حضرت مصلح موعود ؓ

تحریک جدید کی اہمیت اور اِس کے اغراض ومقاصد (قسط چہارم)

حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ

ابھی گزشتہ سال اللہ تعالیٰ نے اسلام کی اقتصادی، سیاسی اور تمدنی ترقی کے متعلق سورہ فاتحہ سے ایک لمبا مضمون مجھے بتایا۔ وہ مضمون اپنی ذات میں اس قدر اہم اور عظیم الشان ہے کہ اگر اس کو پوری طرح سمجھ لیا جائے تو ان تمام مفاسد کو کامیاب طور پر ردّ کیا جاسکتا ہے جنہوں نے آج دنیا کو نئی قسم کی مشکلات میں مبتلا کیا ہوا ہے۔ گویا سورہ فاتحہ صرف روحانی ترقی کے ذرائع ہی بیان نہیں کرتی بلکہ اس میں ہر قسم کے فلسفی، سیاسی اور اقتصادی جھگڑوں کے دور کرنے کے ذرائع بھی بیان کئے گئے ہیں اور ایسے طریق بتائے گئے ہیں جن پر چل کر دجال کی ظاہری شان و شوکت کو مٹایا جا سکتا ہے۔

بہرحال ایک لمبے عرصہ سے اللہ تعالیٰ کا میرے ساتھ یہ سلوک چلا آ رہا ہے کہ وہ ہمیشہ سورہ فاتحہ کے نئے حقائق مجھ پر روشن فرماتا ہے یہاں تک کہ دنیا کا کوئی اہم مسئلہ نہیں جس کو اپنے سامنے رکھتے ہوئے میں نے سورہ فاتحہ پر غور کیا اور مجھے اس کا صحیح حل اس سورہ سے نہ مل گیا ہو۔ جس وقت میں نے یہ رؤیا دیکھا میری عمر 17 سال تھی اور اب میری عمر ستاون 57 سال ہے گویا چالیس سال اس رؤیا پر گزر چکے ہیں۔ اس چالیس سالہ عرصہ میں کبھی ایک دفعہ بھی ایسا نہیں ہوا کہ دشمن نے کوئی اعتراض کیا ہو اور اس کا جواب تفصیلی طور پر قرآن کریم سے معلوم نہ ہوا تواجمالی طور پر سورہ فاتحہ سے نہ مل گیا ہو اور میرے ساتھ اللہ تعالیٰ کا ایسا متواتر اور مسلسل سلوک ہے کہ اس کے خلاف کبھی ایک دفعہ بھی نہیں ہوتا۔ اسی طرح خدا تعالیٰ کے فضل سے کبھی ایسا نہیں ہوا کہ میں نے سورہ فاتحہ پر غور کیا ہو تو اس کے بیسیوں نئے مضامین مجھ پر نہ کھولے گئے ہوں۔ بے شک کچھ مضامین ایسے بھی ہوتے ہیں جو ہمیشہ دُہرانے پڑتے ہیں مگر ان مضامین کے علاوہ جب بھی میں نے سورہ فاتحہ پر غور کیا ہے ہمیشہ کچھ نہ کچھ زائد مضامین بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے مجھے عطا کئے گئے ہیں۔

تفسیر کبیر کی پہلی جلد جب میں نے لکھنی شروع کی تو اُس وقت میں چاہتا تھا کہ سورہ فاتحہ کی تفسیر کو تیس چالیس صفحات میں ہی ختم کر دیا جائے کیونکہ میرا منشاء یہ تھا کہ چھوٹے چھوٹے تفسیری نوٹوں کے ساتھ جلد سے جلد سارا قرآن کریم شائع کر دیا جائے۔ پس چونکہ ارادہ یہ تھا کہ مختصر نوٹ ہوں اس لئے میں نے فیصلہ کیا کہ سورہ فاتحہ کی تفسیر کو تیس چالیس صفحات تک ہی محدود رکھا جائے اور چونکہ پُرانے مضامین ہی اس کثرت کے ساتھ ہیں کہ اگر ان کو لکھا جائے تو وہ تیس چالیس صفحات میں نہیں آ سکتے اس لئے میں نے سمجھا کہ اس تفسیر کے لئے کسی نئے مضمون کی ضرورت نہیں پُرانے مضامین ہی کافی ہیں مگر لکھتے لکھتے مجھے خیال آیا کہ اگر اللہ تعالیٰ اِس وقت بھی کوئی نیا نکتہ سمجھا دے تو یہ اس کا فضل اور احسان ہوگا۔ چنانچہ اِدھر میرے دل میں یہ خواہش پیدا ہوئی اور اُدھر فوری طور پر اللہ تعالیٰ نے محض اپنے فضل سے سورہ فاتحہ کے چند ایسے نئے نکات سمجھا دیئے جو پہلے کبھی ذہن میں نہیں آئے تھے اور جو نہایت اہم اور اصولی نکتے تھے جن کا سلسلہ اور اسلام کی ترقی کے ساتھ گہرا تعلق تھا چنانچہ میں نے ان نکات کو بھی تفسیر میں درج کر دیا۔ غرض میرے ساتھ اللہ تعالیٰ کا ہمیشہ سے یہ سلوک چلا آ رہا ہے کہ وہ غور کرنے پر سورہ فاتحہ کے نئے سے نئے مطالب مجھ پر روشن فرماتا ہے اور درحقیقت علم وہی ہوتا ہے جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطا ہو بندہ آخر دوسرے کو کتنا سکھا سکتا ہے معمولی معمولی ضرورتیں بھی تو انسان پورے طور پر دوسرے کو نہیں بتا سکتا۔ پھر علمی اور اخلاقی اور روحانی ضرورتیں کوئی انسان دوسرے کو کس طرح بتا سکتا ہے اور کس طرح کوئی انسان دوسرے کی ہر ضرورت کو پورا کرنے کی طاقت رکھتا ہے۔ میں آجکل بیمار ہوں میں نے دیکھا ہے بعض دن مجھ پر ایسے گزرتے ہیں کہ نہ میں پیشاب کے لئے جا سکتا ہوں نہ پاخانہ کے لئے، چارپائی پر ہی پاٹ رکھنا پڑتا ہے اور حالت ایسی ہوتی ہے کہ نہ دائیں کروٹ بدل سکتا ہوں نہ بائیں بالکل سیدھا لیٹا رہتا ہوں اور12،12،10،10 بلکہ بعض دفعہ 24،24 گھنٹہ تک یہی حالت رہتی ہے۔ اگر اس دَوران میں افاقہ بھی ہو تو بہت معمولی ہوتا ہے ایسی حالت میں اگر بیوی بعض دفعہ تھوڑی دیر کے لئے بھی اپنے کسی کام کے لئے جانا چاہے اور وہ کہے کہ اگر کوئی ضرورت ہوتو مجھے بتا دیں تو میں نے دیکھا ہے دو چار منٹ کی ضرورتیں بھی پورے طور پر نہیں بتائی جا سکتیں۔ بعض دفعہ خیال آتا ہے کہ کوئی ضرورت نہیں مگر اس کے جاتے ہی کئی قسم کی ضرورتیں پیدا ہو جاتی ہیں۔ بعض دفعہ کہا جاتا ہے صرف دوائی پاس رکھ دو اور کسی چیز کی ضرورت نہیں مگر بعد میں خیال آتا ہے کہ ایک ضروری خط لکھنا تھا اس کے لئے قلم چاہئے مگر اُس وقت کوئی ایسا شخص قریب نہیں ہوتا جسے قلم پکڑانے کے لئے کہا جائے۔ جب چھوٹی چھوٹی ضرورتیں بھی انسان دوسرے کو پورے طور پر نہیں بتا سکتا تو دین کے معاملہ میں کون شخص ایسا ہو سکتا ہے جو اوّل سے آخر تک تمام باتیں دوسروں کو بتا سکے۔ اگر دوسروں کی بتائی ہوئی باتوں پر ہی انسان اپنا انحصار رکھے اور خدا تعالیٰ سے اس کا ذاتی تعلق نہ ہو تو عملی زندگی میں اس کی یہی حالت رہے گی کہ

دیکھ لو سرکار اس میں شرط یہ لکھی نہیں

رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو دیکھ لو۔ آپ نے قرآنی احکام کی کس قدر تشریح کی ہے اور کس کثرت کے ساتھ آپ نے اپنی اُمت کو روحانی مسائل سکھائے ہیں مگر باوجود ان تمام تشریحات کے ہر زمانہ میں نئے سوال پیدا ہوتے رہتے ہیں جن کے لئے کوئی نیا مثیل محمدؐ پیدا ہوتا ہے اور وہ لوگوں کے پیدا کردہ شبہات و وساوس کا ازالہ کرتا ہے اور یہ سنت اللہ ایسی ہے جو ہر زمانہ میں جاری رہتی ہے۔ ہر زمانہ کی الگ الگ ضرورتیں ہوتی ہیں اور ہر زمانہ میں دشمنانِ اسلام کی طرف سے نئے نئے اعتراضات کئے جاتے ہیں اس لئے ضروری ہوتا ہے کہ ہر زمانہ میں ان کے اعتراضات کے جوابات اور اسلام کے احیاء کے لئے اللہ تعالیٰ کی طرف سے نئے مثیل محمدؐ پیدا ہوں۔اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ہم جس قدر باتیں بیان کرتے ہیں وہ قرآن کریم میں موجود ہوتی ہیں، احادیث سے ان کی تائید ہوتی ہے، ائمہ سلف کی شہادت ان کے حق میں موجود ہوتی ہے۔ یہ نہیں کہ ہم اپنے پاس سے وہ باتیں بتاتے ہیں ہم جو کچھ مال پیش کرتے ہیں وہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا ہی مال ہوتا ہے مگر بہرحال ہر زمانہ کے مفاسد کے لحاظ سے پرانی باتوں کو نئے الفاظ میں پیش کرنے کی ضرورت ہوتی ہے تا کہ دشمن اپنے اعتراضات کی کمزوری سے واقف ہو کر شرمندہ ہو اور چونکہ اعتراضات ہمیشہ بدلتے چلے جاتے ہیں اور کوئی ایک شخص تمام باتیں پورے طور پر نہیں بتا سکتا اس لئے اصل چیز جس کی طرف ایک مومن کو ہمیشہ توجہ رکھنی چاہئے یہ ہے کہ اس کا اللہ تعالیٰ سے براہِ راست تعلق پیدا ہو جائے تا کہ اللہ تعالیٰ خود اپنے پاس سے اسے علم سکھائے دوسرے انسانوں کی احتیاج جاتی رہے۔

حقیقت یہ ہے کہ دنیا میں کوئی جماعت زندہ نہیں رہ سکتی اور کوئی جماعت کامیاب طور پر اپنے فرائض کو ایک لمبے عرصہ تک ادا نہیں کر سکتی جب تک اُس کے افراد میں یہ تڑپ نہ ہو کہ ہمارا خداتعالیٰ سے ایسا مضبوط تعلق ہو جائے کہ خدا کا پیار ہمیں حاصل ہو، ہم اس کے نام پر فدا ہونے والے ہوں اور وہ ہماری ضرورتوں کو پورا کرنے والا ہو۔ جب تک یہ تعلق مضبوط سے مضبوط تر نہ ہوتا چلا جائے اور محبتِ الٰہی اپنے کمال کو نہ پہنچ جائے اُس وقت تک کوئی انسان تنزّلسے محفوظ نہیں رہ سکتا۔ نجات اسی کے لئے ہے جس نے اپنے دل میں اللہ تعالیٰ کی محبت پیدا کی اور پھر اس محبت کو اس حد تک بڑھایا کہ اس کے رگ و ریشہ میں اس کا اثر سرایت کر گیا۔

دوسری بات جس کی طرف مَیں جماعت کو توجہ دلانا چاہتا ہوں یہ ہے کہ تمہیں اس بات پر کامل یقین اور ایمان رکھنا چاہئے کہ خواہ دنیا تمہاری کس قدر مخالفت کرے اور تمہاری کامیابی کے راستہ میں کس قدر روڑے اٹکائے تم نے بہرحال جیتنا ہے۔ اگر تم میں سے کسی شخص کے دل میں یہ وسوسہ ہے کہ اس نے نہیں جیتنا تو میں تمہیں یقین دلاتا ہوں کہ خدا تعالیٰ بھی اسے احمدی نہیں سمجھتا، محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی اسے احمدی نہیں سمجھتے، حضرت مسیح موعود علیہ السلام بھی اسے احمدی نہیں سمجھتے اور میں بھی اسے احمدی نہیں سمجھتا۔ جس شخص کے دل میں ایک لمحہ کے لئے بھی یہ وسوسہ پیدا ہو جائے کہ ہم دنیا کے مقابلہ میں ہار جائیں گے، دنیا جیت جائے گی اور ہم اپنے مقصد میں ناکام رہیں گے وہ ہرگز احمدی نہیں اور اس نے قطعاً حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی آمد اور اس کی بعثت کی غرض کو نہیں سمجھا۔ جس شخص کے آنے کی اُمت محمدیہ کے تمام اولیاء خبر دیتے چلے آئے ہیں، جس شخص کے آنے کی گزشتہ انبیاء تک نے خبریں دی ہیں اور جس شخص کے آنے کو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا آنا قرار دیا ہے اگر اُس نے بھی دنیا کے مقابلہ میں ہارجانا ہے تو اس کے معنی یہ ہیں کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہار گئے اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یقینا ًہار نہیں سکتے اور جب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہار نہیں سکتے تو آپ کا مثیل کیسے ہار سکتا ہے۔ پس ہم نے یقینا ًجیتنا ہے مگر ہم کس طرح جیتیں گے؟ یہ ابھی عجیب سی بات معلوم ہوتی ہے کیونکہ فتح اور غلبہ کے حصول کے لئے جس انتہائی اخلاص اور قربانی کی ضرورت ہوتی ہے وہ بہ تمام و کمال ابھی ہمارے پاس نہیں یا اگر ہے تو جماعت کے افراد اس سے پوری طرح کام نہیں لیتے۔ ہماری جماعت میں بے شک قربانی کی بہت بڑی روح پائی جاتی ہے اور یہ قربانی اور ایثار کا مادہ اس حد تک ہماری جماعت میں پایا جاتا ہے کہ جب میں اپنی جماعت کی بعض قسم کی قربانیوں کو دیکھتا ہوں یا جب میں اپنی جماعت کے بعض افراد کی قربانیوں کودیکھتا ہوں تو مجھے حیرت آتی ہے کہ ایسے مواد کی موجودگی میں اللہ تعالیٰ کے وعدوں کے پورا ہونے میں کیوں دیر ہو رہی ہے اور کیوں ہماری جماعت کو موجودہ حالت سے بہت بڑھ کر ترقی حاصل نہیں ہوتی۔ لیکن جب میں اپنی جماعت کے کمزور طبقہ پر اپنی نگاہ دَوڑاتا ہوں اور قومی کاموں میں اس کی کمزوری اور غفلت کا مشاہدہ کرتا ہوں تو مجھے حیرت آتی ہے کہ جماعت کو وہ ترقی ملی کیوں جو اِسے حاصل ہے۔ گویا میری حالت بالکل ویسی ہی ہوتی ہے جیسے آئینہ خانہ میں جانے والے کی ہوتی ہے۔ جس طرح وہ حیران و پریشان سا ہو جاتا ہے اسی طرح میں بھی جب جماعت کے بعض لوگوں کی یا تمام جماعت کی بعض قسم کی قربانیوں کو دیکھتا ہوں تو حیران ہوتا ہوں اور کہتا ہوں کہ اس ایثار اور قربانی کے باوجود ہماری جماعت نے کیوں موجودہ حالت سے بہت زیادہ ترقی نہیں کی اور کیوں الٰہی مدد اور اس کی نصرت کے نزول میں دیر ہو رہی ہے؟ لیکن جب میں بعض لوگوں کی کمیِ اخلاق اور ان سے ناقص اعمال کو دیکھتا ہوں اور دینی معاملات میں ان کی غفلت اور کوتاہی پر نظر دوڑاتا ہوں تو مجھے حیرت ہوتی ہے کہ اس قسم کے کمزور طبقہ کے ہوتے ہوئے ہماری جماعت کو جو ترقی ہوئی ہے وہ کیسے ہوئی ہے۔ بہرحال خواہ کمزور طبقہ کی کمزوری اور اس کی غفلت جماعت کیلئے کس قدر اندوہناک ہو یہ یقینی اور قطعی امر ہے کہ ہم نے دنیا پر غالب آنا ہے۔ سوال صرف یہ ہے کہ ہم نے کس ذریعہ سے اور کن طریقوں سے جیتنا ہے۔ اور پھر یہ بھی کہ اسلام کی اس فتح اور غلبہ میں ہمارا اور ہمارے عزیزوں کا کس قدر حصہ ہوگا میں تمہارے متعلق کچھ نہیں کہہ سکتا کہ تم اپنے دلوں میں کیا خیالات رکھتے ہو لیکن میں اپنے متعلق کہہ سکتا ہوں کہ میرے دل میں یقینا ًیہ خواہش پیدا ہوتی ہے کہ اسلام اور احمدیت کو جو فتح حاصل ہونے والی ہے اس میں میرا اور میری اولاد اور میرے پیاروں کا بھی حصہ ہو۔

(جاری ہے )

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button