تحریری جمع القرآن کی تاریخ (قسط اوّل)
قرآن حکیم، روایات اور تاریخ سے اس بات کے قطعی ثبوت ملتے ہیں کہ آنحضرتؐ نے اپنی نبوت کے ابتدائی ایام سے ہی وحی قرآنی کوتحریری طور پربھی محفوظ کرنا شروع کر دیا تھا۔
قرآن مجید سے ثبوت
سب سے قوی ثبوت خود قرآن مجید کی اندرونی گواہی ہے۔ چنانچہ سورۃ الفرقان میں کفار کا قول محفوظ کیا گیا ہے کہ
وَقَالُوْا اَسَاطِیْرُ الْاَوَّلِیْنَ اکْتَتَبَھَا فَھِیَ تُمْلٰی عَلَیْہِ بُکْرَۃً وَّاَصِیْلًا (الفرقان:6)
ترجمہ: اور انہوں نے کہا کہ پہلے لوگوں کى کہانىاں ہىں جو اس نے لکھوا لى ہىں پس ىہ صبح وشام اس پر پڑھى جاتى ہىں۔
جبکہ سورۃالفرقان سورت مریم سے قبل نازل ہوئی تھی۔
(البرھان فی علوم القرآن جزء اول صفحہ193۔ المؤلف: أبو عبد اللّٰه بدر الدين محمد بن عبد اللّٰه بن بهادر الزركشي (المتوفى: 794ھ)الطبعة: الأولى، 1376ھ/1957 م۔ الناشر: دار إحياء الكتب العربية عيسى البابى الحلبي وشركائه)
اور سورت مریم 4؍نبوی کے آخر میں ہونے والی پہلی ہجرت حبشہ سے قبل نازل ہو چکی تھی کیونکہ دربار نجاشی میں اس ابتدائی حصہ کی تلاوت کی گئی تھی۔
(السیرۃ النبویہ لابن ہشام جزء اول صفحہ230۔ از کلام جعفر۔ مؤسسۃ النور للمبطوعات بیروت۔ الطبع الأولیٰ۔ 2004ء)
اس لحاظ سے سورۃ الفرقان نبوت کے دوسرے یا تیسرے سال کی نازل شدہ ہوگی۔ گویا خود قرآن مجید کے بیان کے مطابق قرآن کو ابتدا سے ہی لکھا جارہا ہے۔ اور غیرمسلموں کو ملزم کرنے کے لیے ریورنڈ وھیری صاحب کا یہ اعتراف کافی ہے کہ یہ سورت بالکل ابتدائی وقت کی نازل شدہ ہے۔
The most that can be said of the date of revelation of this chapter is that, they belong to an early period in Muhammad‘s ministry of Makkah.
(A comprehensive commentary of the Quran by Rev. E.M.Wherry vol. 3 Page 207)
پس اس سے ثابت ہوتا ہے کہ قرآن مجید شروع سے ہی ضبط تحریر میں لایا جارہا تھاکیونکہ سورۃ الفرقان جو بالکل ابتدائی زمانہ نبوت کی ہے اور اس میں کفار ہی کا قول محفوظ کیا گیا ہے کہ قرآن لکھا جاتا تھا۔ علاوہ ازیں دیگر مستند روایات اور تاریخی حوالے بھی اس کے مؤیّد ہیں کہ وحی قرآن کو ابتدا سے ہی لکھوانے کا اہتمام کیا گیا تھا۔
احادیث نبوی سے ثبوت
آنحضرتؐ کا یہ طریق تھا کہ جو جو قرآن شریف کی آیات نازل ہوتی جاتی تھیں انہیں ساتھ ساتھ لکھواتے جاتے اور خدائی تفہیم کے مطابق ان کی ترتیب بھی مقرر فرماتے جاتے تھے۔ چنانچہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ جو کہ کاتب ِوحی قرآن بھی تھے فرماتے ہیں کہ
فَکَانَ إِذَا نَزَلَ عَلَیْہِ الشَّیْء دَعَا بَعْضَ مَنْ کَانَ یَکْتُبُ فَیَقُولُ ضَعُوا ہَؤُلاَءِالآیَاتِ فِی السُّورَۃِ الَّتِی یُذْکَرُ فِیہَا کَذَا وَکَذَا وَإِذَا نَزَلَتْ عَلَیْہِ الآیَۃَ فَیَقُولُ: ضَعُوا ہَذِہِ الآیَۃَ فِی السُّورَۃِ الَّتِی یُذْکَرُ فِیہَا کَذَا وَکَذَا
(سنن ترمزی أبواب تفسیر القرآن باب سورۃ التوبۃ)
یعنی جب بھی آنحضرتؐ پر کوئی آیات نازل ہوتی تھیں تو آپؐ اپنے کاتبین وحی میں سے کسی کو بُلا کر ارشاد فرماتے تھے کہ ان آیات کو فلاں فلاں سورت میں فلاں فلاں جگہ لکھو، اور اگر ایک ہی آیت اُترتی تھی تو پھربھی اسی طرح کسی کاتب وحی کو بُلا کر سورت میں جگہ بتا کر تحریر کروا دیتے تھے۔
اس طرح نہ صرف قرآن شریف ساتھ ساتھ تحریر میں آتا گیا بلکہ ساتھ ساتھ اس کی موجودہ ترتیب بھی جو بعض مصالح کے ماتحت نزول کی ترتیب سے جدا رکھی گئی ہے قائم ہوتی گئی تھی۔ صحابہ ہر وقت حتی کہ سفر وحضر میں بھی نسخہ ہائے قرآن اپنے ساتھ رکھتے تھے۔ چنانچہ احادیث میں لکھا ہے کہ
’’نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بات سے منع فرمایا ہے کہ اپنے ساتھ نسخہ قرآن لے کر دشمن کی سرزمین میں سفر کیا جائے۔ ‘‘
(بخاری کتاب الجہاد باب کراھیۃ السفر بالمصاحف الی ارض العدو)
کتابت قرآن مجید کا مزید ثبوت کاتب رسول حضرت زید بن ثابتؓ کی اس روایت سے بھی ملتاہے، آپ فرماتے ہیں کہ
’’ہم نبی کریمؐ کے عہد میں قرآن کریم کو کپڑے یا چمڑے کے ٹکڑوں پر لکھا کرتے تھے۔ ‘‘
(تفسیر :روح المعانی فی القرآن العظیم والسبع المثانی۔ از علامہ الألوسی جزء اول صفحہ22۔ الناشر دارالکتب العلمیۃ البیروت۔ الطبعۃ الأولیٰ1415ھ)
حضرت ابوسعید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول کریمؐ نے فرمایا کہ
لَا تَکْتُبُوا عَنِّی، وَمَنْ کَتَبَ عَنِّی غَیْرَ الْقُرْآنِ فَلْیَمْحُہُ
یعنی قرآن کریم کے علاوہ کوئی چیز مجھ سے نہ لکھو۔ اور اگر کسی نے قرآن کے علاوہ کچھ اور لکھا ہو تو اس کو مٹا دے۔ (مسلم کتاب الزہدباب التثبت فی الحدیث)
یہ روایت جہاں کتابت وحی قرآن کو بیان کرتی ہے، وہاں وحی قرآن کو ہر دوسری چیز سے جدا، ممتاز اور پاک رکھنے کی مساعی پر بھی خوب روشنی ڈالتی ہے۔
مندرجہ بالا تمام احادیث بالواسطہ یا بلاواسطہ بیان کر رہی ہیں کہ قرآن مجید لکھا جاتاتھا اور عام اصحاب النبیﷺ کے پاس بھی کچھ نہ کچھ لکھا ہوا حصہ قرآن ضرور موجود تھا جو کتابت وحی قرآن کا زندہ اور منہ بولتا ثبوت ہے۔
حضرت ابوبکرؓ، حضرت عثمانؓ اور حضرت علیؓ بالکل ابتدا میں ایمان قبول کرنے والوں میں سے ہیں اور یہ سب لکھنا پڑھنا بھی جانتے تھے۔ نیز کاتبین وحی میں بھی شامل ہیں جس سے یہ بات قطعی معلوم ہوتی ہے کہ بالکل ابتدا سے ہی کتابت وحی کا کام شروع ہو گیا تھا۔
تاریخی ثبوت
کتابت وحی کا ایک زبردست تاریخی ثبوت جو تاریخ اسلام کا ایک سنہری ورق بھی ہے حضرت عمرؓ کے قبول اسلام کا تاریخی واقعہ ہے۔ جب آپ نعوذباللہ آنحضورؐ کے قتل کے ارادہ سے گھر سے نکلے اور راستہ میں معلوم ہوا کہ خود اپنی بہن اور بہنوئی ایمان لا چکے ہیں تو غصہ میں ان کے گھر داخل ہو گئے۔ وہاں خباب بن الارتؓ قرآن مجید سنا رہے تھے۔ آہٹ پا کر حضرت عمر کی بہن فاطمہؓ نے خباب کو اور ان اوراق کو جن پر قرآن لکھا ہوا تھا چھپا دیا۔ پھر بعد میں حضرت عمرؓ نے ان سے وہی اوراق لے کر پڑھے۔ یہ واقعہ سنہ 5یا 6نبوی کا ہے۔
(السیرۃ النبویہ لابن ہشام جزء اول صفحہ209۔زیر عنوان:السبب المباشر لاسلام عمر۔ مؤسسۃ النور للمطبوعات بیروت۔ الطبع الأولیٰ۔ 2004ء)
قرآن مجید حیات نبوی میں منظّم طور پر ایک جلد میں جمع نہیں کیا گیا
ان سب باتوں کے ساتھ ساتھ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ آنحضورؐ نے قرآن مجید کا ایک جلد میں لکھا ہوا نسخہ تیار نہیں کروایا اور نہ عملاً ایسا ممکن تھا کیونکہ آپ کی حیات مبارکہ کے آخر تک وحی قرآنی کا نزول جاری رہا۔ نزولی ترتیب چونکہ کتابی ترتیب سے مختلف تھی بعد میں اترنے والی آیات پہلے بھی رکھی جاتی تھیں اور ہر آیت کے نزول پر جبریل علیہ السلام آپؐ کو اس کی جگہ بتاتے تھے کہ اسے فلاں آیت سے پہلے یا بعد میں رکھا جائے۔ اس لیے قرآن مجید ایک جلد میں اس وقت تک لکھا اور جمع کیا ہی نہیں جا سکتا تھا جب تک کہ یہ یقین نہ ہو جاتا کہ قرآن مجید کا نزول مکمل ہو گیا ہے۔ اور اس بات کا یقین صرف رسول کریمؐ کی وفات سے ہی ہوا۔ اس لیے آنحضورؐ کی حینِ حیات میں قرآن مجید کو ایک جلد میں نہیں جمع کیا گیا بلکہ خدا تعالیٰ نے اپنے وعدہ کے موافق کہ
لَا تُحَرِّکْ بِہِ لِسَانَکَ لِتَعْجَلَ بِہ۔ إِنَّ عَلَیْنَا جَمْعَہُ وَقُرْآنَہُ۔ (القیامۃ:16تا17)
تُو اس کى قراءت کے وقت اپنى زبان کو اس لیے تىز حرکت نہ دے کہ تُو اسے جلد جلد ىاد کرے۔ ىقىناً اس کا جمع کرنا اور اس کى تلاوت ہمارى ذمہ دارى ہے۔
یہ کام خلافت کی نگرانی میں صحابہ کے ہاتھوں کرایا، اور خلافت تو آتی ہی نبی کے کام کو جاری رکھنے اور مکمل کرنے کے لیے ہے۔ آنحضرتؐ کی وفات تک پورا قرآن لکھا ہوا تو تھا مگر مختلف چیزوں پر لکھا ہوا منتشر تھا۔ یعنی کسی کے پاس کوئی حصہ لکھا ہوا تھا اور کسی کے پاس کوئی حصہ،کسی کے پاس کم تھا اور کسی کے پاس زیادہ وغیرہ۔چنانچہ حضرت ابوبکرؓ نے حضرت عمرؓ کے مشورے سے حضرت زید بن ثابتؓ کوجو آنحضرتؐ کے کاتب وحی رہ چکے تھے، حکم فرمایا کہ وہ قرآن شریف کو ایک باقاعدہ مصحف کی صورت میں اکٹھا لکھوا کر محفوظ کردیں۔ چنانچہ حضرت زیدؓ نے بڑی محنت کے ساتھ ہر آیت کے متعلق زبانی اور تحریری ہر دوقسم کی پختہ شہادت مہیّا کرکے اسے ایک باقاعدہ مصحف کی صورت میں اکٹھا کردیا۔ اس کے بعد جب اسلام مختلف ممالک میں پھیل گیا تو حضرت عثمانؓ کے حکم پر حضرت زیدؓ بن ثابت کے جمع کردہ نسخہ کے مطابق قرآن شریف کی متعدد مستند کاپیاں لکھوا کر تمام اسلامی ممالک میں بھجوا دی گئیں۔
(فتح الباری فی شرح البخاری جلد9صفحہ12-13۔زیرکتاب فضائل القرآن، باب جمع القرآن۔ الطبعۃ الثالثۃ، دارالأحیاء۔ بیروت 1985ء)
نیز صحیح بخاری کی روایت اس بات کو مزید واضح کر دیتی ہے کہ حیات نبویﷺ میں قرآن مجید کو ایک جلد میں جمع نہیں کیا گیا۔
حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ جو کاتب وحی بھی تھے اور پھرحضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ اورحضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں خدمت قرآن میں مرکزی کردار ادا کرنے والے تھے جب حضرت ابوبکرؓ نے ان کے سپرد جمع قرآن کا کام کیا، تواس موقعہ پر وہ کہتے ہیں کہ
’’میں نے مختلف جگہوں اور چیزوں سے قرآن کی آیات جمع کیں جو کھجور کی ٹہنی کی ڈنٹھل اور پتھر کی باریک سلوں اور لوگوں کے سینوں میں محفوظ تھا۔ ‘‘
(بخاری کتاب فضائل القرآن باب جمع القرآن)
تاہم یہ بات بھی اَظْہَر مِنَ الشمسہے کہ قرآن مجید کی ایک باقاعدہ کتاب کی طرح ایک معروف مشہور اور مستعمل ترتیب ضرور تھی۔ اسی ترتیب کے مطابق ہر سال رمضان میں جس قدر حصہ قرآن نازل ہو چکا ہوتا تھا حضرت جبریل علیہ السلام آنحضورؐ کے ساتھ اس کا دَور کیا کرتے تھے اور جو رمضان آپ کی وفات کے سال میں آیا اس میں دو دفعہ قرآن کریم کادَور کیا۔ چنانچہ بخاری میں روایت ہے کہ حضرت ابوہریرہؓ سے مروی ہے کہ نبیؐ کے سامنے ہر سال ایک مرتبہ قرآن کریم پیش کیا جاتا تھا۔ اور جس سال آپؐ کی وفات ہوئی اس سال دو مرتبہ آپؐ کے سامنے قرآن کریم پیش کیا گیا۔
(بخاری کتاب فضائل القرآن باب کان جبریل یعرض القرآن علی النبیؐ )
اس نزول اور تلاوت کی کیفیت کیا تھی؟حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
’’رمضان المبارک میں اس وحی کا آغاز ہوا ہے اور پھر جتنا جتنا قرآن کریم نازل ہوتا رہا رمضان المبارک میں اس کی باقاعدہ دہرائی ہوتی رہی اور جب سے قرآن کریم کا آغاز ہوا ہے اس کے بعد ہر اگلے رمضان میں جبریل علیہ السلام آنحضرتؐ کی خدمت میں حاضر ہوتے تھے اور اس وقت تک جتنی وحی نازل ہو چکی ہوتی تھی اسے دہراتے تھے۔ (بخاری کتاب فضائل القرآن حدیث 4614)اس سے بھی پتہ چلتا ہے کہ شروع سے ہی قرآن کریم کے نزول کے ساتھ ترتیب کا ایک دَور جاری تھا اور وہ ترتیب ساتھ ساتھ مکمل ہوتی جا رہی تھی۔ ‘‘
(خطبہ جمعہ بیان فرمودہ 7؍اپریل 1989ء مطبوعہ خطبات طاہر جلد8صفحہ216)
عہد نبوی میں مکمل نسخہ ہائے قرآن
یہاں یہ بات بھی بڑی اہمیت کی حامل ہے کہ بعض صحابہ نے ذاتی طور پر اپنے نسخے مکمل قرآن مجید کے تیار کر لیے تھے جو اپنی جگہ جمع قرآن کا ایک اہم باب ہے۔ اس سلسلہ میں بخاری شریف کی روایت ہے کہ
حضرت قتادہ ؓبیان کرتے ہیں کہ میں نے حضرت انس بن مالکؓ سے ان لوگوں کے بارے میں پوچھا جنہوں نے رسول کریمﷺ کے عہد میں قرآن کریم کو جمع کیا۔ آپؓ نے فرمایا۔ چار آدمی ہیں جو کہ سارے انصاری ہیں۔ ابی بن کعب، معاذ بن جبل، زید بن ثابت اور ابوزید۔
پھر اس سے اگلی روایت میں حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ نبی کریمؐ کی وفات کے وقت تک چار اشخاص نے قرآن کریم کو جمع کیا تھا۔ ابودرداء، معاذ بن جبل، زید بن ثابت اور ابوزید۔
(بخاری کتاب فضائل القرآن باب القراء من اصحاب النبیؐ )
حضرت انسؓ کی ان دونوں روایتوں میں تین نام حضرت معاذ بن جبلؓ، حضرت زید بن ثابتؓ اور حضرت ابوزیدؓ مشترک ہیں۔ اور ایک روایت میں حضرت ابودرداءؓ اور دوسری روایت میں حضرت ابی بن کعؓب کا نام ہے۔ اس طرح صرف ان دو روایتوں کو جمع کرنے سے پانچ اصحاب النبیؐ ایسے ثابت ہوتے ہیں جنہوں نے پورا پورا قرآن مجید جمع کیا ہوا تھا۔
کاتبین وحی قرآن
قرآن کے کاتبین میں خلفائے اربعہ کے علاوہ زبیر بن عوام، سعید بن عاص بن امیہ کے دو بیٹے خالد اور ابان، حنظلہ بن ربیع الاسدی، معیقیب بن ابی فاطمہ، عبداللہ بن ارقم زھری، شرحبیل بن حسنہ اور عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہم شامل ہیں۔ اور مدینہ میں جن لوگوں نے وحی قرآن کو لکھنے کا کام کیا ان میں ابی بن کعب اور اس سے پہلے کے کاتب وحی زید بن ثابت شامل ہیں اس کے علاوہ بھی بہت سے لوگ ان کے ساتھ شامل تھے۔
(عمدۃ القاری شرح بخاری جلد13صفحہ537تا538۔ دارالفکر بیروت۔ الطبع الأولیٰ 2005ء)
عہد نبوی میں قرآن کن چیزوں پر لکھا گیا
عہد نبوی میں جزیرہ عرب میں کاغذ بہت کم دستیاب تھا اور بالعموم عام لوگوں کی دسترس سے دور تھا۔ اس لیے قرآن کی وحی کاغذ پر بہت کم لکھی گئی۔ اکثر حصہ عربوں کے دستور کے مطابق اس مقصد کے لیے مروج مختلف چیزوں پر لکھا گیا۔ ان اشیاء کے نام کسی ایک جگہ مجتمع نہیں ملتے۔ بخاری، الاتقان، عمدۃ القاری کتاب فضائل القرآن باب جمع القرآن اور دیگر کتب میں جو روایات جمع کی گئی ہیں ان سے مندرجہ ذیل اشیاء ملتے ہیں۔
1۔ کھجور کی شاخ کے ڈنٹھل
2۔ باریک سفید پتھر کی سلیں
3۔ اونٹ کے شانہ کی ہڈیاں
4۔ اونٹ کی پسلی کی ہڈیاں
5۔ اونٹ کی کاٹھی کی لکڑیاں
6۔ لکڑی کی تختیاں
7۔ چمڑے کے ٹکڑے
8۔ کھال
9۔ پتلی جھلی۔
10۔ کاغذ
خلافت حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے وقت جمع قرآن کا حکم
ربیع الاول 11؍ہجری میں آنحضرتؐ نے اس دار فانی سے رحلت فرمائی آپؐ نے وفات سے قبل تمام قرآن لکھوا دیا تھا مگر وہ مختلف چیزوں میں مختلف اصحاب کے پاس منتشر تھا۔ آنحضورؐ کی وفات کے بعد حضرت ابوبکرؓ کا انتخاب بطور خلیفہ اول ہوا اور ابتدا میں ہی آپ کو پے درپے مشکلات و مصائب کا سامنا کرنا پڑا۔ ان میں سے ایک زبردست فتنہ جھوٹے مدعیان نبوت اور ان کی شورش و بغاوت کا تھا۔ اس سلسلہ میں سب سے بڑا معرکہ مسیلمہ کذاب سے یمامہ کے مقام پر ہوا۔ اس معرکہ میں جانبین کا بھاری نقصان ہوا۔ شہید ہونے والے مسلمانو ں میں سات سو قراء و حفاظ تھے اور بعض کے نزدیک ان کی تعداد اس سے بھی زائد تھی، مزید یہ کہ اس لڑائی میں حضرت سالم مولیٰ حضرت ابو حذیفہ بھی شہیدہوگئے، یہ ان چار قرّاء میں سے تھے جن کو قرآن پڑھانے کی خصوصی اجازت وہدایت نبی پاکؐ نے خود دی تھی۔
(عمدۃ القاری جلد13۔ صفحہ نمبر 536.534کتاب فضائل القرآن، باب جمع القران۔ مطبع دارالفکر بیروت الطبعۃ الأولیٰ2005ء)
اس خون ریز معرکہ نے حضرت عمرؓ کے دل میں ایک زبردست تحریک پیدا کی کہ قرآن کو ایک جگہ لکھ کر جمع کر لیا جائے ورنہ قراء و حفّاظ صحابہ جنہوں نے براہ راست آنحضرتؐ سے قرآن پڑھا اور سیکھا تھا اور جن کے سامنے قرآن نازل ہوا تھا اگر اسی کثرت سے معرکوں میں شہید ہوتے رہے تو پھر جمع قرآن کا کام اتنا آسان نہ رہے گا۔ چنانچہ بخاری شریف میں عبید بن السباق سے روایت ہے کہ
أَنَّ زَیْدَ بْنَ ثَابِتٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ، قَالَ أَرْسَلَ إِلَیَّ أَبُو بَکْرٍ مَقْتَلَ أَہْلِ الیَمَامَۃِ، فَإِذَا عُمَرُ بْنُ الخَطَّابِ عِنْدَہُ، قَالَ أَبُو بَکْرٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ: إِنَّ عُمَرَ أَتَانِی فَقَالَ: إِنَّ القَتْلَ قَدْ اسْتَحَرَّ یَوْمَ الیَمَامَۃِ بِقُرَّاء ِ القُرْآنِ، وَإِنِّی أَخْشَی أَنْ یَسْتَحِرَّ القَتْلُ بِالقُرَّاءِ بِالْمَوَاطِنِ، فَیَذْہَبَ کَثِیرٌ مِنَ القُرْآنِ، وَإِنِّی أَرَی أَنْ تَأْمُرَ بِجَمْعِ القُرْآنِ، قُلْتُ لِعُمَرَ: کَیْفَ تَفْعَلُ شَیْئًا لَمْ یَفْعَلْہُ رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ؟ قَالَ عُمَرُ: ہَذَا وَاللّٰہِ خَیْرٌ، فَلَمْ یَزَلْ عُمَرُ یُرَاجِعُنِی حَتَّی شَرَحَ اللّٰہُ صَدْرِی لِذَلِکَ، وَرَأَیْتُ فِی ذَلِکَ الَّذِی رَأَی عُمَرُ، قَالَ زَیْدٌ: قَالَ أَبُو بَکْرٍ: إِنَّکَ رَجُلٌ شَابٌّ عَاقِلٌ لاَ نَتَّہِمُکَ، وَقَدْ کُنْتَ تَکْتُبُ الوَحْیَ لِرَسُولِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، فَتَتَبَّعِ القُرْآنَ فَاجْمَعْہُ، فَوَاللّٰہِ لَوْ کَلَّفُونِی نَقْلَ جَبَلٍ مِنَ الجِبَالِ مَا کَانَ أَثْقَلَ عَلَیَّ مِمَّا أَمَرَنِی بِہِ مِنْ جَمْعِ القُرْآنِ، قُلْتُ: کَیْفَ تَفْعَلُونَ شَیْئًا لَمْ یَفْعَلْہُ رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ؟، قَالَ: ہُوَ وَاللّٰہِ خَیْرٌ، فَلَمْ یَزَلْ أَبُو بَکْرٍ یُرَاجِعُنِی حَتَّی شَرَحَ اللّٰہُ صَدْرِی لِلَّذِی شَرَحَ لَہُ صَدْرَ أَبِی بَکْرٍ وَعُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا، فَتَتَبَّعْتُ القُرْآنَ أَجْمَعُہُ مِنَ العُسُبِ وَاللِّخَافِ، وَصُدُورِ الرِّجَالِ، حَتَّی وَجَدْتُ آخِرَ سُورَۃِ التَّوْبَۃِ مَعَ أَبِی خُزَیْمَۃَ الأَنْصَارِیِّ لَمْ أَجِدْہَا مَعَ أَحَدٍ غَیْرِہِ، (لَقَدْ جَاءَکُمْ رَسُولٌ مِنْ أَنْفُسِکُمْ عَزِیزٌ عَلَیْہِ مَا عَنِتُّمْ) (التوبۃ:128) حَتَّی خَاتِمَۃِ بَرَاءَۃَ، فَکَانَتِ الصُّحُفُ عِنْدَ أَبِی بَکْرٍ حَتَّی تَوَفَّاہُ اللّٰہُ، ثُمَّ عِنْدَ عُمَرَ حَیَاتَہُ، ثُمَّ عِنْدَ حَفْصَۃَ بِنْتِ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ
(بخاری کتاب فضائل القرآن باب جمع القرآن)
ترجمہ:حضرت زید بن ثابتؓ نے کہا کہ جنگ یمامہ کے شدید خون ریز معرکہ کے بعد حضرت ابوبکر صدیقؓ نے مجھے بلا بھیجا۔ جب میں پہنچا تو حضرت عمرؓ بھی وہاں موجود تھے۔ حضرت ابوبکرؓ نے مجھے فرمایا کہ عمرؓ نے میرے پاس آکر کہا ہے کہ یمامہ کے معرکہ میں کثیر قراء قرآن کے قتل کا افسوسناک وقوعہ ہوا ہے اور مجھے (یعنی حضرت عمر کو) ڈر ہے کہ اگر قراء کی شہادت مختلف مقامات پر اسی طرح کثرت سے ہوتی رہی تو قرآن کا ایک کثیر حصہ ضائع ہو جائے گا۔ اس لیے میرا خیال ہے کہ آپ (یعنی حضرت ابوبکرؓ ) قرآن کو جمع کرنے کا حکم دیں۔ اس پر میں نے (یعنی حضرت ابوبکرؓ ) نے حضرت عمرؓ سے کہا کہ جو کام آنحضرتؐ نے نہیں کیا وہ کام ہم کس طرح کرسکتے ہیں۔ عمرؓ نے کہا کہ خدا کی قسم اس کام میں بھلائی ہی ہے اور پھر مجھ سے مسلسل اصرار کرتے چلے گئے حتی کہ خدا نے میرا سینہ بھی اس بارہ میں کھول دیا اور میری بھی وہی رائے ہو گئی جو عمرؓ کی ہے۔ پھر حضرت ابوبکرؓ نے زید کو فرمایا کہ آپ جوان اور دانا آدمی ہیں۔ آپؓ پر کسی نے کبھی الزام نہیں لگایا نیز آپ رسول اللہؐ کا کاتب وحی بھی تھے۔ اس لیے میرا خیال ہے کہ آپ ہی یہ کام کریں کہ مختلف چیزوں پر لکھے ہوئے حصہ ہائے قرآن کو تلاش کریں اور سارے قرآن کو ایک جگہ جمع کر دیں۔ حضرت زید بن ثابتؓ کہتے ہیں کہ خدا کی قسم! اگر مجھے کسی پہاڑ کو ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کرنے کا حکم ہوتا تو وہ مجھ پر اتنا گراں نہ ہوتا جتنا کہ قرآن کا کام مشکل تھا۔ اس پر میں نے حضرت ابوبکرؓ سے کہا کہ آپؓ وہ کام کیونکر کریں گے جو خود رسول اللہؐ نے نہیں کیا تھا؟ اس پر حضرت ابوبکرؓ نے مجھ سے مسلسل اتنا اصرار کیا کہ آخر خدا نے مجھے بھی اس معاملہ میں شرح صدر عطا فرمایا جس بارہ میں حضرت ابوبکرؓ وعمرؓ کو شرح صدر عنایت فرمایا تھا۔ تب میں نے مختلف جگہوں اور چیزوں سے قرآن کی آیات جمع کیں جو کھجور کی ٹہنی کی ڈنٹھل اور پتھر کی باریک سلوں اور لوگوں کے سینوں میں محفوظ تھیں۔ یہاں تک کہ سورت توبہ کی آخری آیت میں نے حضرت ابوخزیمہ انصاریؓ کے پاس پائی، جو مجھے کسی اور کےپاس نہیں ملی، اور وہ آیت یہ تھی۔ (لَقَدْ جَاءَکُمْ رَسُولٌ مِنْ أَنْفُسِکُمْ عَزِیزٌ عَلَیْہِ مَا عَنِتُّمْ) (التوبۃ:128)چنانچہ یہ صحیفہ حضرت ابوبکرؓ کی وفات تک آپؓ کے پاس محفوظ رہا، اور پھر حضرت عمرؓ کے پاس ان کی حیات میں رہا۔ بعدہ حضرت ام المومنین حفصہ بنت عمرؓ کے پاس رہا۔
بخاری شریف کے مشہور شارح حضرت امام ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ اس حدیث میں بیان کردہ بعض باتوں مثلاً تحریری وزبانی شہادت سے کیامراد تھی کی بابت فرماتے ہیں کہ
الْمُرَادَ أَنَّہُمَا یَشْہَدَانِ عَلَی أَنَّ ذَلِکَ الْمَکْتُوبَ کُتِبَ بَیْنَ یَدَیْ رَسُولِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم
کہ اس روایت میں جو کہا گیا ہے کہ دوگواہان شہادت دیں۔ اس سے مراد یہ تھی کہ وہ گواہی دیں کہ انہوں نے یہ عبارت حضورؐ کی موجودگی میں آپؐ کے سامنے تحریر کی تھی۔
قَوْلُہُ لَمْ أَجِدْہَا مَعَ أَحَدٍ غَیْرِہِ أَیْ مَکْتُوبَۃ…وَالْوُقُوف عِنْدَمَا کُتِبَ بَیْنَ یَدَیِ النَّبِیِّؐ
اور حضرت زید کا یہ قول کہ میں نے یہ آیت کسی اور کے پاس نہ پائی۔ ا س کا مطلب یہ ہے کہ تحریری صورت میں (متذکرہ بالا شرائط کے ساتھ)نہ پائی۔ اور شہادت کا منتہااس بنا پر تھا کہ میں نے یہ حضورؐ کی موجودگی میں تحریر کی ہے۔
وَإِنَّمَا کَانَ زَیْدٌ یَطْلُبُ التَّثَبُّتَ عَمَّنْ تَلَقَّاہَا بِغَیْرِ وَاسِطَۃٍ
اور حضرت زید رضی اللہ عنہ اس بات کا ثبوت طلب کرتے تھے کہ کس نے بغیر کسی واسطے کے براہ راست حضورؐ سے سنا اور تحریر کیا ہے۔
اس حدیث میں آیت متذکرہ حضرت حذیفہؓ کے علاوہ کسی اور کے پاس نہ پائے جانے سے مرادیہ ہے کہ
وَالْحَقُّ أَنَّ الْمُرَادَ بِالنَّفْیِ نَفْیُ وُجُودِہَا مَکْتُوبَۃً لَا نَفْیَ کَوْنِہَا مَحْفُوظَۃ
حقیقت یہ ہے کہ اس حدیث میں آیت متذکرہ حضرت حذیفہؓ کے علاوہ کسی اور کےپاس نہ پائے جانے کی نفی سے مراد، آیت مذکورہ، کا متذکرہ بالا شرائط کے ساتھ تحریری صورت میں نہ ہونا ہے۔ ورنہ اس نفی سے مراد اس کے محفوظ ہونے کی نفی نہیں ہے۔
(فتح الباری فی شرح البخاری جلد 9 صفحہ12-13۔ زیر کتاب فضائل القرآن، باب جمع القرآن۔ الطبعۃ الثالثۃ، دارالأحیاء۔ بیروت1985ء)
(جاری ہے)