سرور کائنات، فخر موجودات حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و سلم
مَیں ہمیشہ تعجب کی نگہ سے دیکھتا ہوں کہ یہ عربی نبی جس کا نام محمّد ہے (ہزار ہزار درود اور سلام اُس پر) یہ کس عالی مرتبہ کا نبی ہے۔ اس کے عالی مقام کا انتہا معلوم نہیں ہو سکتا اور اس کی تاثیر قدسی کا اندازہ کرنا انسان کا کام نہیں۔ افسوس کہ جیساحق شناخت کا ہے اُس کے مرتبہ کو شناخت نہیں کیا گیا۔ وہ توحید جو دنیا سے گم ہو چکی تھی وہی ایک پہلوان ہے جو دوبارہ اس کو دنیا میں لایا۔ اُس نے خدا سے انتہائی درجہ پر محبت کی اور انتہائی درجہ پر بنی نوع کی ہمدردی میں اس کی جان گداز ہوئی اِس لئے خدانے جو اُس کے دل کے راز کا واقف تھا اُس کو تمام انبیاء اور تمام اوّلین و آخرین پر فضیلت بخشی اور اُس کی مرادیں اُس کی زندگی میں اُس کو دیں۔ وہی ہے جو سرچشمہ ہر ایک فیض کا ہے اور وہ شخص جو بغیر اقرار افاضہ اُس کے کسی فضیلت کا دعویٰ کرتا ہے۔ وہ انسان نہیں ہے بلکہ ذُرّیّتِ شیطان ہے کیونکہ ہر ایک فضیلت کی کنجی اُس کو دی گئی ہے اور ہر ایک معرفت کا خزانہ اُس کو عطا کیا گیا ہے۔ جو اُس کے ذریعہ سے نہیں پاتا وہ محروم ازلی ہے۔ ہم کیا چیز ہیں اور ہماری حقیقت کیا ہے۔ ہم کافر نعمت ہوں گے اگر اس بات کا اقرار نہ کریں کہ توحید حقیقی ہم نے اِسی نبی کے ذریعہ سے پائی اور زندہ خدا کی شناخت ہمیں اِسی کامل نبی کے ذریعہ سے اور اسکے نُور سے ملی ہے اور خدا کے مکالمات اور مخاطبات کا شرف بھی جس سے ہم اُس کا چہرہ دیکھتے ہیں اِسی بزرگ نبی کے ذریعہ سے ہمیں میسر آیا ہے اس آفتاب ہدایت کی شعاع دھوپ کی طرح ہم پر پڑتی ہے اور اُسی وقت تک ہم منور رہ سکتے ہیں جب تک کہ ہم اُس کے مقابل پر کھڑے ہیں۔
(حقیقۃ الوحی، روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 118تا119)
’’اے تمام وہ لوگو جو زمین پر رہتے ہو! اور اے تمام وہ انسانی رُوحو جو مشرق اورمغرب میں آباد ہو! مَیں پورے زور کے ساتھ آپ کو اس طرف دعوت کرتا ہوں کہ اب زمین پر سچا مذہب صرف اسلام ہے اور سچا خدا بھی وہی خدا ہے جو قرآن نے بیان کیاہے۔ اور ہمیشہ کی رُوحانی زندگی والا نبی اور جلال اور تقدّس کے تخت پر بیٹھنے والا حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم ہے جس کی رُوحانی زندگی اور پاک جلال کا ہمیں یہ ثبوت ملا ہے کہ اس کی پیروی اور محبت سے ہم رُوح القدس اور خدا کے مکالمہ اور آسمانی نشانوں کے انعام پاتے ہیں‘‘۔
(تریاق القلوب روحانی خزائن جلد15صفحہ141)
’’دنیا میں کروڑہا ایسے پاک فطرت گذرے ہیں اور آگے بھی ہوں گے لیکن ہم نے سب سے بہتر اور سب سے اعلیٰ اور سب سے خوب تر اس مرد خدا کو پایا ہے جس کانام ہے محمد صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم۔
اِنَّ اللّٰہَ وَمَلٰٓئِکَتَہٗ یُصَلُّوْنَ عَلَی النَّبِیِّ ؕ یٰٓاَیُّھَاالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا صَلُّوْا عَلَیْہِ وَسَلِّمُوْا تَسْلِیْمًا (الاحزاب:57)
ان قوموں کے بزرگوں کا ذکر تو جانے دو جن کا حال قرآن شریف میں تفصیل سے بیان نہیں کیا گیا صرف ہم ان نبیوں کی نسبت اپنی رائے ظاہر کرتے ہیں جن کاذکر قرآن شریف میں ہے۔ جیسے حضرت موسیٰ، حضرت داؤد، حضرت عیسیٰ علیہم السلام اور دوسرے انبیاء سو ہم خدا کی قسم کھاکر کہتے ہیں کہ اگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم دنیا میں نہ آتے اور قرآن شریف نازل نہ ہوتا اور وہ برکات ہم بچشم خودنہ دیکھتے جو ہم نے دیکھ لئے تو ان تمام گذشتہ انبیاء کا صدق ہم پر مشتبہ رہ جاتا کیونکہ صرف قصوں سے کوئی حقیقت حاصل نہیں ہوسکتی اور ممکن ہے کہ وہ قصے صحیح نہ ہوں اور ممکن ہے کہ و ہ تمام معجزات جو اُن کی طرف منسوب کئے گئے ہیں وہ سب مبالغات ہوں کیونکہ اب ان کا نام و نشان نہیں بلکہ ان گذشتہ کتابوں سے تو خدا کا پتہ بھی نہیں لگتا اور یقیناًسمجھ نہیں سکتے کہ خدا بھی انسان سے ہمکلا م ہوتا ہے لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ظہور سے یہ سب قصے حقیقت کے رنگ میں آگئے۔ اب ہم نہ قال کے طور پر بلکہ حال کے طور پر اس بات کو خوب سمجھتے ہیں کہ مکالمہ الٰہیہ کیا چیز ہوتا ہے اور خدا کے نشان کس طرح ظاہر ہوتے ہیں اور کس طرح دعائیں قبول ہو جاتی ہیں اور یہ سب کچھ ہم نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی سے پایا اور جو کچھ قصوں کے طور پر غیر قومیں بیان کرتی ہیں وہ سب کچھ ہم نے دیکھ لیا۔ پس ہم نے ایک ایسے نبی کا دامن پکڑا ہے جو خدا نما ہے۔ کسی نے یہ شعر بہت ہی اچھا کہا ہے؎
محمدؐ عربی بادشاہ ہر دو سرا
کرے ہے روح قدس جس کے در کی دربانی
اُسے خدا تو نہیں کہہ سکوں پہ کہتا ہوں
کہ اس کی مرتبہ دانی میں ہے خدادانی
ہم کس زبان سے خدا کا شکرکریں جس نے ایسے نبی کی پیروی ہمیں نصیب کی جو سعیدوں کی ارواح کے لئے آفتاب ہے جیسے اجسام کے لئے سورج۔ وہ اندھیرے کے وقت ظاہر ہوا اور دنیا کو اپنی روشنی سے روشن کردیا۔ وہ نہ تھکانہ ماندہ ہوا جب تک کہ عرب کے تمام حصہ کو شرک سے پاک نہ کردیا۔ وہ اپنی سچائی کی آپ دلیل ہے کیونکہ اس کا نور ہر ایک زمانہ میں موجود ہے اور اس کی سچی پیروی انسان کو یوں پاک کرتی ہے کہ جیسا ایک صاف اور شفاف دریا کا پانی میلے کپڑے کو۔ کون صدق دل سے ہمارے پاس آیا جس نے اس نور کا مشاہدہ نہ کیا اور کس نے صحت نیت سے اس دروازہ کو کھٹکھٹا یا جو اس کے لئے کھولا نہ گیا لیکن افسوس!کہ اکثر انسانوں کی یہی عادت ہے کہ وہ سفلی زندگی کو پسند کر لیتے ہیں اور نہیں چاہتے کہ نور ان کے اندر داخل ہو۔‘‘
(چشمہ معرفت۔ روحانی خزائن جلد 23 صفحہ 301تا 303)