متفرق مضامین

برداشت، صبر اور استقامت کے چند عظیم الشان اور درخشندہ نمونے (قسط دوم۔ آخری)

(ذیشان محمود)

خدا تعالیٰ کی راہ میں شہید ہونے والوں کے پسماندگان کے حوصلے، برداشت، صبر اوراستقامت کے چند عظیم الشان اور درخشندہ نمونے

احمدی ماؤں، باپوں، بیٹے بیٹیوں، بھائی اور بہنوں کے عدیم المثال اور منفرد عملی خراجِ تحسین

٭…مکرم میاں مبشر احمد صاحب شہید کی اہلیہ محترمہ کہتی ہیں کہ بچپن سے لے کر اب تک اپنے پیارے آقاﷺ کے ظلم کے مقابلے پر عظیم الشان صبر کے واقعات اتنے پڑھے اور سنے کہ ہمارے لیے جبر کے مقابلے پر صبر کا مضمون اجنبی نہیں۔ حضرت مسیح موعودؑکے زمانے میں حضرت صاحبزادہ عبداللطیف صاحبؓ سے شہادت کا جو سلسلہ شروع ہوا وہ اب تک جاری و ساری ہے۔ جونہی یہ خبر آئی کہ ہماری مساجد پر دہشت گردوں نے حملہ کردیا ہے۔ دل میں خدشات نے ایک طوفان برپا کردیا۔ چھٹی حس یہ کہہ رہی تھی کہ کچھ ہونے والا ہے۔ مجھے اسی وقت حضرت اماں جانؓ کا اپنے بیٹے کی وفات کے بعد صبر کے ساتھ نماز پڑھنے کا واقعہ یاد آیا۔ میں بھی وضو کرکے اللہ تعالیٰ کے حضور جھکی اور التجا کی کہ اے میرے پیارے خدا !تیرے بہت سے پیارے بندے تیری عبادت کے لیے تیرےگھر میں اکٹھے ہوئے ہیں۔ اس وقت دشمنوں کی زد میں ہیں۔ ان کا تو ہی حافظ و ناصر ہے۔ ان کو دہشت گردوں کی زد سے بچا۔ اے میرے پیارے! میں نہیں جانتی کہ میرے میاں اس وقت زندہ ہیں یا زخمی ہیں یا کہ شہید ہوچکے ہیں۔ جس حال میں بھی ہیں تیرے سپرد کرتی ہوں۔ میں اپنے لیے اور اپنے بچوں کے لیے تیرے حضور صبر کی طاقت مانگتی ہوں۔ تو ہی مشکل کشا اور بہترین دوست ہے۔ اللہ تعالیٰ کے حضور گریہ و زاری کر کے کمرے سے باہر نکلی ہی تھی کہ میری بہو نے بھیگی پلکوں کے ساتھ اپنے سسر کی شہادت کی خبر سنائی اور فون میرے ہاتھ میں تھما دیا۔ یہ میرے بیٹے کی درد میں ڈوبی آواز تھی۔ امی جان ابو شہید ہو گئے ہیں۔ میرا جسم سر سے پاؤں تک لرز رہا تھا۔ میں نے بے اختیار ہو کر اپنے بیٹے کو بولا: بیٹا آپ یہ کیا کہہ رہے ہیں اچھی طرح سے تصدیق تو کرلیں۔ کہنے لگا امی جان ابو جان کا جسدِ خاکی میری بانہوں میں ہے اور میں اس وقت ایمبولینس میں بیٹھا ہوں۔ ایک ہی لمحے میں میرے سر سے سائبان گر گیا۔ میرے بچے باپ کی شفقت سے محروم ہوگئے۔ مجھے اس وقت جماعت کی خاطر شہید ہونے والے پاکستان اور غیر ممالک کے احمدی شہدا ءکی بیگمات بہت یاد آئیں اور ان کے یتیم بچے بھی۔ ان کے اور میرے غم سانجھے تھے۔ آج میں خوش ہوں اور مجھے فخر ہے کہ میرے شوہر نے شہید ہو کر میرے سینے پر ایک تمغہ سجا دیا( شہید کی بیوہ کا)۔ جو تا دمِ مرگ میری پہچان رہے گا اور جو مجھے بے حد عزیز ہے۔

٭…مکرم ملک وسیم احمد صاحب شہید کی اہلیہ محترمہ لکھتی ہیں کہ وسیم صاحب کے نمبر سے کسی احمدی بھائی نے فون کر کے خبر دی کہ وسیم صاحب شہید ہو گئے ہیں۔ یہ خبر سن کر بہت دکھ اور تکلیف بھی ہوئی لیکن شہادت جیسا بلند رتبہ پانے پر بہت خوشی تھی اور سر فخر سے بلند تھا کہ مسجد میں نمازیوں کی حفاظت کرتے ہوئے شہادت پائی۔

٭…مکرم لعل خان ناصر صاحب کی اہلیہ محترمہ بیان کرتی ہیں کہ اللہ میاں نے ایسی صابراولاد دی کہ پردیس میں بچی نے اپنے پیارے ابوجان کی جدائی کا غم بہترین صبر سے برداشت کیا۔ یقیناً خدا اس کے صبر کا پھل اس کو دے گا۔ ان شاء اللہ۔ اس طرح چھوٹے بچوں نے بھی اپنے ابو جان کی شہادت کو صبر سے برداشت کیا۔ بلکہ مجھے بھی صبر کرنے کا کہتے رہے۔ بہرحال ہم خداکی رضامیں راضی ہیں اورالحمدللہ ہمارے پیارے آقا کا ہاتھ ہمارے سروں پر ہے اوراللہ میاں اس محبت بھری چھت کو ہمیشہ ہمارے سروں پر سلامت رکھے۔

٭…مکر م پروفیسر عبد الودود صاحب کی اہلیہ محترمہ کہتی ہیں کہ آپ کی شہادت کا بھاری صدمہ برداشت کرنا آسان بات نہ تھی۔ مگر اللہ تعالیٰ نے توفیق دی۔ جب ایمبولینس میں آپ کا جنازہ لے کر گھر آرہے تھے تو سارے راستے کے دوران میں اللہ تعالیٰ سے اپنے صبر کی توفیق مانگتی رہی تاکہ معصوم بچوں کو سنبھال سکوں۔ گھر جنازہ پہنچنے پر سب بچوں کو آپ کے پاس بٹھا کر کہا کہ چیخ کر نہیں رونا۔ تمہارے ابو شہید ہوئے ہیں۔ آکر انہیں سلام کرو۔ بیٹے نے بھی اور بیٹیوں نے بھی کوئی لفظ منہ سے نہ نکالا مگر آنسو ضرور گرتے رہے۔ اسی طرح بہن بھائیوں نے بھی انتہائی صبر کا مظاہرہ کیا۔

٭…مکرم شیخ عامر رضا صاحب شہید مردان کی اہلیہ محترمہ کہتی ہیں کہ میرے بچے شاید اپنے پیارے باپ کی شفقتوں، ان کی توجہ اور پیار بھرے برتاؤ سے محروم تو ہو گئے ہیں مگر ساتھ ساتھ اس بات پر تسلی اور خوشی بھی ہے کہ میرے شوہر ان خوش نصیبوں میں شامل ہو نے کی سعادت پا گئے ہیں جو اپنی جانیں دین کی آبیاری کے لیے نچھاور کرنے میں جرأت و بہادری کی داستانیں رقم کر جاتے ہیں وہ ہمارے لیے دعاؤں کا خزانہ چھوڑ گئے ہیں۔ خلیفۂ وقت کی دعاؤں کے ساتھ ساتھ تمام احمدی جماعت کی دعائیں ہمیں ہمت اور حوصلے دیے ہوئے ہیں … میرے بچے بھی اپنے والد کو بہت یاد کرتے ہیں۔ ساتھ ہی اللہ تعالیٰ نے ان بچوں کو کمال صبر اور حوصلہ عطا فرمادیا…

عامر کی شہادت کے بعد حضور ِانور ایدہ اللہ تعالیٰ نے خود ساری فیملی کے ہر فرد سے فون پر بات کی اور ہم سب کو بہت تسلی اور دعائیں دیں۔ حضور کی باتیں سن کر میرے دل کو بہت صبر اور اطمینان حاصل ہوا…

حضور انور ہی کی ہدایت کے مطابق ہم نے ربوہ ہجرت کی۔

٭…مکرم شیخ محمود احمد صاحب ضلع مردان کے متعلق ان کی اہلیہ محترمہ کہتی ہیں کہ

’’پہلے جب ہمارا بھانجا شہید ہوا تو ہمارا ایمان اور بھی مضبوط ہو گیا۔ ایک تو یہ کہ ٹھیک ہے کہ میرے شوہر مجھ سے تو جدا ہو گئے ہیں لیکن انہیں شہادت کی خوشی نصیب ہوئی ہے اور دوسرا یہ کہ میرے بچوں میں اور مجھ میں اور جذبہ بڑھ گیا ہے۔ ہم چاہیں گے کہ احمدیت کے لیے ہمیں جو بھی قربانی دینی پڑے ہم دیں۔ ‘‘

٭…مکرم محمود احمد صاحب شہید کی شہادت پر آپ کی اہلیہ محترمہ کہتی ہیں کہ ہم اللہ تعالیٰ کا شکرادا کرتے ہیں کہ ہم احمدی ہیں۔ ہم بھی قربان ہونے کے لیے تیار ہیں۔ مجھے اپنے میاں پر فخر ہے کہ انہوں نے شہادت حاصل کی۔

٭…مکرم شیخ عمر جاوید صاحب شہید مردان کی شہادت نے آپ کی اہلیہ محترمہ کے دل میں احمدیت کے لیے قربانی کے جذبہ کو مزید ابھار دیا۔ آپ کہتی ہیں کہ مخالفین کو یہی کہنا ہے کہ شہید کرنے سے یا مار دینے سے سچائی چھپ نہیں سکتی، جیت ہمیشہ سچائی کی ہوتی ہے، سچائی اپنا راستہ خود بناتی ہے، چاہے جتنے بھی احمدی بھی شہید کر لیں، احمدیت ان شاء اللہ تعالیٰ دنیا کے کناروں تک پہنچے گی۔

٭…مکرم چوہدری اعجاز نصر اللہ خان صاحب شہید لاہور کی اہلیہ محترمہ کہتی ہیں کہ یہ اللہ تعالیٰ کا نہایت احسان ہے کہ اس نے ہمیں اس انعام سے نوازا اور ان کو شہادت کا رتبہ نصیب ہوا۔ غم تو اپنی جگہ پر ہے لیکن سب دعائیں کررہے ہیں۔ حضور انورایدہ اللہ تعالیٰ دعائیں کر رہے ہیں۔

٭…مکرم ملک مقصود احمد صاحب شہید کی اہلیہ محترمہ کہتی ہیں کہ انسان تو ہے ہی فانی۔ یہ جو آپ کو رتبہ مل گیا ہے اس سے میں مطمئن ہوں۔ میں بھی تو انسان ہوں اس عمر میں تو ویسے بھی انسان کی زندگیbonusپر ہو تی ہے۔ لیکن شہادت کا مقام اپنی جگہ پرہے کیو نکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ شہیدوں کو مردہ نہ کہو وہ زندہ ہیں ان کو رزق دیا جاتا ہے اور حد یثوں میں بھی شہیدوں کے بہت زیادہ مرتبے بیان ہوئے ہیں۔

٭…مکرم خاور ایوب صاحب شہیدکی اہلیہ محترمہ کہتی ہیں کہ مجھے بہت فخر ہے کہ میرے میاں شہید ہوئے ہیں اور میں آپ کی بیگم ہوں۔

٭…مکرم محمد انور صاحب شہید کی اہلیہ محترمہ کہتی ہیں کہ میں مکرم محمد انور صاحب شہید کی بیوہ ہوں۔ میرے لیے یہ بہت بڑی خوش قسمتی ہے۔ میں بہت خوش قسمت انسان ہوں کہ یہ رتبہ میرے خاوند کو ملا۔ میں بہت ہی خوش قسمت انسان ہوں کہ مجھے خدا نے ایسا خاوند عطا کیا جس نے خدا کی راہ میں اپنی جان تک قربان کرنے سے بھی دریغ نہ کیا۔

صابر بیٹے…نوجوان کا عجیب صبر

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں :

٭…ایک احمدی نے لکھا کہ میں ربوہ سے گیا تھا۔ ایک نوجوان خادم کے ساتھ مل کر لاشیں اٹھاتا رہا تو سب سے آخر میں اس نے میرے ساتھ مل کرایک لاش اٹھائی اور ایمبولینس تک پہنچا دی، اور اس کے بعد کہنے لگا کہ یہ میرے والد صاحب ہیں۔ اور پھر یہ نہیں کہ اس ایمبولینس کے ساتھ چلا گیا بلکہ واپس چلا گیا اور اپنی ڈیوٹی جو اس کے سپرد تھی اس کام میں مستعد ہو گیا۔

(خطبہ جمعہ بیان فرمودہ4؍جون2010ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل25؍جون2010ءصفحہ8)

٭…مکرم میاں منیر عمر صاحب شہید کے بیٹے مکرم واصف عمر صاحب کہتے ہیں کہ میں نے جب والد صاحب کو شہید ہونے کے بعد پہلی دفعہ دیکھا تو طبعاً مجھے ایک دم بہت تکلیف ہوئی۔ بہت غم و غصہ کی کیفیت تھی میرے اندر۔ لیکن بعد میں جب مجھے شہادت کے مقام و مرتبہ کی سمجھ آئی، جماعت کا محبت و اخلاص کا سلوک دیکھا اور حضور انور سے فون پر بات ہوئی تو مجھے صبر آگیا اور اب مجھے فخر ہے کہ میں ایک شہید کا بیٹا ہوں۔

٭…مکرم محمداشرف بھلر صاحب شہید کے بیٹے مکرم وقار احمدصاحب کہتے ہیں کہ مجھے ان کی شہادت پر فخر ہے۔ میڈیا میں کئی قسم کے فتوے لگے اور کئی علماء نے ابو کا جنازہ پڑھنے والوں پر فتویٰ عائد کیا کہ ان کے نکاح ٹوٹ گئے ہیں اور وہ کافر ہوگئے ہیں۔ جلد از جلد نکاح زندہ کروائیں اور کلمہ پڑھیں۔ اس کے بعد بہت مشکلات پیش آئیں، لوگوں نے بولنا چھوڑدیا لیکن اللہ کا فضل اور حضور کی دعائیں ساتھ ساتھ ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کو جنت میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے۔ آمین ثم آمین۔

٭…مکرم محمد اسلم بھروانہ صاحب شہید کے بڑے بیٹے مکرم محمد اظہرصاحب بھروانہ کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ہمارے والد صاحب کو شہادت کا رتبہ عطا فرمایا۔ ہمارے خاندان کی یہ پہلی دو شہادتیں ہیں (والد صاحب اور سجاد اظہر بھروانہ صاحب کی)۔ شہادت کے بعد ہم میں یہ تبدیلی آئی ہے کہ ہم پہلے سے بھی زیادہ جماعت سے قریب ہو گئے ہیں۔ ہمیں اپنے والد صاحب کی شہادت پر فخر ہے۔ جنہوں نے یہ کام کیا ہے وہ اِن شہادتوں سے ہمارا کچھ نہیں بگاڑ سکے۔ ہماری پوری نسل جماعت کے لیے قربان ہونے کے لیے تیار ہے۔

٭…مکر م پروفیسر عبد الودود صاحب کی اہلیہ محترمہ کہتی ہیں کہ MTA کی ٹیم سے میرے بیٹے عبدالمقتدر جس کی عمر 14 سال ہے اپنے والد صاحب کی شہادت پر اس کے تاثرات سن کر میں حیرا ن رہ گئی کہ عبدالمقتدر نے کہا کہ میں خوش ہوں کہ میرے ابو شہید ہو گئے ہیں مگر مجھے اس کا افسوس ہے کہ میں ان کے ساتھ شہید کیوں نہ ہوا۔

٭…مکرم خاورایوب صاحب شہید کے بیٹے مکرم محمد ادریس خاور صاحب کہتے ہیں کہ ہمیں تو فخر ہے کہ ہمارے والد صاحب کو اللہ تعالیٰ نے شہادت نصیب کی۔ بہت سے لوگوں کی یہ خواہش ہوتی ہے لیکن ملتی کسی کسی کو ہے۔ اس لیے ہم تو اس بات سے خوش ہیں کہ ہمارے والد صاحب کو اللہ تعالیٰ نے شہادت کا رتبہ عطا فرمایا ہے۔ اور اگر کبھی میرے ذہن میں یہ بات آہی جائے کہ یہ اللہ تعالیٰ نے کیا کردیا؟تو اسی وقت میرے ذہن میں یہ بات بھی آجاتی ہے کہ میں کون سا اکیلا ہوں جو یتیم ہوا ہوں، بیسیوں بلکہ سینکڑوں بچے ہیں جو یتیم ہوئے ہیں۔ زیادہ سے زیادہ اور شہادتیں کرلیں لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ جماعتی کام بالکل رک جائیں گے۔ یہ تو چلتے رہیں گے۔ ہم نہیں تو کوئی اور ان کو چلائے گا۔ لیکن جماعت کی ترقی میں اس سے کوئی فرق نہیں آئے گا۔

٭…مکرم محمود احمد صاحب شہید کے بیٹے مکرم انس محمود صاحب کہتے ہیں کہ ہمارے حوصلے بلند ہیں ہم اس دنیا کو تو چھوڑ سکتے ہیں لیکن جماعت کو نہیں چھوڑ سکتے۔ اگر جماعت کے لیے ہمیں اپنے خون کی آخری بوند بھی دینی پڑے تو ہم دیں گے۔

٭…مکرم شیخ یونس صاحب شہید کے بیٹے مکرم بشارت الرحمٰن صاحب کہتے ہیں کہ یہ بات سوچنے کے بعد تو ہر چیز ہیچ لگتی ہے، ہر بات، ہر دُکھ، ہرغم، حتیٰ کہ ا ن کی جدائی کا غم بھی، کہ جانا تو سب نے ہے لیکن جس طرح وہ گئے ہیں یہ ہماری بہت بڑی خوش قسمتی ہے۔

٭…مکرم حاجی محمد اکرم ورک صاحب شہید کے بیٹے مکرم مبشر احمد ورک صاحب کہتے ہیں کہ ہمیں یہ لوگ کیسے پست کر سکتے ہیں ؟آپ دیکھیں گے کہ اگر مجھے وہ شخص مل جائے جس نے میرے والد صاحب کو گولی ماری ہے تو میں اس سے ہمدردی کا اظہار کروں گا۔ میں کہوں گا کہ جو تم نے کیا ہے وہ تو کیا ہے لیکن یہ زیادتی پھر بھی تمہارے ساتھ ہی ہوئی ہے۔ گولیاں چلانے والوں میں سے جس کی گولی سے میرے والد صاحب کی شہادت ہوئی۔ اس سے تو مجھے کوئی شکایت نہیں بلکہ مجھے تو اس بیچارے سے ہمدردی ہے۔ شکایت تو ان لوگوں سے ہے کہ جو اس قسم کی ذہنیت پیدا کرتے ہیں اور جو اس قسم کے لوگوں کا غلط استعمال کرتے ہیں۔

٭…مکرم شیخ محمود احمد صاحب شہید مردان کے بیٹے مکرم شیخ یاسر محمود صاحب کہتے ہیں کہ

’’ہم تو اس بات پر بھی خوش ہیں کہ شہید کبھی مرتا نہیں ہے۔ اس بات پر ہمیں بہت خوشی ہے کہ ہمارے ابو کو اللہ تعالیٰ نے شہادت کا رتبہ عطا کیا ہے۔ ‘‘

صابر بیٹیاں …چار سالہ بچی کا صبر

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں :

’’اللہ تعالیٰ کے فضل سے پاکستان میں احمدی بہت بہادر اور مضبوط حوصلوں والے ہیں اور وہاں مسجدمیں اپنے والد کے ساتھ ایک چار سالہ بچی بھی تھی۔ وہ بچی گرنیڈ کا شیل چہر ہ پر لگنے کی وجہ سے زخمی تھی لیکن وہ روئی نہیں۔ اس کے والد نے اسے خاموش رہنے کاکہاتھا۔ اس بچی کابھائی بھی ٹانگ میں گولی لگنے کی و جہ سے زخمی تھا لیکن دونوں چارگھنٹے تک سکون سے بیٹھے رہے۔ ‘‘

جب حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے اس بچی سے فون پر بات کی تو یک دم اس نے ساری باتیں حضور کو بتانا شروع کیں اورسارا بتایاکہ کیا واقعہ ہوا اور ذرا بھی خوفزدہ نہ تھی۔ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے لواحقین کے لیے صبرکی اورتمام احمدیوں کے لیے ثبات قدم اور پختہ ایمان پرقائم رہنے کے لیے دعاکی۔

(الفضل 26؍جولائی 2010ء)

٭…مکر م پروفیسر عبد الودود صاحب کی اہلیہ محترمہ کہتی ہیں کہ شہادت کے تین چار روز کے بعد کی بات ہے میں بہت اداس تھی اور رو رہی تھی تو میری چھوٹی بیٹی جویریہ میرے پاس آئی اور کہنے لگی کہ ماما میرے ساتھ کچن میں چلیں۔ میں نے پا پا کی کوئی بات کرنی ہے۔ میں اس کے ساتھ کچن میں گئی تو کہنے لگی کہ ماما میں نے آپ کو یہ بتانا تھا کہ پاپا کا صرف جسم ختم ہوا ہے اور وہ خود زندہ ہیں۔ جب آپ روتی ہیں تو وہ آپ کو دیکھتے ہیں اور ان کو بھی دکھ ہوتا ہے اس لیے آپ اب نہ رویا کریں۔

٭…مکرم محمداشرف بھلر صاحب شہید کی بیٹی کہتی ہیں کہ میں اس بات پر فخر کرتی ہوں کہ میرے والد کو شہادت کا درجہ ملا۔ اللہ تعالیٰ نے ہم پر بھی انعام کیا اور یہ اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ اس نے اتنا بڑا رتبہ اور اتنی پیاری موت میرے ابو کو دی ہے۔ میں تو یہ سمجھتی تھی کہ ہمیں کوئی نہیں جانتا۔ آج ابو کی وجہ سے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے ہمیں فون کیا ہے، جماعت کے بھی وفود آئے اور یہ محض اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہوا ہے۔ ہم سب کو دلی سکون ملا ہے۔ اگر ابو کی موت شہادت سے نہ ہوتی تو شاید میرے لیے یہ صدمہ برداشت کرنا مشکل ہوتا۔

٭…مکرم ملک مقصود احمد صاحب شہید کی بیٹی کہتی ہیں کہ مجھے فخر ہے کہ میں شہید کی بیٹی ہوں۔ جو خدا تعالیٰ نے آپ کو مرتبہ عطا فرمایا ہے اس کے لیے میں اتنا فخر محسوس کرتی ہوں، اتنا میرے دل کو سکون ملتا ہے کہ میں بیان نہیں کر سکتی۔

٭…مکرم شیخ محمود احمد صاحب ضلع مردان کی صاحبزادی کہتی ہیں کہ’’مخالفین کو یہی کہوں گی کہ جیت ہمیشہ سچائی کی ہی ہوتی ہے۔ چاہے یہ جتنے بھی شہید کر لیں، ان شاء اللہ جماعت احمدیہ دنیا کے کناروں تک پہنچے گی اور ان شہیدوں کے خون سے پہنچے گی۔ ‘‘

٭…مکرم حاجی محمد اکرم ورک صاحب شہید کی بیٹی کہتی ہیں کہ ہم اپنے آپ کو اس قابل نہیں سمجھتے جس اجر کا ہمیں حقدار بنادیا گیا ہے۔ مجھے بس ایک ہی بات شدت سے محسوس ہوتی ہے کہ میں نے ابا جان کی عبادت کی روایت اور خلافت سے تعلق کی روایت کو قائم کرنا ہے۔ بڑی مضبوطی سے پکڑے رکھنا ہے اور کوشش کرنی ہے کہ میرے بچے اپنے نانا کے نقشِ قدم پر چلیں۔ اپنے بزرگوں کے نقشِ قدم پر چلیں اور خلافت سے اپنا تعلق مضبوط رکھیں۔

بھائیوں کا نمونہ

٭…ماڈل ٹاؤن میں مکرم اعجاز صاحب کے بھائی شہید ہو گئے اور انہیں مسجدمیں ہی اطلاع مل گئی اور کہا گیا کہ فلاں ہسپتال پہنچ جائیں۔ انہوں نے کہا کہ جانے والا خدا کے حضور حاضر ہو چکا، اب شاید میرے خون کی احمدی بھائیوں کو ضرورت پڑ جائے، اس لئے میں تو اب یہیں ٹھہروں گا۔

(ماخوذ از خطبہ جمعہ بیان فرمودہ4؍جون2010ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل25؍جون2010ء)

٭…مکرم انیس احمد صاحب اور مکرم منور احمد صاحب شہید لاہور کے بڑے بھائی مکرم محمد کبیراحمد صاحب کہتے ہیں کہ میں نے بچپن میں تو کئی مرتبہ انیس احمد اور منور احمد کوباری باری اپنے کندھے پر اٹھایا تھا مگر ایک ساتھ دو جوان بھائیوں کو کبھی نہیں اٹھایا تھا۔ خدا تعالیٰ انہیں بلند مقام عطا فرمائے۔ مجھے توفخر ہے کہ میں دو شہیدوں کا بھائی ہوں۔

٭…مکرم شیخ ساجد نعیم صاحب شہید کے بھائی مکرم مبشر لطیف صاحب بتاتے ہیں کہ ’’میں بڑا تھا یہ مجھ سے بہت آگے نمبر لے گیا۔ اس کی وجہ سے ہمارا خاندان شہداء کے خاندانوں میں شامل ہو گیا۔ ‘‘

٭…مکرم عامر لطیف پراچہ صاحب شہید لاہور کے بڑے بھائی محمود احمد صاحب کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کا انعام ہے شہادت جو برخوردارلے گیا اور ہم کو اس کی وجہ سے عزت ملی یہ ایک بہت ہی اعلیٰ مقام ہے۔

٭…مکرم شیخ یونس صاحب شہید کے بھائی مکرم شیخ یوسف صاحب کہتے ہیں کہ یہ پھول تو مسکراتے رہیں گے۔ گلاب کے پھو ل کی خوشبو تو ماند ہو سکتی ہے لیکن شہید کی نہیں۔ وہ ہمیشہ ہماری سانسوں میں مہکتی رہے گی۔ جس کو خدا تعالیٰ زندہ کہہ رہا ہے اس کو کون مار سکتا ہے۔ خدا سے زیادہ کون جانتا ہے۔ سبحان اللہ ! خدا تعالیٰ نے کیا عزت دی ہے۔

بہنوں کا صبر

٭…مکرم شیخ محمود احمد صاحب شہید ضلع مردان کی ہمشیرہ اور مکرم سیٹھی مقبول صاحب شہید کی بیوہ محترمہ ساجدہ بیگم صاحبہ بیان کرتی ہیں کہ ’’میرے لیے سب سے بڑی خوش قسمتی یہ ہے کہ میں شہید کی بہن ہوں، شہید کی پھوپھی اور شہید کی بیوہ بھی ہوں۔ سیٹھی مقبول احمد صاحب جو جہلم میں شہید کر دیے گئے تھے۔ وہ میرے شوہر تھے۔ مجھے بہت فخر ہے اور بہت فخر ہے۔ ‘‘

٭…مکرم شیخ محمود احمد صاحب شہید ضلع مردان کی ہمشیرہ محترمہ فرزانہ صا حبہ اپنے بھائی کے متعلق بتاتی ہیں کہ’’مجھے ان کی شہادت کا فخر اس لیے ہے کہ انہوں نے مجھے نصیحت کی تھی کہ احمدیت پر قائم رہنا ہے۔ ‘‘

٭…مکرم مسعود احمدصاحب بھٹی شہید لاہور کی ہمشیرہ محترمہ سفینہ صاحبہ کہتی ہیں کہ

’’ وہ تو کوئی انمول چیز تھے۔ بہت سی خوبیوں کے مالک تھے جماعتی کاموں کے لیے وقت، مال اور آخر جان تک قربان کر دی اور بچوں سے بھی بہت پیار کیا کرتے تھے اور بچے بھی زیادہ نام ماموں کا ہی لیا کرتے تھے۔ وہ ہمیں کہا کرتا تھا کسی چیز کی ضرورت ہو بلا جھجک کہہ دیا کرو میں بہنوں کی آنکھوں میں آنسو نہیں دیکھ سکتا۔ مگر قربان جائیں اس بھائی پر جو شہادت کے عظیم رتبے پر فائز ہو کر ہماری آنکھوں میں آنسو بھر گیا ہے جسے لوگ رشک کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ جب پتہ چلا کہ بھائی شہید ہو گیا ہے تو ایسے لگا جیسے جسم کا کوئی حصہ کٹ گیا ہے۔ مگر جیسے ہی طبیعت سنبھلی تو احساس ہوا کہ ہمارا بھائی تو ہمارے پیارے مسیح موعود کی پیشگوئی کے مطابق عظیم قربانیاں دینے والوں میں شامل ہوا ہے۔ ہم خدا کا شکر ادا کرتے ہیں کہ ہمارا بھائی خدا کی رضا کی خاطر اپنی جان کی قربانی دے کر ہمارا مقام بھی بلند کر گیا۔ ‘‘

شہداء کی اولاد کے ساتھ خداتعالیٰ کا شفقت کا سلوک

حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ فرماتے ہیں :

’’حضرت صاحبزادہ عبد اللطیف صاحب شہید کی اولاد کو دیکھ لیں۔ آج دنیا میں ہر جگہ بڑے بڑے مناصب پر بڑی بڑی اعلیٰ علمی فضیلت کے مقامات تک پہنچی ہوئی اولاد ہے۔ کئی علم کے پہلوؤں سے انہوں نے ترقی کی ہے اور دنیا کی نعمتوں سے بھی خدا نے ان کو کسی پہلو سے محروم نہیں رکھا۔ ساری دنیامیں بڑی عزت کے ساتھ پھیلایا ہے۔ ان کے متعلق ان کے ایک عزیز جو پشاور میں رہتے ہیں انہوں نے مجھے ایک دفعہ لکھا کہ جس علاقے میں ہمارا خاندان ہے وہ لوگ جو احمدیت سے الگ ہیں الگ رہے ہیں اس وقت یا بعد میں چھوڑ گئے، ان کا کوئی بھی حال نہیں۔ نہ دین نہ دنیا کوئی حیثیت باقی نہیں رہی۔ جو عزتیں عطا ہوئی ہیں وہ اسی خاندان کو ہوئی ہیں جو حضرت صاحبزادہ عبد اللطیف شہید کی اولاد تھی اور اولاد در اولاد تھی۔ ‘‘

(خطبہ جمعہ بیان فرمودہ14؍اپریل 1995ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل26؍مئی1995ءصفحہ8)

ضبط ِتحریر کرنے کی ہدایت

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :

’’یہ ہیں مسیح (موعود) کے وہ عظیم لوگ جو اپنے جذبات کو صرف اور صرف خداتعالیٰ کے حضور پیش کرتے ہیں۔ اس طرح کے بیسیوں واقعات ہیں۔ بعد میں انشاء اللہ تعالیٰ یہ جمع کر کے لکھے بھی جائیں گے۔ ‘‘

(خطبہ جمعہ بیان فرمودہ 4؍جون2010ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل25؍جون2010ءصفحہ8)

غیروں کا اقرار

Mr. Alan Keen, M.P. for Feltham & Heston۔ فیلتھم اورہیسٹن کے ممبر پارلیمنٹ جناب ایلن کین نے اپنی تقریر میں کہا کہ سانحہ لاہور کے مقابلہ پر جس صبر اور برداشت کا جماعت احمدیہ نے مظاہرہ کیا ہے وہ بھی انتہائی عظیم ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہاکہ ان کے حلقہ میں رہنے والے احمدی انتہائی پُرامن ہیں اور ان سے ہمیں کبھی کوئی شکایت نہیں ہوئی۔ انہوں نے کہاکہ جب لوگ مجھ سے آپ کے متعلق پوچھتے ہیں تومَیں کہتاہوں کہ وہ عظیم لوگ ہیں اور انتہائی پُر امن ہیں اورمجھے آپ سے دوستی پرفخر ہے۔

(جلسہ سالانہ برطانیہ2010ء دوسرا روز)

نوٹ: یہ مضمون حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ کے خطبات، پروگرام زندہ لوگ اور الفضل ربوہ کی مدد سے تیار کیا گیا ہے۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button