اصحاب احمدؑ کا تعلق باللہ (قسط دوم۔ آخری)
حضرت مولانا غلام رسول صاحب راجیکیؓ
مکرم مولانا غلام رسول صاحب راجیکیؓ ضلع گجرات کے باشندے اور اپنے علاقہ کی ایک معزز قوم جاٹ وڑائچ سے تعلق رکھتے تھے۔ آپؓ کا خاندان پشت ہا پشت سے ولیوں کا خاندان سمجھاجاتا تھا۔ آپؓ کی پیدائش سے قبل آپؓ کی والدہ ماجدہ نے ایک رؤیا میں دیکھا کہ’’ہمارے گھر میں ایک چراغ روشن ہوا ہے، جس کی روشنی سے تمام گھر جگمگا اٹھا ہے۔ ‘‘ آپؓ اپنے استاد، مکرم مولوی امام الد ین صاحبؓ کے ہم راہ اندازاً 1899ء میںقادیان تشریف لے گئے اور حضور علیہ السلام کے دست ِمبارک پر بیعت کا شرف حاصل ہوا ۔اور اس طرح اصحاب احمدؑ کے پاک گروہ میں شامل ہونے کا شرف پایا۔ آپؓ کی زندگی میں تعلق باﷲکے بے شمار واقعات آپؓ کی سوانح ’’حیات قدسی‘‘ میں درج ہیں، یہاں صرف نمونے کے طور پر چندایک کا ذکر کیا جاتا ہے۔
’’کون ہے جو تجھے میرے مہدی کا پیغام پہنچانے سے روک سکے؟‘‘
جب آپؓ عین جوانی (18، 19سال کی عمر)میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیعت سے مشرف ہو کر واپس اپنے وطن راجیکی میں تشریف لائے تو آپؓ کے اندر حضرت مامور زمانہ علیہ السلام کی ایک ہی صحبت نے تبلیغ احمدیت کاکچھ اس قسم کا جوش اور ولولہ پیدا کر دیا کہ آپؓ فرماتے ہیں :
’’میں شب و روز دیوانہ وار اپنوں اور بے گانوں میں جاتا اور سلام و تسلیم کے بعد امام الزمان علیہ السلام کے آنے کی مبارکباد عرض کرتے ہوئے تبلیغ احمدیت شروع کر دیتا۔ جب گردونواح کے دیہات میں میری تبلیغ اور احمدی ہونے کا چرچا ہوا تو اکثر لوگ، جو ہمارے خاندان کو ولیوں کا خاندان سمجھتے تھے، مجھے اپنے خاندان کے لئے باعث ننگ خیال کرنے لگے۔ ‘‘
آپؓ فرماتے ہیں :
’’میں نے ان لوگوں کی کچھ پرواہ نہ کی اور تبلیغ جاری رکھی۔ ‘‘
ایک دن آپؓ ایک قریبی گاؤں موضع گڈھو میں تشریف لے گئے اور وہاں بعض آدمیوں کو حضرت امام مہدی علیہ السلام کی آمد کا پیغام پہنچانے کے بعد اس موضع کی مسجد کے برآمدہ میں اپنی ایک پنجابی نظم، جو حضرت امام مہدی علیہ السلام کی آمد کے بارے میں تھی، کے کچھ اشعار لکھ دیے، فرماتے ہیں :
’’اتفاق کی بات ہے کہ اس موضع کا نمبردار، چوہدری اللہ بخش، اس وقت کہیں مسجد میں طہارت کر رہا تھا، اس نے مجھے مسجد سے باہر نکلتے ہوئے دیکھ لیا۔ ادھر راستہ میں یہاں کے امام مسجد، مولوی کلیم اللہ، نے بھی مجھے دیکھا۔ جب یہ دونوں آپس میں ملے تو انہوں نے میرے جنون احمدیت کا تذکرہ کرتے ہوئے مسجد کے برآمدہ میں ان اشعار کو پڑھااور یہ خیال کرتے ہوئے کہ اب ہماری مسجد اس مرزائی نے پلید کر دی ہے، یہ تجویز کیا کہ سات مضبوط جوانوں کو میرے پیچھے دوڑایا جائے جو میری مشکیں باندھ کر مجھے ان کے پاس لے آئیں اور میرے ہاتھوں سے ہی میرے لکھے ہوئے اشعار کو مٹواکرمجھے قتل کر دیا جائے۔ ‘‘
آپؓ ان جوانوں کے پہنچنے سے پہلے ہی اپنے گاؤں واپس پہنچ چکے تھے۔ لہٰذا وہ لوگ خائب و خاسر ہو کر واپس لوٹ گئے۔ آپؓ فرماتے ہیں :
’’دوسرے دن اسی گاؤں کا ایک باشندہ، جو والد صاحب کا مرید تھا اور ان لوگوں کے بد ارادوں سے واقف تھا، صبح ہوتے ہی ا ن (والد ماجد)کی خدمت میں حاضر ہوا اور سارا ماجرا کہہ سنایا۔ والد صاحب نے ان کی باتیں سنتے ہی مجھے فرمایاکہ جب ان لوگوں کے تیرے متعلق ایسے ارادے ہیں تو احتیاط کرنی چاہیے۔ ‘‘
اب خدا کا یہ بندہ، جس کے رگ و ریشہ میں احمدیت کی صداقت سما چکی تھی، کیسے خاموش رہ سکتا تھا۔ اس کے نتیجہ میں آپؓ کے اندر جو جوش پیدا ہوا اور جس رنگ میں آپؓ نے اپنے ازلی ابدی خدا کے سامنے فریاد کی، آپؓ فرماتے ہیں :
’’میں نے جب یہ واقعہ اور محترم والد صاحب کا فرمان سنا تو وضو کر کے نماز شروع کر دی اور اپنے مولا کریم کے حضور عرض کیا کہ اے میرے مولیٰ! کیا یہ لوگ مجھے تیرے پیارے مسیح کی تبلیغ سے روک دیں گے اور کیا میں اس طرح تبلیغ کرنے سے محروم رہوں گا؟ یہ دعا میں بڑے اضطراب اور قلق سے مانگ رہا تھا کہ مجھے جائے نماز پر ہی غنودگی سی محسوس ہوئی اور میں سو گیا۔ سونے کے ساتھ ہی میرا غریب نوازخدا مجھ سے ہمکلام ہوا اورنہایت رافت اور رحمت سے فرمانے لگا: ’’وہ کون ہے جو تجھے تبلیغ سے روکنے والا ہے، اللہ بخش نمبردار کو میں آج سے گیارہویں دن قبر میں ڈال دوں گا۔ ‘‘
یہ آسمانی پیغام، جو آپؓ کو ملا، اتنا واضح، غیر مبہم اور جلالی تھا کہ آپؓ اسے اللہ بخش نمبردار تک پہنچانے کے لیے فوراً ہی روانہ ہو پڑے، فرماتے ہیں :
’’صبح میں ناشتہ کرتے ہی موضع گڈہو پہنچا اور جاتے ہی اللہ بخش نمبردار کا پتہ پوچھا۔ لوگوں نے کہا:کیا بات ہے؟ میں نے کہا: اس کے لئے میں الٰہی پیغام لایا ہوں اور وہ یہ ہے کہ اللہ بخش آج سے گیارہویں دن قبر میں ڈالا جائے گا۔ کہنے لگے: وہ تو موضع لالہ چک، جو گجرات سے مشرق کی طرف چند کوس کے فاصلہ پر ایک گاؤں ہے، وہاں چلا گیا ہے۔ میں نے کہا کہ پھر تم لوگ گواہ رہو کہ وہ گیارہویں دن قبر میں ڈال دیا جائے گااور کوئی نہیں جو اس خدائی تقدیر کو ٹال سکے۔ ‘‘
فرماتے ہیں : ’’میرا یہ پیغام سنتے ہی اہل محفل پر ایک سناٹا چھا گیا۔ ‘‘
اب وہ الٰہی تقدیر اس طرح ظہور میں آئی کہ چوہدری اللہ بخش لالہ چک جاتے ہی ذات الجنب اور خونی اسہالوں سے بیمار ہو گیا۔ یہ مرض چند دنوں میں اتنا بڑھا کہ اس کے رشتہ دار اسے اٹھا کر گجرات کے ہسپتال میں لے گئے۔ وہاں وہ موت و حیات کی کشمکش میں مبتلا رہنے کے بعد ٹھیک گیارہویں دن قبر میں جا پڑا۔ یوں خدائے قہار کی بتائی ہوئی یہ تقدیر پوری ہو کر اس کی ہستی، اس کی قدرت اور جلال کا نشا ن بن گئی۔ فاعتبروا!
(حیات قدسی حصہ اوّل صفحہ 22تا23)
علم و حکمت عطا کیے جانے کے بارے الٰہی بشارت
حضرت مولانا غلام رسول راجیکی صاحبؓ کے اپنے خاندان کے اکثر افراد احمدیت کی نعمت سے محروم رہے، بلکہ عموماً مخالفت پر کمر بستہ رہے۔ ان میں پیش پیش آپؓ کے دو چچا زاد بھائی، حافظ غلام حسین صاحب اور حافظ فضل حسین صاحب تھے۔ اس دوران آپؓ نے ایک رؤیا دیکھی جس سے آپؓ کو بہت ڈھارس ملی، فرماتے ہیں :
’’جب اللہ تعالیٰ نے میری تبلیغ کے ذریعہ سے میری برادری کے عام لوگوں پر اور گرد و نواح کے دیہات پر اتمام حجت کر دی تو ایک رات میں نے خواب میں دیکھا کہ سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام ہمارے گاؤں میں تشریف لائے ہیں اور میرے چچا زاد بھائیوں، حافظ غلام حسین صاحب اورحافظ فضل حسین صاحب کی ڈیوڑھی میں کھڑے ان کو احمدیت کی مخالفت کی وجہ سے زجر و توبیخ فرما رہے ہیں اور میری طرف متوجہ ہو کر فرماتے ہیں :
’’آپ تو حکیم ہیں ‘‘۔ ‘‘
اس رؤیا کی تعبیر میں آپؓ فرماتے ہیں کہ ’’حکیم‘‘ کے لفظ سے مجھے معلوم ہوا کہ
’’خدا تعالیٰ مجھے
مَنْ یُّؤْتَ الْحِکْمَۃَ فَقَدْ اُوْتِیَ خَیْرًا کَثِیْرًا
کے مطابق قرآن مجیدکے اسرار اور حکمت کی باتوں سے نوازے گا اور اس خیر کثیر سے بہرہ ور فرمائے گا۔ اس رؤیاء صادقہ کے ماتحت جہاں اللہ تعالیٰ نے مجھے حقائق قرآن سے آگاہ فرمایا، وہاں ’’حکیم ‘‘کے لفظ کے معروف معنوں کے رو سے مجھے علم طب کی نعمت سے بھی متمتع فرما دیا۔ ‘‘
(حیات قدسی حصہ دوم صفحہ 131)
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی طرف سے یہ بات کہ ’’آپ تو حکیم ہیں ‘‘ نے آپؓ کی دعاؤں میں اعجازی کیفیت پیدا کر دی۔ اس سلسلہ میں نمونۃً چند واقعات کا ذکر کرنا مناسب ہوگا۔
چوہدری اللہ داد کی معجزانہ صحت یابی
حضرت مولانا غلام رسول راجیکی صاحبؓ فرماتے ہیں :
’’فیضان ایزدی نے سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بیعت راشدہ کے طفیل اور تبلیغ احمدیت کی برکت سے میرے اندر ایک ایسی روحانی کیفیت پیدا کر دی تھی کہ بعض اوقات جو کلمہ بھی میں منہ سے نکالتا تھا اور مریضوں اور حاجت مندوں کے لئے دعا کرتا تھا، مولیٰ کریم اسی وقت میری معروضات کو شرف قبولیت بخش کر لوگوں کی مشکل کشائی فرما دیتا تھا۔ چنانچہ اس موقع پر جب میں موضع سعد اللہ پور گیا تو میں نے چوہدری اللہ داد صاحب کو …مسجد کی ایک دیوار کے ساتھ بیٹھے ہوئے دیکھاکہ وہ بے طرح دمہ کے شدید دورے میں مبتلا تھے اورسخت تکلیف کی وجہ سے سخت نڈھال ہورہے تھے۔ میں نے وجہ دریافت کی تو انہوں نے بتایا کہ مجھے پچیس سال سے پرانا دمہ ہے، جس کی وجہ سے زندگی دُوبھر ہو گئی ہے۔ میں نے علاج معالجہ کی نسبت پوچھاانہوں نے کہا کہ دور دور کے قابل طبیبوں اور ڈاکٹروں سے علاج کروا چکا ہوں مگر انہوں نے اس بیماری کو موروثی اور مزمن ہونے کی وجہ سے لا علاج قرار دے دیا ہے۔ اس لئے میں اب اس کے علاج سے مایوس ہو چکا ہوں۔ …میں نے کہاکہ ہمارا خدا تو
فَعَّالٌ لِّمَا یُرِیْدُ
ہے اور اس نے فرمایا ہے
لَا تَایْئَسُوْا مِنْ رَّوْحِ اللّٰہِ اِنَّہٗ لَا یَایْئَسُ مِنْ رَّوْحِ اللّٰہِ اِلَّا الْقَوْمُ الْکَافِرُوْنَ۔
یعنی یاسا اور کفر تو اکٹھے ہو سکتے ہیں لیکن ایمان اور یاس اکٹھے نہیں ہو سکتے۔ اس لئے آپ نا امید نہ ہوں اور ابھی پیالہ میں تھوڑا س پانی منگائیں، میں آپ کو دم کر دیتا ہوں۔ ‘‘
آپؓ فرماتے ہیں :
’’اسی وقت انہوں نے پانی منگایا اور میں نے خداتعالیٰ کی صفت شافی سے استفادہ کرتے ہوئے اتنی توجہ سے اس پانی پر دم کیا کہ مجھے خدا تعالیٰ کی اس صفت کے فیوض سورج کی کرنوں کی طرح اس پانی پر برستے ہوئے نظر آئے۔ اس وقت مجھے یقین ہو گیا کہ اب یہ پانی افضال ایزدی اور حضرت مسیح پاک علیہ السلام کی برکت سے مجسم شفاء بن چکا ہے۔ ‘‘
آپؓ فرماتے ہیں :
’’جب میں نے یہ پانی چوہدری اللہ داد کو پلایا تو آن کی آن میں دمہ کا دورہ رک گیا اور پھر اس کے بعد کبھی انہیں یہ عارضہ نہیں ہواحالانکہ اس واقعہ کے بعد چوہدری اللہ داد تقریباً پندرہ سولہ سال زندہ رہے۔ اس قسم کے نشانات سے اللہ تعالیٰ نے چوہدری صاحب موصوف کو احمدیت بھی نصیب فرمائی اور آپ خدا کے فضل سے مخلص اور مبلغ احمدی بن گئے۔ الحمدللّٰہ علیٰ ذالک‘‘
(حیات قدسی حصہ اول، صفحہ44تا45)
ایک آدمی کی دو سال پرانی ہچکی دفعۃً دور ہو گئی
موضع مکھنانوالی ضلع گجرات کے ایک تبلیغی جلسہ کی روئیداد بیان کرتے ہوئے آپؓ فرماتے ہیں کہ
’’دوران جلسہ میں میری بھی تقریر ہوئی اور سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دعویٰ اور دلائل کے متعلق قرآن کریم اور احادیث نبویہ اور اقوا ل ماثورہ میں سے بعض ثبوت پیش کئے گئے۔ ‘‘
آپؓ فرماتے ہیں :
’’…جلسہ کے برخاست ہونے کے بعد جب ہم سب دوست نماز ادا کرنے کے لئے مسجد میں آئے تو ہمارے پیچھے گاؤں کے دو ماچھی سقہ قوم کے فرد بھی آگئے اور پکار پکار کرکہنے لگے کہ مہدی اور مسیح کا دعویٰ تو کیا جاتا ہے مگرنور …اتنا بھی نہیں کہ کوئی کرامت دکھا سکیں۔ میں نے انہیں مخاطب کرتے ہوئے پوچھا کہ تمہاری اس سے کیا مراد ہے۔ تب ان میں سے ایک نے کہاکہ میرا بھائی قریباً ڈیڑھ سال سے ہچکی کی مرض میں مبتلا ہے۔ طبیبوں اور ڈاکٹروں کے علاج سے بھی اس کو کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ میں نے کہاتو اس میں ہمارا کیا قصور ہے۔ اگر آپ لوگ حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے دعا کراتے اور اس کوکوئی فائدہ نہ ہوتا تو اعتراض بھی تھا۔ اب ہم پر کیا اعتراض ہے۔ اس نے کہاتوپھر آپ ہی کچھ احمدیت کا اثر دکھائیں تا کہ ہم بھی دیکھ لیں کہ احمدی اور غیر احمدی لوگوں میں کیا فرق ہے۔ ‘‘
اب یہاں ایک طرف احمدیت کی غیرت کا سوال تھا اور دوسری طرف آپؓ کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ملنے والی بشارت ’’آپ تو حکیم ہیں ‘‘ کے امتحان کا وقت تھا۔ چنانچہ آپؓ فرماتے ہیں :
’’میں نے کہا کہ اچھا یہ بات ہے تو لاؤ کہاں ہے تمہارا مریض۔ چنانچہ اسی وقت اس شخص نے اپنے بھائی کو جو پاس ہی بیٹھا کراہ رہا تھا میرے سامنے کھڑا کر دیا۔ خدا کی حکمت ہے کہ اس مریض کا میرے سامنے آنا ہی تھا کہ میں نے ایک غیبی طاقت اور روحانی اقتداراپنے اندر محسوس کیا اور مجھے یوں معلوم ہونے لگا کہ میں اس مرض کے ازالہ کے لئے خدا تعالیٰ کی طرف سے ایک اعجاز نما قدرت رکھتا ہوں۔ چنانچہ اسی وقت میں نے اس مریض کو کہا کہ تم میرے سامنے ایک پہلو پر لیٹ جاؤ اور تین چار منٹ تک جلد جلد سانس لینا شروع کر دو(یہ بات میں نے ایک الہامی تحریک سے اسے کہی تھی) چنانچہ اس نے ایسا ہی کیا۔ اس کے بعد میں نے اسے اٹھنے کے لئے کہا۔ جب وہ اٹھا تو اس کی ہچکی بالکل نہ تھی۔ اس کرامت کو جب تمام حاضرین نے دیکھا تو حیرت زدہ ہو گئے اور وہ دونو بھائی بلند آواز سے کہنے لگےکہ ہم تسلیم کرتے ہیں کہ مرزا صاحب واقعی سچے ہیں اوران کی برکت کے نشان واقعی نرالے ہیں۔ ‘‘
(حیات قدسی حصہ دوم، صفحہ 109تا110)
مریضہ کی قے معجزانہ طور پر رک گئی
جب ہندوستان میں شدھی کی تحریک زوروں پر تھی، اس وقت جہاں حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ نے مختلف آریوں کی طرف سے اٹھنے والی اس خطرناک تحریک کا سد باب فرمایا، وہاں جماعت کے مبلغین کو مختلف علاقہ جات میں اس غرض سے بھجوایاتا کہ وہ مسلمانوں کو اپنی اقتصادی حالت بہتر بنانے کی طرف توجہ دلائیں۔ حضرت مولانا غلام رسول راجیکی صاحبؓ فرماتے ہیں :
’’…اس سلسلہ میں خاکسار کو ضلع جھنگ میں متعین کیا گیا۔ جب میں شہر جھنگ میں پہنچا تو میں نے حالات کے پیش نظر مقامی احمدی احباب کے پاس جانا پسند نہ کیااور شہر میں دریافت کیا کہ زیادہ با اثر اور معزز رئیس، جو شریف طبع اور بااخلاق ہو کون ہے۔ مجھے بتایا گیا کہ میاں شمس الدین صاحب، میونسپل کمشنر ان اوصاف کے مالک ہیں۔ چنانچہ میں ان کی رہائش گاہ کا پتہ لے کر وہاں پہنچا۔ میاں شمس الدین صاحب اپنے گھر کے بڑے صحن میں اپنے حلقۂ احباب میں بیٹھے ہوئے تھے۔ مجلس میں تقریباً ہر طبقہ کے لوگ شامل تھے۔ بعض کے آگے قیمتی حقے رکھے ہوئے تھے اور خود میاں شمس الدین صاحب بھی حقہ پی رہے تھے، جس پر چاندی کی گلکاری کی ہوئی تھی۔
مجلس کے قریب پہنچتے ہی میں نے اونچی آواز سے السلام علیکم کیا۔ علیک سلیک کے بعد میاں صاحب نے مجھ سے پوچھا کہ آپ کہاں سے تشریف لائے ہیں ؟ میں نے کہاکہ قادیان مقدس سے آیا ہوں اور احمدی ہوں۔ انہوں نے مقصد دریافت کیاتومیں نے مختصر طور پر آریوں کی تحریک شدھی مسلمانوں کی اقتصادی بدحالی اور اس کے تدارک کے متعلق ضروری اسکیم کا ذکر کیا…۔ میاں شمس الدین صاحب نے کہا کہ مقاصد تو اچھے ہیں لیکن کسی قادیانی کے لئے یہاں بیٹھنا تو درکنا رکھڑا ہونے کی بھی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ …دریں اثنا ء ایک طبیب نے جو اسی مجلس میں بیٹھا ہوا تھا کسی تعلق میں کہا کہ علم طب ایک یقینی علم ہے۔ میں نے اس کی بات سن کر عرض کیا کہ اس وقت تو میں جا رہا ہوں کسی علمی بات کا موقع نہیں صرف اتنا کہہ دیتا ہوں کہ افلاطون کا مشہور مقولہ اطباء اسلام نے نقل کیا ہے کہ المعالجۃ کرمی السھم قد یخطی و قد یصیبیعنی علاج معالجہ اندھیرے میں تیر پھینکنے کی طرح ہے جو کبھی نشانہ پر بیٹھتا ہے اور کبھی خطا جاتا ہے۔ پس علم طب کو یقینی علم کہنا درست نہیں۔
میں ابھی اس سلسلہ میں بات کر ہی رہا تھا کہ میاں شمس الدین صاحب کو گھر سے اطلاع ملی کہ ان کی لڑکی جس کو آٹھواں مہینہ حمل کا تھا۔ بوجہ قے قریب المرگ ہے۔ ‘‘
اس پر انہوں نے حضرت مولانا صاحبؓ کو ٹھہرنے کو کہا اور پوچھنے لگےکہ
’’اگرآپ کو طبابت سے واقفیت ہو تو اس مرض کے لئے کوئی نسخہ بتاتے جائیں۔ میں نے کہاکہ حاملہ کی قے کے لئے آپ سات پتے پیپل کے، جو خودریختہ ہوں لےلیں اور ان کو جلا کر راکھ چینی کے پیالہ میں ڈالیں اور آدھ پاؤ یا تین چھٹانک پانی ڈال کرراکھ کو اس میں گھول لیں۔ جب راکھ نیچے بیٹھ جائے تو پھر گھول لیں اور اس طرح سات مرتبہ کر کے راکھ کو تہ نشین کر لیں اور وہ مقطر پانی مریضہ کو پلائیں۔
آپؓ فرماتے ہیں :
’’میرے کہنے کے مطابق میاں صاحب موصوف نے یہ عمل کیا۔ خدا تعالیٰ کے عجائبات ہیں کہ مریضہ کی قے وہ پانی پیتے ہی رک گئی اور طبیعت فوراً سنبھل گئی۔ جب انہوں نے یہ کرشمۂ قدرت دیکھا تو میری طرف فوراًآدمی دوڑایا۔ ‘‘
آپؓ اس دوران گھرسے کچھ دورجا چکے تھے، مگر آدمی کے آنے پر رک گئے۔ آپؓ فرماتے ہیں :
’’تھوڑی دیر میں وہ بھی آ پہنچے اور علاج کی بے حد تعریف کرنے کے بعد درخواست کرنے لگے کہ میں ان کے ہاں مہمان ٹھہروں، وہ ہر طرح سے میرے آرام و سہولت کا خیال رکھیں گے اور مہمانداری کا حق ادا کریں گے۔ میں نے کہا کہ میری دعوت کو تو آپ نے رد فرما دیا ہےجو قومی فائدہ کے لئے تھی اور اب آپ اپنی طرف سے مجھے دعوت دے رہے ہیں۔ ‘‘
اب صورت حال بدل چکی تھی۔ آپؓ فرماتے ہیں :
’’میاں صاحب نے بہت معذرت کی اور کہا کہ جو کچھ ہوا ناواقفیت کی وجہ سے ہوا۔ اب میں روزانہ شہر میں ڈونڈی پٹوا کر مسلمانوں کو اکٹھا کرنے کا انتظام کروں گا اور جلسہ کا انعقاد کر کے آپ کو مفید اور کارآمدخیالات کے اظہار کا موقع بہم پہنچاؤں گا۔
چنانچہ حسب وعدہ روزانہ جلسے کا انتظام کرتے… ان کے اثر و رسوخ اور وقار کی وجہ سے لوگ جوق در جوق آتے اور میری تقریریں سنتے یہاں تک کہ شہر کےمسلمانوں میں اپنی اقتصادی حالت کو سنوارنے کے لئے خوب بیداری پیدا ہوگئی۔ اسّی کے قریب مسلمانوں کی نئی دکانیں شہر میں کھل گئیں اور جو دکانیں اور کاروبار پہلے موجودتھا، زیادہ پُررونق ہو گیا۔ ‘‘
(حیات قدسی جلد سوم صفحہ166تا168)
حضرت مولانا محمد ابراہیم صاحب بقاپوریؓ
حضرت مولانا محمد ابراہیم بقاپوری صاحبؓ ان بزرگان سلسلہ میں سے تھے جنہیں اللہ تعالیٰ نے اخبار سماویہ کی دولت سے وافر حصہ عطا فرمایا۔ آپؓ 1875ء میں چک چٹھہ، ضلع گوجرانوالہ میں پیدا ہوئے۔ آپؓ کے ایک تایا، جو ولی اللہ تھے، آپؓ کی والدہ کو کہا کرتے تھے کہ ابراہیمؓ تمہارے گھر میں ایک نور لائے گا، جسے تم وقت پرپہنچان لو گی۔ آپؓ نے 1905ء میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ہاتھ پر بیعت کی۔ آپؓ اپنے خاندان کے پہلے احمدی تھے۔ آپؓ کے احمدی ہو جانے پر علاقہ میں شور مچ گیا اور شدید مخالفت ہونے لگی۔ خود آپؓ کے ماموں، جو آپؓ کے خسر بھی تھے، اس قدر جز بز ہوئے کہ انہوں نے آپؓ کو گھر سے نکال دیا، جس پر آپؓ ایک قریبی قصبہ ’’بقاپور‘‘ میں چلے گئے، اسی نسبت سے آپؓ ’’بقاپوری‘‘ مشہور ہوئے۔ آپؓ سلسلہ کے ایک نڈر واعظ، صاحب رؤیا و کشوف بزرگ اور بڑے کامیاب داعی الی اللہ تھے۔ آپؓ کی زندگی کا اکثر حصہ مباحثات اور مناظرات میں گذرا۔ آپؓ نے اپنے قبولیت دعااور تعلق باللہ کے بہت سے واقعات، اسی طرح دیگر بہت سے اعجازی نشانات اپنی خود نوشت داستان ’’حیات بقاپوری‘‘ میں درج فرمائے ہیں، چندایک کا یہاں ذکر کیا جاتا ہے۔
اگر محمودؓ نہیں آ سکتا تو…
یہاں آپؓ کی بیان کردہ ایک ایسی رؤیاکا ذکر کیا جاتا ہے، جس میں آپؓ کی خلیفہ وقت سے محبت اور خلوص پر مبنی ایک نیک خواہش کے پورا نہ ہونے پر اللہ تعالیٰ نے آپؓ کو اطمینان کی بشارت بہم پہنچائی، آپؓ فرماتے ہیں :
’’جن دنوں حضرت اقدس خلیفۃ المسیح الثانیؓ، ولایت جلسہ اعظم مذاہب کی تقریب میں شمولیت کے لئے تشریف لے جانے والے تھے، ان دنوں میرا مکان، واقع محلہ دارالفضل، مکمل ہوچکا تھا۔ میں نے حضورؓ سے مکان پر تشریف لے جانے اور دعا کرنے کے لئے عرض کیا۔ آپؓ نے فرمایا: میں تو کل جا رہا ہوں، مجھے فرصت کہاں ؟میں نے عرض کیا کہ میری بیوی سے حضرت اُم المؤمنینؓ فرما چکی ہیں کہ جب مولوی صاحب دعا کے لئے کہیں گے، حضور دعا کر دیں گے۔ حضور فرمانے لگے: مجھے تو بالکل فرصت نہیں ہے۔ آپ حضرت ام المومنین سے ہی دعا کرا لیں۔ ‘‘
آپؓ فرماتے ہیں :
’’میں بہت ملول خاطر تھا کہ حضورؓ تو اب تین چار ماہ کے بعد ہی تشریف لائیں گے اور اتنا عرصہ انتظار کرنا مشکل ہے۔ آپؓ فرماتے ہیں :
’’میں نے رؤیاء میں دیکھا کہ اللہ تعالیٰ مجھے فرما رہے ہیں کہ اگر محمود نہیں آ سکتا تو تو مجھے اپنے مکان میں لے آ۔ صبح اٹھ کر میں نے اس رؤیاء کی تعبیر اور تعمیل اس طرح کی کہ حضرت اقدس کے ایک مخلص خادم اور عاشق کو جو حدیث نبوی رُبَّ اَشْعَثْ اَغْبَرَلَو اَقْسَمَ عَلَی اللّٰہِ لَا بَرَّہ، یعنی بعض لوگ بظاہر پراگندہ حال لوگ ہوتے ہیں، لیکن اللہ کے نزدیک ان کا بڑا مرتبہ ہوتا ہے، اگر وہ اس کا نام لے کر کوئی بات کہہ دیں تو اللہ تعالیٰ اسے پورا فرما دیتا ہے، گویا اللہ تعالیٰ کو غربا میں تلاش کرنا چاہیے، کا مصداق تھا، اپنے گھر لے آیا اور اسے کچھ کھانا بھی کھلایا اور پھر اس سے اپنے نئے مکان کے افتتاح کی دعا کروائی۔ ‘‘
(حیات بقا پوری حصہ دوم)
’’نہ گھبرا، میں رب تیرا غفور رحیم ہوں ‘‘
آپؓ کی ایک اور بیماری کے دوران خود آپؓ کو ملنے والی ایک آسمانی خبر کی روئیداد پیش خدمت ہے۔ آپؓ فرماتے ہیں :
’’9 جنوری 1958ء کا واقعہ ہے کہ میں انفلوئنزا میں مبتلا تھا کہ کچھ گھبراہٹ کے کلمات میرے منہ سے نکل گئے۔ گو میں خدا تعالیٰ کے پاس جانے کے لئے تیار تھا، اتنے میں اونگھ آگئی۔ اس غنودگی کی حالت میں مجھے اللہ تعالیٰ کے دیدار کا شرف حاصل ہوتا ہے اور وہ اس طرح کہ جیسے پہاڑ میں سرنگیں ہوتی ہیں، مجھے اس قسم کی ایک سرنگ نظر آتی ہے۔ میں اس سرنگ کے باہر کے سرے پر ہوں اور اس کے اندر اللہ تعالیٰ جل شانہ سفید شاہانہ لباس میں ملبوس ایک نورانی ممبر پر جلوہ افروز ہیں اور میرے گھبراہٹ کے کلمات سن کر فرماتے ہیں :
’’نہ گھبرا، میں رب تیرا غفور رحیم ہوں ‘‘
یہ سن کر میری آنکھ کھل جاتی ہے۔ میں دیکھتا ہوں کہ میری گھبراہٹ دور ہو گئی ہے اور طبیعت میں بشاشت پیدا ہو گئی ہے’’۔
(حیات بقاپوری حصہ پنجم)
ایک اور بیماری کے وقت آپؓ کو ملنے والی آسمانی خوشخبری
قرآن کریم کی سورت حٰم السجدہ، آیت 31میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
اِنَّ الَّذِیۡنَ قَالُوۡا رَبُّنَا اللّٰہُ ثُمَّ اسۡتَقَامُوۡا تَتَنَزَّلُ عَلَیۡہِمُ الۡمَلٰٓئِکَۃُ اَلَّا تَخَافُوۡا وَ لَا تَحۡزَنُوۡا وَ اَبۡشِرُوۡا بِالۡجَنَّۃِ الَّتِیۡ کُنۡتُمۡ تُوۡعَدُوۡنَ
یعنی وہ لوگ جنہوں نے کہا کہ اللہ ہمارا ربّ ہے پھر مستقل مزاجی سے اس عقیدہ پر قائم ہو گئے، ان پر فرشتے اتریں گے یہ کہتے ہوئے کہ ڈرو نہیں اور کسی پچھلی غلطی کا غم نہ کرو اور اس جنت کے ملنے سے خوش ہو جاؤجس کا تم سے وعدہ کیا گیا تھا۔
آپؓ نے اپنی ایک شدید بیماری کے دوران اسی طرح کا فرشتوں کے ذریعہ خوشخبری پانے کا ایک واقعہ بیان کیا ہے، آپؓ فرماتے ہیں :
’’ایک بار 1911ء میں مَیں چک نمبر99 شمالی سرگودھا میں تھا کہ وہاں سخت طاعون پھوٹ پڑی، خود مجھے بھی طاعون ہوگئی، جس سے میں دو دن تک بے ہوش پڑا رہا۔ جب میرے طاعون سے بیمار ہو نے کی خبر وہاں کے غیر احمدی لوگوں کو ہوئی تو وہ اپنی مسجدوں میں میری موت کی دعائیں کرنے لگے، اس سے جماعت کے ممبران کو بہت صدمہ ہوا۔ ‘‘
آپؓ فرماتے ہیں :
’’دوستوں کا بیان ہے کہ جب ہم آپؓ کی عیادت کو آتے اور آپؓ کا حال دریافت کرتے تو آپؓ بے ہوشی میں ہی کہہ دیتے
’’اللہ کا فضل ہے، اچھا ہوں ‘‘
آپؓ دو دن تک بے ہوش رہے، تیسرے دن جب ہوش آنے لگی تو فرماتے ہیں کہ اس سے ذرا پہلے میں نے درج ذیل خواب دیکھا:
’’دیکھتا ہوں کہ میری موت کا وقت آگیا ہے اور ملک الموت آتا دکھائی دیامگر میری حالت یہ تھی کہ میں مرنے پر راضی نہیں تھا۔ تب میرے دل میں خیال پیدا ہوا کہ یہ میرے ایما ن کی کمزوری ہے کیونکہ حدیث شریف میں آیا ہے کہ جب مومن روح قبض کرنے والے فرشتوں کو دیکھتا ہے تو وہ مرنے پر راضی ہو جاتا ہے۔ جونہی میرے دل میں یہ خیال آیا تو میں نے دیکھا کہ باہر ایک فرشتہ متمثل ہو کر میرے سامنے آیا ہے۔ وہ آتے ہی بتاتا ہے کہ میرا نام کرم الٰہی ہے، پھر وہ میرا دایاں ہاتھ پکڑ کر کہتا ہے کہ آؤ میں تمہیں وہ زمین دکھلاؤں جہاں پہنچ کر مومن مرنے کے لئے راضی ہوتا ہے، پھر وہ چل پڑا اور میں بھی اس کے پیچھے پیچھے چلنے لگا۔ ‘‘
آگے فرماتے ہیں کہ
’’پہلے سخت اندھیرا تھا، پھر روشنی نمودار ہو گئی، پھر جوں جوں آگے بڑھتے گئے، وہ روشنی تیز ہوتی گئی، یہاں تک کہ ایسی تیز ہو گئی جیسا آئینہ پر سورج کی تیز شعائیں پڑتی ہیں۔ …فرشتے نے میرا ہاتھ چھوڑ دیا اور کہا کہ یہ وہ مقام ہے جہاں پہنچنے پر مومن مرنے کے لئے راضی ہو جاتا ہے۔ اس وقت میں نے اپنے دل کی طرف دیکھا تو اسے میں نے موت کے لئے راضی پایا اور میں نے چاہا کہ اسی وقت میری وفات ہو جائے تو بہتر ہے کیونکہ طاعون کی موت مومن کے لئے شہادت ہوتی ہے۔ میں اس حالت میں موت کی انتظار میں تھا کہ وہی فرشتہ میراہا تھ پکڑ کر مجھے اندھیرے میں لے آیا، تب میں ہوش میں آگیا۔ میں نے ہوش میں آتے ہی اپنے پاس والوں کو خوشخبری دی کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے اس بیماری سے بچا لیا ہے۔ چنانچہ اس کے بعد میں تندرست ہو گیا۔ فالحمد للہ علی ذٰلک۔ ‘‘
(حیات بقاپوری، حصہ پنجم)
حضرت مولوی سید سرور شاہ صاحبؓ
حضرت مولوی سید سرور شاہ صاحبؓ، موضع گھنڈی ضلع مظفر آباد، میں 1855ءمیں پیدا ہوئے۔ آپؓ کے والد صاحب، سید محمد حسن شاہ صاحب، حضرت عبدالقادر جیلانیؒ کی اولاد میں سے تھے۔ آپؓ لاہور، پشاور، سہارنپور اور دیوبند وغیرہ میں تحصیل علوم عربیہ و دینیہ کے بعد ایک زبردست عالم کے طور پر مشہور ہوئے۔ آپؓ ایک متبحر عالم اور صاحب رؤیا و کشوف بزرگ تھے۔ آپؓ کا تبحر علمی اس قدر بلند تھاکہ ہم عصر علماء( آپؓ کے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیعت سے پہلے سے) آپؓ کے سامنے آنے سے کتراتے تھے۔ ذیل کے چند واقعات میں ان کاتعلق باللہ ظاہر و باہر ہے:
تحصیل علوم دینیہ کے دوران ملنے والی آسمانی خبر
آپؓ تعلیمی دور میں سے گذر رہے تھے اور دیوبند میں اپنا آخری امتحان دینے والے تھے کہ آپؓ کو اپنے اس امتحان میں کامیابی کی آسمانی بشارت ملی، آپؓ فرماتے ہیں :
’’امتحان کی پہلی رات میں نے خواب میں دیکھا کہ میں ایک باغ میں گیا ہوں۔ اس کے کنارے پر ایک سادہ سی قبر ہے، اس قبر میں ایک چھوٹا سا سوراخ ہے، میں سمجھتا ہوں کہ یہ قبر مولوی محمد قاسم نانوتویؒ، بانی مدرسہ دیوبند، کی ہے۔ جونہی میں قبر کے پاس جا کر کھڑا ہوتا ہوں، مولانا موصوف اس سوراخ میں سے برآمد ہوتے ہیں …..انہوں نے کوئی بات نہیں کی اور قبر سے نکلتے ہی شہر دیوبند کی طرف چل پڑتے ہیں، آگے ایک عالی شا ن محل میں داخل ہوتے ہیں، جس کے اندر چھوٹی چھوٹی میزیں قطاروں میں پڑی ہیں۔ ہرمیز کے اوپر قلم دوات اور کاغذوں کا ایک دستہ پڑا ہے۔ پاس ایک کرسی رکھی ہے، آپ درمیانی قطار کے عین وسط میں پڑی ایک میز پر پہنچ کر اور میری طرف دیکھ کر فرماتے ہیں : ’’کیا یہ تمہاری میز ہے؟‘‘ میرے ہاں کہنے پر آپ نے قلم لے کردوات میں سے سیاہی لی اور کاغذوں کے دستہ کے ورق پر ’’پاس‘‘ لکھ کر واپس چلے گئے۔ ‘‘
اس قدر نظارہ دیکھنے کے بعد آپؓ بیدار ہوگئے، صبح امتحان شروع ہونا تھا۔ فرماتے ہیں کہ وہاں کا دستور تھا کہ بخاری شریف کے امتحان میں جو اول آئے، اسے اول قرار دیاجاتا تھا۔ پہلے ہی دن بخاری شریف کا پرچہ تھا۔ آپؓ نے جب پرچہ سوالات پڑھا تو پڑھتے ہی آپؓ کو گہری نیند آگئی اور پرچہ آپؓ کے ہاتھ سے گر پڑا۔ آپؓ نے اپنے نگران سے کہا کہ اگر اجازت دیں تو میں یہیں پندرہ منٹ تک سو لوں، اس نے اجازت دے دی۔ جب آپؓ سو کر اٹھے اور پرچہ دوبارہ پڑھا تو آپؓ کو وہ بالکل آسان معلوم ہوا۔ چنانچہ آپؓ اعلیٰ نمبروں پر کامیاب ہو گئے۔ ‘‘
(اصحاب احمد جلد پنجم، حصہ اول صفحہ34تا35)
اپنے ہم عصر علماء پر علمی فضیلت کی آسمانی بشارت
آپؓ کے زمانہ طالب علمی کے بعد کا واقعہ ہے کہ آپؓ جب ایک بار ہری پور، ضلع ہزارہ میں پھوپھی زاد بھائی کے علاج کے سلسلہ میں مقیم تھے، آپؓ کو خواب میں ایک عجیب و غریب نظارہ دکھائی دیا، کہ آپؓ اپنی جائے رہائش سے جامع مسجد کی طرف تشریف لا رہے ہیں کہ دیکھتے ہیں کہ پاگل کتوں کے کاٹنے (کے ڈر) سے جانور، پرندے وغیرہ بے تحاشا بھاگتے جا رہے ہیں، لیکن جب یہی کتے آپؓ کو دیکھتے ہیں تو آپؓ سے ڈر کربھاگ اٹھتے ہیں اور آپؓ بغیر کسی گزند کے مسجد میں پہنچ جاتے ہیں۔
یہ بشارت پر مشتمل منظر چند دنوں کے اندر اندر کسی طرح حقیقت بن کر آپؓ کے سامنے آ گیا، آپؓ فرماتے ہیں :
’’ا بھی میں ہر ی پور میں ہی مقیم تھا کہ مجھے معلوم ہوا کہ کوٹ نجیب اللہ کے ایک مولوی، منہا ج الدین، جو اپنے آپ کو ’’ رئیس المناظر‘‘ کہتے تھے، میرے ساتھ مباحثہ کے لئے آئے ہیں (اس وقت تک آپؓ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیعت نہیں کی تھی لیکن لوگ ان کو احمدی ہی کہتے تھے) اور اگلے روز دس بجے ان کا آپؓ سے مباحثہ ہوگا۔ ‘‘
آپؓ فرماتے ہیں :
’’میں وقت مقررہ پر مقام مباحثہ پر پہنچ گیا مگر باوجود کافی انتظار کے وہاں کوئی شخص مباحثہ کے لئے نہ آیا۔ میں ہری پور بازار کی طرف چل دیا، ابھی میں بازار کے وسط میں ہی پہنچا تھا کہ میں نے دیکھاکہ مولوی منہاج الدین اور ان کے ساتھی سامنے سے آ رہے ہیں، لیکن عجیب بات یہ ہوئی کہ….. وہ اور ان کے ساتھی مجھے دیکھتے ہی واپس مڑے اور بھاگنا شروع کر دیا، میں بھی ان کے پیچھے دوڑ پڑا۔ میرا خیال تھا وہ جامع مسجد پہنچے ہوں گے لیکن وہاں جا کر پتہ چلا کہ وہ ادھر نہیں آئے۔ میں دوسری طرف گیا تو دیکھاکہ وہ مولوی اور اس کے ساتھی ایک کیچڑ والے نالے سے گذر کر دوسری جانب ایک باغ کی طرف جا رہے ہیں۔ ‘‘
آپؓ حیران ہوئے کہ ان لوگوں کو کیا ہو گیا ہے، انہوں نے خود ہی تو مناظرہ کا چیلنج دیا تھا اور اب مجھے دیکھتے ہی بھاگ کھڑے ہوئے ہیں۔ آپؓ نے قریب ہی ایک پہلوان کو دیکھا کہ وہ کھڑا اتنے زور سے ہنس رہا تھا کہ اس کی آنکھوں میں سے آنسو نکلنے لگ گئے۔ آپؓ فرماتے ہیں :
’’میں نے اس پہلوان سے اس کے یوں ہنسنے کا سبب پوچھا تواس نے کہا کہ مولوی منہاج الدین کل فلاں مولوی کے پاس سکندر پور گیا تھا۔ اس نے جب اسے بتایا کہ وہ آپؓ سے مباحثہ کرنا چاہتا ہے تو اس نے کہا کہ مولوی سرور شاہ صاحب تو سارے ضلع کو آگے لگانے والے ہیں، ان سے مباحثہ کا نتیجہ بجائے فائدہ کے نقصان کا موجب ہوگا اور آپ لوگوں کی مٹی پلید ہوگی۔ یہی وجہ ہے کہ آج مولوی آپؓ سے مباحثہ کے لئے نہیں آئے اور آپ کو دیکھتے ہی بھاگ نکلے ہیں۔ ‘‘
(اصحاب احمد جلد پنجم صفحہ 54۔ 55)
قادیان آنے سے قبل قادیان کا منظر دیکھا
اب آپؓ کی اس وقت کی خواب کا ذکر کیا جاتا ہے، جب آپؓ ابھی ایبٹ آباد میں زیر تعلیم تھے اور احمدیت کا مطالعہ کر رہے تھے۔ قادیان آپؓ نے اس وقت تک نہیں دیکھا تھا۔ اس واقعہ سے بھی آپؓ کا تعلق باللہ دیکھا جا سکتا ہے کہ کس طرح اللہ تعالیٰ نے آپؓ کو قادیان کا نظارہ کروا دیا۔ آپؓ نے خواب میں دیکھاکہ آپؓ قادیان میں آئے ہیں اور مسجد مبارک والا چوک، مسجد مبارک اور دارالمسیح کا وہ حصہ جو مسجد سے ملحق ہےدیکھااور مسجد سے دارالمسیح میں جس دروازہ سے داخل ہوتے ہیں، اس میں ایک نالی دیکھی جسے خسی نالی کہتے ہیں۔ یہ نالی دیوار کے اندر جاتی اور وہاں سے گذر کر نیچے ایک اور نالی میں گرتی ہوئی نظر آئی۔ پھر مرزا گل محمدصاحب والے مکان کے صحن میں ایک چارپائی پر ایک سرخ داڑھی والا شخص ننگے سر بیٹھا دیکھا۔ چارپائی کے پائے کے ساتھ ایک کتا بندھا تھا اور بسراواں کے قریب ایک چھوٹا سامنارہ اور ریلوے سٹیشن قادیان دیکھا۔
یہ عجیب بات ہے کہ قادیان کے بارہ میں آپؓ کی یہ خواب اس وقت حرف بحرف پوری ہوئی جب آپؓ پہلی بار قادیان آئے، قادیان میں اس وقت تک ریل نہیں آئی تھی اور نہ ہی وہاں کوئی ریلوے سٹیشن تھا، لیکن بعد میں اسی بتائی ہوئی جگہ پر ریلوے سٹیشن بنایا گیا۔ (اصحاب احمدجلد پنجم)
حضرت مولوی قدرت اللہ سنوری صاحبؓ
حضرت مولوی قدرت اللہ صاحب سنوریؓ 1882ءمیں پیدا ہوئے۔ آپؓ نے اندازاً 1889ء میںحضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ہاتھ پر بیعت کی۔ حضرت بانی سلسلہؑ کے قدیمی دوست اور صحابی حضرت مولوی عبداللہ سنوری صاحبؓ آپؓ کے سگے چچا تھے۔ حضرت اقدسؑ اپنے دعویٰ سے قبل جب پہلی بار سنور (ریاست پٹیالیہ)تشریف لے گئے تو اس وقت آپؓ کی عمر دو سال تھی۔ آپؓ کے چچا بیان کرتے ہیں کہ
’’میں نے تمہیں اپنی گود میں اٹھایا ہوا تھا، جب حضورؑ کی بگھی وہاں پہنچی اور دوستوں سے مصافحہ کرنے کے لئے ہاتھ باہر نکالا تو تم نے یہ سمجھا کہ مجھے لینے کے لئے ہاتھ پھیلائے ہیں، تم حضورؑ کی طرف جھکے، جس پر حضورؑ نے یہ فرماتے ہوئے کہ ’’آؤ میاں ! پہلے تم سے ہی مصافحہ کر لیں ‘‘ تم سے مصافحہ کیا۔ ‘‘
آپ صاحبِ رؤیاو کشوف بزرگ تھے۔ اس جگہ ان کے واقعات میں سے نمونۃ ًبعض کا ذکر کیا جاتا ہے۔
اپنے خسر کے روحانی مقام کے بارےملنے والا ایک آسمانی اشارہ
آپؓ کی پہلی بیوی کے فوت ہو جانے پر آپؓ کی شادی آپؓ کے چچا، حضرت مولوی عبداللہ سنوری صاحبؓ کی تجویز پر بانی سلسلہ علیہ السلام کے ایک مخلص صحابی، مکرم چودھری کریم بخش صاحبؓ، کی بیٹی مسماۃ رحیمن صاحبہ سے ہوئی۔ چونکہ وہ اپنے ماں باپ کی اکلوتی بیٹی تھیں، ان کی والدہ اور خود آپؓ کی بیوی کی بھی خواہش تھی کہ وہ جلدی جلدی اپنے والدین سے ملتی رہا کریں۔ آپؓ فرماتے ہیں :
’’میں کبھی ہفتہ، کبھی دو ہفتہ بعد انہیں وہاں لے جاتا۔ بار بار جانے کی تکلیف کی وجہ سے میرے دل میں یہ خیال پیدا ہوا کہ مکرم عبداللہ صاحبؓ مرحوم نے کہاں گاؤں میں میرا رشتہ کر دیا ہے۔ کسی شہر میں ہوتا تو بہتر ہوتا اور اس طرح روز روز کی تکلیف سے بچ جاتا۔ ‘‘
جب آپؓ کو بار بار آنے سے تکلیف ہونے لگی تو اللہ تعالیٰ نے آپؓ کو ایک ایسا نظارہ دکھایا جس کے دیکھنے کے بعد آپؓ کی ساری دلی کوفت دور ہوگئی، فرماتے ہیں :
’’میں نے خواب میں دیکھا کہ میں قادیان گیا ہوں، یکوں والے اڈے پر اترا ہی ہوں کہ وہاں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو موجود پایا۔ میں نے سلام عرض کر کے مصافحہ کے لئے ہاتھ آگے بڑھائے تو حضور علیہ السلام نے معانقہ کے لئے ہاتھ بڑھا کر مجھے چھاتی سے لگا لیا اور اپنے دونوں ہاتھ میری پشت پر باندھ دیئے۔ ادھر میں نے بھی اسی طرح کیا، یعنی اپنے دونوں ہاتھوں کوحضور علیہ السلام کی پشت پر باندھ لیا۔ جب ہاتھ چھوڑے تو میں نے دیکھا کہ حضور علیہ السلام کی بجائے میرے خسر، چوہدری کریم بخش صاحبؓ کھڑے ہیں۔ ‘‘
آپؓ فرماتے ہیں :
’’جب میں خواب سے بیدار ہوا تو وہ جو میرے دل میں اپنے سسرال کے بارہ میں کوفت کا خیال پیدا ہوا تھا، وہ سارے کا سارا رفع ہو چکا تھا اور میں اس نتیجہ پر پہنچا کہ جس بزرگ شخصیت کے ساتھ میں رشتہ صہریت میں منسلک ہوا ہوں، وہ کتنی روحانی قدرو منزلت کے مالک، بلکہ خود فرستادہ خدا کے رنگ میں رنگین ہیں۔‘‘
( سیرت احمد، مصنفہ مولوی قدرت اللہ سنوری، صفحہ236 و تجلی قدرت، ایڈیشن دوم، مصنفہ حضرت مولوی قدرت اللہ سنوری، صفحہ 20)
بیوی سے حسن سلوک کے بارے ملنے والی تنبیہ
میاں بیوی کے درمیان تلخیاں ہو جایا کرتی ہیں، آپؓ بھی ایک دو بار اپنی بیوی سے ناراض ہوئے۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے آپؓ کی ایسی تادیب فرمائی کہ اس کے بعد آپؓ کا گھر جنت نظیر بن گیا، آپؓ فرماتے ہیں :
’’میری دوسری شادی کے بعد ایک سال بھی نہ گذرا ہوگاکہ کسی معاملہ کے متعلق میں اپنی بیوی سے ناراض ہوا اور دو تین دن تک ہماری بحث ہوتی رہی۔ تیسرے دن مجھے خواب میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زیارت ہوئی۔ حضور علیہ السلام نے مجھے فرمایا: ’’دیکھو میاں ! اپنی بیوی سے سختی سےپیش نہ آیا کرو، یہ ہماری بیٹی ہے۔ ‘‘
( سیرت احمد، مصنفہ مولوی قدرت اللہ سنوری، صفحہ236 و تجلی قدرت، ایڈیشن دوم، مصنفہ حضرت مولوی قدرت اللہ سنوری، صفحہ 20)
یہ دوسرا نظارہ تھا جو آپؓ نے اپنی عائلی زندگی کے بارے دیکھا اور جس نے آپؓ کے گھر کی کایا پلٹ کر رکھ دی۔ آپؓ فرماتے ہیں :
’’اس وقت سے آج تک میں ان کا بہت احترام کرتا ہوں۔ کبھی اگر بھول کر ان سے ناراض ہو بھی جاؤں تو اس خواب کے یاد آتے ہی فوراً استغفار کرتا ہوں۔ ‘‘مگر لطیفہ یہ ہواکہ مولوی صاحبؓ فرماتے ہیں :
’’ہمارے رشتہ داروں میں عام طور پر یہ مشہور ہو گیا کہ مولوی صاحب اپنی بیوی سے ڈرتے ہیں، حتیٰ کہ حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ نے بھی کئی بار لوگوں سے فرمایاکہ یہ اپنی بیوی سے خوب ڈرتے ہیں۔ ‘‘
( سیرت احمد، مصنفہ مولوی قدرت اللہ سنوری، صفحہ236 و تجلی قدرت، ایڈیشن دوم، مصنفہ حضرت مولوی قدرت اللہ سنوری، صفحہ 20)
اپنے بیٹے کے بارے ملنے والی ایک انذاری خبر
1953ء میں جب آپؓ سندھ میں ناصر آباد سٹیٹ کی زمینوں پر بطور مینیجر کام کر رہے تھے کہ آپؓ کو اپنے سب سے بڑے صاحبزادے، مکرم مسعود احمد خورشید صاحب مرحوم جو لاہور میں کاروبار کرتے تھے، کے بارے ایک ایسی انذاری خبر ملی، جوکچھ عرصہ بعد ظہور پذیر ہونے والی تھی,آپؓ فرماتے ہیں :
’’میں نے خواب میں دیکھاکہ وہ نہایت پریشان ہے اور کہتا ہے: ’’ابا جان!آج ہم مہاجر بن گئے ہیں۔ ‘‘ اس وقت ان کی دکان اکبری منڈی (لاہور)میں تھی اور ان کے بیوی بچے آسٹریلیشیا بلڈنگ کے ایک حصہ میں رہتے تھے۔ دکان کا دو لاکھ کا قرضہ بازار کے ذمہ تھا۔ علاوہ ازیں، گودام جو مکان کے ساتھ تھا، میں ا ن کا ستر ہزار روپے کا مال پڑا تھا، اس نے کہا: ’’آج ہمارے پاس کچھ بھی نہیں رہا اور آج ہم مہاجر ہو گئے ہیں ‘‘۔ فرماتے ہیں :
’’اس خواب سے مجھے پریشانی ہو گئی، میں نے صدقہ تو دے دیا اور دعا بھی کرنے لگا اور ساتھ مسعود کو لکھاکہ تمہارے گھر میں کوئی بچہ پیدا ہونے کی امید تو نہیں ہے؟ مطلب یہ تھا کہ اگر پیدا ہونے والی لڑکی ہو تو چونکہ وہ جہیز میں کچھ لے جاتی ہے، اس لئے سمجھا جائے گاکہ خواب پوری ہوگئی ہے، مگر مسعود نے جواب دیا کہ گھر میں ایسی کوئی امیدواری نہیں ہے۔ ‘‘
آپؓ فرماتے ہیں :
’’جب فسادات شروع ہو گئے تو میں نے ان کو سندھ بلانا چاہا۔ انہوں نے جواب دیا کہ راستے خراب ہو گئے ہیں، اس لئے میں نہیں آ سکتا۔ اب مسعود احمد نے آسٹریلیشیا بلڈنگ کے مالک، خواجہ امیر بخش صاحب، جو اسی مکان میں رہتے تھے، کی بیوی کے پاس اپنی اہلیہ کو بھیجا کہ وہ خواجہ صاحب سے کہے کہ وہ مہربانی فرما کر انہیں اپنی موٹر میں بٹھا کر پولیس لائن میں پہنچا دیں، ہم اپنا ستر ہزار کا سارا مال، جو ان کے مکان میں پڑا ہے، ان کے سپر د کرتے ہیں کیونکہ ہماری وجہ سے انہیں بھی خطرہ ہے اور وہ کئی دفعہ کہہ بھی چکے ہیں کہ ہمارا مکان خالی کر دیں۔ ‘‘
جب خواجہ صاحب کی بیوی نے اپنے میاں سے یہ بات کی تو ان کا جواب یہ تھا کہ آپ لوگوں کے قتل کی تو ایک تاریخ مقرر کر دی گئی ہے، میں اپنی بیس ہزار روپے کی موٹر کیو ں تڑوالوں ؟۔ اس سے ان دنوں کے حالات کی سنگینی کا پتہ چلتا ہے۔ اس پر ایک اور رات گذری تھی کہ فرماتے ہیں :
’’صبح کو قریشی محمد اقبال صاحب(ایک احمدی پولیس افسر) پولیس لائن سے موٹر لے کر وہاں پہنچ گئے۔ ان کی موٹر کے آگے پیچھے مشین گنوں سے آراستہ دو موٹریں اور تھیں۔ انہوں نے آکر مسعود سے کہا کہ فوراً جلدی جلدی چلے آؤ، مکان اسی طرح رہنے دو۔ چنانچہ انہوں نے سامان، زیور وغیرہ کچھ نہ لیا اور صرف چار جوڑے کپڑوں کے لے کر اور اپنا مکان اور گودام مقفل کر کے ان کے ساتھ پولیس لائن میں چلے گئے اور وہاں پہنچ کر مجھے لکھا کہ آج ہم پناہ گزیں ہو گئے ہیں۔ ‘‘
یہ بعینہٖ وہی الفاظ تھے جو آپؓ کو ان کے بارے خواب میں بتائے گئے تھے۔ گویا وہ آسمانی خبر جو خدائے ذوالعرش نے آپؓ کو کچھ عرصہ قبل دی تھی، لفظاً لفظاً پوری ہو کر اس کی عالم الغیب ہستی کی گواہ بن گئی۔
آگے اللہ تعالیٰ نے اس احمدی گھرانے اورپاکستان میں رہنے والے دیگرسب احمدیوں کی جانیں کیسے محفوظ رکھیں، اس بارے میں آپؓ فرماتے ہیں :
’’اللہ تعالیٰ کی حکمت کاملہ سے ان کو پولیس لائن میں گئے دو دن ہی ہوئے تھے کہ مارشل لاء کا نفاذ ہو گیا اور فوج نے سارے شہر پر قبضہ کر لیا۔ خطرہ کے دور ہوتے ہی مسعود احمد صاحب اپنے گھر چلے گئے، سارا سامان بدستور پڑا تھا، چار پانچ روز کے بعد بازار میں امن ہوگیا۔ ‘‘
(ماخوذ از’’برہان ہدایت‘‘ صفحہ 286تا288، و ’’تجلی قدرت‘‘ مصنفہ حضرت مولوی قدرت اللہ سنوری، صفحہ249، 250)
یہ چند واقعات نمونۃً لکھے گئے ہیں جن سے صحابہ حضرت مسیح موعود علیہ السلا م کا تعلق باللہ کا کچھ حد تک اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صحابہؓ کو اللہ تعالیٰ نے ایسا اعلیٰ ارفع مقام عطا فرمایا تھا جو آپ علیہ السلام کے منجانب اللہ ہونے کی بھی دلیل ہے۔ درحقیقت آپؑ نے اس زمانے میں اوّلین کو آخرین سے ملا دیا اور وہی نمونے اور وہی مثالیں پھر سے قائم فرما دیں جو رہتی دنیا تک ہمارے لیے روشن ستاروں کی طرح چمکتی رہیں گی۔
اللہ تعالیٰ ہم سب کو صحابہ کے نقش قدم پر چلنے والا بنائےاور ہم بھی تعلق باللہ کے میدانوں میں آگے سے آگے بڑھنے والے بنیں اور اس کے ذریعہ خدائی انعامات افضال اور برکات کے وارث بنیں۔ آمین۔