متفرق مضامین

کیا مسلمان کرسٹوفر کولمبس (Christopher Columbus) سے کئی صدیاں پہلےامریکہ دریافت کر چکے تھے!

(سعادت احمد۔ جرمنی)

تاریخ کی موجودہ درسی کتب میں دنیا بھر میں یہی پڑھایا جاتا ہے کہ امریکہ کا براعظم کولمبس نے 1492ء میں دریافت کیا۔ مگر کم ہی لوگ اس بات سے واقف ہوں گے کہ کولمبس کے سمندری سفر کرنے سے پہلے بھی مسلمان اس قسم کے سفر کر چکے تھے۔ اس ضمن میں ایک نیا دریافت کیا گیا نقشہ اس دور پر اور مسلمانوں کی کھوئی ہوئی علمی میراث پر نئی روشنی ڈالتا ہے۔ یہ نقشہ سلطنت عثمانیہ کے مشہور ایڈمرل محی الدین پیری رئیس (Piri Re’is) (وفات 1554ء) نے تیار کیا تھا۔

عموماً نقشوں سے متعلق یہی مشہور ہے کہ یہ مدفون خزانوں کی نشاندہی کرتے ہیں۔ جبکہ اصل حقیقت تو یہ ہے کہ پرانے نقشے اپنی ذات میں ہی ایک خزانہ ہوتے ہیں کیونکہ ان سے ایک طویل عرصے سے مفقود علم دوبارہ سے ظاہر ہوتا ہے۔ موجودہ زمانہ میں سمندری نقشوں کی بظاہر اتنی اہمیت نہیں رہی بلکہ عام زمینی نقشوں کا استعمال بھی متروک ہو چکا ہے۔ اگر ہم آج کسی جگہ جانے کا قصد کریں تو سفر کرنے سے قبل ہی گوگل میپس(Google Maps) یا گوگل ارتھ (Google Earth)کے ذریعہ اس جگہ کے راستہ، کیفیت بلکہ تصاویرتک دیکھ لیتے ہیں۔ مگر چند سو سال پہلے تک لوگو ں کو زمین کے بارے میں زیادہ علم نہیں تھا۔ کہا جاتا ہے کہ کولمبس کی وجہ سے دنیا میں سمندری نقشوں کی اہمیت بڑھی اور وہ سمندری سفروں کے لیے نا گزیر ہوگئے۔ بلکہ اس سے بڑھ کر وہ اقتدار اور معاشی خوشحالی کی کلید بن گئے۔

اگرچہ علمی حلقوں میں یہ بات بہت پہلے سے مشہور ہے کہ امریکہ کولمبس سے بہت پہلے مسلمان ملّاحوں کے ذریعہ دریافت ہوچکا تھا اور ترک اس کے دریافت کرنے میں پہلے تھے یعنی turkey first‘‘ترکی پہلے’’ سے ہی وہاں پہنچ چکے تھے۔

اب یہ بات ایک ثابت شدہ حقیقت ہے کہ کولمبس وہ پہلا شخص نہیں جس نے امریکہ دریافت کیابلکہ اس سے کوئی آدھ ہزار سال پہلے وائکنگز (Vikings)شمالی امریکہ کے ساحلوں تک پہنچ چکے تھے۔ لیکن اس بات کو مغربی مورخین بڑی حد تک اب تک نظرانداز کرتے چلے آئے ہیں۔ یعنی یہ کہ امریکہ کے ساحل کو مسلمان حیرت انگیز طور پر تفصیل سے ایک لمبے عرصے سے بخوبی جانتے تھے۔ ترک ایڈمرل پیری رئیس کا نقشہ امریکہ کی تاریخ اس دریافت پر دلچسپ سوالات پر روشنی ڈالتا ہے۔

اندلس یعنی سپین اپنے عروج پر عالم اسلام کے لیے علم وہنر کا ایک مرکز بن کر ابھرااور وہاں بڑے بڑے علماء اور فضلاء پیدا ہوئے جن میں ابن رشد، ابو القاسم اور ابن حزم جیسے مشہور نام بھی ہیں۔ وقت کے ساتھ ساتھ مسلمانوں پر زوال آیا اور 1469ء کو مسلمان حکومت صرف غرناطہ (Granada) تک محدود ہو کر رہ گئی۔ اور بالآخر 1492ء میں آخری مسلمان حکمران ابو عبد اللہ نے شکست تسلیم کرتے ہوئے شہر کی چابیاں عیسائی حکمرانوں کے سپرد کیں اور جلاوطنی اختیار کرلی۔ اس کے ساتھ ہی سپین میں مسلمانوں کا دَور اختتام پذیر ہو گیا ۔ عیسائی بادشاہوں کے قبضہ کے بعد مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد کچھ عرصہ تک وہاں موجود رہی۔ ا ب بھی اندلس میں موجود مسلمانوں کے دَور کی پر شکوہ عمارتیں اور محلات اس پرانےدَور کی یاد دلاتے ہیں۔ عیسائی حکمرانوں نے جس سال غرناطہ پر قبضہ کیا اسی سال یعنی 1492ء میں کولمبس نے اپنے سفر امریکہ کا آغاز کیا۔ یہاں یہ سوال اٹھتا ہے کہ کولمبس سپین سے مغرب کی طرف سفر کرنے سے پہلے بحر اوقیانوس کے دوسرے کنارےکے بارے میں کیا جانتا تھا ؟ اور کیا کولمبس نے اپنے سفر امریکہ کے لیے مسلمانوں کے تجربوں اور علم سے فائدہ اٹھایا؟

فرینکفرٹ کے ایک مشہور مستشرق اور اسلامی علوم کے محقق فواد سیزگین نے کئی دہائیاں قبل اپنی تحقیقات کی بنا پر یہ نظریہ پیش کیا تھا کہ امریکی براعظم کو مسلمان ملّاح جن کا تعلق مغربی افریقہ، اندلس اور بحر ہند کے علاقوں سے تھا، دریافت کر چکے تھے اور انہوں نے اس کے نقشے بھی تیار کیے تھے۔ تاہم مغربی محققین میں سیزگین کےیہ تحقیقاتی مقالے زیادہ مشہور نہ ہوئے۔ اب اسی بات کو ایک جرمن خاتون صحافی سو زانے بیلیگ(Susanne Billig) نے اپنی نئی کتاب

Die Karte des Piri Re’is

یعنی (The Map of Piri Re’is) میں اس کا تفصیلاً ذکر کیا ہے۔ اور سیزگین کی تحقیقات کا خلاصہ بیان کیا ہے۔ اس کے مطابق عرب جہاز ران کولمبس سے پہلے ارادتاً بحر اوقیانوس کو پار کرتے تھے اور اس بات کا ایک اہم ثبوت پیری رئیس کےنقشہ کا ایک خاص حصہ ہے۔ پیری رئیس نہ صرف ایک ایڈمرل تھا بلکہ ایک تجربہ کار کارٹوگرافر یعنی نقشہ ساز بھی تھا۔ اس کو ایک طویل کامیاب کیریئر کے بعد، 84سال کی عمر میں سلطان سلیمان دوم نے ایک سازش میں شامل ہونے کے الزام میں 1554ء میں سزائے موت دی۔

اس سے پہلے کہ اس نقشہ کی تفصیل بیان کی جائے یہ ضروری ہے کہ مختصراً ایسی مہمات کا ذکر بھی کیا جائے جو پیری رئیس سے پہلے بھی مسلمان جہاز رانوں نے بحر اوقیانوس کو پار کرنے کے لیے کیں۔

دسویں صدی کے پہلے نصف سے ہی مسلمانوں اور عربوں نے بحر اوقیانوس کو پار کرنے کے لیے کوششیں شروع کر دی تھیں، جن پر درج ذیل شواہد ملتے ہیں۔

خَشخَاشنامی نوجوان کا ذکر

بحر اوقیانوس کو پار کرنے کے بارے میں کچھ معلومات المسعودی (وفات 956ء) کی کتاب ‘‘مروج الذهب ومعادن الجوهر ’’سے ملتی ہیں۔ المسعودی اس میں ایک اندلسی نوجوان خَشخَاش اور اس کے ساتھیوں کا ذکر کرتا ہے جن کی یہ کہانی اندلس میں مشہور تھی کہ وہ مغرب کی جانب سمندر پار کرنے گئے اور ایک طویل عرصہ بعدمال و دولت کے ساتھ واپس لوٹے۔

دَرْب المُغَرِّرُون

اسی قسم کی ایک اور مہم جوئی کی تفصیلی خبر الادریسی (وفات 1166ء) نے تحریر کی ہے۔ وہ بیان کرتا ہے کہ آٹھ رشتہ داروں نے مل کر بحر اوقیانوس کو پار کرنے کی مہم جوئی کی اور ان کی بہادری کو دیکھتے ہوئے لزبن (Lisbon)کی بندرگاہ کے قریب ایک جگہ کو ان کی یاد میں درب المغررون کا نام دیاگیا ہے، یعنی مہم جوؤں کا راستہ۔

مغربی افریقہ سے

ابن فضل اللہ العمری (وفات 1349ء) اپنی تصنیف ‘‘مسالک الابصار فی ممالک الامصار’’ میں تحریر کرتا ہے کہ جب مغربی افریقہ کے مشہور مسلمان بادشاہ منسا موسیٰ اپنے سفر حج پر گئے تو راستہ میں مصر بھی ٹھہرے۔ وہاں ان سے جب پوچھا گیا کہ انہیں حکومت کیسے حاصل ہوئی تو انہوں نے جواب دیا کہ ان کے پیشرو ابوبکر تھے اور انہوں نے ایک بحری بیڑے کو سمندر کے دوسرے کنارے جانے کا حکم دیا۔ کافی عرصہ بعد صرف ایک جہازواپس لوٹا۔ اس کے بعد ابوبکرنے ایک اور بیڑاسامان سے لادا اور خود سمندر پار کرنے گیا اور اب تک واپس نہیں لوٹا۔

کولمبس کے زمانہ میں مسلم دنیا کا علم

پیری رئیس اپنے ایک نقشے کے ذریعہ تاریخ میں ہمیشہ کے لیے مشہور ومحفوظ ہوگیا ہے۔ اس کا 1513ء میں تیار کردہ نقشہ مسلمانوں کی بحری نقشہ سازی کا ایک شاہکار ہے۔ کولمبس کے ہی زمانہ کا یہ نقشہ مسلم دنیا میں اس علم کی ترویج کی عکاسی کرتا ہے۔ یہ نقشہ اتفاق سے 1929ء میں استنبول کے پرانے شاہی محل کی لائبریری میں ایک پروٹسٹنٹ عالم دین نے دریافت کیا تھا۔ یہ تقریبا ً85x 60سینٹی میٹر بڑا ہے اور ایک پتلی پارچمنٹ یعنی جانوروں کی جلد پر تیار کیا گیا ہے جس پرعلاقوں کے نام عثمانی ترکی میں یعنی عربی حروف میں لکھے ہوئے ہیں۔ اس پر بڑی تفصیل سے مغربی افریقہ اور وسطی بحر اوقیانوس کے ساحل اور اس کے اوپر شمالی اور جنوبی امریکہ کے ساحل دکھائے گئے ہیں بلکہ جنوبی امریکہ کے سلسلہ کوہ انڈیز کو پوری طرح دکھایا گیا ہے۔ اس کے ساتھ ہی اس نقشہ پر ایک جانور بھی بنایا گیا ہے جو کہ جنوبی امریکہ میں پائےجانے والے جانور لاما سے ملتا جلتا ہے۔ لاما ایک اونٹ نما جانور ہےجسے پالتو جانوروں کی طرح پالا جاتا ہے اور اس کو سامان لادنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ اس کی اون اور بعض دفعہ گوشت بھی استعمال میں آتے ہیں۔ یہاں پر دلچسپ بات یہ ہے کہ جس زمانہ میں پیری رائیس نے یہ نقشہ تیار کیا اس وقت تک کسی یورپین نے ان علاقوں کو دریافت نہیں کیا تھا حتیٰ کہ کولمبس نے بھی نہیں۔ مزید یہ بھی ایک حیرت انگیز بات ہے کہ جنوبی امریکہ کے مشرقی اور جنوبی ساحل کو بہت تفصیل اور درستگی سے بنایا گیا ہے جس میں اورینکو (Orinoko)سے ریو ڈی لا پلاٹا(Rio de la Plata) تک کی ندیاں بھی شامل ہیں۔

نقشہ کے ساتھ عثمانی متن میں عربی نقشوں کے علاوہ دیگر ذرائع کا بھی حوالہ دیا گیا ہے۔ یہ نقشہ آج بھی استنبول کے توپ قاپی محل میں موجود ہے۔

پیری رئیس کے اس نقشے کے تمام پہلو ابھی تک منکشف نہیں ہوئے اور ان پر مزید تحقیق جاری ہے۔ تاہم اس سے یہ ضرور پتاچلتا ہے کہ ترک ایڈمرل اور مسلمانوں کو کو لمبس کی مہم جوئی سے پہلے ہی امریکہ یعنی اس نئے برا عظم سے متعلق تفصیلی علم تھا۔

مسلم دنیا میں طول البلد کا علم

18ویں صدی تک یورپین ممالک میں طول البلد کا صحیح تعین کا طریق ایجاد نہیں ہوسکا اور یہ بات جغرافیہ کی تاریخ سے ثابت ہے۔

مثال کے طور پر کرسٹوفر کولمبس کے بھائی، جو کہ ان کے سفر امریکہ پر ان کے ساتھی تھے، کا نقشہ بتاتا ہے کہ کولمبس کا ایشیا اور یورپ کے درمیان فاصلے کو تعین کرنے کا حساب بالکل غلط تھا۔

تاہم مسلمانوں کو نویں صدی سے پہلے ہی طول البلد کا حساب لگانا اور اس کے تعین کرنے میں بڑی مہارت حاصل تھی۔ عرب مسلم ملاح نویں صدی سے کھلے سمندروں میں طویل سفر کامیابی سے کرتے تھے۔ اس کی تصدیق مشہور مؤرخ الیعقوبی(وفات 903ء)نے اپنی کتاب کتاب البلدان میں کی ہے۔ انہوں نےایسے سمندری سفر کے بارے میں تحریر کیا ہے جو افریقہ کے شمال مغربی ساحل پر موسا سے چین تک کیے گئے۔ اس کے علاوہ بحر ہند میں مسلمان جہاز رانوں نے ایک ایسا طریقہ ایجاد کیا تھا جس کی مدد سے وہ کھلے سمندر میں بھی طول البلد کی پیمائش کر سکتے تھے اور اس طرح وہ بحرالہند کو بغیر رُکے پار کرتے۔

یہ مسلمانوں کے تیار کردہ نقشے، ملاح اور جیکب کا آلہ (Jacob’s staff) یعنی پیمائش کرنے کا ایک خاص آلہ ہی تھے، جس نے پرتگالیوں کو بحر ہند کا راستہ تلاش کرنے اور نیوی گیشن(Navigation) میں مہارت حاصل کرنے میں مدد فراہم کی۔ یورپین ملاح ایسے اسلامی نقشوں پر انحصار کرتے ہوئے نئےبراعظموں تک پہنچے۔ یاد رہے کہ اس زمانہ میں اسلامی دنیا کارٹوگرافی اور علمِ فلکیات کے شعبوں میں بہت مہارت رکھتی تھی۔ اور ایسا ہی ایک نقشہ غالباً کولمبس کے قبضہ میں بھی تھا جس کی مدد سے وہ امریکہ پہنچا۔

ماخذ از:

Fuat Sezgin: Die Entdeckung des amerikanischen Kontinents durch muslimische Seefahrer vor Kolumbus, 2006.

Susanne Billig: Die Karte des Piri Re’is: Das vergessene Wissen der Araber und die Entdeckung Amerikas, 2017.

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button