا۔ میں نے چندہ دینے کے لیے جیب میں ہاتھ ڈالا تو اسی وقت شیطان نے میرے کان میں سرگوشی کی ’’چودھری صاحب آپ کی جیب میں صرف 5000 روپے ہیں جو آپ چندہ میں دینے کا سوچ رہے ہیں لیکن آپ یہ کیوں نہیں سوچتے کہ اگر یہ رقم آپ نے چندہ میں دے دی تو جب آپ مسجد سے باہر جائیں گے تو ہو سکتا ہے کہ کوئی دوست آپ سے اپنی کسی ضرورت کے لیے کچھ قرض مانگ لے۔ آپ کی چونکہ جیب خالی ہونی ہے۔ اس لیے آپ اُسے معذرت کرلیں گے کہ اس وقت تو میری جیب خالی ہے ورنہ میں تمہیں ضرور قرض دے دیتا۔ چودھری صاحب آپ تو سچ کہہ رہے ہوں گے لیکن آپ کا وہ دوست آپ کی بات تسلیم نہیں کرے گا اور آپ کے متعلق یہ خیال کرے گا کہ قرض نہ دینے کے لیے آپ نے جھوٹ بول دیا ہے۔ آپ گاؤں کے معزز آدمی ہیں اور آپ کی جیب میں کچھ نہ کچھ رقم ضرور ہونی چاہیے۔ چندے کا کیا ہے ابھی تو مالی سال کا پانچواں مہینہ ہے اور ابھی مزید 7 ماہ پڑے ہیں۔ یہ چندہ آپ بعد میں بھی ادا کرسکتے ہیں۔ مکرم موصوف نے بتایا کہ شیطان کی اس دلیل میں مجھے وزن لگا اور میں نے فیصلہ کرلیا کہ چندہ بعد میں ادا کروں گا اور یہ سوچ کر میں نے اپنی جیب سے اپنا ہاتھ باہر نکال لیا۔
موصوف نے کہا کہ آپ نے مالی قربانی کی برکات کے مزید واقعات سنائے تو پھر میرے دل میں جوش پیدا ہوا کہ مجھے بھی آج ہی اپنا چندہ ادا کردینا چاہیے اور میں نے دوبارہ اپنا ہاتھ جیب میں ڈالا کہ پھر شیطان آدھمکا اور دوبارہ مجھ سے مخاطب ہو کر کہنے لگا۔ ’’چودھری صاحب! آپ بھی بچوں کی طرح ضد کرنے لگ پڑے ہیں۔ جیب کوبالکل خالی کرنا کسی طور پردرست نہیں ہوتا۔ اگر اس وقت آپ یہ رقم چندہ میں دے جائیں گے توہوسکتا ہے جب گھر جائیں تو کوئی مہمان آجائے یا خدانخواستہ گھر میں کوئی اچانک بیمار ہو جائے۔ ایسے میں پیسوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس لیے یہ رقم بچا کر رکھ لیں۔ چندہ بعد میں ادا ہوجائے گا۔ ‘‘موصوف نے کہا مجھے پھر شیطان کی بات وزنی لگی اور میں نے پھر اپنا ہاتھ جیب سے نکال لیا۔ اجلاس ختم ہوا اور سب دوستوں کے ساتھ مَیں بھی اُٹھا۔ جب مسجد کے اندرونی دروازے تک پہنچا تو بجلی کی طرح ایک خیال میرے دل میں آیا اور مجھے یوں لگا کہ جیسے مجھے کرنٹ لگا ہو۔ وہ خیال یہ تھا کہ
’’اعجاز تم مشرک کب سے بن گئے ہو۔ تم5000 روپے کے ایک نوٹ پر بھروسہ کررہے ہو کہ وہ تمہاری عزت کی بھی حفاظت کرے گا اور تمہاری ضرورتوں کو بھی پورا کرےگا۔ لیکن آسمان وزمین کے قادر و مالک خدا پر تمہارا توکّل نہیں ہے‘‘۔
موصوف کہتے ہیں کہ میں اس خیال سے کانپ اُٹھا۔ مسجد کے اندرونی دروازے کے قریب کھڑے کھڑے میں نے اپنے خدا سے معافی مانگی اور اُسی وقت جیب میں موجود 5000روپے چندے میں دینے کا ارادہ کرکے نکالے اور سیکرٹری صاحب مال کو دے دیے اور اس کے بعد جو ہوا وہ تو آپ لوگوں نے اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا لیکن اس کے پیچھے جو کہانی ہے وہ بڑی دلچسپ اور ایمان افروز ہے۔ موصوف نے بتایا کہ جب میں سیکرٹری صاحب مال کو 5000 روپے چندے کی رقم پکڑا رہا تھا۔ میں نے بڑے مان کے ساتھ اپنے مالک خدا سے یہ عرض کی کہ اے باری تعالیٰ بہت دفعہ سنا ہے کہ تو اپنی قدرت سے اپنے بندوں کے لیے معجزات دکھاتاہے۔ آج میرے لیے بھی کوئی معجزہ دکھا جو میرے لیے ازدیادِایمان کا باعث ہو اور میرے رحیم و کریم خدا نے میری لاج رکھ لی کہ ابھی میرے دیے ہوئے چندہ کی رسید بھی نہیں کٹی تھی کہ مسجد کا بیرونی دروازہ کھٹکا اور رقم آگئی۔ اس رقم کا قصہ یہ ہے کہ میں زمیندارا کرتاہوں اور اپنے ڈیرے پر کچھ جانور بھی رکھے ہوئے ہیں۔ گزشتہ سال قریبی گاؤں کا ایک غیرازجماعت آدمی مجھ سے ایک گائے خرید کرلے گیا۔ 25,000روپے اس کی طرف بقایا رہ گئے تھے۔ بہت دفعہ اس سے تقاضا کیا لیکن ہمیشہ ایک ہی جواب ملتا کہ ابھی گنجائش نہیں ہے۔ جونہی بندوبست ہوا، ادا کردوں گا۔ لیکن آپ لوگ بھی گواہ ہیں کہ ادھر میں نے چندہ کی نیت سے اپنی جیب خالی کی اور اُدھر خدا نے ادا کردہ رقم سے 5گنا رقم اُسی وقت میری جیب میں ڈال دی۔‘‘
(الفضل انٹر نیشنل 23؍جولائی2019ءصفحہ 17)
لیکن یہ بات حقیقت ہےکہ جب کوئی مضبوط ا عصاب کا مالک شیطان کے وساوس سے جان چھڑا کر خداتعالیٰ کی خاطر خدا کے دیے ہوئے مال میں سے خرچ کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اُس سے بہت خوش ہوتا ہے اور اُس کے لیے جنّت واجب کر دیتاہے۔ جیسا کہ فرمایا:
اِنَّ اللّٰہَ اشْتَرٰي مِنَ الْمُؤْمِنِيْنَ اَنْفُسَھُمْ وَاَمْوَالَھُمْ بِاَنَّ لَھُمُ الْجَنَّۃَ (سورۃ التوبہ : 111)
یعنی اللہ نے مومنوں سے ان کی جانیں اور ان کے اموال خرید لئے ہیں تاکہ اس کے بدلہ میں اُنہیں جنت ملے۔
ایک اَورجگہ جہاں اللہ تعالیٰ اس جہاد میں شامل ہونے والوں کے گناہ معاف کرنے کا وعدہ کرتا ہےوہاں پر بھی جنت کی بشارت دیتا ہے جیسا کہ فرمایا:
یَغْفِرْ لَکُمْ ذُنُوْبَکُمْ وَیُدْخِلْکُمْ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِہَا الْاَنْہٰرُ۔ (سورۃ الصف:13)
وہ تمہارے گناہ بخش دے گا اور تمہیں ایسی جنتوں میں داخل کردے گا جس کے دامن میں نہریں بہتی ہیں۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی تحریرات میں چندہ کی افادیت و ثمرات کا ذکر کئی مواقع پر فرمایاہے۔ آپؑ کے خلفائے کرام بھی اس مضمون کی فرضیت اورافادیت کو جماعت کے سامنے پیش کرتے رہے ہیں۔ اسی طرح ہمارے پیارے امام حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ چندہ کی ادائیگی کی قدر ومنزلت کو اپنے خطبات وخطا بات میں اکثر بیان کرتے ہیں تاکہ ہم اپنے فرائض کو نہ بھولیں اور اِس کی ادائیگی بجا لا کر خداتعالیٰ کو راضی کرتے ہوئےاُس کی جنّت کے وارث بن سکیں۔ ان بے شمار خزائن میں سے معدودے چند ان سطور میں درج ہیں :
لازمی چندوں کو ہر ماہ ادا کرنا چاہیے تاکہ بعد میں ادائیگی کا بوجھ نہ پڑے
حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ ہر ماہ چندہ کی ادائیگی کی طرف توجہ دلاتے ہوئے فرماتے ہیں :
’’میں احباب جماعت کو یہ توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ جن کے چندہ عام کے بجٹ کی ادائیگی میں اور اسی طرح چندہ جلسہ سالانہ، یہ لازمی چندہ جات جو ہیں ان کی ادائیگی میں کمی رہ گئی ہے وہ کوشش کرکے ادا کریں۔ جماعت کا بڑے عرصہ سے یہ مزاج بن گیا ہے کہ آخر وقت پر جا کر اپنے چندوں کی ادائیگی کرتے ہیں۔ جو لازمی چندے ہیں وہ تو آپ کو ہر ماہ ادا کرنے چاہئیں تاکہ بعد میں ادائیگی کا بوجھ نہ پڑے۔ اور اس سے فائدہ یہ ہے کہ باقاعدہ چندہ دینے کا اور باقاعدہ قربانی کرنے کا جو ثواب ہے وہ بھی آپ حاصل کرنے والے ہوں گے۔ ‘‘
(خطبہ جمعہ بیان فرمودہ 3؍جون 2005ء مطبوعہ الفضل انٹر نیشنل17؍جون2005ء صفحہ 6)
’’چندوں کی ادائیگی میں انقباض نہیں ہونا چاہیے۔ مرنے کے بعد بھی اُس کے کام آنے والا ہے‘‘
حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ نےچندہ بغیر کسی انقباض کے دینے کی طرف توجہ دلاتے ہوئے فرمایا:
’’پس جب خالص ہو کر اللہ تعالیٰ کی رضا کے لئے مال خرچ کرنا ہے تو خرچ کرنے والے کے دل میں چندوں کی ادائیگی کے وقت کسی قسم کا انقباض نہیں ہونا چاہئے۔ اس یقین پہ قائم ہو کہ اللہ تعالیٰ کی راہ میں مجھے خوشی سے قربانی کرنی چاہئے۔ اور پھر یہ کہ کبھی دل میں یہ خیال نہیں آنا چاہئے کہ مَیں نے اتنا چندہ دیا ہے اس وجہ سے جماعتی کارندوں کو میرا شکر گزار ہونا چاہئے۔ یا نظام کو میرا شکر گزار ہونا چاہئے۔ بےشک جماعتی کارکن جو ہیں اس کام کے لئے وہ چندہ دینے والے کا شکریہ ادا کرتے ہیں۔ رسید پر بھی جزاکم اللہ لکھا ہوتا ہے لیکن دینے والے کو یہ یاد رکھنا چاہئے کہ اس نے کوئی احسان نہیں کیا۔ اُس نے تو خداتعالیٰ سے اپنا مال بڑھانے کا سودا کیا ہے۔ ایسا سودا کیا جو نہ صرف اس کا مال بڑھانے والا ہے بلکہ اس کی نیکیوں میں درج ہو کر مرنے کے بعد بھی اس کے کام آنے والا ہے۔ ‘‘
( خطبہ جمعہ بیان فرمودہ 8؍ جنوری 2010ء مطبوعہ الفضل انٹر نیشنل 29؍جنوری 2010ءصفحہ6)
’’ہر موصی سے یہی توقع رکھی جاتی ہے کہ وہ اپنی حقیقی آمد میں سے چندہ ادا کرے‘‘
حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ وصیت کے چندہ کی ادائیگی کی طرف یوں توجہ دلاتے ہیں :
’’وصیت کا چندہ ایک ایسا چندہ ہے جو نظام وصیت کے جاری ہونے کے ساتھ جاری ہوا۔ جیسا کہ سب جانتے ہیں کہ 1905ء میں اللہ تعالیٰ سے حکم پا کر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام نے اس کو جاری فرمایا اور اس نظام میں شامل ہونے والے ہر شخص کے لئے ضروری قرار دیا کہ وہ 10/1 سے لے کر 3/1 تک اپنی آمد اور جائیداد کی وصیت کر سکتا ہے اور وصیت کرنے کے بعد یہ عہد کرتا ہے کہ مَیں تا زندگی اپنی آمد کا 10/1 سے 3/1تک( جو بھی کوئی اپنے حالات کے مطابق خوشی سے شرح مقرر کرتا ہے) ادا کروں گا۔ اسی طرح اگر زندگی میں نہ ادا کیا گیا ہو تومرنے کے بعد بھی جائیداد میں سے اسی شرح کے اندر رہتے ہوئے جو پیش کی گئی ہو اپنے عہد کے مطابق اس کی ادائیگی کے لئے اپنے ورثاء کو کہہ کے جاتا ہے۔ اور ہر موصی سے یہی توقع رکھی جاتی ہے اور رکھی جانی چاہئے کہ وہ تقویٰ پر قائم رہتے ہوئے اپنی حقیقی آمد میں سے چندہ ادا کرے اور اس بارہ میں کسی قسم کا عذر نہ کرے اور عموماً موصی نہیں کرتے۔ ‘‘
(خطبہ جمعہ بیان فرمودہ 8؍جنوری2010ء مطبوعہ الفضل انٹر نیشنل 29؍جنوری 2010ءصفحہ5)
’’ہر موصی کو خود بھی ہر وقت اپنا جائزہ لیتے رہنا چاہئے کہ کہیں عہد میں خیانت تو نہیں کر رہا‘‘
حضور انورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزموصی کو اپنا جائزہ لینے کی طرف توجہ دلاتے ہوئے فرماتے ہیں :
’’ہر موصی کو خود بھی ہر وقت اپنا جائزہ لیتے رہنا چاہئے کہ کہیں تقویٰ سے ہٹ کرمَیں اپنی کسی آمد کوچاہے وہ معمولی ہی کیوں نہ ہو ظاہر نہ کرکے اللہ تعالیٰ سے کئے گئے عہد میں خیانت تو نہیں کر رہا؟ پس موصیان اور موصیات جماعت میں چندہ دینے والوں کا وہ گروہ ہے جس کے متعلق یہی خیال کیا جاتا ہے کہ وہ تقویٰ کے اعلیٰ معیاروں کے حصول کی کوشش کرنے والے ہیں اور ہر لحاظ سے قربانیوں کے اعلیٰ معیار قائم کرنے والے ہیں جو اپنی آمد اور جائیداد کا ایک حصہ اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے اپنی خوشی سے پیش کرتے ہیں۔ ‘‘
(خطبہ جمعہ بیان فرمودہ 8؍جنوری 2010ء مطبوعہ الفضل انٹر نیشنل 29؍جنوری 2010ءصفحہ5تا6)
’’چندہ کوئی ٹیکس نہیں ہے بلکہ فرائض میں داخل ہے۔ خرچ کرو یہ تمہارے لئے بہتر ہے‘‘
ایک اَور جگہ حضور انورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزبخل سے دور رہنے کی تلقین اس طرح کرتے ہیں :
’’اگلی بات جس کی طرف میں توجہ دلانا چاہتا ہوں، وہ افرادِ جماعت پر چندوں کی اہمیت واضح کرنا ہے۔ یاد رکھیں اور یہ بات عموماً میں سیکرٹریانِ مال سے کہا بھی کرتا ہوں کہ لوگوں کو یہ بتایا کریں کہ چندہ کوئی ٹیکس نہیں ہے بلکہ اُن فرائض میں داخل ہے جن کی ادائیگی کا اللہ تعالیٰ نے قرآنِ شریف میں متعدد جگہ حکم فرمایا ہے۔ ایک جگہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔
فَاتَّقُوْااللّٰہَ مَا اسْتَطَعْتُمْ وَاسْمَعُوْا وَاَطِیْعُوْا وَاَنْفِقُوْا خَیْرًا لِّاَ نْفُسِکُمْ۔ وَمَنْ یُّوْقَ شُحَّ نَفْسِہٖ فَاُولٰٓئِکَ ھُمُ الْمُفْلِحُوْنَ۔ اِنْ تُقْرِضُوا اللّٰہَ قَرْضًا حَسَنًا یُّضٰعِفْہُ لَکُمْ وَیَغْفِرْلَکُمْ، وَاللّٰہُ شَکُوْرٌ حَلِیْمٌ۔ (التغابن: 17۔ 18)
پس اللہ کا تقویٰ اختیار کرو جس حد تک تمہیں توفیق ہے اور سنو اور اطاعت کرو اور خرچ کرو یہ تمہارے لئے بہتر ہے۔ اور جو نفس کی کنجوسی سے بچائے جائیں تو یہی ہیں وہ لوگ جو کامیاب ہونے والے ہیں۔ اگر تم اللہ کو قرضۂ حسنہ دو گے تو وہ اسے تمہارے لئے بڑھا دے گا۔ ‘‘
(خطبہ جمعہ فرمودہ 16؍ اگست 2013ء مطبوعہ الفضل انٹر نیشنل 30؍اگست 2013ءصفحہ15)
’’اللہ تعالیٰ کا احسان ہے کہ چندہ دینے کی توفیق دے رہا ہے‘‘
حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ نے چندہ دینے والوں پر اللہ کے فضلوں کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا:
’’پس ہر احمدی کو اس روح کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ ہم چندہ کیوں دیتے ہیں ؟ اگر کسی سیکرٹری مال یا صدر جماعت کو خوش کرنے کے لئے، یا اُس سے جان چھڑانے کے لئے چندہ دیتے ہیں تو ایسے چندے کا کوئی فائدہ نہیں۔ بہتر ہے نہ دیا کریں۔ اگر دوسرے کے مقابل پر آ کر صرف مقابلے کی غرض سے بڑھ کر چندہ دیتے ہیں تو اس کا بھی کوئی فائدہ نہیں۔ غرض کہ کوئی بھی ایسی وجہ جو خدا تعالیٰ کی رضا کے حصول کے علاوہ چندہ دینے کی ہو، وہ خدا تعالیٰ کے ہاں ردّ ہو سکتی ہے۔ پس چندہ دینے والے یہ سوچیں کہ خدا تعالیٰ کا اُن پر احسان ہے کہ اُن کو چندہ دینے کی توفیق دے رہا ہے، نہ کہ یہ احسان کسی شخص پر، اللہ تعالیٰ پر یا اللہ تعالیٰ کی جماعت پر ہے کہ وہ اُسے چندہ دے رہے ہیں۔ پس ہر چندہ دینے والے کو یہ سوچ رکھنی چاہئے کہ وہ چندے دے کر خدا تعالیٰ کے فضلوں کے وارث بننے کی کوشش کر رہا ہے۔ ‘‘
(خطبہ جمعہ بیان فرمودہ 16؍ اگست 2013ء مطبوعہ الفضل انٹر نیشنل 30؍اگست 2013ءصفحہ15)
’’سیکرٹریانِ مال کا کام ہے کہ ہر گھر تک پہنچنے کی کوشش کریں دوسری، تیسری اورچوتھی دفعہ جائیں‘‘
حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے سیکرٹریانِ مال کو ان الفاظ میں نصیحت فرمائی:
’’سیکرٹریانِ مال کا کام ہے کہ ہر مقامی سطح پر، ہر گھر تک پہنچنے کی کوشش کریں۔ اب تو فون ہیں، دوسرے ذریعے ہیں، سواریاں ہیں۔ یہاں یورپ میں تو اور بھی زیادہ بڑے وسائل ہیں۔ پاکستان میں ایسے سیکرٹریانِ مال بھی تھے جو دن کو اپنا کام کرتے تھے اور پھر شام کے وقت کام ختم کرکے رات کو گھروں میں پھرتے تھے۔ بڑے شہر ہیں، کراچی ہے لاہور ہے سائیکل پر سوار ہیں، ایک جگہ سے دوسری جگہ جا رہے ہیں اور نصیحت کر رہے ہیں، اس طرف توجہ دلا رہے ہیں۔ تو یہاں تو اب بہت ساری سہولتیں آپ کو میسر ہیں اور پھر بھی کام نہیں کرتے۔ بلکہ بعض سیکرٹریانِ مال کی یہاں بھی مجھے شکایات پہنچی ہیں کہ اُن کے اپنے چندے معیاری نہیں ہیں۔ اگر اپنے چندے معیاری نہیں ہوں گے تو دوسروں کو کیا تلقین کر سکتے ہیں۔ اور پیار اور نرمی سے یہ کام کرنے والا ہے۔ مالی قربانی کی اہمیت واضح کریں۔ بعض سخت ہو جاتے ہیں۔ ایک دفعہ کوئی انکار کرتا ہے تو دوسری دفعہ جائیں، تیسری دفعہ جائیں، چوتھی دفعہ جائیں لیکن ماتھے پر بل نہیں آنا چاہئے۔ دینے والے بھی یہ یاد رکھیں کہ کسی شخص کو یہ زُعم نہیں ہونا چاہئے کہ شاید اُس کے چندے سے نظامِ جماعت چل رہا ہے۔ ‘‘
(خطبہ جمعہ بیان فرمودہ 16؍ اگست 2013ء مطبوعہ الفضل انٹر نیشنل 30؍اگست 2013ءصفحہ15)
’’صدقہ و خیرات میں دیر نہ کرو۔ ایسا نہ ہو کہ جب جان حلق تک پہنچ جائے۔ تو تُوکہے کہ فلاں کو دو اور فلاں کو‘‘
حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے صحت کی حالت میں خرچ کرنے کی طرف توجہ دلاتے ہوئےفرمایا:
’’آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اعلیٰ صدقہ اور مالی قربانی کا ذکر ایک حدیث میں یوں فرمایا ہے۔ ایک روایت میں آتا ہے کہ ایک آدمی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہا کہ اے اللہ کے رسول! ثواب کے لحاظ سے سب سے بڑا صدقہ کیا ہے؟ آپؐ نے فرمایا ’’اللہ کی راہ میں سب سے بڑاخرچ یہ ہے کہ تو اس حالت میں صدقہ کرے کہ تو تندرست ہو اور مال کی ضرورت اور حرص رکھتا ہو۔ غربت سے ڈرتا ہو اور خوشحالی چاہتا ہو۔ صدقہ و خیرات میں دیر نہ کر۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ جب جان حلق تک پہنچ جائے تو تُوکہے کہ فلاں کو اتنا دے دو اور فلاں کو اتنا۔ حالانکہ وہ مال اب تیرا نہیں رہا وہ فلاں کا ہو ہی چکا‘‘۔
(بخاری کتاب الزکوٰۃ باب فضل الصدقۃ الشحیح الصحیح)‘‘
(خطبہ جمعہ بیان فرمودہ 3؍جون 2005ء مطبوعہ الفضل انٹر نیشنل17؍جون2005ءصفحہ6)
’’مالی قربانی اگلے جہان کی آگ سے حفاظت کا ذریعہ۔ یہ بخل ہی ہے جس نے پہلی قوموں کو ہلاک کیا‘‘
حضور انورایدہ اللہ تعالیٰ نے ایک اور جگہ فرمایا:
’’حضرت عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ صدقہ دے کر آگ سے بچو۔ خواہ آدھی کھجور خرچ کرنے کی ہی استطاعت ہو‘‘۔ (بخاری -کتاب الزکوٰۃ۔ باب اتقوا النار و لو بشق تمرۃ)
پس جہاں صدقہ اور مالی قربانی کرکے ہم اپنے آپ کو اگلے جہان کی آگ سے محفوظ کر رہے ہوں گے وہاں دنیا کی حرص، لالچ اور ایک دوسرے سے دنیاوی خواہشات میں بڑھنے کی دوڑ سے بھی محفوظ ہو رہے ہوں گے اور یوں آگ سے بچنے کے نظارے اس دنیا میں بھی دیکھیں گے۔ کیونکہ حسد کی آگ بھی بڑی سخت آگ ہے۔ احمدیوں میں تو بے شمار ایسے ہیں جو اس میدان کا تجربہ رکھتے ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ جو سکون مالی قربانی کرنے کے بعد ملتا ہے اس کی کوئی مثال نہیں، اس کا کوئی مقابلہ نہیں ہے اللہ تعالیٰ ہر احمدی کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اس حکم پر بھی عمل کرنے کی توفیق دے جس میں آپؐ نے فرمایاکہ’’الشُّحُّ یعنی بخل سے بچو۔ یہ بخل ہی ہے جس نے پہلی قوموں کو ہلاک کیا۔ ‘‘
(مسند احمد بن حنبل جلد 2صفحہ159مطبوعہ بیروت)‘‘
( خطبہ جمعہ بیان فرمودہ 3؍ جون 2005ء مطبوعہ الفضل انٹر نیشنل17؍جون2005ءصفحہ6)
’’بیٹے کے لیےتجہیز و تدفین کی رقم حضرت مسیح موعودؑ کو بھجوا نے کاایک ایمان افروز واقعہ‘‘
حضورِانور ایدہ اللہ تعالیٰ نےایک واقعہ یوں بیان فرمایا:
’’حضرت مسیح موعودؑ کے زمانے کی بات ہے قاضی محمد یوسف صاحب پشاوری نے ایک روایت کی ہے کہ وزیر آباد کے شیخ خاندان کا ایک نوجوان فوت ہو گیا۔ اس کے والد نے اس کے کفن دفن کے لئے 200روپے رکھے ہوئے تھے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے لنگر خانے کے اخراجات کے لئے تحریک فرمائی۔ ان کو بھی خط گیا تو انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو رقم بھجوانے کے بعد لکھا کہ میرا نوجوان لڑکا طاعون سے فوت ہوا ہے میں نے اس کی تجہیز و تدفین کے واسطے مبلغ دو سو روپے تجویز کئے تھے جو ارسال خدمت کرتا ہوں اور لڑکے کو اس کے لباس میں دفن کرتا ہوں۔ یہ ہے وہ اخلاص جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے مریدوں نے دکھایا۔ ‘‘
(قاضی محمد یوسف فاروقی احمدی قاضی خیل۔ رسالہ ظہور احمد موعود صفحہ70-71 مطبوعہ 30؍جنوری 1955ء)‘‘
(خطبہ جمعہ بیان فرمودہ 6؍جنوری 2006ء مطبوعہ الفضل انٹر نیشنل 27؍جنوری2006ء صفحہ6)
’’انتظامیہ کو اس اہم جہاد کی طرف لوگوں کو بلانا چاہیے‘‘
حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے انتظامیہ کو توجہ دلاتے ہوئے فرمایا:
’’پس جماعت کی انتظامیہ کو بھی کوشش کرنی چاہئے کہ تمام کمزوروں اور نئے آنے والوں کو بھی مالی قربانی کی اہمیت سے آگاہ کرے، ان پہ واضح کرے کہ کیا اہمیت ہے۔ اللہ تعالیٰ کے حکموں سے ان کو آگاہی کرائے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اس بارے میں جو ارشادات ہیں ان سے لوگوں کوآگاہ کریں۔ اگر نہیں کرتے تو پھر میرے نزدیک انتظامیہ بھی ذمہ دار ہے کہ وہ ان لوگوں کو نیکیوں اور اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول سے محروم کر رہے ہیں۔ جیسا کہ میں نے کہا اس جہاد سے پھر نفس کے جہاد کی بھی عادت پڑے گی، اپنی تربیت کی طرف بھی توجہ پیدا ہو گی، عبادتوں کی بھی عادت پڑے گی۔ ایک روایت میں آتا ہے حضرت جابر بن عبداللہ بیان کرتے ہیں کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک بارنماز عید پڑھائی آپ کھڑے ہوئے اور نماز کا آغاز کیا اور پھر لوگوں سے خطاب کیا۔ جب فارغ ہو گئے تو آپ منبر سے اترے اور عورتوں میں تشریف لے گئے اور انہیں نصیحت فرمائی۔ آپ اس وقت حضرت بلالؓ کے ہاتھ کا سہارا لئے ہوئے تھے اور حضرت بلالؓ نے کپڑا پھیلایا ہوا تھا جس میں عورتیں صدقات ڈالتی جا رہی تھیں۔
(بخاری کتاب العیدین باب موعظۃ الامام النساء یوم العید حدیث نمبر978)‘‘
( خطبہ جمعہ بیان فرمودہ6؍جنوری 2006ء مطبوعہ الفضل انٹر نیشنل 27؍جنوری 2006ء صفحہ6)
’’نبیوں کے زمانہ میں بھی چندے جمع کئے گئے تھے۔ سلطنتیں بھی آخر چندوں پر ہی چلتی ہیں ‘‘
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام ایک جگہ فرماتے ہیں :
’’چندے کی ابتدا اس سلسلہ سے ہی نہیں ہے بلکہ مالی ضرورتوں کے وقت نبیوں کے زمانہ میں بھی چندے جمع کئے گئے تھے۔ ایک وہ زمانہ تھا کہ ذرا چندے کا اشارہ ہوا تو تمام گھر کا مال لا کر سامنے رکھ دیا۔ پیغمبر خداﷺ نے فرمایا کہ حسب مقدور کچھ دینا چاہئے اور آپ کی منشاء تھی کہ دیکھا جاوے کہ کون کس قدر لاتا ہے … جمہوری امداد میں برکت ہوا کرتی ہے۔ بڑی بڑی سلطنتیں بھی آخر چندوں پر ہی چلتی ہیں۔ فرق صرف یہ ہے کہ دنیاوی سلطنتیں زور سے ٹیکس وغیرہ لگا کر وصول کرتے ہیں اور یہاں ہم رضا اور ارادہ پر چھوڑتے ہیں۔ چندہ دینے سے ایمان میں ترقی ہوتی ہے اور یہ محبت اور اخلاص کا کام ہے۔ ‘‘
(ملفوظات جلد 3صفحہ361۔ایڈیشن 1988ء)
’’ہمارے نبیﷺ نے بھی صحابہ پر چندے لگائے۔ جو ہمیں مدد دیتے ہیں آخر وہ خدا کی مدد دیکھیں گے‘‘
چندوں کی اہمیت اور ضرورت کے بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں :
’’مَیں یقینا ًجانتا ہوں کہ خسارہ کی حالت میں وہ لوگ ہیں۔ جو ریاکاری کے موقعوں میں تو صدہا روپیہ خرچ کریں۔ اور خدا کی راہ میں پیش و پس سوچیں۔ شرم کی بات ہے کہ کوئی شخص اس جماعت میں داخل ہو کر پھر اپنی خست اور بخل کو نہ چھوڑے۔ یہ خداتعالیٰ کی سنت ہے کہ ہر ایک اہل اللہ کے گروہ کو اپنی ابتدائی حالت میں چندوں کی ضرورت پڑتی ہے۔ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی کئی مرتبہ صحابہ پر چندے لگائے جن میں حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ سب سے بڑھ کر رہے۔ سو مردانہ ہمت سے امداد کے لئے بلاتوقف قدم اٹھانا چاہئے… جو ہمیں مدد دیتے ہیں آخر وہ خدا کی مدد دیکھیں گے۔ ‘‘
(مجموعہ اشتہارات جلد سوم صفحہ 156۔ایڈیشن 1988ء)
’’اگر تم نے کنجوسی کی تو اپنی کنجوسی کی وجہ سے تم لوگ ختم ہو جاؤ گے‘‘
حضورِانورایدہ اللہ تعالیٰ نے کنجوسی ختم کرنے کا ارشاد ان الفاظ میں فرمایا:
’’اللہ تعالیٰ کے فضل سے پرانے احمدیوں کی بہت بڑی تعداد اللہ تعالیٰ کی راہ میں مالی قربانیوں کی اہمیت کو سمجھتی ہے۔ لیکن اگر نئے آنے والوں کو اس کی عادت نہ ڈالی اور وہ اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرنے سے لیت و لعل سے کام لیتے رہے تو پھر جیسا کہ ہم دیکھ چکے ہیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بہت خوفناک انذار فرمایا ہے… اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اُس کا پیغام تو پھیلنا ہی ہے یہ تقدیر الٰہی ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کے وعدے ہیں۔ لیکن اگر تم نے کنجوسی کی تو اپنی کنجوسی کی وجہ سے تم لوگ ختم ہو جاؤ گے جس طرح کہ حدیث میں ذکر بھی ہے اور لوگ آ جائیں گے۔ … او رجوکوئی بخل سے کام لے وہ اپنی جان کے متعلق بخل سے کام لیتا ہے۔ پھر فرمایا:
وَاِنْ تَتَوَلَّوْا یَسْتَبْدِلْ قَوْمًا غَیْرَکُمْ۔ ثُمَّ لَا یَکُوْنُوْا اَمْثَالَکُمْ (محمد:39)
کہ اگر تم پھر جاؤ تووہ تمہاری جگہ ایک اور قوم کو بدل کر لے کر آئے گا پھر وہ تمہاری طرح سستی کرنے والی نہیں ہو گی۔ ‘‘
( خطبہ جمعہ بیان فرمودہ 6؍جنوری 2006ء مطبوعہ الفضل انٹر نیشنل 27؍جنوری 2006ء صفحہ7)
’’سو روپیہ شاید اس غریب نے کئی برسوں میں جمع کیا ہو گا۔ مگر للّہی جوش نے خدا کی رضا کا جوش دلایا‘‘
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام فرماتے ہیں :
’’مَیں اپنی جماعت کے محبت اور اخلاص پر تعجب کرتا ہوں کہ ان میں سے نہایت ہی کم معاش والے جیسے میاں جمال الدین اور خیرالدین اور امام دین کشمیری میرے گاؤں سے قریب رہنے والے ہیں۔ وہ تینوں غریب بھائی جو شاید تین آنے یا چار آنے روزانہ مزدوری کرتے ہیں سرگرمی سے ماہواری چندے میں شریک ہیں۔ ان کے دوست میاں عبدالعزیز پٹواری کے اخلاص سے بھی مجھے تعجب ہے کہ باوجود قلت معاش کے ایک دن سو روپیہ دے گیا کہ مَیں چاہتا ہوں کہ خدا کی راہ میں خرچ ہوجائے۔ وہ سو روپیہ شاید اس غریب نے کئی برسوں میں جمع کیا ہو گا مگر للّہی جوش نے خدا کی رضا کا جوش دلایا‘‘۔
(ضمیمہ انجام آتھم، روحانی خزائن جلد 11صفحہ 313-314)
حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ ہمیں نصیحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں :
’’اللہ کرے کہ ہم ہمیشہ ان توقعات پر پورا اترتے رہیں جو حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ہم سے کی ہیں۔ اور ہمیشہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی دعاؤں کے وارث بنتے رہیں۔ اور ہمیشہ اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو سمیٹنے کے لئے اس کی راہ میں قربانیاں پیش کرنے والے بنتے رہیں۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس کی توفیق عطا فرمائے۔ ‘‘
( خطبہ جمعہ بیان فرمودہ 28؍مئی 2004ء مطبوعہ الفضل انٹر نیشنل 11؍جون2004ءصفحہ8)
٭…٭…٭