متفرق مضامین

تعلیم الاسلام کا لج کے دو خوش نصیب شہید طلباء

(پروفیسر محمد شریف خان۔ امریکہ)

گاہے گاہے باز خواں ایں قصۂ پا رینہ را

کہتے ہیں درخت اپنے پھل سے پہچانا جا تا ہے۔ مدرسہ تعلیم الاسلام سا ت دہا ئیوں سے زائد عر صہ بالخصوص نوجوانانِ احمدیت کی علمی اور عملی سیرابی کا چشمہ بنا رہا۔ مد رسہ میں مروجہ علوم کے سا تھ ساتھ دینی علوم کی تعلیم کے با عث طلباء کی سوچوں میں وسعت، نیکی، مذہبی اور انسا نی اقدار سے محبت، امن اور بھا ئی چارے کی اہمیت ا جاگر ہوئی۔ طلباء کے ذہنی جلا کے ساتھ ساتھ کھیلوں کے اعلیٰ انتظام کے با عث ان کی جسمانی صحت کا خیال بھی رکھا جا تا۔ یہ ادارہ ہر قسم کے دنگافساد، سیاسی رجحا نات، مار پیٹ سے پا ک، صحت مند ماحول میں

فَاسْتَبِقُوْا الْخَیْرَاتِ

کی رہ نمائی کے تحت پون صدی سے زائد خدمتِ خلق سے سرشار نوجوان پیدا کر تا رہا۔ لیکن اچھے بھلے کام کرتے ادارے کو قومیا کر کےا سے سرکاری اداروں کے سپرد کر کے اس ملک و ملّت کے خادم، سالوں سے قا ئم مثالی تد ریسی ادارے کا ماحول تھوڑے ہی عرصے میں تبا ہ و بر با د کر کے رکھ دیاگیا۔

محض اللہ تعا لیٰ کے فضل، بزرگوں کی دعا ؤں، اور مخلص اساتذہ کے طفیل اس عظیم ما درِ علمی سے فا رغ التحصیل طلباء زندگی کے ہر شعبے میں ملک و ملت کی خدمت کر تے رہے اور کر رہے ہیں۔ اور بیرو نِ ملک کٹھن سے کٹھن امتحانوں میں سرخرو ہو کر انسا نی خدمت بجا لا رہے ہیں۔

آج اس عظیم ادارے کے دو ہو نہار طلباء کا ذکر کرنا چاہتا ہوں جو اپنے مضبوط کردار کے با عث اپنی مفوضہ ڈیوٹی اور عقیدے کی حفا ظت کی خاطر اپنی جان تک کا نذرانہ خدائے واحد و یگانہ کی خدمت میں پیش کرکے رہتی دنیا تک امر ہو گئے۔

ان شہیدانِ وفا کا ہم پر قرض ہے کہ ہم انہیں اپنی دعاؤں میں یاد رکھیں۔ اللہ کرے ہما ری نسلوں میں احمدیت کو ان سے بڑھ کر جاںنثار ملیں۔ آمین۔

محمد منیر خان شامی شہید (1927-1947ء)

یہ نو جوان محترم ڈاکٹر حبیب اللہ خان صاحب ابو حنیفی کے منجھلے بیٹے اور خدا تعا لیٰ کے فضل سے و اقفِ زندگی تھے۔ انہیں سا ئنس کے مضا مین میں ایم ایس سی کرنے کی ہدایت کی گئی تھی۔ آپ1947ء میں، تعلیم الاسلام کالج قا دیان میں بی ایس سی کے پہلے سال کے طا لب علم تھے۔ آپ کا مطالعہ بہت وسیع اورعلمی ذوق بہت عمدہ تھا۔ انگریزی اور اردو کتب، رسائل و جرائد آپ کے مطا لعہ میں رہتے۔ آپ اپنے محلے کی مجلس خدام الاحمدیہ کے فعال رکن تھے۔ اورایک شریف نوجوان کے طور پر جا نے جا تے تھے۔ کالج کے طلباء کے ساتھ مل کر بزمِ سخن بنائی ہو ئی تھی جس کے ہفتہ واری اجلاسات میں ہرممبر گذشتہ ہفتہ کے دوران اپنے مطا لعہ کا ما حصل پیش کرتا، ہلکی پھلکی تحریریں صحت مندعلمی تفریح مہیا کر تیں۔ یہ دور سیاسی لحاظ سے بڑے فساد کا دور تھا۔ اسرائیل کی ریاست دھونس سے قائم کی جا رہی تھی۔ ملک میں تحریکِ آزادی آئے دن رخ بدل رہی تھی۔ عربوں کے ساتھ مسلمانانِ عا لم کے دل دھڑکتے تھے۔ چنانچہ عر بوں سے ہمدردی پر منیر کے دوست اسے ’’منیرشامی‘‘ کے نام سے پکارتے۔ والد ملازمت کے سلسلے میں افریقہ میں مقیم تھے۔ گھر اور چھو ٹے بہن بھا ئیوں کی نگرا نی بھی منیر کے سپرد تھی۔

1947ء کے پر آشوب دَور میں ملکی بٹوارے کے وقت جب قا دیان کی آ با دی پا کستان منتقل ہو رہی تھی، نو جوانوں کو نظام جماعت کے تحت آبادی کے انخلاء میں مدد دینے کے لیے اپنے محلوں میں ٹھہرے رہنے کی ہدا یت تھی۔ سکھ بار بار حملے کر رہے تھے۔ گھر میں دو نالی بندوق تھی۔ ایک ایسے ہی حملے کے دوران منیر نے دن کے وقت تو سکھوں کا خوب ڈٹ کر مقابلہ کیا۔ آ خرکار سکھوں نے رات کے اندھیرے میں موقع پا کرپیچھے سے وار کر کے شہید کر دیا۔ جب خدام صبح منیر کی خیریت معلوم کرنے گئے تو دیکھا کہ منیر چاروں شانے چت صحن میں خون سے لت پت پڑے تھے، پیٹ چاک تھا، انتڑیاں باہر نکلی ہوئی تھیں۔ اور ان کی روح کبھی کی قفس عنصری سے پرواز کر چکی تھی۔

اِ نَّالِلّٰہِ وَ اِ نَّآ اِلَیْہِ رَا جِعُوْنَ۔

جب منیرکے والد ڈا کٹر حبیب اللہ خان صاحب کو اپنے جواں سال بیٹے کی شہا دت کی خبر دیارِ غیر افریقہ میں ملی تو انہوں نے خداتعالیٰ کی توفیق سے یہ صد مہ بڑی بہادری سے برداشت کیا۔

حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ علیہ نے ’’تذکرہ شہدائے احمدیت ‘‘ کے سلسلۂ خطبات میں 11؍جون 1999ء کو مسجد فضل لندن میں محمدمنیر خان شامی صاحب شہید کاتذکرہ درج ذیل الفاظ میں فرمایا:

’’مکرم محمد منیر صاحب شامی مکرم ڈاکٹر حبیب اللہ خان صاحب ابو حنیفی کے ہاں تنزانیہ میں …پیدا ہو ئے، ابتدائی تعلیم و ہیں حاصل کی۔ 1947ء کے دوران آپ تعلیم الاسلام کالج قا د یان میں بی ایس سی کے طا لب علم تھے۔ آپ واقفِ زند گی تھے اور عر بوں سے اپنی ہمدردی کی و جہ سے آپ کو لو گوں نے شامی مشہور کر دیا حا لا نکہ ملکِ شام سے ان کا کوئی تعلق نہیں تھا لیکن عربوں سے محبت ضرور تھی۔

او صافِ حمیدہ

آپ خا موش طبع محنتی طا لب علم تھے۔ انگریزی زبان پر عبور حا صل تھا۔ جماعت سے انتہا ئی محبت اور عقیدت رکھتے تھے۔ امامِ وقت کے ہر حکم پر لبیک کہنے وا لے تھے۔ مطالعہ کا بہت شوق تھا۔ مکرم ماسٹر چوہدری فضل داد صاحب مر حوم لائبریر ین بیا ن کر تے ہیں کہ انہوں نے کا لج لا ئبریری کی تمام کتب پڑھ لی تھیں۔

واقعہ شہادت

آپ حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ارشاد کے مطابق اپنے گھر دارا لرحمت قادیان بر مکا ن پروفیسر مولاناخان ارجمند خان صاحب مرحوم محلہ کی حفاظت کے سلسلہ میں مقیم تھے۔ گھر میں دو نا لی بندوق تھی۔ اِدھر اُ د ھر سے سکھوں کے ہو نے وا لے حملوں کے دوران خوب مقا بلہ کر تے رہے۔ ایک رات سکھوں نے ان کے گھر کی دیوار پھاند کر اندھیرے میں آ پ پر حملہ کیا اور آ پ کو شہید کر دیا۔ جب خدام کو حکم ہوا کہ وہ ہو سٹل میں جمع ہو جا ئیں تو آپ کو نہ پا کر بہت پریشان ہوئے جب پتہ کیا گیا تو آپ کو گھر کے صحن میں چت پڑا پا یا گیا۔ آپ کی انتڑیاں با ہر نکل چکی تھیں اور آپ اللہ کی راہ میں شہید ہو چکے تھے۔

اِ نَّاللّٰہِ وَ اِ نَّآ اِلَیْہِ رَا جِعُوْنَ۔

آپ کے والد صاحب جو اِن دنوں تنزانیہ میں تھے وہ بھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے بہت مخلص انسان تھے۔ در اصل ان سے اخلاص ورثہ میں پا یا تھا۔ ان کی ڈائری کے اندراج بتا ریخ 3ستمبر 1947ء یہ پر خلوص عبارت درج ہے:

’’آج قادیان میں عزیز محمد منیر خاں شامی نے شہادت کی سعادت پائی۔ الحمد للہ رب العالمین۔‘‘

پسماندگان

آپ غیر شا دی شدہ تھے، آپ کے تین بھا ئی اور ایک بہن زندہ ہیں۔ سب سے بڑے بھا ئی ڈا کٹر محمد حفیظ خان صاحب آج کل ٹو رانٹو میں رہتے ہیں۔ ان کے دو چھو ٹے بھا ئی بھی تھے۔ محمد معین خان صاحب لا ہور (حال مقیم میا می۔ فلو ریڈا، امریکہ۔ نا قل) میں اور پرو فیسرڈاکٹر محمد شریف خا ن صاحب ربوہ (حال مقیم فلا ڈلفیا، امریکہ۔ نا قل) میں مقیم ہیں۔ جب کہ ان کی بہن خدیجہ بیگم صاحبہ ما نٹریال میں آباد ہیں۔ ‘‘

(الفضل ربوہ، 7؍ستمبر1999ء)

محمد منیر خان صاحب شہید خاکسار را قم الحروف کے بڑے بھا ئی تھے۔ ہمارےوالد صاحب ڈاکٹر حبیب اللہ خان صاحب مرحوم ا پنی زندگی کا ایک وا قعہ سنایا کر تے تھے۔

’’ڈڈوما۔ تنزانیہ کے ہسپتال میں ایک دن ادھر اُدھر جاتے ہوئے میرا پاؤں پھسل گیا تو دوسرے ڈاکٹروں نے جو سب انگریز تھے مزاحاً فقرہ بازی کی کہ’’لگتا ہے ڈاکٹر خان کے بچے رات کے وقت خان کو سونے نہیں دیتے، اس لیے دن کے وقت پھسل پھسل پڑ رہا ہے۔ بھلا ہمیں بتا ؤ تو سہی اتنے بچوں کا کیا کرو گے؟‘‘

میں نے انہیں جواب دیا :

God willing I will make of them a doctor, an engineer, a clergy man and a teacher!

(انشا اللہ، میں ان میں سے ایک ڈاکٹر، ا یک انجنیئرایک مربی اور ایک استاد بنا ؤں گا)۔

پھر اللہ تعا لیٰ کا شکر ادا کر تے ہو ئے کہتے:

’’اللہ تعالیٰ نے میری خواہش کو بہتر رنگ میں پورا کیا اور مجھے ان بچوں میں سے ایک شہید بھی عطا کر دیا۔ فالحمدُ للّٰہِ علی ذا لک۔ ‘‘

مبشر احمد صاحب چند ھڑشہید۔ گکھڑ منڈی

گکھڑ منڈی ضلع گو جرا نوالہ کے مقا می گھرانوں میں چندھڑوں کا گھرانہ سب سے نما یا ں تھا۔ چند ھڑ خاندان کے جد چودھری نواب خان جھنگ میگھیانہ میں سکو نت پذیر تھے۔ ان کی شادی سیالکوٹ کے ایک ا حمدی گھرانے میں ہو ئی اور وہ احمدی ہو گئے۔ جب ان کے بھا ئیوں کو یہ خبر ہوئی تو ان کی جان کے دشمن ہو گئے۔ ایک سکھ کو انعام کا لا لچ دے کر چو دھری صاحب کا سر لانے کی سازش کی گئی۔ خدا تعا لیٰ نے چوہدری صاحب کو دشمن کے وا ر سے بچا یا۔ ان حا لا ت کے پیشِ نظر سارا خاندان ہجرت کر کے گکھڑ آ بسا۔ جہا ں زمینو ں اور آڑھت کی آمد سے گزر بسر ہونے لگی۔

مجھے یہاں چودھری صا حب کے بیٹے اما نت علی صا حب مرحوم کے ہو نہا ر بیٹے مبشر احمد کا ذکر کر نا مقصود ہے۔ عزیزم مبشر احمد نے گکھڑ ہا ئی اسکول سے اغلباً 1962ء میں میٹرک امتیازی نمبروں سے پاس کیا۔ والدین نے اچھی تعلیم اور تربیت کی خا طر تعلیم الاسلام کا لج ربوہ ایف ایس سی میں داخل کر وا دیا، اگر چہ ارد گرد گو جرانوالہ اور و زیر آباد میں کا لج مہیا تھے۔ عزیزم خوبصورت، صحت مند، ہنس مکھ منفرد نو خیز جوان تھا۔ میں ذاتی طور پر عزیزم کو بچپن سے جا نتا تھا۔ ان کا ہنستا ہوا چہرہ اب بھی میری آنکھوں کے سا منے ہے۔ اس کی طبیعت میں ایک طرح کا ہلکا پھلکا مزاح تھا۔ بزرگوں کے ساتھ ہمیشہ مؤدّب رہتا۔ مجلس اور جماعتی کا موں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتا۔

مبشر احمد نے ا پنی لیا قت اور خوش خُلقی کے باعث کا لج میں سب کا دل موہ لیا تھا۔ عزیزم مبشر احمد مو سمِ گرما کی چھٹیاں گزار نے گھر آ یا ہوا تھا۔ ایک دن بازار میں گزر رہا تھا کہ ایک اوباش قصائی عزیزم کے پیچھے چھری لےکر دوڑ پڑا اور مبشر احمد احمدیت پر جان نثا ر کر نے کا فخر حا صل کر گیا۔

اِ نَّاللّٰہِ وَ اِ نَّآ اِلَیْہِ رَا جِعُوْنَ۔

ان دنوںحضرت صاحبزادہ مرزاناصراحمدصاحبؒ پرنسپل تعلیم الاسلام کا لج ربوہ، کراچی تشریف لے گئے ہوئے تھے۔ جب انہیں مبشراحمد کی شہادت کی اطلاع ملی تو اس کا احوال مکرم پرو فیسر چو ہدری محمد علی صاحب نےتا ریخِ احمدیت جلد 9صفحہ 143پران الفاظ میں بیان کیاہے:

’’جب مر حوم مبشر احمد گکھڑ جو بے حدہونہاراورنیک اور ذہین طا لب علم تھاقتل ہوا۔ اورآپ(یعنی پرنسپل صاحب۔ نا قل) کی خدمت میں شام کو کرا چی میں ضمناً ایک لڑکے مبشر احمد کی اطلا ع کی گئی تو رات گئے غا لباً بارہ ایک بجے کا وقت ہو گا کہ آپ کا فون آیا کہ تفصیل بتا ئی جائے۔ آپ نے فرمایا مجھے نیند نہیں آ رہی اور بے حد بےچینی ہے۔ کیا یہ وہی مبشر احمد تو نہیں جو ہر وقت مسکراتا رہتا تھا؟ افسوس کہ یہ وہی مبشر احمد تھا جس کی وفات پر آپ اس طرح بے چین ہو گئے اور آدھی رات کوکراچی سے فون کیا۔‘‘

اتنا عر صہ گزرنے کے با وجود جب بھی عزیزم مبشر احمد کی یاد آتی ہے، طبیعت پر ایک خا ص قسم کی افسرد گی چھاجا تی ہے۔ اور بے اختیار دل سے دعا نکلتی ہے کہ اللہ تعا لیٰ عزیز شہید کو اپنی رضا کی چادر میں لپیٹ لے۔ آ مین۔

اللہ تعا لیٰ مرحومین کے در جات بلند فر ما ئے۔ آ مین

ان جیسے جان نثا ر فر زا نوں کے بارے میں حضرت مو لانا غلام رسو ل صاحب را جیکیؓ نے کیا خوب فر ما یا :

آں رسمِ قتیلانِ محبّت کہ کُہن گشت ما تازہ کنیم از سرِ نو دارو رسن را

آں منزلِ خُوں بار کہ شُد مقتلِ عشّاق از مقصد ما ہست بصد جوشِ تمنّا

اگر چہ دنیا محبت الٰہی سے سر شار ہو کر جان قر بان کرنے والوں کی روایات کو بھول چکی ہے، مگر احمدیت نے قرونِ اولیٰ کی ان روایا ت کو از سرِ نو تا زہ کردیا ہے۔ حق و صداقت کے عاشق جہاں اپنی جا نیں نثار کر تے رہے ہیں، اُ سی قربان گاہ تک رسائی تو ہماری زند گی کا نصب العین ہے۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button