ایک واقعہ …ہائیکنگ اور ہم
یوں تو ایک واقف زندگی ساری زندگی ہی ہر طرح کے حالات سے مقابلہ کرنے کے لیے تیار رہتا ہے اور اللہ تعالیٰ اسے ہمت عطا فرماتا ہے۔ مصائب کے نتیجہ میں اُس کا اللہ تعالیٰ سے تعلق پہلے سےمضبوط ہوتا ہے اور دعا ؤں کے ذریعہ ہر مشکل گھڑی میں کامیاب ہوتا ہے۔ تاہم اس کی زندگی میں بعض ایسے واقعات پیش آتےہیں جن کو ساری زندگی نہیں بھولتا۔ کچھ اسی طرح کا ایک واقعہ میرے ساتھ بھی پیش آیا۔
اللہ کے فضل سے خاکسار کوجامعہ احمدیہ کےطالب علموں کے ساتھ ہرسال کسی نہ کسی گروپ کولے کرہائیکنگ پر جانے کا موقع ملتا رہا۔ 2006ء جون کی بات ہے، جامعہ احمدیہ ربوہ کی خامسہ کلاس کے کچھ طلباء کےساتھ خاکسار وادی نیلم جانے کا پروگرام بنایا۔ ہمارا مقصد ’پتلیاں‘ جھیل پر جانے کا بھی تھا۔ یہ ٹریک معمول کے دنوں میں کیے جانے والے ٹریکس سے کچھ مشکل تھا۔ راستہ میں برف، ندی نالےاور گلیشیئر بھی آتے ہیں۔ سفر کو مد نظر رکھتے ہوئے پوری تیاری کی گئی اور انتظامیہ کی اجازت سے دعا اور صدقہ کے ساتھ سفرشروع کیا گیا۔
ہمارا گروپ براستہ راولپنڈی، مظفر آباد سے اَٹھمقام پہنچ کرتھوڑی دیر رُکا۔ ضرورت کا سامان خریدا اور کرائے کی ایک جیپ پر درنڈہ پہنچا جہاں رات بسر کی۔
دوسرے دن صبح باقاعدہ ہائیکنگ کی تیاری کی اور اپنا اپنا سامان کندھے پر اُٹھایا اور چل پڑے۔ راستہ میں ندی نالے اور گلیشیر بھی آئے۔ ایک مقامی لڑکا بھی جس نے وہاں جانا تھا ساتھ چل پڑا۔ پتلیاں میدان میں پہنچ کر ہم نے اپنا سامان رکھا اور خالی ہاتھ جھیل پر جانے کا پروگرام بنایا۔ موسم کے اعتبارکے لحاظ سے صرف بارش سےبچنے کے لیے اپنے پونچو(پتلا برساتی کوٹ) اور اپنی اپنی سٹک(چھڑی) لی اور چل پڑے۔ خاکسار شروع ہی سےجب بھی ہائیکنگ پر کوئی گروپ لے کر جاتا تھا تو خود گائیڈ بنتا یعنی باقی طلباء کو اپنے پیچھے آنے کو کہہ کر آگے لگ کر چلتا تھا۔ انجان اور دشوار گزار راستہ ہمارا منتظر تھا۔ راستہ بڑا عجیب تھا۔ برف کے ساتھ پانی بھی جگہ جگہ آجاتا۔ ہم اپنی منزل کی طرف رواں دواں تھے۔ اگر کوئی طالب علم چڑھائی پرتھک جاتا تو سب کو آرام سے بیٹھ جانے کا کہا جاتا تاکہ سفر کوانجوائے کر سکیں۔ اس دوران سب کو day pack میں سے کچھ کھانے کو دیا جاتا تاکہ تازہ دم ہونے پر دوبارہ سفر شروع کر سکیں۔
اللہ کے فضل سے ہمارا پورا گروپ بخیر و عافیت پتلیاں جھیل پر پہنچ گیا۔ خوب سیر اور فوٹوگرافی کی۔ موسم جب خراب ہونا شروع ہوا تو ہم نےواپسی کاسفرشروع کیا۔ حسب ِعادت خاکسار گائیڈ کے طورپر آگے ہو گیا۔اترائی پر Zig zag بناتے ہوئے نیچے اتر رہے تھےکہ اچانک ایک طالب علم عزیزم نعیم احمدساجد تیزی سے میری سائیڈ سے گزرا۔ میں حیران ہوا اور چونکہ آگے خطرناک گہرائی تھی اس لیے اسے آواز دی کہ اِدھر ہی گر جاؤ۔ وہ اپنا توازن کھو چکا تھا اس لیے اپنے آپ پر قابو نہ رکھ سکا۔ اسے ٹھوکر لگی اور وہ پہاڑی سے نیچے لڑھک گیا۔ میں نے بلند آواز میں سب کو اُسی جگہ کھڑے ہونے کا بولا کہ کہیں ایسانہ ہو کہ اُس کو بچانے کی غرض سے یا جلدبازی میں کوئی اَور لڑکا اپنا توازن کھو کر گر جائے۔ جب سب کھڑے ہوگئے تو میں اور ایک طالب علم اُس کے پاس گئے۔ اگرچہ وہ زخمی تھا لیکن اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ وہ پہاڑی سے نیچے کی طرف لڑھک کر رک گیا تھا۔ جب ہم اُس کے پاس پہنچے تو وہ خون میں لت پت تھا۔ میں نے جلدی میں ایک شرٹ پھاڑکر اُس کے سر پر باندھی۔ وہ بڑی ہمت والا تھا۔ ہوش میں بھی تھا اور درد بھی برداشت کر رہا تھا۔ ہم نے اسے پانی پلایا اور تسلی دی۔ مزیدنیچے اُترنے کے لیے وہاں کوئی راستہ نہ تھا اور نہ ہی ہمارے پاس کوئی ایسی چیز تھی جس پر اسے لٹا کر پہاڑی سے اتار سکیں۔ ہم سے ایک غلطی یہ بھی ہوئی کہ جب جھیل کی طرف چلنے لگےتو جلدی میں فرسٹ ایڈ باکس نیچے ہی رہ گیا۔ جس کی اُس وقت اشد ضرورت محسوس ہوئی۔ ایک طالب علم کومیڈیکل کٹ لینے نیچے بھیجاگیا۔ میں نے ایک طالب علم کی مدد سے عزیز کو اپنے کندھے پر اُٹھایا او رنیچے اترنے لگا۔ راستہ بڑا مشکل تھا اور خطرہ تھا کہ پاؤں نہ پھسل جائے۔ صرف ایک ہی آدمی بمشکل اتر سکتا تھا۔ ہم ابھی تھوڑا ہی نیچے اترے ہوں گے کہ پیچھے سے ایک لڑکے نے آواز دی:’’سر جی رک جائیں۔ خون زیادہ بہنا شروع ہو گیا ہے۔‘‘عزیزکاخون میرے اوپر گر رہا تھا۔ اُس کو کندھے سے نیچے اتارا اور دیکھاتوواقعی خون زیادہ بہنا شروع ہوگیا تھاکیونکہ سر نیچے کی طرف تھا اور کمر میرے کندھے پر تھی۔ چونکہ یہ سب نوجوان تھےاور اِس سے پہلے کسی نے ایسا واقعہ نہیں دیکھا تھا اس لیے کچھ تو پریشانی میں رونےلگے۔ اب ہم پہاڑی سے نیچے اتر چکے تھے لیکن آگے برف تھی۔ ہمیں ایک ترکیب سوجھی۔ ہم نے پونچو کو برف پر بچھایا اور اُس زخمی طالب علم کو اس کے اوپر لٹا دیا۔ پونچو کو چاروں کونوں سے دیگر طالب علموں نے پکڑ لیا۔ جب چلنے کی کوشش کرتے تو برف میں دھنس جاتے۔ بڑی مشکل سے تھوڑا سا نیچے اترے۔ کوئی ہماری مدد کرنے والا نظر نہ آتا تھا۔ میں نے طالب ِعلموں کو تھوڑا ساآرام کرنے کو کہا اور خود ایک پتھر کی اوٹ میں دونوافل پڑھنے لگا اور دل کھول کر اللہ کے سامنے رویا۔ اللہ کو پکارا۔ یا اللہ! اس مشکل گھڑی میں ہماری مد د فرما۔ اس زخمی طالب علم کے لیے غیب سے سامان مہیا فرما۔ تیرے سوا کون ہے جس کو میں پکاروں۔ تو ہی مدد کرنے والا ہے۔ یہ بچے بھی تو تیرے پیارے کی آواز پر لبیک کہہ کر اپنے آپ کو وقف کر کے آئے ہیں اور میرے پاس ایک امانت ہیں۔ ان کی ہرطرح سے مدد فرما۔ اس سمیع و بصیر خدا نے میری دعا سن لی ۔ تھوڑی ہی دیر گزری تھی کہ لوگ مختلف سمت سے ہماری مدد کو آنے لگے۔ پتہ نہیں کہاں کہاں سےیہ لوگ آتے گئےاور کافی لوگ اکٹھے ہو گئے۔ پہلے ایک نے آتے ہی زخمی طالب علم کے منہ میں چینی ڈال کر تھوڑا سا پانی پلایا تاکہ اس کا شوگرلیول کم نہ ہواور یہ ہوش میں رہے۔ پھر اس نے ہمیں کہا آپ اس زخمی بچے کی فکر نہ کریں۔ یہ اب ہماری ذمہ داری ہے۔ آپ پردیسی لوگ ہیں۔ ہم آپ کی ہر طرح سے مدد کریں گے۔ ہم اُن کے اس رویے پر بہت حیران تھے۔ اور دل میں اللہ کا بار با ر شکر بھی ادا کر رہے تھے۔
وہ زخمی طالبِ علم کو اٹھا کر میدان میں لے آئے۔ خیمے میں لاکر رکھا۔ ہم نے اُس کے زخموں پر مرہم پٹی کی اور اُس کے خون آلود کپڑے تبدیل کیے۔
دوسرا اور اہم مرحلہ اسے کسی طریقہ سے ہسپتال پہنچانے کا تھا۔ نہ چارپائی تھی اور نہ کوئی اَور چیز تھی جس پر رکھ کر اُوپر کندھوں پر اٹھا لیں۔ ایک مقامی آدمی بڑا ذہین تھا۔ اُس کی نظر ہماری ہائیکنگ سٹک پر پڑی۔ اس نے دونوں سٹکس کو ایک رسی کی مدد سے جوڑنا شروع کیا۔ یہ دیکھ کر ہمارے پاس جو رسیاں یا ٹراؤزرکے ازار بند وغیرہ تھے سب نکال لیے اور اُس کے حوالے کیے۔ اُس نے ہم سے میڑس لے کر اُس سٹک کے اوپر بچھایا اور ایمر جنسی سڑیچر تیار کر دیا۔ پھرعزیزم نعیم احمدساجد کوایک سلیپنگ بیگ میں ڈال کر صرف اس کا چہرہ باہر رکھ کر زِپ بند کر دی اور سٹریچر پر لٹا کر اسے مزید رسیوں اور پتلون کی بیلٹ کی مدد سے باندھ دیا تاکہ راستے میں کہیں سائیڈ سے عزیز نیچے نہ گر جائے۔ میں نےسب کو تسلی دے کر تین لڑکوں کو اپنےساتھ لیا۔ باقیوںکو آج رات وہاں ہی ٹھہرنے کو کہا تاکہ کچھ آرام کر لیں اورپھر واپسی کا سفر اختیار کریں۔
ہمیں زخمی عزیز کو اٹھا کر ایک دن کا فاصلہ پیدل طےکرکے جیپ ٹریک تک پہنچنا تھاجو بہت مشکل کام تھا۔ اُن مقامی لوگوں نے ہماری کافی مدد کی۔ اُن میں ایک آدمی فصیح الدین نامی ہمارے ساتھ تعاون میں پیش پیش تھاجو خود سترہ گریڈ سے ریٹائرڈتھا۔ برف اور گلیشیر اور نالےکو پارکرنے میں جہاں دشواری آتی وہا ں وہ اکیلا ہی دو آدمیوں کی جگہ سنبھال لیتا۔ اللہ تعالیٰ اسے جزائے خیر سے نوازے۔
ہم نے ایک طالب ِعلم کو جیپ روکنے کے لیے پہلے ہی آگےروانہ کر دیا تاکہ ہمیں واپسی کے لیے جیپ مل جائے۔
جیپ ٹریک پر پہنچنے پر جب ہم نے جیپ کھڑی دیکھی تو ہماری جان میں جان آئی۔ وہاں سے ہم درنڈہ پہنچے۔ پھر اس بارے میں مزید معلومات حاصل کیں کہ عزیزکو کہاں اور کس جگہ لے کر جانا چاہیے۔ میں نے مذکورہ بالا مقامی دوست کو الگ لے جا کر کچھ معاوضہ پیش کرنا چاہا تو اس نے صاف انکار کردیا۔ میں نے اسے کہا کہ میں اپنی خوشی سےآپ کو تحفہ دے رہا ہوں جس پر اُس نے یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ آپ پردیسی لوگ ہیں اور ہمارے علاقے میں مہمان آئے ہیں۔ آپ کا یہ تحفہ میں قبول نہیں کر سکتا۔
بہر کیف ہم نے دعا کے ساتھ اگلا سفر شروع کیا۔ ہماری منزل جھمبر ہسپتال تھی۔ جس کے متعلق مقامی لوگوں نے ہمیں گائیڈ کر دیا تھا۔ راستہ میں خاکسار زخمی طالب علم کی دل جوئی کرتا اور اسے تسلی دیتا رہا۔ رات کو بارہ بجے کے قریب ہم آرمی کے ایک ہسپتال پہنچ گئے۔ اس ہسپتال میں سول لوگوں کا بھی علاج کیا جاتا تھا۔ میں نے ان سے واقعہ بیان کیا اور اپنا تعارف کروایاکہ میں بھی آرمی کا ریٹائرڈ جے سی او ہوں۔ اُنہوں نے ہمارے ساتھ بہت تعاون کیا۔ کھانے سے ہماری تواضع بھی کی۔ عزیز نعیم ساجد کے زخم کی جگہ سے ڈاکٹر نے سرکے بال کاٹ کر ٹانکے اور مرہم پٹی وغیرہ کی ضروری کارروائی کی اور سر اور دوسرے زخمی حصوں کے ایکسرے لے کر ڈرپ لگا دی۔ میں حیران تھا دن کے بارہ بجے کے قریب یہ واقعہ پیش آیا ا اور رات کو تقریباً بارہ بجے ہم اُسے ہسپتال پہنچانے میں کامیاب ہوئے۔
رات کو ہمیں شدید تھکاوٹ کا احساس ہونے لگا۔ چنانچہ ہم نے عزیز کے ساتھ دو دو گھنٹہ ڈیوٹی دینے کا پروگرام بنایا تاکہ سب کچھ نہ کچھ آرام کر سکیں۔ خاکسار اور خاکسار کے ساتھ آنے والے دیگر تین طالب علموں نے اپنی باری پر اُس کی تیمارداری کی۔ اللہ کے فضل سے اس کی حالت میں پہلے سے بہت بہتری نظر آنے لگی۔
اُس وقت موبائل فون ساتھ نہ تھے اور جامعہ میں اس واقعہ کی اطلاع کرنی بھی ضروری تھی۔ چنانچہ معلوم ہوا کہ سامنے پہاڑی پر ایک وائرلیس اسٹیشن ہے جواس علاقے سے اطلاع دینے کا واحد ذریعہ ہے۔ میں پہاڑی چڑھ کر جب وائرلیس والوں کے پاس گیا تو پتہ چلا کہ یہ آرمی والے ہیں۔ میں اُن کے محکمے کا ہی تھا۔ تھوڑا تعارف کروانے کے بعد وہ مجھے ساتھ لے گئے اور بتایا کہ نو بجے ان شاءاللہ آپ کا رابطہ کرو ا دیں گے۔
نوبجے انہوں نے مجھ سے نمبر مانگا اور وائرلیس کے ذریعے نگران ہائیکنگ مکرم خواجہ ایاز احمدصاحب سے رابطہ کروا دیا۔ جب اُن کو اس حادثے کا پتہ چلا تو کہنے لگے کہ میں ابھی آجاتا ہوں۔ میں نے اُن کو تسلی دی اور ان سے امیر صاحب مظفرآباد کا نمبر مانگا۔ بعد ازاں اُن سے رابطہ کر کے صورتحال سے آگاہ کیا۔ امیر صاحب نے فون پرخاکسار کو تسلی دی اور کہا کہ آپ یہاں آجائیں باقی میں ہر طرح سے سنبھال لوں گا۔
جھمبر ہسپتال کے نگران مکرم کرنل تیمور صاحب سے ملاقات ہوئی تو آپ نے بتایا کہ ہم نے فرسٹ ایڈدے دی ہے اورخطرے کی کوئی بات نہیں۔ یہاں کوئی نیوروسرجن نہیں ہے اس لیے آپ عزیزکو لے کر مظفر آباد یا راولپنڈی چلے جائیں تاکہ اس کا مزید علاج ہو سکے۔ میں نے اُن سے مظفرآباد تک گاڑی کا انتظام کرنے کی گزارش کی جس پر ایک انہوں نے ایک پرائیویٹ پجارو گاڑی پر بشمول ایک نرسنگ میل اورفرسٹ ایڈ وغیرہ کا ضروری سامان جس میں ایمرجنسی آکسیجن سلنڈر بھی شامل تھا ہمیں مظفر آباد کے لیے روانہ کیا۔
میں نے اللہ کا شکرادا کیا اور باقی طالبِ علموں کو ساتھ لے کرمظفرآباد کا سفر شروع کیا۔ جب ہم شہر کے نزدیک پہنچے تو مکرم امیر صاحب سے فون پر رابطہ کیا۔ آپ نے تسلی دی۔ محترم امیر صاحب ایک ڈاکٹر صاحب کے ہمراہ GPOکے سامنے کھڑے ہمارا انتظار کر رہے تھے۔ میں نے ڈرائیور کو رکنے کا اشارہ کیا۔ فوجی ڈرائیور یہ دیکھ کر حیران ہوا کہ آپ کے اتنے تعلقات ہیں۔ آپ کے انتظار میں آفیسر اور ایک ڈاکٹر کھڑے ہیں۔
ڈاکٹرصاحب ہمارے ساتھ ہو لیے اور ہم نے عباسیہ ہسپتال لے جاکر زخمی عزیزم نعیم احمد ساجدکو داخل کروادیا۔ ایک طالب علم اظہر حمید نے ساتھ رہنے کی پیش کش کی۔ ڈاکٹر صاحب بولے آپ فکر نہ کریں میں یہاں ہوں۔
مکرم امیر صاحب نےہمیں ایک مقامی ریستوران میں لے جا کر کھانا کھلایا اور اپنے گھر لے گئے جہاں ہم نےآرام کیا۔
اگلی صبح جب نماز کے لیے اُٹھے تو پتہ چلا کہ باقی سب طلباء بھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے بخیریت وہاں پہنچ چکے ہیں۔
سب باجماعت نماز فجر اور ناشتہ کے بعد ہسپتال پہنچے تو وہاں یہ خوشخبری سننے کو ملی کہ عزیزم کی صحت اب اللہ کے فضل سے اور بھی بہتر ہے۔
دوسرے دن مکرم امیر صاحب کی وساطت سے ایدّھی والوں سے ایک ایمبولینس کرایہ پر مل گئی اور ہم اُس پر سوار ہو کر راولپنڈی پہنچ گئے۔
اس دوران ایک طالب علم عزیزم عطاء النور بھی ساتھ ساتھ رہے اور ضروری کاموں میں معاونت کرتے رہے۔ فجزاہ اللّٰہ تعالیٰ احسن الجزاء۔
راولپنڈی میں بھی ڈاکٹر صاحبان ہمارا انتظار کر رہے تھے۔ وہاں پہنچنے پر ایک ڈاکٹر صاحب نے عزیز کا تفصیلی چیک اپ کیا اوردوائیاں تجویز کیں۔
ہم طالب علم کی صحت سے متعلق جامعہ کو رپورٹ دیتے رہے۔ ہم نے راولپنڈی میں تقریباً پندرہ روز قیام کیا۔ وہاں سے روانگی سے قبل ڈاکٹر صاحب نے ہمیں اپنا فون نمبر دیاکہ اگر کوئی مسئلہ پیش آئے تو اُسی وقت رابطہ کر لیں۔
بعدازاں فضل عمر ہسپتال ربوہ کی ایمبولینس کے ذریعے ہم ربوہ منتقل ہو گئے۔ یہاں بھی مختلف ڈاکٹرز اور سرجنز سے رابطہ رہا اوراللہ تعالیٰ کے فضل سےعزیز طالب علم کی حالت میں روز بروز بہتری آتی گئی۔ الحمد للّٰہ علیٰ ذٰلک۔
ایک دن خاکسار کوپیغام موصول ہوا کہ محترم پرنسپل صاحب خاکسار کو جامعہ بلا رہے ہیں۔ چنانچہ جب میں جامعہ حاضر ہواتو وہاں جامعہ کی کونسل کا اجلاس ہو رہا تھا۔ اس موقعے پر کونسل کے ممبران کو تمام واقعہ کی بریفنگ پیش کی۔
زخمی ہونے والے عزیز طالب علم نعیم احمد ساجد بعد میں اللہ کے فضل سے جامعہ احمدیہ سے کامیاب ہو کر فارغ التحصیل ہوئے اور آج آپ بطور ایک کامیاب مربی سلسلہ خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کو ہمیشہ اپنی حفظ و امان میں رکھے اور تمام واقفین زندگی کو مقبول خدمت دین بجا لانے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔
اس واقعہ کے ایک سال بعد ہمار ا ایک پروگرام رتی گلی ہائیکنگ پرجانے کا بنا۔ خاکسار نے نگران صاحب ہائیکنگ کی وساطت سےایک سپیشل شیلڈ تیار کروائی اور راستہ میں اترکر جناب کرنل تیمور صاحب کو اپنے ہائیکنگ کلب کی طرف سے بطور تحفہ پیش کی۔ شیلڈ وصول کرنے پر وہ بہت خوش ہوئے اور کہنے لگے کہ جب تک یہ تحفہ ہمارے میس میں رہے گا آپ ہمیں یاد رہیں گے۔
اللہ سے دعا ہے کہ وہ سب کو اپنی حفاظت میں رکھے اور ہمیں احسن رنگ میں خدمت دین بجا لانے کی توفیق عطا فرمائے اورہمیشہ اپنے فضلوں سے نوازے۔ آمین۔
٭…٭…٭