میرے پاس وہی آتا ہے جس کی فطرت میں حق سے محبت اور اہلِ حق کی عظمت ہوتی ہے
حقیقی علم
علم سے مراد منطق یا فلسفہ نہیں ہے بلکہ حقیقی علم وہ ہے جو اللہ تعالیٰ محض اپنے فضل سے عطا کرتا ہے۔ یہ علم اللہ تعالیٰ کی معرفت کا ذریعہ ہوتاہے اور خشیت الٰہی پیدا ہوتی ہے۔جیسا کہ قرآن شریف میں ہی اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔
اِنَّمَا يَخْشَى اللّٰهَ مِنْ عِبَادِهِ الْعُلَمٰٓؤُا (فاطر:29)
اگر علم سے اللہ تعالیٰ کی خشیت میں ترقی نہیں ہوتی تو یاد رکھو وہ علم ترقی معرفت کا ذریعہ نہیں ہے۔
ایمان کیونکر پیدا ہوتا ہے
قرآن شریف سے صاف طور پر معلوم ہوتا ہے کہ جب تک انسان کی فطرت میں سعادت اور ایک مناسبت نہ ہو ایمان پیدا نہیں ہوتا۔ خدا تعالیٰ کے مامور اور مُر سل اگرچہ کھلے کھلے نشان لے کر آتے ہیں مگر اس میں بھی کوئی شُبہ نہیں کہ ان نشانوں میں ابتلا اور اخفا ءکے پہلو بھی ضرور ہوتے ہیں۔ سعید جو باریک بین اور دور بین نگاہ رکھتے ہیں اپنی سعادت اور مناسبتِ فطرت سے ان اُمور کو جو دوسروں کی نگاہ میں مخفی ہوتے ہیں دیکھ لیتے ہیں اور ایمان لے آتے ہیں لیکن جو سطحی خیال کے لوگ ہوتے ہیں اور جن کی فطرت کو سعادت اور رُشد سے کوئی مناسبت اورحصّہ نہیں ہوتا وہ انکار کرتے ہیں اور تکذیب پر آمادہ ہو جاتے ہیں جس کا بُرا نتیجہ ان کو برداشت کرنا پڑتا ہے۔
دیکھو مکہ معظمہ میں جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ظہور ہوا تو ابو جہل بھی مکّہ ہی میں تھا اور حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ بھی مکّہ ہی کے تھے لیکن ابو بکر ؓ کی فطرت کو سچائی کے قبول کرنے کے ساتھ کچھ ایسی مناسبت تھی کہ ابھی آپ شہر میں بھی داخل نہیں ہوئے تھے۔ راستہ ہی میں جب ایک شخص سے پوچھا کہ کوئی نئی خبرسنائو اور اُس نے کہا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے نبوت کا دعویٰ کیا ہے تو اسی جگہ ایمان لے آئے اور کوئی معجزہ اور نشان نہیں مانگا اگرچہ بعد میں بے انتہا معجزات آپ نے دیکھے اور خود ایک آیت ٹھہرے۔ لیکن ابو جہل نے باوجود یکہ ہزاروں ہزار نشان دیکھے لیکن وہ مخالفت اور انکار سے باز نہ آیا اور تکذیب ہی کرتا رہا۔ اِس میں کیا سِر تھا ؟پیدائش دونوں کی ایک ہی جگہ کی تھی۔ ایک صدیق ٹھہرتا ہے اور دوسرا جوابو الحکم کہلاتا تھا وہ ابو جہل بنتا ہے۔ اس میں یہی راز تھا کہ اس کی فطرت کو سچائی کے ساتھ کوئی مناسبت ہی نہ تھی۔ غرض ایمانی امور مناسبت ہی پرمنحصرہیں۔ جب مناسبت ہوتی ہے تو وہ خود معلّم بن جاتی ہے اور امورِحقہ کی تعلیم دیتی ہے اور یہی وجہ ہے کہ اہلِ مناسبت کا وجود بھی ایک نشان ہوتا ہے۔
میں بصیرت اور یقین کے ساتھ کہتا ہوں اور میں وہ قوت اپنی آنکھوں سے دیکھتا اور مشاہدہ کرتا ہوں مگر افسوس میں اس دنیا کے فرزندوں کو کیونکر دکھا سکوں کہ وہ دیکھتے ہوئے نہیں دیکھتے اور سنتے ہوئے نہیں سنتے کہ وہ وقت ضرور آئے گا کہ خدا تعالیٰ سب کی آنکھ کھول دے گا اور میری سچائی روزروشن کی طرح دنیا پر کھل جائے گی لیکن وہ وقت وہ ہوگا کہ توبہ کا دروازہ بند ہوجاوے گا اور پھر کوئی ایمان سُود مند نہ ہوسکے گا۔
سلیم الفطرت احمدی ہوتے ہیں
میرے پاس وہی آتا ہے جس کی فطرت میں حق سے محبت اور اہلِ حق کی عظمت ہوتی ہے۔ جس کی فطرت سلیم ہے وہ دور سے اس خو شبوکو جوسچائی کی میرے ساتھ ہے سُو نگھتا ہے اور اسی کشش کے ذریعہ سے جو خدا تعالیٰ اپنے ماموروں کو عطا کرتا ہے میری طرف اس طرح کھنچے چلے آتے ہیں جیسے لوہا مقناطیس کی طرف جاتا ہے لیکن جس کی فطرت میں سلامت روی نہیں ہے اور جو مردہ طبیعت کے ہیں ان کو میری باتیں سُو دمند نہیں معلوم ہوتی ہیں وہ ابتلا میں پڑتے ہیں اور انکار پر انکاراورتکذیب پر تکذیب کرکے اپنی عاقبت کو خراب کرتے ہیں اور اس بات کی ذرا بھی پروا نہیں کرتے کہ ان کا انجام کیا ہونے والا ہے۔
میری مخالفت کرنے والے کیا نفع اُٹھائیں گے ؟کیا مجھ سے پہلے آنے والے صادقوں کی مخالفت کرنے والوں نے کوئی فائدہ کبھی اُٹھایا ہے؟ اگر وہ نامراد اور خاسر رہ کر اس دنیا سے اُٹھے ہیں تو میرا مخالف اپنے ایسے ہی انجام سے ڈر جاوے کیونکہ میں خداتعالیٰ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ میں صادق ہوں۔ میرا انکاراچھے ثمرات نہیں پیدا کرے گا۔ مبارک وہی ہیں جو انکار کی لعنت سے بچتے ہیں اور اپنے ایمان کی فکر کرتے ہیں۔ جو حُسن ظنّی سے کام لیتے ہیں اور خدا تعالیٰ کے ماموروں کی صحبت سے فائدہ اُٹھاتے ہیں۔ ان کا ایمان ان کو ضائع نہیں کرتا بلکہ برومند کرتا ہے۔ میں کہتا ہوں کہ صادق کی شناخت کے لیے بہت مشکلات نہیں ہیں۔ ہر ایک آدمی اگر انصاف اورعقل کوہاتھ سے نہ دے۔ اور خدا کا خوف مدّ نظر رکھ کر صادق کو پرکھے تو وہ غلطی سے بچا لیا جاتا ہے۔لیکن جو تکبّر کرتا ہے اور آیات اللہ کی تکذیب اور ہنسی کرتا ہے اس کو یہ دولت نصیب نہیں ہوتی ہے۔
(ملفوظات جلد 5 صفحہ 10تا13۔ ایڈیشن 1984ء)