متفرق مضامین

حضرت مفتی محمد صادق صاحب رضی اللہ عنہ (قسط اوّل)

(امۃ الباری ناصر)

ابتدائی زندگی سے شرفِ بیعت تک

حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام سے فیض یافتہ بزرگ صحابۂ کرام ؓمیں حضرت مفتی محمد صادق صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ ایک قابلِ رشک نمایاں مقام پر متمکن ہیں۔ آپ نے اپنی تمام ترتوانائیوں کے ساتھ عمر عزیز کے ساٹھ سال صفِ اوّل کے جرنیل کی طرح خدمتِ دین اور اِ علائے کلمہ حق کے لیے جہاد کی توفیق پائی۔ وہ کاسر صلیب کے ایسے بازوئے شمشیر زن تھے جس نے شرق و غرب میں دہریت و تثلیث کی صفوں میں گھس کر باطل پر کاری ضربیں لگائیں۔ وہ میدانِ کار زارمیں زہدوتقویٰ اور علم و معرفت کے ہتھیاروں سے لیس ہو کر اُترتے اور ہر محاذ پر بے جگری سے لڑتے ہوئے الٰہی تائید کے ساتھ فتح و ظفر سے ہم کنار ہوتے۔ اُن کی سرشت میں ناکامی کا خمیر نہ تھا۔ اُن کو حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام اور اُن کے دو خلفائے کرام کا دستِ راست رہنے کا شرف حاصل ہوا۔ وہ ہر کامیابی کو حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی غلامی اور دعاؤں کا ثمر سمجھتے۔ اُن کا قلم سلطان القلم کے قلم سے برکت پذیر تھا اُن کا بیان، بندۂ رحمان سحرالبیان مسیح زمان ؑ کے فیضان سے بہرہ یاب تھا۔ وہ ہفت زبان جن کی تحقیق کے لعل و جواہر روحانی خزائن میں شامل ہیں۔ وہ عاجزی و انکساری کے پتلے جو جوتیوں کی غلامی میں حضرت اقدسؑ کی خوشنودی اور دعاؤں سے تاجوَر ہوئے۔ یہ دعائیں اور اعتماد آپ میں جادوئی طاقت بھر دیتے۔ آپ کا ہر قدم اخلاص، قربانی اور فدائیت میں پہلے سے آگے اُٹھتا رہا۔ ایک فنا فی اللہ، کامیاب و بامراد ہستی کی سیرت و سوانح پر ایک نظر ہمیں عشق کے اسلوب اور جاں نثاری کے آداب سکھا کر دعوت عمل دیتی رہے گی۔

آپ جیسے باہمت مجاہدین کو حضرت اقدس علیہ السلام اپنی صداقت کے نشان کے طور پر پیش فرماتے ہیں :

’’اَلْقَیْتُ عَلَیْکَ مَحَبَّۃً مِّنّی وَ لِتُصْنَعَ علیٰ عَیْنِیْ

یعنی خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں تیری محبت لوگوں کے دلوں میں ڈالوں گااورمیں اپنی آنکھوں کے سامنے تیری پرورش کروں گا۔

یہ اُس وقت کا الہام ہے کہ جب ایک شخص بھی میرے ساتھ تعلق نہیں رکھتا تھا۔ پھر ایک مُدّت کے بعد یہ الہام پورا ہوا اور ہزار ہا انسان خدا نے ایسے پیدا کئے کہ جن کے دلوں میں اُس نے میری محبت بھر دی۔ بعض نے میرے لئے جان دے دی اور بعض نے اپنی مالی تباہی میرے لئے منظور کی اور بعض میرے لئے اپنے وطنوں سے نکالے گئے اور دُکھ دئے گئے اور ستائے گئے۔ اور ہزار ہاایسے ہیں کہ وہ اپنے نفس کی حاجات پر مجھے مقدّم رکھ کر اپنے عزیز مال میرے آگے رکھتے ہیں۔ اور میں دیکھتا ہوں کہ اُن کے دل محبت سے پُر ہیں اور بہتیرے ایسے ہیں کہ اگر میں کہوں کہ وہ اپنے مالوں سے بکلّی دست بردارہو جائیں یا اپنی جانوں کو میرے لئے فدا کریں تو وہ تیار ہیں۔ جب میں اِس درجہ کا صدق اور ارادت اکثر افراد اپنی جماعت میں پاتا ہوں تو بے اختیار مجھے کہنا پڑتا ہے کہ اےمیرے قادر خدا در حقیقت ذرّہ ذرّہ پرتیرا تصرف ہے تو نے اِن دلوں کو ایسے پُر آشوب زمانہ میں میری طرف کھینچا اور اُن کو استقامت بخشی یہ تیری قدرت کا نشان عظیم الشان ہے۔ ‘‘

(حقیقۃ الوحی، روحانی، خزائن جلد22صفحہ239-240)

بھیرہ کی مٹی سے اُٹھنے والا یہ سنگریزہ کس طرح پاک ہاتھوں میں پروان چڑھتا ہوا آغوش احمدؑ میں آ کر قیمتی ہیرا بن گیا۔ اس کہانی کا آغاز بے حد مبارک تھا۔ وقت صدیوں سے اس جوہر کی پرورش کررہاتھا۔

حضرت مفتی محمد صادق صاحب حضرت عثمان بن عفان خلیفہ ٔثالث رضی اللہ عنہ کی نسل سے تھے۔ آپ کے بزرگ عرب سے ایران آئے اور پھر سلطان محمود غزنوی کے زمانے میں پنجاب اور ملتان اور پاکپتن میں مقیم ہوئے اور عموماً حکومتِ وقت کی طرف سے قاضی کے عہدہ پر سرفراز رہے۔ اورنگ زیب کے زمانے میں اس خاندان کے ایک عالم دین بھیرہ کے مفتی بنے اور یہیں آباد ہو گئے۔

(تاریخ احمدیت جلد 9صفحہ 3)

پیدائش، طفولیت اور بچپن

آپؓ 11؍جنوری 1872ءکو صبح ساڑھے چھ بجے بھیرہ میں پیدا ہوئے (بھیرہ پہلے ضلع شاہ پور میں تھا اب ضلع سرگودھا میں ہے۔ ) بھیرہ میں مفتیوں کے چار پانچ گھر ایک ہی محلہ میں تھے۔ اس لیے وہ’’مفتیوں کامحلہ‘‘ کہلاتا تھا آپ کے والد صاحب کا اسم گرامی مکرم مفتی عنایت اللہ اور والدہ صاحبہ کا حضرت فیض بی بی صاحبہ تھا۔ (آ پ کے والدصاحب حضرت مسیح موعودؑ کے دعویٰ سے پہلے فوت ہو گئے تھے)آپ کی والدہ صاحبہ کے دس بچے پیدا ہوئے جو کم عمری میں فوت ہو جاتے تھے۔ وہ پیری مریدی کی قائل تھیں۔ قبروں مزاروں پر جاتیں منتیں مرادیں مانگتیں مگر مسلسل نامرادی کی وجہ سے مزاروں سے مانگنے سے بد ظن ہو کر مالکِ حقیقی سے مانگنے لگیں۔ مولا کریم نے دعاؤں کو سُنا اور مفتی محمد صادق جیسا قابل فخر اور باعمر بیٹاعطا فرمایا۔

حضرت مفتی صاحبؓ اپنی پیدائش اور ایام طفولیت کے بارے میں تحریر فرماتے ہیں :

’’خدا کی رحمت اور بخشش ہو حضرت والد صاحب مرحوم اور والدہ مرحومہ پر جن کی توجہ ہمیشہ علماء، فقراء اور صوفیاء کی صحبت کی طرف رہی اور ہنوز میں ابھی پیدا بھی نہ ہوا تھا کہ والدہ محترمہ اپنے وطن کے زاہدوں اور عابدوں اور درویشوں سے میری صلاحیت کے واسطے خواستگار دعا ہوا کرتی تھیں۔ قرآن خوانی اور درود و وظائف کی آوازوں کے درمیان میری پیدائش ہوئی۔ صلحاء نے آ کر میرے کان میں سب سے اوّل بذریعہ اذان کلمہ توحید کی تبلیغ پہنچائی قوم کے بزرگوں کو القاء ہوا کہ میرا نام ’محمد صادق‘ ہو اس سارے شہر میں، جس میں مَیں پیدا ہوا، یہ نام مجھ سے قبل کسی کا اُس وقت نہ تھا۔ میری پیدائش کئی ایک پاک نفس صلحاء کی دعاؤں کا نتیجہ تھی۔ فالحمد للہ ثم الحمد للہ…

عالم بچپن میں اگر مجھے اسباق یاد نہ ہوتے اور اُستاد کی ناراضگی کا خوف ہوتا تو میری دعا میرے خوف کی دُوری کے سامان پیدا کر دیتی اگر میرا کوئی بزرگ یا اُستاد بیمار ہوتا تو میں اس کی صحت کے واسطے دعا کرتا اور فوراً اُسے صحت پاتے دیکھ لیتا اگرچہ میں اس کا ذکر کسی سے نہ کرتا مگر قبولیت دعا کی خوشی میرے قلب کو اللہ تعالیٰ کی حمد سے بچپن میں ہی پُر رکھتی تھی۔ فالحمد للہ ثم الحمد للہ… بہت ہی بچپن کی بات ہے کہ ہمسایہ میں ایک قبیلہ کی عورتوں نے مجھ سے بے جا تمسخر کیا اور مجھے رُلایا اور میں نے اُن کے حق میں بد دعا کی اور وہ سب کی سب ایک لکڑی کے ٹوٹنے سے جس پر وہ بیٹھی تھیں گریں اور زخمی ہوئیں۔ نہ صرف مسجد میں جا کر دعا کرتا بلکہ اپنی ہر خلوت میں، چلتے ہوئے، بستر میں لیٹتے ہوئے میں اپنے لئے اور دوسروں کے واسطے متفرق دعائیں کرتا اور ان کو قبول ہوتے دیکھتا۔ ‘‘

(تحدیث بالنعمۃاز مفتی محمد صادق صاحب صفحہ2تا4)

اس طرح کم عمری سے ہی اپنے خالق و مالک سمیع و بصیرخدا کاچہرہ آپ پر روشن ہونے لگا۔ فطری طور پر سچائی اور نور نبوت کی تلاش کا رجحان پیدا ہوا۔ دس بارہ سال کی عمر میں جو لڑکپن کی بے فکری اور کھیل کود کی عمر ہوتی ہے آپ کی سوچ میں سنجیدگی نظرآنے لگی۔ اپنے ساتھی لڑکوں سے ایک دفعہ کہا:

’’ہم عجیب زمانے میں پیدا ہوئے ہیں کہ نہ کوئی اس زمانہ میں نبی ہے نہ بادشاہ ہے۔ سب کچھ قصّوں میں پڑھتے ہیں دیکھنے میں کچھ نہیں آتا۔ ‘‘

یہی آرزو تھی جس کی آسمان نے دستگیری کی اور نور حق کی طرف آپ کی راہیں کھلنے لگیں۔ سب سے پہلے ایک شخص حکیم احمد دین صاحب سے یہ ذکر سنا کہ قادیان میں ایک مرزا صاحب ہیں جن کو الہام ہوتے ہیں یہ 1885ءکا زمانہ تھا۔ آپ کے لیے یہ بات بہت تعجب خیز تھی کیونکہ سننے میں یہی آیا تھا کہ الہام کا دروازہ بند ہو چکا ہے۔ انوکھی بات ہونے کی وجہ سے ذہن میں رہ گئی۔

ایک اچھی بات یہ ہوئی کہ بھیرہ میں حضرت حکیم نور الدین صاحبؓ (خلیفۃ المسیح الاول)کا مکان آپ کے مکان کے بہت قریب تھا۔ قرابت داری بھی تھی۔ حضرت حکیم صاحبؓ کی پہلی بیوی محترمہ فاطمہ بی بی صاحبہ جو مکرم مفتی شیخ مکرم صاحب قریشی عثمانی بھیروی کی صاحبزادی تھیں مفتی صاحب کی رشتے میں خالہ تھیں۔ گھریلو تعلق کی وجہ سے آپس میں آنا جانا تھا۔ اس طرح بعد میں صدیق کے مقام پر فائز ہونے والے نادر وجود سے شناسائی کاشرف حاصل تھا۔ آپ کو بچپن کا ایک واقعہ یاد تھا کہ ایک دفعہ حضرت حکیم صاحبؓ کے گھر گئے تو انہوں نے ایک چھوٹا سا سبز رنگ کا قلمدان تحفہ دیا۔ بچے کودیا گیا یہ تحفہ ایک اشارہ غیبی ثابت ہوا۔ بعد میں آپ کو تمام عمر حضرت اقدس مسیح موعودعلیہ السلام کی فوج میں قلم کے ہتھیار سے جہاد کا موقع ملا۔ بچپن کی یادوں میں یہ بھی محفوظ تھا کہ ایک دفعہ دوا پکڑنے کے لیے بایاں ہاتھ آگے بڑھایا تو حضرت حکیم صاحبؓ نے ٹوک دیا کہ دایاں ہاتھ آگے بڑھانا چاہیے۔

تعلیم القرآن

حضرت مفتی صاحبؓ کے والد صاحب کو بچے کو قرآن کریم پڑھانے کا بہت شوق تھا۔ اس غرض سےسب سے پہلے جس اُستاد پر نظر ٹھہری وہ حضرت حکیم نورالدین صاحبؓ تھے مگر اُن دنوں وہ جموں میں رہائش رکھتے تھے۔ بچے کی اچھی تعلیم کی خاطرفیصلہ کیا کہ بیٹے کو جموں بھیج دیا جائے۔ چنانچہ 1888ء میں کمزوریٔ صحت کے باوجودخود بیٹے کو لے کر جموں گئے اور حکیم صاحبؓ کے حوالے کر کے کہا:

سپر دم بتومایۂ خویش را

آپ نے فرمایا۔ اللہ کے سپرد۔ اللہ کے سپرد

اس زمانے میں آپ کی نشست گاہ اور مطب دونوں شیخ فتح محمد صاحب کے مکان پر تھے جس میں مختصر سے دو کمرے اور سامنے ایک لمبا پلیٹ فارم تھا۔ اور زنانہ مکان تھوڑے فاصلے پر محلہ کے اندر ایک مسجد کے پاس تھا۔ آپ اُن دنوں ایک سخت بیماری سے شفا یاب ہوئے تھے اور کمزوری کے آثار نظر آ رہے تھے۔ چہرہ بھی زردی مائل تھا اس بیماری کے دوران قادیان سے آپ کے محبوب دوست حضرت مرزا غلام احمد قادیانی (علیہ السلام)بیمار پرسی کے لیے تشریف لائے تھے۔ اور تین دن وہاں قیام فرمایا تھا۔ اپنے جموں پہنچنے سے پہلے حضرت صاحبؑ نے آپ کو اطلاع دی کہ مجھے بشارت دی گئی ہے کہ میرے وہاں پہنچنے سے پہلے آپ کو آرام ہو گا اور ایسا ہی ہوا۔

حضرت مفتی صاحبؓ نے یہ ذکر کئی بار سنا ۔اللہ تعالیٰ سے اس قدرقریبی اورزندہ تعلق کی باتیں سن کر بہت متعجب اور متاثر ہوئے۔ حضرت حکیم صاحبؓ کے اُس اللہ والے ’دوست‘ کو دیکھا نہیں تھا مگر ایک اُنسیت اور حسن ظن پیدا ہو گیا۔

باغ میں ملّت کے ہے کوئی گُل رعنا کھلا

آئی ہے بادِ صبا گلزار سے مستانہ وار

(درثمین)

آپ اس غیر معمولی نعمت کے حصول پر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتے ہوئے فرماتے ہیں :

’’یہ اس کا فضل اور احسان ہے کہ چھوٹی ہی عمر میں مجھے حضرت مولوی نور الدین اعظم جیسے با خدا انسان کی صحبت کا موقع ملا۔ جموں اور کشمیر میں کئی ماہ آپ کی خدمت میں سفر اور حضر میں رہ کر مجھے آپ کی پاک زندگی کے دیکھنے اور اس کے طرز کو اختیار کرنے کا موقع نصیب ہوا ہنوز حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو میں نے نہ دیکھا تھا کہ آپ کی آمد کی خبر مجھے دی گئی اور آپ کی سچائی مجھ پر ظاہر کی گئی اور اس کے قبول کرنے کی مجھے توفیق بخشی گئی۔ فالحمد للہ ثم الحمد للہ۔ ‘‘

(تحدیث بالنعمۃاز مفتی محمد صادق صاحب صفحہ4)

اس زمانے کی حضرت حکیم صاحبؓ کی شفقتوں کو یاد کرتے ہوئے مفتی صاحب لکھتے ہیں :

’’جب میں چھوٹا بچہ تھا چودہ پندرہ برس کا ہوں گا تو مجھے قرآن مجید کا ترجمہ پڑھنے کے لئے جموں بھیج دیا گیا…حضرت حکیم صاحب مجھ سے بے حد محبت کرتے تھے اور مجھے اپنے بیٹوں کی طرح رکھتے تھے ان کے میرے ساتھ طرز عمل سے عام لوگ یہی سمجھتے تھے کہ میں ان کابیٹا ہوں۔ ‘‘

(لطائف صادق مرتبہ شیخ محمد اسمٰعیل پانی پتی صفحہ 5)

جموں میں چھ ماہ قیام کیا اس مختصر عرصے میں جو تعلق قائم ہوا وہ استاد شاگردسے بڑھ کر باپ بیٹے کی طرح تھا۔ آپ ساری عمر ایک مؤدب بیٹے کی طرح حضرت مولانا نورالدین صاحبؓ کی عزت کرتے تھے۔ تحریر میں آپ کے نام کے ساتھ ابی المکرم لکھتے تھے۔ جموں سے واپسی پر حضرت مولوی عبدالکریم صاحبؓ کے ساتھ سیالکوٹ تک آئے اور پھر واپس بھیرہ پہنچ گئے۔

بھیرہ میں تعلیم

آپؓ کے والد صاحب نے مزید تعلیم کے لیے علی گڑھ سکول میں داخل کرانے کا ارادہ کیا اور اس مقصد کے لیے سر سید احمد خان صاحب سے خط و کتابت کی۔ انہوں نے جواب دیا کہ اگر حکیم نورالدین صاحبؓ بچے کی لیاقت، استعداد اور ذہانت کی تصدیق کریں گے تو داخلہ مل جائے گا۔ مگر حضرت نے ایسی کوئی سند نہ دی۔ داخلہ نہ ملا۔ اس طرح ایک سعید فطرت بچے کے لیے علی گڑھ کے دروازے نہ کھلے اُسے تو اللہ تعالیٰ نے قادیان لانا تھا۔

(ماخوذازبدر18؍نومبر1912ء)

علی گڑھ کا ارادہ ترک کر کے بھیرہ سکول میں داخل ہو گئے۔ آپ کو اس زمانے کا حضرت حکیم صاحبؓ کی عمومی تربیت کا ایک دلچسپ واقعہ یا د رہا۔ ایک دفعہ آپ جموں سے بھیرہ آئے ہوئے تھے ۔آپ کے ہاتھ میں ایک کتاب دیکھی۔ دریافت فرمایا کہ کون سی کتاب پڑھتے ہیں ؟ عرض کیا ’مورل ریڈر‘ فرمایا مورل ریڈر کے کیا معنی ہیں ؟ آپ نہ بتا سکے اور کہا کہ اساتذہ ہمیں کتاب پڑھاتے ہیں مگر کتاب کے نام کی وجہ تسمیہ اور ترجمہ نہیں پڑھاتے۔ فرمایا۔ کل پوچھوں گا۔ آپ نے اگلے روز بتایا کہ اس کے معنی ہیں ’ادب آموز کتاب‘شاگرد نے اس واقعہ سے الفاظ پر غورو فکر کی عادت اپنائی اور آئندہ اپنے شاگردوں کو کتابوں کے نام کی وجہ تسمیہ بھی بتاتے رہے۔

1889ء میں جب کہ آپ ہائی سکول بھیرہ میں زیر تعلیم تھے ایک رات اپنے مکان کی چھت پر سو رہے تھے کہ ایک حیرت انگیز خواب دیکھا ۔فرماتے ہیں :

’’میں دیکھتا ہوں کہ ایک ستارہ مشرق سے نکلا۔ میرے دیکھتے دیکھتے وہ اُوپر کو چلا۔ جتنا وہ آگے بڑھتا ہے اُس کا قد اور روشنی بڑھتے جاتے ہیں یہاں تک کہ وہ ٹھیک آسمان کی چوٹی پر پہنچا۔ اُس وقت وہ چاند کے برابر بڑا اور روشن ہو گیا۔ وہاں پہنچ کر اُس نے چکر لگانا شروع کیا۔ اُس کے چکر کا ہر دائرہ پہلے سے بڑا اور زیادہ تیز رفتار تھا یہاں تک کہ اُس کا چکر اُفق تک پہنچا جہاں زمین و آسمان ملے ہوئے نظر آتے ہیں۔ یہاں اُس کے چکر ایسے روشن اور تیزی کے ساتھ ہوئے کہ اُس کی ہیبت نے مجھے بیدار کر دیا اور میں اُٹھ کر بیٹھ گیا۔ ‘‘

(ذکر حبیب صفحہ2)

صبح آپؓ نے یہ رؤیا اپنے استاد حضرت مولانا نورالدین صاحبؓ اور حضرت مسیح موعودؑ کو لکھ کر بھیج دیا ۔حضرت مولانا نے تعبیر بتائی کہ ایسا رؤیا اس وقت دکھایا جاتا ہے جب کوئی عظیم مصلح ظاہر ہونے والا ہوتا ہے۔ حضرت اقدس مسیح موعودعلیہ السلام نے جواب دیاکہ آپ کا خط ملا جس میں آپ نے رؤیا کی تعبیر دریافت کی تھی میری طبیعت ان دنوں علیل ہے۔ اس واسطے میں توجہ نہیں کر سکتا بشرط یاد دہانی میں آپ کو پھر جواب لکھوں گا۔

(ذکر حبیب صفحہ2تا3)

یہ اُس وقت کی بات ہے جب حضرت اقد سؑ ما موریت کادعویٰ فرما چکے تھے اور سلسلہ بیعت جاری ہو چکا تھا۔ آپ نے فوراً اس خواب کو خود پر چسپاں نہ کیا جس کی وجہ سے مفتی صاحب کی نظروں میں آپؑ کے مقام و مرتبے میں بہت اضافہ ہوا۔

قادیان کا پہلا سفر اور شرف بیعت

1890ءمیں آپ نے انٹر پاس کر لیا اور حضرت مولانا نور الدین صاحبؓ کی وساطت سے جموں ہائی سکول میں انگلش کے ٹیچر مقرر ہوئے۔ اُسی سال کے آخر میں آپ نے قادیان دارالامان کا پہلا سفر کیا اور بیعت سے مشرف ہوئے چنانچہ آپ تحریر فرماتے ہیں :

’’1890ء میں یہ عاجز امتحان انٹرنس پاس کر کے جموں گیا۔ اور وہاں مدرسہ میں ملازم ہو گیا۔ ایک اور مدرس جو میرے ہم نام تھے (مولوی فاضل محمد صادق صاحب مرحوم) میرے ساتھ اکٹھے رہتے تھے۔ اس وقت حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کی کتاب فتح اسلام جموں میں پہنچی(غالباًوہ پروف کے اوراق تھے جو قبل اشاعت حضرت مولوی نور الدین صاحبؓ کو بھیج دیئے گئے تھے) اس کتاب میں حضرت صاحبؑ نے پہلی دفعہ بالوضاحت عیسیٰ ناصریؑ کی وفات اور اپنے دعویٰ مسیحیت کا ذکر کیا۔ و ہ کتاب میں نے اور مولوی محمد صادق صاحب نے مل کر پڑھی۔ اور میں نے اس پر چند سوالات لکھ کر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو بھیجے۔ جن کے جواب کے متعلق حضرت مولوی عبدالکریم صاحب مرحوم نے جواُن دنوں جموں میں تھے مجھے زبانی فرمایا کہ عنقریب ایک کتاب شائع ہو گی۔ اس میں ان سب سوالوں کے جواب آ جائیں گے۔

اس کے بعد اسکول میں کسی رخصت کی تقریب پر میں قادیان چلا آیا غالباًدسمبر1890ءتھا۔ سردی کا موسم تھا۔ بٹالہ سے میں اکیلا ہی یکہ میں سوار ہو کر آیا۔ اور بارہ آنہ کرایہ دیا۔ حضرت مولانا صاحب مولوی نور الدین رضی اللہ عنہ نے مجھے حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کے نام ایک سفارشی خط دیا تھا۔ حضرت کے مکان پر پہنچ کر وہ خط میں نے اُسی وقت اندر بھیجا۔ حضرت صاحبؑ فوراً باہر تشریف لائے فرمایا!مولوی صاحب نے اپنے خط میں آپ کی بہت تعریف کی ہے۔ مجھ سے پوچھا کیا آپ کھانا کھا چکے ہیں۔ تھوڑی دیر بیٹھے اور پھر اندرون خانہ تشریف لے گئے۔ اُس وقت مجھ سے پہلے صرف ایک اور مہمان تھا۔ (سید فضل شاہ صاحب مرحوم) اور حافظ شیخ حامد علی صاحب مہمانوں کی خدمت کرتے تھے اور گول کمرہ مہمان خانہ تھا۔ اس کے آگے جو تین دیواری بنی ہوئی ہے، اُس وقت نہ تھی۔ رات کے وقت اس گول کمرہ میں عاجز راقم اور سید فضل شاہ صاحب سوئے۔ نماز کے وقت حضرت صاحبؑ مسجد مبارک میں جس کو عموماً چھوٹی مسجد کہا جاتا ہے تشریف لائے۔ آپؑ کی ریش مبارک مہندی سے رنگی ہوئی تھی۔ چہرہ بھی سرخ اور چمکیلا۔ سر پر سفید بھاری عمامہ، ہاتھ میں عصا ءتھا۔ دوسری صبح حضرت صاحبؑ زنانہ سے باہر آئے۔

باہر آ کر فرمایا کہ سیر کو چلیں سید فضل شاہ صاحب (مرحوم) حافظ حامد علی صاحب (مرحوم) اور عاجز راقم ہمراہ ہوئے کھیتوں میں سے اور بیرونی راستوں میں سے سیر کرتے ہوئے گاؤں کے شرقی جانب چلے گئے۔ اس پہلی سیر میں مَیں نے حضرت صاحب کی خدمت میں عرض کیا کہ گناہوں میں گرفتاری سے بچنے کا کیا علاج ہے۔

فرمایا: موت کو یاد رکھنا۔ جب آدمی اس بات کو بھول جاتا ہے۔ کہ اُس نے آخر ایک دن مَر جانا ہے۔ تو اس میں طول امل پیدا ہوتا ہے۔ لمبی لمبی اُمیدیں کرتا ہے کہ میں یہ کر لوں گا اور وہ کر لوں گا۔ اور گناہوں میں دلیری اور غفلت پیدا ہو جاتی ہے۔

سید فضل شاہ صاحب مرحوم نے سوال کیا کہ یہ جولکھا ہے کہ مسیح موعودؑ اُس وقت آئے گاجبکہ سورج مغرب سے نکلے گا۔ اس کا کیا مطلب ہے۔ فرمایا۔ یہ تو ایک طبعی طریق ہے کہ سورج مشرق سے نکلتا ہے۔ مغرب میں غروب ہوتا ہے۔ اس میں تبدیلی نہیں ہو سکتی۔ مُراد اس سے یہ ہے کہ مغربی ممالک کے لوگ اس زمانہ میں دینِ اسلام کو قبول کر نے لگ جائیں گے۔ چنانچہ سنا گیا ہے کہ لور پول میں چند ایک انگریز مسلمان ہو گئے ہیں۔ جو کچھ باتیں اُس سفر میں ہوئیں، اُن میں سے یہی دو باتیں مجھے یاد ہیں۔ میں نہیں کہہ سکتا کہ وہ کیا چیز تھی جس نے مجھے حضرت صاحب کی صداقت کو قبول کرنے اور آپ کی بیعت کر لینے کی طرف کشش کی۔ سوائے اس کے کہ آپ کا چہرہ مبارک ایسا تھا۔ جس پر یہ گمان نہ ہو سکتا تھا کہ وہ جھوٹا ہو۔

دوسرے یا تیسرے دن میں نے حافظ حامد علی صاحب سے کہا کہ میں بیعت کرنا چاہتا ہوں۔ حضرت صاحبؑ مجھے ایک علیحدہ مکان میں لے گئے۔ جس حصہ زمین پر نواب محمد علی خاں صاحب کا شہر والا مکان ہے اور جس کے نیچے کے حصہ میں مرکزی لائبریری رہ چکی ہے۔ جس کے بالا خانہ میں ڈاکٹر حشمت اللہ صاحب رہ چکے ہیں۔ (آج کل اگست1935ءمیں وہ بطور مہمان خانہ استعمال ہوتا ہے)اس زمین پر اُن دنوں حضرت کا مویشی خانہ تھا۔ گائے، بیل اُس میں باندھے جاتے تھے۔ اس کا راستہ کوچہ بندی میں سے تھا۔ حضرت صاحبؑ کے اندرونی دروازے کے سامنے مویشی خانہ کی ڈیوڑھی کا دروازہ تھا۔ یہ ڈیوڑھی اُس جگہ تھی، جہاں آج کل لائبریری کے دفتر کا بڑا کمرہ ہے۔ اس ڈیوڑھی میں حضرت صاحبؑ مجھے لے گئے اور اندر سے دروازہ بند کر دیا۔ اُن ایّام میں ہر شخص کی بیعت علیحدہ علیحدہ لی جاتی تھی۔ ایک چارپائی بچھی تھی۔ اُس پر مجھے بیٹھنے کو فرمایا۔ حضرت صاحبؑ بھی اس پر بیٹھے۔ میں بھی بیٹھ گیا۔ میرا دایاں ہاتھ حضرت صاحبؑ نے اپنے ہاتھ میں لیا۔ اور دس شرائط کی پابندی کی مجھ سے بیعت لی۔ دس شرائط ایک ایک کر کے نہیں دہرائیں۔ بلکہ صرف دس شرائط کہہ دیا…۔ ‘‘

(ذکرِحبیب صفحہ3تا5)

اسی زمانے کے متعلق تحریر فرماتے ہیں :

’’جب میں پہلی دفعہ قادیان آیا جو کہ غالباً دسمبر1890ء کے آخر میں تھا۔ اس وقت میں اُس کمرے میں ٹھہرایا گیا، جسے گول کمرہ کہتے ہیں۔ اس کے آگے وہ تین دیواری نہ تھی جو اب ہے۔ اس وقت یہی مہمان خانہ تھا۔ اور حضرت مسیح موعودعلیہ السلام یہیں بیٹھ کر مہمانوں سے ملتے تھے۔ یا اس کے دروازے پر میدان میں چارپائیوں پر بیٹھا کرتے تھے۔ اس کے بعد بھی دو تین سال تک وہی مہمان خانہ رہا۔ اس کے بعد شہر کی فصیل جب فروخت ہوئی تو اُس کو صاف کر کے اس پر مکانات بننے کا سلسلہ جاری رہا۔ اور وہ جگہ بنائی گئی جہاں اب مہمان خانہ ہے۔ پہلے اس میں حضرت خلیفۃالمسیح الاوّلؓ رہا کرتے تھے۔ جب حضرت خلیفۃالمسیح الاوّلؓ نے دوسری طرف مکان بنا لئے تو یہ مکان مہمانوں کے استعمال میں آنے لگا۔ مَیں اس مہمان خانہ میں بھی مقیم رہا۔ پھر جب مولوی محمد علی صاحب کے واسطے مسجدمبارک کے متصل اپنے مکان کی تیسری منزل پر حضرت مسیح موعودؑ نے کمرہ بنوایا۔ تو جب تک مولوی محمد علی صاحب کی شادی نہیں ہوئی مجھے بھی اُسی کمرے میں حضرت صاحب ٹھہرایا کرتے۔ ‘‘

(ذکر حبیب صفحہ 6تا7)

313 صحابۂ کرام میں آپ کا نمبر69ہے۔

(ازالہ اوہام، روحانی خزائن جلد 3صفحہ544)

تاریخِ احمدیت جلد اول صفحہ 452پر آپ کی تاریخِ بیعت 31؍جنوری1891ءدرج ہے۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button