سُرخ موسم
جرم ہے آگ سے بے کس کو بچاتے رہنا
سلسلہ عام ہے زندوں کو جلاتے رہنا
سینکڑوں قتل مگر ایک ہی دستور یہاں
نعش ہاتھوں میں لیے پاؤں گھساتے رہنا
بیٹیوں ماؤں کی تقدیر تو دیکھو لوگو!
چاک چادر پہ لہو گرد سجاتے رہنا
چیخنا پیٹنا انصاف کے دروازوں کو
ماتم عقل ہے بہروں کو سناتے رہنا
مرنے والوں کو تو مرنے کا سلیقہ ہی نہیں
جان دیتے ہوئے اپنوں کو رلاتے رہنا
گولیاں مار سلائے ہیں جنہوں نے گستاخ
گولیاں دے کے انہیں روز سلاتے رہنا
صبر گر جرم ہے بےصبر بنا دو مجھ کو
اور بےصبر کو پھر صبر سکھاتے رہنا
اسلحہ ساز خداؤں پہ ہنسی آتی ہے
مال اپنی ہی حفاظت پہ اُڑاتے رہنا
دیکھنا ہاتھ میں کشکول بڑا ہو ورنہ
خاتمہ طے ہے فقیروں کو بتاتے رہنا
ڈھیٹ دیوار ہے دھکوں سے گرے گی کیونکر
شان جھوٹوں کی صداقت سے گراتے رہنا
ایک تدبیر فتحیاب بنا دیتی ہے
نفس بھا جائے تو اوقات بتاتے رہنا
یاد رکھنا کہ خدا دیکھ رہا ہے پھر بھی
اس کی رحمت کا تقاضا ہے بچاتے رہنا
(حافظ اسداللہ وحید۔سیرالیون)