ملفوظات حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اور فارسی ادب (قسط نمبر 50)
حقوق اللہ اور حقوق العباد
حقوق عباد بھی دو قسم کے ہیں۔ ایک وہ جو دینی بھائی ہو گئے ہیں خواہ وہ بھائی ہے یا باپ ہے۔یا بیٹا۔مگر ان سب میں ایک دینی اخوت ہے۔ اور ایک عام بنی نوع انسان سے سچی ہمدردی ہے۔
اللہ تعالیٰ کے حقوق میں سب سے بڑا حق یہی ہے کہ اُس کی عبادت کی جاوے اور یہ عبادت کسی غرض ذاتی پر مبنی نہ ہو ۔بلکہ اگر دوزخ اور بہشت نہ بھی ہوں ۔تب بھی اس کی عبادت کی جاوے اور اس ذاتی محبت میں جو مخلوق کو اپنے خالق سے ہونی چاہیے کوئی فرق نہ آوے۔اس لئے ان حقوق میں دوزخ اور بہشت کا سوال نہیں ہونا چاہیے ۔بنی نوع انسان کے ساتھ ہمدردی میں میرا یہ مذہب ہے کہ جب تک دشمن کے لئے دعا نہ کی جاوے پورے طور پر سینہ صاف نہیں ہوتاہے۔
اُدْعُوْنِٓیْ اَسْتَجِبْ لَکُمْ( المؤمن:61)
میں اللہ تعالیٰ نے کوئی قیدنہیں لگائی کہ دشمن کے لئے دعا کرو تو قبول نہیں کروں گا۔ بلکہ میرا تو یہ مذہب ہے کہ دشمن کے لئے دعا کرنا یہ بھی سنت نبوی ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اسی سے مسلمان ہوئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم آپ کے لئے اکثر دعا کیا کرتے تھے۔ اس لئے بخل کے ساتھ ذاتی دشمنی نہیں کرنی چاہئے ۔اور حقیقۃً موذی نہیں ہونا چاہیے شکر کی بات ہے کہ ہمیں اپنا کوئی دشمن نظر نہیں آتا جس کے واسطے دو تین مرتبہ دعا نہ کی ہو۔ ایک بھی ایسا نہیں اور یہی میں تمہیں کہتا ہوں اور سکھاتا ہوں۔ خدا تعالیٰ اس سے کہ کسی کو حقیقی طور پر ایذا پہنچائی جاوے اور ناحق بخل کی راہ سے دشمنی کی جاوے، ایسا ہی بیزار ہے جیسے وہ نہیں چاہتا کہ کوئی اس کے ساتھ ملایا جاوے ۔ایک جگہ وہ فصل نہیں چاہتا اور ایک جگہ وصل نہیں چاہتا ۔یعنی بنی نوع کا باہمی فصل اور اپنا کسی غیر کے ساتھ وصل ۔اور یہ وہی راہ ہے کہ منکروں کے واسطے بھی دعا کی جاوے ۔اس سے سینہ صاف اور انشراح پیدا ہوتا ہے اور ہمت بلند ہوتی ہے۔ اس لئے جب تک ہماری جماعت یہ رنگ اختیارنہیں کرتی ۔اس میں اور اس کے غیر میں پھرکوئی امتیاز نہیں ہے۔ میرے نزدیک یہ ضروری امر ہے۔ کہ جو شخص ایک کے ساتھ دین کی راہ سے دوستی کرتا ہے اور اس کے عزیزوں سے کوئی ادنیٰ درجہ کاہے تو اس کے ساتھ نہایت رفق اور ملائمت سے پیش آنا چاہیے ۔اور ان سے محبت کرنی چاہیے کیونکہ خدا کی یہ شان ہے۔
بَداں را بہ نیکاں بہ بخشد کریم
پس تم جو میرے ساتھ تعلق رکھتے ہو تمہیں چاہیے کہ تم ایسی قوم بنو جس کی نسبت آیا ہے
فَأِنَّھُمْ قَوْمٌ لَا یَشْقٰی جَلِیْسُہُمْ
یعنی وہ ایسی قوم ہے کہ ان کاہم جلیس بدبخت نہیں ہوتا۔
یہ خلاصہ ہے ایسی تعلیم کا جو
تَخَلَّقُوْ بِاَخْلَاقِ اللّٰہ
میں پیش کی گئی ہے۔(ملفوظات جلد سوم صفحہ 96-97)
اس حصہ میں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے فارسی کا یہ مصرع استعمال کیا ہے
بَدَاںْ رَا بِہْ نِیْکَاںْ بِہْ بَخْشَدْ کَرِیْم
وہ مہربا ن اچھوں کے ساتھ بروں کوبھی بخش دیتا ہے۔
شیخ سعدی نے اپنی تصنیف بوستان سعدی کے آغاز میں ایک طویل نظم لکھی ہے جس میں اس کتا ب کے لکھنے کا سبب بیان کیا ہے ۔یہ اس طویل نظم کے ایک شعر کا یہ دوسرا مصرع ہے۔ مکمل شعر مع تفصیل درج ذیل ہے ۔
تفصیل :’’میں (سعدی ) دنیا میں بہت گھوما پھرا ،ہر طرح کے لوگوں سے ملا ،ہر جانب سے نفع اٹھایا اور ہر کھلوان سے خوشہ چینی کی لیکن شہر شیر از جیسے نیک طبیعت لوگ مجھے کہیں نہ ملے (اللہ کی ان پر رحمت ہو)اس بابرکت شہر کے لوگوں کی محبت نے مجھے شام وروم جیسے شہر بھلا دئے۔چنانچہ میں نے مروت کے خلاف سمجھا کہ شیراز میں خالی ہاتھ واپس چلا جاؤں اور اس قدر محبت کرنے والوں کے لئے کوئی تحفہ بھی نہ لے جاؤں ۔میں نے سوچاکہ مصر سے لوگ مصری لاتے ہیں میرے پاس اگرچہ وہ تو نہیں ہے تاہم اس سے زیادہ میٹھی باتیں ضرور ہیں جو دنیا بھر سے میں نے جمع کی ہیں ۔مصری تو ایک ہی بار کھا لی جائے گی لیکن میری باتیں اہل دل کاغذوں پر لکھ کر محفوظ کر لیں گے ۔اور قیامت تک ان سے لطف اندوز ہوتے رہیں گے ۔چنانچہ میں نے کتاب بوستان لکھنا شروع کی اور اس کے دس باب مرتب کئے ہیں جو درج ذیل ہیں …‘‘چند حکایات جن کے بارہ میں کہ شیخ سعدی جیسے بزرگ کو اس طرح کی باتیں لکھنا زیبا نہ تھا ،شیخ سعدی خود ہی تبصرہ فرماتے ہیں اور اس سوال کا جواب دیتے ہیں ’’اے عقل مند!آگاہ ہو جا!باکمال لوگ دوسروں کے عیب نہیں دیکھتے ،قبا چاہے ریشم کی ہی کیوں نہ ہو اس میں بھرتی ضروری ہے ۔اگر تو ریشم (باصلاحیت )ہے تو مجھ پہ احسان کرتے ہوئے میری بھرتی کو چھپا لے ۔میں اپنی فضیلت نہیں بیان کررہا بلکہ دست طلب دراز کیا ہے
شَنِیْدَمْ کِہْ دَرْ رُوْزِ اُمِّیْدُ وبِیْم
بَدَانْ رَا بِہ نِیْکَانْ بِبَخْشَدْ کَرِیْم
اورمیں نے سنا ہے کہ قیامت کے دن برے لوگ نیکوں کی وجہ سے بخشے جائیں گے۔ تو بھی اگر میرے کلام میں کوئی عیب دیکھے تو اللہ کی صفت ستاری کا مظاہرہ کرتے ہوئے ہزار میں سے ایک شعر بھی اگر تجھے پسند آجائے تو پردہ پوشی سے کام لے …‘‘۔