تمہیں خوشخبری ہو کہ اب تم ہمیشہ معروف فیصلوں کے نیچے ہو
حضرت مسیح موعودؑ کی بیعت کے بعد پیدا ہونے والی روحانی تبدیلیوں کے بعض ایمان افروز واقعات کابیان
………………………………………………
تمہیں خوشخبری ہو کہ اب تم ہمیشہ معروف فیصلوں کے نیچے ہو
یٰۤاَیُّہَا النَّبِیُّ اِذَا جَآءَکَ الۡمُؤۡمِنٰتُ یُبَایِعۡنَکَ عَلٰۤی اَنۡ لَّا یُشۡرِکۡنَ بِاللّٰہِ شَیۡئًا وَّ لَا یَسۡرِقۡنَ وَ لَا یَزۡنِیۡنَ وَ لَا یَقۡتُلۡنَ اَوۡلَادَہُنَّ وَ لَا یَاۡتِیۡنَ بِبُہۡتَانٍ یَّفۡتَرِیۡنَہٗ بَیۡنَ اَیۡدِیۡہِنَّ وَ اَرۡجُلِہِنَّ وَ لَا یَعۡصِیۡنَکَ فِیۡ مَعۡرُوۡفٍ فَبَایِعۡہُنَّ وَ اسۡتَغۡفِرۡ لَہُنَّ اللّٰہَ ؕ اِنَّ اللّٰہَ غَفُوۡرٌ رَّحِیۡمٌ(الممتحنۃ:13)
گذشتہ خطبہ میں شرائط بیعت کی دسویں اور آخری شرط کے بارہ میں بیان کیاتھا لیکن طاعت درمعروف کے بارہ میں مزید کچھ وضاحت کرنا چاہتاہوں۔
’’طاعت در معروف‘‘ کی پُرحکمت تفسیر و توضیح
یہ آیت جو مَیں نے تلاوت کی ہے اس میں عورتوں سے اس بات پر عہد بیعت لینے کی تاکید ہے کہ شرک نہیں کریں گی، چوری نہیں کریں گی، زنا نہیں کریں گی، اولاد کو قتل نہیں کریں گی، اولاد کی تربیت کا خیال رکھیں گی، جھوٹا الزام کسی پر نہیں لگائیں گی اور معروف امورمیں نافرمانی نہیں کریں گی۔ تو یہاں یہ سوال اٹھتاہے کہ کیا نبی جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے مامور ہوتاہے کیا وہ بھی ایسے احکامات دے سکتاہے جو غیر معروف ہوں۔ اور اگر نبی کر سکتاہے تو ظاہر ہے پھر خلفاء کے لئے بھی یہی ہوگا کہ وہ بھی ایسے احکامات دے سکتے ہیں جو غیر معروف ہوں۔ اس بارہ میں واضح ہو کہ نبی کبھی ایسے احکامات دے ہی نہیں سکتا۔ نبی جو کہے گا معروف ہی کہے گا۔ اس کے علاوہ سوال ہی نہیں کہ کچھ کہے۔ اس لئے قرآن شریف میں کئی مقامات پر یہ حکم ہے کہ اللہ اوررسول کے حکموں کی اطاعت کرنی ہے، انہیں بجا لاناہے۔ کہیں نہیں لکھاکہ جو معروف حکم ہوں اس کی اطاعت کرنی ہے۔ تو پھر یہ سوال پیدا ہوتاہے کہ دو مختلف حکم کیوں ہیں۔ یہ اصل میں دو مختلف حکم نہیں ہیں، سمجھنے میں غلطی ہے۔ جیساکہ مَیں نے پہلے بھی کہا کہ نبی کا جو بھی حکم ہوگا معروف ہی ہوگا۔ اور نبی کبھی اللہ تعالیٰ کے احکامات کے خلاف، شریعت کے احکامات کے خلاف کرہی نہیں سکتا۔ وہ تو اسی کام پر مامور کیاگیاہے۔ توجس کام کے لئے مامور کیاگیاہے، اس کے خلاف کیسے چل سکتاہے۔ یہ تمہارے لئے خوشخبری ہے کہ تم نے نبی کو مان کر، مامور کو مان کر، اس کی جماعت میں شامل ہو کر اپنے آپ کو محفوظ کر لیاہے، تم محفوظ ہو گئے ہو۔ کہ تمہارے لئے اب کو ئی غیر معروف حکم ہے ہی نہیں۔ جو بھی حکم ہے اللہ تعالیٰ کی نظر میں پسندیدہ ہے۔
حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل رضی اللہ عنہ اس کی تشریح کرتے ہوئے فرماتے ہیں : ’’ایک اور غلطی ہے وہ طاعت در معروف کے سمجھنے میں ہے کہ جن کاموں کو ہم معروف نہیں سمجھتے اس میں طاعت نہ کریں گے۔ یہ لفظ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے لئے بھی آیا ہے
وَلاَ یَعْصِیْنَکَ فِیْ مَعْرُوْفٍ (الممتحنۃ:13)
اب کیا ایسے لوگوں نے حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے عیوب کی بھی کوئی فہرست بنا لی ہے۔ اسی طرح حضرت صاحب نے بھی شرائط بیعت میں طاعت در معروف لکھا ہے۔ اس میں ایک سرّ ہے۔ میں تم میں سے کسی پر ہرگز بدظن نہیں۔ میں نے اس لئے ان باتوں کو کھولا تا تم میں سے کسی کو اندر ہی اندر دھوکہ نہ لگ جائے‘‘۔
(خطبہ عید الفطر، فرمودہ 15؍اکتوبر 1909ء۔ خطبات نور، صفحہ420-421)
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام
یَاْمُرُھُمْ بِالْمَعْرُوْفِ
کی تفسیر کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں : ’’یہ نبی ان باتوں کے لئے حکم دیتا ہے جو خلاف عقل نہیں ہیں اور ان باتوں سے منع کرتا ہے جن سے عقل بھی منع کرتی ہے۔ اور پاک چیزوں کو حلال کرتا ہے اور ناپاک کو حرام ٹھہراتا ہے۔ اور قوموں کے سر پر سے وہ بوجھ اتارتا ہے جس کے نیچے وہ دبی ہوئی تھیں۔ اور ان گردنوں کے طوقوں سے وہ رہائی بخشتا ہے جن کی وجہ سے گردنیں سیدھی نہیں ہو سکتی تھیں۔ پس جو لوگ اس پر ایمان لائیں گے اور اپنی شمولیت کے ساتھ اس کو قوت دیں گے اور اس کی مدد کریں گے اور اس نور کی پیروی کریں گے جو اس کے ساتھ اتارا گیا وہ دنیا اور آخرت کی مشکلات سے نجات پائیں گے۔ ‘‘
(براہین احمدیہ۔ حصہ پنجم۔ روحانی خزائن۔ جلد 21۔ صفحہ420)
تو جب نبی اللہ تعالیٰ کے احکامات کی پیروی کرتاہے، وہی احکامات دیتاہے جن کو عقل تسلیم کرتی ہے۔ بری باتوں سے روکتا ہے، نیک باتوں کا حکم دیتاہے اور ان سے پرے ہٹ ہی نہیں سکتا۔ تو خلیفہ بھی، جو نبی کے بعد اس کے مشن کو چلانے کے لئے اللہ تعالیٰ کی طرف سے مومنین کی ایک جماعت کے ذریعہ مقرر کردہ ہوتاہے وہ بھی، اس تعلیم کے انہی احکاما ت کو آگے چلاتاہے جو اللہ تعالیٰ نے نبی کے ذریعہ ہم تک پہنچائے اور اس زمانہ میں آنحضرتﷺ کی پیشگوئیوں کے مطابق ہی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے وضاحت کرکے ہمیں بتائے۔ تو اب اسی نظام خلافت کے مطابق جو آنحضر تﷺ کی پیشگوئیوں کے مطابق حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ذریعہ جماعت میں قائم ہوچکاہے اورانشاء اللہ تعالیٰ قیامت تک قائم رہے گا ان میں شریعت اور عقل کے مطابق ہی فیصلے ہوتے ہیں۔ اور انشاء اللہ ہوتے رہیں گے اور یہی معروف فیصلے ہیں۔ اگر کسی وقت خلیفہ ٔوقت کی غلطی سے یا غلط فہمی کی وجہ سے کوئی ایسا فیصلہ ہوجاتاہے جس سے نقصان پہنچنے کااحتمال ہو تو اللہ تعالیٰ خود ایسے سامان پیدا فرمادیتاہے کہ اس کے بدنتائج کبھی بھی نہیں نکلتے اور نہ انشاء اللہ نکلیں گے۔
اس بارہ میں حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں :
’’ یہ تو ہو سکتا ہے کہ ذاتی معاملات میں خلیفۂ وقت سے کوئی غلطی ہو جائے۔ لیکن ان معاملات میں جن پر جماعت کی روحانی اور جسمانی ترقی کا انحصار ہو اگر اس سے کوئی غلطی سرزد بھی ہو تو اللہ تعالیٰ اپنی جماعت کی حفاظت فرماتا ہے اور کسی نہ کسی رنگ میں اسے اس غلطی پر مطلع کر دیتا ہے۔ صوفیاء کی اصطلاح میں اسے عِصمت صغریٰ کہا جاتا ہے۔ گویا انبیاء کو تو عِصمت کبریٰ حاصل ہوتی ہے لیکن خلفاء کو عِصمت صغریٰ حاصل ہوتی ہے اور اللہ تعالیٰ ان سے کوئی ایسی اہم غلطی نہیں ہونے دیتا جو جماعت کے لئے تباہی کا موجب ہو۔ ان کے فیصلوں میں جزئی اور معمولی غلطیا ں ہو سکتی ہیں۔ مگر انجام کار نتیجہ یہی ہو گا کہ اسلام کو غلبہ حاصل ہو گا اور اس کے مخالفوں کو شکست ہو گی۔ گویا بوجہ اس کے کہ ان کو عصمت صغریٰ حاصل ہو گی خدا تعالیٰ کی پالیسی بھی وہی ہو گی جو ان کی ہو گی۔ بے شک بولنے والے وہ ہوں گے، زبانیں انہی کی حرکت کریں گی، ہاتھ انہی کے چلیں گے، دماغ انہی کا کام کرے گا مگر ان سب کے پیچھے خدا تعالیٰ کا اپنا ہاتھ ہو گا۔ ان سے جزئیات میں معمولی غلطیاں ہو سکتی ہیں۔ بعض دفعہ ان کے مشیر بھی ان کو غلط مشورہ دے سکتے ہیں لیکن ان درمیانی روکوں سے گزر کر کامیابی انہی کو حاصل ہو گی۔ اور جب تمام کڑیاں مل کر زنجیر بنے گی تو وہ صحیح ہو گی اور ایسی مضبوط ہو گی کہ کوئی طاقت اسے توڑ نہیں سکے گی۔ ‘‘
(تفسیر کبیر۔ جلد 6۔ صفحہ376-377)
(باقی آئندہ)