سیرت النبی ﷺ

آنحضرتﷺ پر آنے والے 38 قسم کے ابتلاؤں میں پاکیزہ تجلّیات

(عبد السمیع خان۔ گھانا)

ابتلاؤں میں تری زندگی پروان چڑھی

تیری جاں آگ میں پڑ کر بھی سلامت آئی

اہل اللہ اور ابتلاؤں کا چولی دامن کا ساتھ ہے اور قرآن کریم اور تاریخ انبیا٫استقامت کی داستانوں سے بھری ہوئی ہے۔اللہ تعالیٰ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب کر کے فرماتا ہے:

وَاصْبِرْ وَمَا صَبْرُكَ إِلَّا بِاللّٰهِ وَلَا تَحْزَنْ عَلَيْهِمْ وَلَا تَكُ فِي ضَيْقٍ مِمَّا يَمْكُرُوْنَ (النحل:128)

اے رسول تو صبر سے کام لے اور تیرا صبر کرنا اللہ کی مدد سے ہی ہو سکتا ہے اور تو ان کی حالت پر غم نہ کھا اور جو تدبیریں وہ کرتے ہیں ان کی وجہ سے تکلیف محسوس نہ کر۔

پھر فرماتا ہے:

وَلَا تُطِعِ الْكَافِرِيْنَ وَالْمُنَافِقِيْنَ وَدَعْ أَذَاهُمْ وَتَوَكَّلْ عَلَى اللّٰهِ وَكَفٰى بِاللّٰهِ وَكِيْلًا

(الاحزاب:49)

یعنی ہر دکھ کے باوجود کافروں اور منافقوں کی بات ہرگز نہ مان اور ان کی ایذا دہی کو نظر انداز کر دے اور اللہ پر توکل کر اور اللہ کار سازی میں کافی ہے۔

فَاسْتَقِمْ كَمَا أُمِرْتَ وَمَنْ تَابَ مَعَكَ

(ہود: 113)

تو استقامت دکھا جس طرح تجھے حکم دیا گیا ہے اور وہ بھی جنہوں نے تیرے ہاتھ پر توبہ کی ہے۔

یہ آیات آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے صبر واستقامت، تحمل و برداشت، توکل علی اللہ اور قرب الٰہی کا خوبصورت اور دلکش نقشہ کھینچتی ہیں جس پر رسول اللہﷺ نے خود اس طرح روشنی ڈالی ہے کہ اللہ کی راہ میں جتنا مجھے ڈرانے کی کوشش کی گئی کسی اور کےلیے ایسی کوشش نہیں ہوئی اور راہ مولیٰ میں جتنی اذیت مجھے دی گئی اتنی کسی کو نہیں دی گئی۔

(جامع ترمذی کتاب صفة القیا مة۔ حدیث نمبر2396)

امر واقعہ یہ ہے کہ ابتلا کی جتنی بھی قسمیں تصور میں آ سکتی ہیں رسول اللہؐ کو کامل اسوہ بنانے کےلیے خدا نے سب حالات سے گزارا۔ جن میں آپ نے صبر واستقامت کے لازوال نمونے قائم فرمائے۔

انسان پر جو سب سے بڑے ابتلا ممکن ہیں وہ جان، مال، وقت اور عز ت کے ابتلا ہیں۔ باقی سب ابتلا اور مشکلات ان کی ذیل اور تفاصیل میں آ جاتے ہیں۔ خاکسار کی تحقیق کے مطابق یہ 38قسم کے ابتلاہیں۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر یہ سب ابتلا آئے اور بڑی قوت اور شدت سے آئے مگر ہمارے سیدومولیٰ نے ان سب حالات میں اللہ سے وفا اور استقامت کا بے نظیر مظاہرہ فرمایا اور خلق عظیم کی تجلیات دکھاتے رہے۔

1۔ جان کا ابتلا

سب سے بڑا خوف اور ابتلا جان کا ہوتا ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو ساری عمر دشمنوں سے خطرہ رہا۔ اور وہ حتی الامکان آپ کی جان لینے کی کوشش کرتے رہے مگر آپ کبھی خوفزدہ نہ ہوئے اور کبھی توکل کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑا۔ حضرت مسیح موعودؑ پانچ خاص مواقع کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں :

’’پانچ موقعے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کیلئے نہایت نازک پیش آئے تھے جن میں جان کا بچنا محالات سے معلوم ہوتا تھا اگر آنجناب درحقیقت خدا کے سچے رسول نہ ہوتے تو ضرور ہلاک کئے جاتے (1)ایک تو وہ موقعہ تھا جب کفار قریش نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر کا محاصرہ کیا اور قسمیں کھا لی تھیں کہ آج ہم ضرور قتل کریں گے۔ (2)دوسراوہ موقعہ تھا جب کہ کافر لوگ اس غار پر معہ ایک گروہ کثیر کے پہنچ گئے تھے جس میں آنحضرتﷺ مع حضرت ابوبکرؓ کے چھپے ہوئے تھے (3)تیسرا وہ نازک موقعہ تھا جب کہ احد کی لڑائی میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اکیلے رہ گئے تھے اور کافروں نے آپ کے گرد محاصرہ کر لیا تھا اور آپ پر بہت سی تلواریں چلائیں مگر کوئی کارگر نہ ہوئی یہ ایک معجزہ تھا (4)چوتھا وہ موقعہ تھا جبکہ ایک یہود یہ نے آنجناب کو گوشت میں زہر دے دی تھی اور وہ زہر بہت تیز اور مہلک تھی اور بہت وزن اس کا دیا گیا تھا (5) پانچواں وہ نہایت خطرناک موقعہ تھا جبکہ خسر و پرویز شاہ فارس نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے قتل کیلئے مصمم ارادہ کیا تھا اور گرفتار کرنے کیلئے اپنے سپاہی روانہ کئے تھے۔ پس صاف ظاہر ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ان تمام پُر خطر موقعوں سے نجات پانا اور ان تمام دشمنوں پر آخر کار غالب ہو جانا ایک بڑی زبردست دلیل اس بات پر ہے کہ درحقیقت آپ صادق تھے اور خدا آپؐ کے ساتھ تھا۔‘‘

(چشمۂ معرفت، روحانی خزائن جلد23صفحہ263)

ایک غزوے سے واپسی پر آپؐ تنہا سوئے ہوئے تھے کہ ایک دشمن نے آپؐ کی تلوار درخت سے اتار لی اور پوچھا کہ تمہیں میرے ہاتھ سے کون بچائے گا؟ آپؐ نے بغیر کسی تامل کے فرمایا : ’’اللہ‘‘ اور تلوار اس کے ہاتھ سے چھوٹ گئی۔

(صحیح بخاری کتاب المغازی باب غزوہ ذات الرقاع حدیث نمبر3822)

جنگ حنین میں دشمن آپؐ کی جان لینے کے درپے تھا اور پوری شجاعت اور حوصلہ سے بآواز بلند فرما رہے تھے۔

اَنَا النَّبِیُّ لَا کَذِبَ اَنَا اِبْنُ عَبْدِالمُطَّلِب

(صحیح بخاری کتاب المغازی باب یوم حنین حدیث نمبر3973)

یہ اس بات کا اعلان عام تھا کہ میرے صحابہ کا تعاقب نہ کرو۔ اصل دشمنی میرے سے ہے تومیری طرف آؤمگر خدا تمہیں مجھ پر غالب نہیں کرے گا۔ جان کے اس پر خطر ابتلا سے رسول اللہ ﷺجس طرح کامران گزرے اس پر تاریخ شجاعت ہمیشہ ناز کرتی رہے گی۔

2۔ مال کا ابتلا

جان کے بعد سب سے بڑا اور مہیب ابتلا مال کا ہوتا ہے اور اس کا ہر پہلو انسان کے اوسان خطا کر دیتا ہے۔ بعض لوگ مال کی کمی سے آزمائے جاتے ہیں اور بعض مال کی کثرت سے اور بعض خدا کی راہ میں مال کی قربانی سے آزمائے جاتے ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان تمام میدانوں میں ابنائے آدم کےلیے ہر پہلو سے بہترین نمونہ چھوڑا ہے۔

3۔ مال کی کمی کا ابتلا

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے والد ماجد تو آپ کی پیدائش سے پہلے ہی فوت ہو گئے تھے۔ اور آپؐ کی والدہ ماجدہ نے آپؐ کا ساتھ جلد ہی چھوڑ دیا اور آپؐ کےلیے کوئی خاص ترکہ بھی نہ چھوڑا۔ مگر آپؐ نے کبھی قلت مال کا شکوہ نہ کیا۔ آغاز جوانی میں ہی چند قراریط کے عوض اہل مکہ کی بکریاں چرا کر محنت کی حلال کمائی حاصل کی۔

(صحیح بخاری کتاب الاجارہ باب رعی الغنم۔ حدیث نمبر 2120)

آپؐ نے پاکیزہ تجارت کی۔ حضرت خدیجہؓ نے بھی آپ کو مال دے کر بھیجا۔ مگر آپؐ کو خدا نے غربت اور مال کی کمی کے سارے ابتلاؤں میں سرخرو کیا۔ کوئی حرص کوئی بددیانتی یا ناجائز مال کی خواہش آپؐ کا دامن نہ چھو سکی۔ لوگ آپؐ کے پاس دعویٰ نبوت سے پہلے بھی امانتیں رکھا کرتے تھے اور قوم میں آپؐ صادق اور امین کے نام سے مشہور تھے اور دعویٰ نبوت کے بعد بھی باوجود دشمنی کے یہ سلسلہ جاری رہا اور مکہ سے ہجرت تک لوگ آپ کے پاس امانتیں رکھواتے رہے اور آپؐ ہجرت کے وقت حضرت علیؓ کو گویا موت کے منہ میں مکہ چھوڑ گئے تاکہ وہ لوگوں کی امانتیں واپس کر کے مدینہ آ جائیں۔

4۔ کثرت مال کا ابتلا

حضرت خدیجہؓ نے شادی کے بعد اپنا سارا مال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کر دیا۔ مگر آپؐ نے وہ سارا مال راہ مولیٰ میں لٹا دیا۔ مدینہ میں فتوحات کے بعد آپؐ کی خدمت میں ڈھیروں ڈھیر اموال آئے مگر آپ نے ایک ایک پائی کے متعلق امانت و دیانت کے اعلیٰ معیار قائم کیے اور خدا کے دین کی سر بلندی اور مخلوق کی خدمت کےلیے ذرّہ ذرّہ صرف کر دیا۔ آپؐ فرمایا کرتے تھے کہ بسااوقات گھر میں بستر پر یا کسی اور جگہ کوئی کھجور پڑی ملتی ہے میں اٹھاتا ہوں اور (بھوک کی وجہ سے) کھانے لگتا ہوں مگر معاً خیال آتا ہے کہ کہیں صدقہ کی نہ ہو تب اس کے کھانے کا ارادہ ترک کر دیتا ہوں۔

(صحیح بخاری کتاب اللقطہ باب اذا وجد تمرة فی الطریق حدیث نمبر2253)

ایک دفعہ باہر سے کچھ مال آیا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت بلالؓ کو تقسیم کرنے کا ارشاد فرمایا۔ سارے مستحقین مال لے گئے کچھ مال پھر بھی بچ گیا۔ آپؐ نے فرمایا میں اس وقت تک اپنے گھر نہیں جاؤں گا جب تک اس کا ذرہ ذرہ تقسیم نہیں ہو جاتا۔ مجھے اس مال سے نجات دلاؤ۔ مگر کوئی لینے والا نہ آیا تو رسول اللہﷺ نے وہ رات مسجد میں گزاری۔ اگلے دن وہ مال حضرت بلالؓ نے کسی مستحق کو دے دیا تو آپؐ اطمینان سے گھر تشریف لے گئے۔

(سنن ابی داؤد کتاب الخراج باب فی ا لامام یقبل ھدایا المشرکین حدیث نمبر2656)

آپؐ فرماتے تھے:

’’خدا کی قسم میں آسمان میں بھی امین ہوں اور زمین پر بھی امین ہوں۔‘‘

(شفاء عیاض جلد 1 صفحہ 50)

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں :

’’جب مدت مدید کے بعد غلبہ اسلام کا ہوا۔ تو ان دولت اور اقبال کے دنوں میں کوئی خزانہ اکٹھا نہ کیا۔ کوئی عمارت نہ بنائی۔ کوئی بارگاہ طیار نہ ہوئی کوئی سامان شاہانہ عیش و عشرت کا تجویز نہ کیا گیا۔ کوئی اور ذاتی نفع نہ اٹھایا۔ بلکہ جو کچھ آیا وہ سب یتیموں اور مسکینوں اور بیوہ عورتوں اور مقروضوں کی خبر گیری میں خرچ ہوتا رہا اور کبھی ایک وقت بھی سیر ہو کر نہ کھایا۔‘‘

(براہین احمدیہ، روحانی خزائن جلد1صفحہ 109)

پھر فرمایا:

’’خدائے تعالیٰ نے بے شمار خزائن کے دروازے آنحضرت پر کھول دئیے۔ سو آنجناب نے ان سب کو خدا کی راہ میں خرچ کیااور کسی نوع کی تن پروری میں ایک حبہ بھی خرچ نہ ہوا۔ نہ کوئی عمارت بنائی۔ نہ کوئی بارگاہ تیار ہوئی بلکہ ایک چھوٹے سے کچے کوٹھے میں جس کو غریب لوگوں کے کوٹھوں پر کچھ بھی ترجیح نہ تھی۔ اپنی ساری عمر بسر کی۔ بدی کرنے والوں سے نیکی کر کے دکھلائی اور وہ جودلآزار تھے ان کو ان کی مصیبت کے وقت اپنے مال سے خوشی پہنچائی۔ سونے کے لئے اکثر زمین پر بستر اور رہنے کیلئے ایک چھوٹا سا جھونپڑا اور کھانے کیلئے نان جو یا فاقہ اختیار کیا۔ دنیا کی دولتیں بکثرت ان کو دی گئیں پر آنحضرت نے اپنے پاک ہاتھوں کو دنیا سے ذرا آلودہ نہ کیا۔ اور ہمیشہ فقر کو تو نگری پر اور مسکینی کو امیری پر اختیار رکھا۔‘‘

(براہین احمدیہ، روحانی خزائن جلد1صفحہ 289)

5۔ مال چھوڑنے کا ابتلا

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ہجرت مدینہ کے وقت مکہ میں اپنے تمام اموال برضا و رغبت خدا کی خاطر چھوڑ دیے اور کبھی بھول کر بھی ان کا تذکرہ نہیں کیا۔ یہاں تک کہ جب آپ فاتحانہ شان سے مکہ میں داخل ہوئے اور آپ سے کہا گیا کہ آپ اپنے آبائی مکان میں قیام فرمائیں گے تو آپؐ نے فرمایا:

ھَلْ تَرَکَ لَنَا عَقِیْلٌ مِنْ مَنْزِلً۔

یعنی کیا عقیل (بن ابی طالب) نے ہمارے لیے کوئی مکان چھوڑا ہے اور آپ نےوہ سابقہ جائیداد واپس لینا تو درکنار ان میں ٹھہرنا بھی پسند نہیں کیا۔ اور خیف بنی کنانہ میں فروکش ہوئے۔

(صحیح بخاری کتاب المغازی باب این رکز النبی حدیث نمبر3946-3947)

راہ خدا میں اور خدمت مخلوق میں آپ کا سارا مال اور جائیداد وقف رہی۔ کبھی دین کےلیے جہادبالسیف کی ضروریات کی خاطر کبھی مہمان نوازی کی شکل میں کبھی بھوک مٹانے کےلیے کبھی ننگ ڈھانپنے کےلیے کبھی تبرک کے حصول کی درخواست کرنے والوں کےلیے۔ اپنے بعد چھوڑ ے جانے والے مال کے متعلق فرمایا مَاتَرَکْنَا فَھُوَ صَدَقَةٌ ہم نے نہ کوئی ورثہ پایا اور نہ کوئی ورثہ چھوڑا۔ ہم نے جو بھی چھوڑا ہے وہ صدقہ یعنی قومی مال ہے۔

(صحیح بخاری کتاب فرض الخمس۔ حدیث نمبر 2862)

حضرت عائشہؓ کی روایت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے وفات کے وقت نہ درہم چھوڑا نہ دینار۔ نہ غلام نہ لونڈی، نہ کوئی اور چیز سوائے ایک سفید خچر کے، کچھ اسلحہ کے اور زمین کے جسے آپ نے صدقہ کردیا تھا۔

(صحیح بخاری کتاب الوصایا باب الوصایا۔ حدیث نمبر 2534)

6۔ وقت کا ابتلا

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے کام ایک لحاظ سے غیر محدود تھے۔ مگر آپ کے پاس وقت بہت محدود تھا۔ دعویٰ نبوت کے بعد آپ نے 23سال زندگی پائی۔ جوانتہائی مصروف اور معمور الاوقات تھی۔ اللہ تعالیٰ خود گواہی دیتا ہے

اِنَّ لَکَ فِی النَّہَارِ سَبۡحًا طَوِیۡلًا

(المزمل:8)

یقیناً تیرے لئے دن کو بہت لمبا کام ہوتا ہے۔

واقعہ یہ ہے کہ آپ کے دن اگر ایک عالم کو زندہ کرنے، ایک نئے زمین وآسمان کی تخلیق کرنے اور اسے دشمنوں کے شر سے محفوظ رکھنے میں صرف ہوتے تھے تو آپ اپنی راتوں کو دعائوں اور گریہ وزاری سے زندہ کرتے تھے۔ ا تنا کہ آپ کے پاؤں سوج جاتے تھے۔ اس پس منظر میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جس طرح وقت کے ایک ایک لمحے کا استعمال بے پناہ کامیابی سے کیا اس کے نتیجہ میں آسمان سے

اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ (مائدہ:4)

اور زمین سے بَلَّغْتَکی صدا آئی۔ اتنے مختصر عرصہ میں یہ بے نظیر کامیابی صرف اور صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو حاصل ہوئی۔ آپؐ کا ہر آنے والا دن پہلے سے بڑھ کر عظمتوں کا پیغام لاتا رہا۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے

وَ لَلۡاٰخِرَۃُ خَیۡرٌ لَّکَ مِنَ الۡاُوۡلٰی(الضحیٰ :5)

یعنی تیری ہر بعد میں آنے والی گھڑی پہلی سے بہتر ہوتی ہے۔ باوجود نہایت مصروفیت کے آپؐ نے حقوق اللہ اور حقوق العباد کی ادائیگی میں حسین توازن کی لازوال مثالیں قائم فرمائیں۔ عبادات کا قیام۔ قیام اللیل۔ نزول وحی اور اس کی تلاوت وحفاظت کا انتظام۔ دعوت الی اللہ، جہاد کی ہر قسم کی بروقت ادائیگی، مسلمان ہونے والوں کی تربیت، لٹ پٹ کر آنے والوں کے قیام و طعام کاانتظام، غیر قوموں سے معاہدات اور تعلقات، مہمان نوازی۔ ان تمام بڑے بڑے امور کے ساتھ اہل وعیال کی پوری دلداری اور حقوق کی ادائیگی، گھر کے کاموں میں ان کے ساتھ شرکت حتٰی کہ غریب لونڈی کی بات سننے کےلیے اس کے ساتھ چل پڑنا۔ یہ صرف محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہی جگر تھا۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام انتہائی کم وقت میں آپﷺ کی بے نظیر کامیابی کا تذکرہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں :

’’آپ دنیا میں اس وقت آئے جبکہ دنیا کی حالت بالطبع مصلح کو چاہتی تھی اور پھر آپ اس وقت اٹھے جب پوری کامیابی اپنی رسالت میں حاصل کر لی۔

اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ

کی صدا کسی دوسرے کو نہیں آئی اور اِذَا جَاءَ نَصْرُاللّٰہ …… پوری کامیابی کا نظارہ اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا۔‘‘

(ملفوظات جلد 2صفحہ 229)

7۔ عزت کا ابتلا

دشمنوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت کو اپنی طرف سے پامال کرنے میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔ آپؐ کو ہر قسم کی گالیاں دینے کے علاوہ آپ کا نام بگاڑنے کی کوشش کی مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مسکراہٹ، بشاشت اور اولوالعزمی نہ چھین سکے۔جب دشمن نے آپ کو مذمم قرار دے کر بر ا بھلا کہنا شروع کیا تو آپؐ نے کس لطافت سے فرمایا:

’’کیا تم اس بات پر تعجب نہیں کرتے کہ اللہ تعالیٰ مجھے قریش کی گالیوں سے کس طرح بچاتا ہے۔ وہ کسی مذمم کو گالیاں دیتے اور لعنت ملامت کرتے ہیں جبکہ میں تو محمد ہوں۔‘‘

(صحیح بخاری کتاب المناقب باب فی اسماء الرسول حدیث نمبر3269)

اسی صبر کے نتیجہ میں حضرت حمزہؓ کو اسلام نصیب ہوا۔ ایک دفعہ ابوجہل نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو راستہ میں روک لیاآپ کو سخت گالیاں دیں اور جسمانی اذیت بھی پہنچائی مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہرگز کوئی جواب نہ دیا۔ عبداللہ بن جدعان کی ایک لونڈی یہ سارا منظر دیکھ رہی تھی۔ حضرت حمزہؓ اس وقت شکار کے لیے گئے ہوئے تھے۔ واپس آئے تو لونڈی نے انہیں سارا حال سنایا۔ حضرت حمزہؓ اس وقت مشرک تھے مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بہت محبت کرتے تھے۔ اس موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مظلومیت اور ابوجہل کا ظلم سن کر حضرت حمزہؓ غصہ سے بھر گئے۔ اس وقت ابوجہل صحن کعبہ میں تھا۔ حضرت حمزہؓ نے جاتے ہی ابوجہل کے سر پر اپنی کمان دے ماری جس سے اس کا سرزخمی ہو گیا۔ کئی آدمی ابوجہل کی مدد کےلیے آئے اور کہا لگتا ہے تم بھی صابی ہو گئے ہو۔ حضرت حمزہؓ نے کہا جب اس کی حقانیت مجھ پر ظاہر ہو گئی ہے تو پھر کون سی چیز مجھے باز رکھ سکتی ہے میں گواہی دیتا ہوں کہ محمدخدا کے رسول ہیں۔ اگر تم میں ہمت ہے تو مجھے روک کر دکھاؤ۔ ابو جہل بھی آپ کا جوش اور بہادری دیکھ کر مرعوب ہو گیا اور اپنے ساتھیوں کو جوابی کارروائی سے روک دیا۔

(اسد الغابہ جلد 2صفحہ 46)

آپؐ کی زوجہ مطہرہ حضرت عائشہؓ پر ناپاک الزام لگانے والے کے بیٹے نے اس جرم میں اپنے باپ کو قتل کرنے کی اجازت مانگی مگر رسول اللہﷺ نے انکار فرمایا۔

(اسد الغابہ جلد 3صفحہ 197)

یہی بدباطن شخص جب فوت ہوا تو رسول اللہﷺ نے اس کو اپنا کرتہ بطور کفن پہنایا اور باوجود صحابہ کے روکنے کے آپؐ نے اس کا جنازہ پڑھایا اور مغفرت کی دعاکی۔

(صحیح بخاری کتاب التفسیر باب استغفرلھم حدیث نمبر4302)

عزت کے ابتلا میں رسول اللہؐ کی طرح کون سرخرو ہو سکتا ہے۔

ان چارمرکزی ابتلاؤں یعنی جان مال وقت اور عزت کی کوکھ سے بے شمار دکھ اور مصائب جنم لے رہے تھے اور زندگی کے رنگوں میں سے ہر رنگ اور باغ حیات کا ہر پتا اذیت رسانی پر تل گیا تھا۔ ساری دنیا بھڑوں کا چھتہ بن گئی تھی۔ مگر ہمارے آقا و مولیٰ کے دل کی وسعت دیکھیے کہ ہر زہر کو سینے میں اتارتے چلے گئے اور اس پاکیزہ سینے میں جا کروہ زہر ہلاہل میٹھے اور خوشبودار شہد میں تبدیل ہوتا چلا گیا۔ وہ ابتلازمینی اور ابنائے دنیا کے ہوں یا آسمانی اور آفات سماوی سے تعلق رکھتے ہوں ہر ایک نے پور اپورا سر پٹکا مگر محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کا سر جھکا نہ سکا۔ ہاں جھکا تو اسی ایک خالق و مالک کے آگے جس نے وہ سر اسی لیے بنایا تھا۔ آئیے اس خارزار کا کچھ مزید تفصیل سے جائزہ لیتے ہیں۔

8۔ یتیمی کا ابتلا

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی اپنے والد کا چہرہ نہیں دیکھا کیونکہ وہ آپ کی پیدائش سے قریباً6ماہ قبل فوت ہو چکے تھے۔ یتیمی خود ایک بہت بڑا ابتلا ہے۔ والد کے سایہ شفقت سے محرومی تربیت کے بے شمار نقص پیدا کر سکتی ہے مگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ان تمام خرابیوں سے محفوظ رکھے گئے۔ اس ابتلا سے کامیاب گزرنا اللہ تعالیٰ کی طرف سے آپؐ پر ایک خاص انعام تھا۔ جس کا ذکر اللہ تعالیٰ یوں فرماتا ہے:

اَلَمۡ یَجِدۡکَ یَتِیۡمًا فَاٰوٰی

(الضحٰی:7)

یعنی کیا اس نے تجھے یتیم نہیں پایا تھا۔ پس پناہ دی۔

اس یتیمی کے دَور کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیشہ لاج رکھی اور اپنی امّت کو یتامیٰ کی خبر گیری کی ہمیشہ خصوصی تلقین فرماتے رہے یہاں تک فرمایا کہ یتیم کی کفالت کرنے والا جنت میں میرے ساتھ ہوگا۔

(ابن ماجہ کتاب الادب باب حق الیتیم حدیث نمبر3670)

9۔ والدہ سے جدائی اور وفات کاابتلا

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائش کے تھوڑے عرصہ بعد آپ کو حضرت حلیمہ سعدیہ کے سپرد کیا گیا جو آپ کو دودھ پلانے کےلیے اپنے قبیلہ میں لے گئیں۔ دو سال بعد آپ چند دن اپنی والدہ کے پاس آئے اور پھر حضرت حلیمہ کے ساتھ چلے گئے۔ او رپھر دو سال کے بعد والدہ کے پاس آئے اس وقت حضورﷺ کی عمر 4سال کی تھی۔ 6سال کی عمر میں والدہ کے ساتھ مدینہ کے سفر سے واپسی پر حضرت آمنہ فوت ہو گئیں۔ اس طرح آپ کو اپنی والدہ کے ساتھ رہنے کا بہت کم موقع ملا۔ والد کے بعد والدہ کی وفات کے ساتھ پوری طرح یتیم کی حالت میں آ گئے۔ مگر آپ کے لب پر کوئی شکوہ نہ آیا۔ آپؐ اس ابتلا سے بھی عظیم کامیابی سے گزرے اور آپؐ کا بچپن ہر لحاظ سے ایک مثالی بچپن قرار پایا۔

10۔ بچپن کا ابتلا

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ایک ایسے معاشرے میں پیدا ہوئے جو راگ رنگ اور رقص و سرود کا دلدادہ تھا۔ مگر آپ کی لطیف ترین اور نفیس ترین فطرت کو اس سے کوئی مناسبت نہ تھی۔ اور اگر کبھی بھولے سے کوئی خیال آ بھی گیا تو اللہ تعالیٰ نے اپنے خاص فضل سے آ پؐ کی حفاظت فرمائی۔ اس زمانے میں یہ دستور تھا کہ رات کے وقت لوگ کسی مکان پر جمع ہو کر کہانیاں سناتے اور غزل کا شغل کیا کرتے تھے اور ساری ساری رات اس میں گزار دیتے تھے۔ بچپن کے شوق میں ایک دفعہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بھی یہ تماشا دیکھنے گئے۔ یہ اس وقت کی بات ہے جب آپؐ بکریاں چرایا کرتے تھے۔ آپ نے اپنے ساتھی سے جو بکریاں چرانے میں آپ کا شریک تھا فرمایا تم میری بکریوں کاخیال رکھو میں ذرا شہر جا کر لوگوں کی مجلس دیکھ آؤں۔ راستے میں شادی کی کوئی تقریب تھی جہاں گانے بجانے کا کام زوروں پر تھا۔ آپؐ وہاں تعجب سے کھڑے ہو گئے۔ مگر اللہ تعالیٰ کو اس لغو کام میں آپؐ کی شرکت پسند نہ آئی اور آپؐ پر فوراً نیند طاری کر دی اور صبح تک سوتے رہے یہاں تک کہ مجلس ختم ہو گئی۔ ایک دفعہ اور یہی خیال آیامگر پھر دست غیبی نے روک دیا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ میں نے چالیس سال کی مدت میں صرف دو دفعہ اس قسم کی مجلس میں جانے کا ارادہ کیا مگر دونوں دفعہ روک دیا گیا۔

(تاریخ طبری جلد1صفحہ 520از محمد بن جریر طبری۔ دارالکتب العلمیہ بیروت 1407۔ طبع اول)

11۔ بے گھر ہونے کا ابتلا

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے والد اور پھر والدہ کی وفات کے بعد عملاً آپ کا گھرانہ ختم ہو گیا اور آپ کو اپنا گھر چھوڑ کر پہلے دادا اور پھر چچا کی کفالت میں آنا پڑا۔

اس دَور میں بھی آپ کی طرف سے بے صبری اور شکوہ شکایت کا کوئی کلمہ نہیں ملتا۔ دادا اور چچا کے گھر میں آپ نے بہترین اور عالی کردار کا مظاہرہ کیا جس کی وجہ سے دونوں آپ کو بے حدمحبوب رکھتے تھے۔

12۔ سرپرستوں کی وفات کا ابتلا

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر 8سال کی تھی جب آپ کے دادا عبدالمطلب وفات پا گئے اور آپ اپنے چچا حضرت ابوطالب کے زیر کفالت آ گئے۔ انہوں نے آپ پر بہت شفقت کی۔دعویٰ نبوت کے بعد بھی دشمنوں کے مقابل پر ہمیشہ آپ کی حمایت میں کمربستہ رہے۔ یہاں تک کہ شعب ابی طالب میں وہ خود اپنی خوشی سے محصور رہے اور اسی کی سختیوں اور تنگیوں کی وجہ سے وفات پا گئے۔ والدین اور دادا کی وفات کے بعد یہ آپؐ کیلئے بہت بڑا صدمہ اور ابتلا تھا۔ جسے آپؐ نے کامیابی سے جھیلا۔

13۔ عزیزوں کی وفات کا ابتلا

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو والدین اور سر پرستوں کی وفات کے علاوہ متعدد عزیزوں اور پیاروں کی وفات کا صدمہ برداشت کرنا پڑا۔ بیویوں میں سے حضرت خدیجہؓ کی وفات ہجرت سے قبل ہوئی۔ تمام بیٹے جن کی تعداد 4بیان کی جاتی ہے اور آخری عمر کی اولاد میں حضرت ابراہیم بھی 9ہجری میں فوت ہوئے جن کی وفات پر آپؐ نے فرمایا ہمارا دل غمگین ہے آنکھیں آنسو بہاتی ہیں لیکن ہم وہی کہیں گے جس سے ہمارا ربّ راضی ہو۔ (صحیح بخاری کتاب الجنائز باب قول النبی انا بفراقک حدیث نمبر1220) بیٹیوں میں سے حضرت رقیہ عین جنگ بدر کے ایام میں فوت ہو ئیں۔ حضرت زینب نے 8ھ میں اور حضرت ام کلثوم نے 9ھ میں انتقال کیا۔ بعض روایات کے مطابق آپؐ کے 11 بیٹے، بیٹیاں فوت ہوئے۔ آپؐ کے چچا حضرت حمزہ جنگ احد میں شہید ہوئے اور ان کا مثلہ کیا گیا۔ مگر آپﷺ نے کمال ضبط و تحمل کامظاہرہ فرمایا اور دیگر صبر نہ کر سکنے والوں اور واویلا کرنے والوں کو روک دیا۔

(سنن ابن ماجہ کتاب الجنائز باب البکاء علی المیت حدیث نمبر1580)

آپؐ کے چچا زاد بھائی حضرت جعفر جنگ موتہ میں 8ھ میں شہید ہوئے ان کی شہادت کی خبر دیتے وقت بھی آپ کی آنکھیں آنسوؤں سے بھری ہوئی تھیں مگر دل میں کوئی شکوہ نہ تھا (صحیح بخاری کتاب المغازی باب غزوہ موتہ حدیث نمبر3929) رسول اللہﷺ کے منہ بولے بیٹے جو ایک زمانہ میں زید بن محمد کہلاتے تھے مگر بعد میں خدا نے اس نسبت سے ر وک دیا وہ بھی اسی جنگ میں شہید ہوئے۔ قریبی رشتہ داروں کے علاوہ بیسیوں صحابہ آپ کی حفاظت کرتے ہوئے مختلف غزوات میں خدا کو پیارے ہوئے۔ یہ سب آپ کو بہت پیارے تھے بہت محبوب تھے مگر خدا ان سے بڑھ کرمحبوب تھا۔ ان سب کی شہادت دیکھنا ایک روح فرسا منظر تھا مگر خدا کی رضا کی خاطر آپ نے اس ابتلا کو بخوشی قبول کیا۔ بہت سے صحابہ اور صحابیات طبعی عمر پا کر رخصت ہوئے۔ ان سب کےلیے بھی رسول اللہﷺ کے دل میں بے انتہا درد تھا۔ مگر کوئی شکوہ اور بے صبر ی کا کلمہ آپؐ کے منہ سے نہیں نکلا۔

14۔ جوانی کا ابتلا

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ایسے حال میں جوان ہوئے کہ والدین اور بزرگوں کا سایہ سر پر نہ تھا۔ آپ کے کفیل چچا ابوطالب سرداران قریش میں سے تھے اور آپ ان کے لاڈلے تھے۔ عرب کا ماحول جہاں ہر قسم کی بدکاری اور گناہ عروج پر تھے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی جوانی پاکیزگی اور طہارت کا شاہکار تھی۔ اس علاقے میں لڑکے اور لڑکیاں بہت جلد جوان ہو جایا کرتے تھے مگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شادی کا کسی کو خیال نہ تھا یہاں تک کہ آپ کی ذہانت اور تجارتی دیانت دیکھ کر حضرت خدیجہؓ نے خود ہی آپؐ سے شادی کی درخواست کی۔25سال کے تہی دست خوبرو مرد کی40سالہ دولت مند بڑی عمر کی خاتون سے شادی جس کے پہلے دوشوہر فوت ہو چکے تھے اور اولاد بھی تھی گھریلو اور ازدواجی مسائل پیدا کرنے کےلیے کافی امور تھے مگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے تقویٰ اور فراست کے نتیجہ میں حضرت خدیجہؓ پہلے سے بڑھ کر آپؐ کی گرویدہ ہوتی گئیں اور کوئی معمولی سا اختلاف تو کیا آپؐ کے عشق میں سرشار ہو گئیں۔ اور خدا نے جب آپ پر پہلی وحی نازل فرمائی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پریشانی کا اظہار فرمایا تو حضرت خدیجہؓ نے سب سے پہلے آپ کی صداقت کی گواہی دی اور آپؐ کے جوانی کے سارے کردار کا خلاصہ ان الفاظ میں نکالا کہ

’’خدا تعالیٰ آپ کو کس طرح ضائع کرسکتا ہے۔ آپ تو صلہ رحمی کرتے ہیں مظلوموں کے بوجھ ہلکے کرتے ہیں مہمان نوازی کرتے ہیں صداقت اور امانت کے اعلیٰ معیاروں پر قائم ہیں۔ گمشدہ اخلاق کو زندہ کرتے ہیں اور زمانے کے پسے ہوئے لوگوں کی مدد کرتے ہیں۔‘‘

(صحیح بخاری کتاب بدء الوحی حدیث نمبر3)

اسی دَور میں آپ نے قوم سے صادق اور امین کا خطاب حاصل کیا۔ اور خانہ کعبہ کی تعمیر کے وقت آپ نے بطور امین قوم کی پسندیدگی سے حجر اسود نصب کیا۔ (سیرت ابن ہشام حدیث بنیان الکعبہ جلد اول صفحہ 197) قیصر روم کے دربار میں ابو سفیان نے اس بات کا اقرار کیا کہ ہم نےمحمد پر دعویٰ نبوت سے قبل کبھی جھوٹ کا الزام نہیں لگایا۔ (صحیح بخاری کتاب بدء الوحی حدیث نمبر6)اور کوہ صفا پر بھی قوم نے متفقہ طور پر گواہی دی کہ

مَاجَرَّبْنَا عَلَیْکَ اِلَّاصِدْقًا۔

ہم نے آپ سے صداقت کے علاوہ اورکچھ نہیں دیکھا۔ (صحیح بخاری کتاب التفسیر سورة الشعراء حدیث نمبر4397) یہی وہ بے داغ جوانی ہے جسے اللہ تعالیٰ نے دعویٰ کے بعد رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی صداقت میں پیش کرنے کا حکم دیا اور فرمایا۔ کہو میں رسالت سے پہلے بھی تمہارے درمیان ایک لمبی عمر گزار چکا ہوں تو کیا تم عقل نہیں کرتے۔

فَقَدْ لَبِثْتُ فِيْكُمْ عُمُرًا مِّنْ قَبْلِهِ أَفَلَا تَعْقِلُوْنَ۔ (یونس:17)۔

اسی پُر بہار جوانی کے گواہ حضرت ابو بکرؓ اور دیگر سعید روحیں تھیں جنہوں نے آپؐ کے دعویٰ کو سنتے ہی قبول کر لیا تھا ایسی جوانی کب کسی کونصیب ہوتی ہے۔

15۔ کثرت اہل وعیال کا ابتلا

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم دنیا اور اس کی لذتوں سے پہلو بچانا چاہتے تھے اور جہاں تک ہو سکا آپ نے ایسا کیا لیکن خدا تعالیٰ کی منشا اور اسوہ بننے کی خاطر دنیا کی سب ضروری ذمہ داریاں نبھائیں اور ان معنوں میں یہ بھی ابتلا تھاکہ اللہ کے حکم سے آپ نے شادیاں کیں اور سب حقوق ادا فرمائے اور بلند ترین معیار قائم کیے۔ آپ نے خدا کے منشاء کے ماتحت 12کے قریب شادیاں کیں اور ایک وقت میں 9 بیویاں بھی رہیں یہ کوئی معمولی مجاہدہ نہیں تھا۔ ان سب کی رہائش معیشت، خورونوش اور آرام وسکون کا بندوبست کرنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بے پناہ روحانی ذمہ داریوں کے دوران ایک اضافی کام تھا خصوصاً جب کہ سب بیویوں کے قبائل، ذوق، مزاج اور ضروریات مختلف ہوں ان میں سے صرف حضرت عائشہؓ اور ماریہ قبطیہؓ کنواری تھیں باقی سب بیوہ تھیں بعض کی سابقہ خاوندوں سے اولاد بھی تھی اس لیے ان کے حقوق بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہی کو ادا کرنے تھے۔ ان سب کے ساتھ محبت اور تربیت کے جائز تقاضے پورے کرنا اور کسی کی حق تلفی نہ ہونے دینا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی عظیم وسعت حوصلہ کو خراج تحسین پیش کرنے پرمجبو رکر دیتا ہے۔

16۔ قوم کی مخالفت کا ابتلا

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم دعویٰ نبوت کے بعد قوم میں سب سے مقہور قرار دیے گئے۔ وہ جو صادق اور امین تھا اس پر ہر طرح کے گندے الزام لگائے گئے وہ جو آپ کی راہ میں آنکھیں بچھاتے تھے انہوں نے ہاتھ میں پتھر اٹھا لیے۔ وہ جو پیار کرتے تھے نفرت سے دیکھنے لگے۔ سارے مکہ میں سوائے چند کے تمام خون کے پیاسے ہو گئے۔ بلاشبہ جتنے کچوکے رسول اللہﷺ کے دل پر ان کی قوم نے لگائے کسی اور نبی کی قوم کو یہ موقع نہیں ملا۔ اس لیے کہ اللہ تعالیٰ ہرنبی پر اس کی ہمت کے مطابق ابتلا وارد کرتا ہے۔ اور اس میدان کے شہسوار حضرت اقدس محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہی تھے۔

17۔ تضحیک اور تمسخر کا ابتلا

نام بگاڑنے کے علاوہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو مسلسل تضحیک اور استہزا کا نشانہ بنایا گیا۔ کبھی ساحر کہا گیا کبھی مجنون کبھی صابی اور بے دین۔ آپ کے بارےمیں ہر قسم کی غلط افواہیں پھیلائی گئیں تاکہ باہر سے آنے والے آپ کے قریب نہ آ سکیں یہاں تک کہ طفیل بن عمرو دوسیؓ کانوں میں روئی ڈال کر پھرتے رہے۔ (طبقات ابن سعد جلد4 صفحہ237) مگر یہ تمام ابتلا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق عالیہ کی ضربوں سے پارہ پارہ ہو تے رہے۔ اورسعید فطرت آپؐ کو پہچان کر آپ کے دست حق پرست پر اکٹھے ہوتے رہے۔

18۔ بدہمسایوں اور دشمنوں کا ابتلا

وہ شخص جہاں اپنی پوری قوم کا معتوب تھا اور صبح سے شام تک طعن وتشنیع کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ تھا وہاں مظلوم کو گھر میں بھی چین کے چند لمحے میسر نہ تھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مکی زندگی میں ابو لہب اور عقبہ بن ابی معیط حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پڑوسی تھے جو آپ کے دونوں طرف آباد تھے۔ اور ان کی شرارتوں میں گھرے ہوتے تھے۔ یہ لوگ بیرونی مخالفت کے علاوہ گھر میں بھی ایذا پہنچانے سے باز نہ آتے تھے۔ اور تنگ کرنے کےلیے غلاظت کے ڈھیر حضورؐ کے دروازے پر ڈال دیتے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب باہر نکلتے تو خود اس غلاظت کو راستے سے ہٹاتے اور صرف اتنا کہتے!! اے عبد مناف کے فرزندو یہ تم کیا کر رہے ہو۔ کیا یہی حق ہمسائیگی ہے۔ (طبقات ابن سعد جلد1صفحہ 201بیروت 1960ء داربیروت للطباعة وا لنشر) مدینہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تین یہودی قبائل قیام پذیر تھے جنہوں نے ہر موقع پر ڈسنے کی کوشش کی۔ بنو قینقاع، بنو نضیراور بنوقریظہ تینوں کے ساتھ امن اور صلح کے معاہدے تھے مگر سب نے غداری کی او ر چھرا گھونپا مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس ابتلا سے بھی کامیابی سے گزر گئے۔ بعض کو ان کی شریعت کے مطابق سزائیں دی گئیں اور جنہوں نے معافی مانگی ان کو معاف کر دیا گیا۔

19۔ جسمانی تکالیف کا ابتلا

دشمن نے قلبی اور ذہنی اذیتوں کے علاوہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو جسمانی تکایف پہنچانے میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔ حضرت عبداللہ بن مسعودؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک نبی کا ذکر فرما رہے تھے آپ نے فرمایا اس نبی کو اس کی قوم نے اتنا مارا کہ اسے لہولہان کر دیا۔ وہ نبی اپنے چہرہ سے خون پونچھتا جاتا اور کہتا تھا۔ اے اللہ میری قوم کو بخش دے کیونکہ یہ نہیں جانتے۔

(صحیح بخاری کتاب احادیث الانبیاء باب حدیث الغار حدیث نمبر3217)

آنحضرتﷺ کی زندگی میں کتنے ہی مواقع آئے جب قوم نے آپ کو سر سے پاؤں تک لہولہان کر دیا۔ مثلاً سفرِِ طائف سے واپسی پر اوباش غنڈوں نے آپ کا خون بہایا جنگ احد میں آپ سخت زخمی ہو کر لاشوں کے انبار میں جا گرے مگر ہمیشہ صبر و تحمل اور عفو درگزر آپ کا شیوہ رہا اور انکساری کی حد یہ ہے کہ اپنے ساتھ بیتنے والا یہ واقعہ اپنی طرف منسوب نہیں کرتے بلکہ صیغہ غائب میں ذکر کرتے ہیں گویا کسی اور کے ساتھ یہ واقعہ ہوا ہے۔ ایک دفعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کعبہ کے پاس نماز پڑھ رہے تھے عقبہ بن ابی معیط غصہ میں اٹھا اور آپ کے گلے میں کپڑا ڈال کر اس زور کے ساتھ بھینچا کہ آپ کا دم رکنے لگ گیا۔ حضرت ابوبکرؓ کو علم ہوا تو وہ دوڑے آئے اور آپ کو اس بدبخت کے شر سے بچایا اور قریش سے مخاطب ہو کر کہا : اَتَقْتُلُوْنَ رَجُلًا اَنْ یَّقُوْلَ رَبِّیَ اللّٰہُ کیاتم ایک شخص کو صرف اس لیے قتل کرتے ہو کہ وہ کہتا ہے کہ میرا ربّ اللہ ہے۔

(صحیح بخاری کتاب المناقب باب مالقی النبی واصحابہ حدیث نمبر3567)

ایک دفعہ آپ صحن کعبہ میں خدا تعالیٰ کے سامنے سر بسجود تھے اور چند رؤساء قریش بھی وہاں مجلس لگائے بیٹھے تھے کہ ابوجہل نے کہا: ’’اس وقت کوئی شخص ہمت کر ے تو کسی اونٹنی کا بچہ دان لا کر محمدکے اوپر ڈال دے۔ ‘‘ چنانچہ عقبہ بن ابی معیط اٹھا اور ایک ذبح شدہ اونٹنی کا بچہ دان لا کر جو خون اور گندی آلائش سے بھرا ہوا تھا آپ کی پشت پر ڈال دیا اور پھر سب قہقہہ لگا کر ہنسنے لگے۔ حضرت فاطمة الزہر اؓ کو اس کا علم ہوا تو وہ دوڑی آئیں اور اپنے باپ کے کندھوں سے یہ بوجھ اتارا۔ تب جا کر آپؐ نے سجدہ سے سر اٹھایا۔ روایت آتی ہے کہ ایک موقعہ پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان رئوسائے قریش کے نام لے لے کر جو اس طرح اسلام کو ذلیل کرنے اور مٹانے کے درپے تھے بد دعا کی۔ اور خدا سے فیصلہ چاہا۔ راوی کہتا ہے کہ پھر میں نے دیکھا کہ یہ سب لوگ بدر کے دن مسلمانوں کے ہاتھ سے قتل ہو کر وادیٔ بدر کی ہوا کو متعفن کر رہے تھے۔ (صحیح بخاری کتاب المناقب ما لقی النبی حدیث نمبر3565وکتاب المغازی باب دعاء النبی علی کفار قریش حدیث نمبر3665)ایک اور موقع پر آپ نے صحن کعبہ میں تو حید کا اعلان کیا تو قریش جوش میں آ کر آپ کے ارد گرد اکٹھے ہو گئے اور ایک ہنگامہ برپا کردیا۔ آپ کے ربیب یعنی حضرت خدیجہؓ کے فرزند حارث بن ابی ہالہ کو اطلاع ہوئی تووہ بھاگے آئے اور خطرہ کی صورت پا کر آپ کو قریش کی شرارت سے بچانا چاہا۔ مگر اس وقت بعض نوجوانان قریش کے اشتعال کی یہ کیفیت تھی کہ کسی بدباطن نے تلوار چلا کر حارث کو وہیں ڈھیر کر دیا۔ اور اس وقت کے شور و شغب میں یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ تلوار چلانے والا کون تھا۔ (الاصابہ ذکر حارث) ایک دفعہ آپؐ ایک راستہ پر چلے جاتے تھے کہ ایک شریر نے برسر عام آپ کے سرپر خاک ڈال دی۔ ایسی حالت میں آپ گھر تشریف لائے۔ آپؐ کی ایک صاحبزادی نے یہ دیکھا تو جلدی سے پانی لے کر آئیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا سر دھویا۔ اور زار زار رونے لگیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو تسلی دی اور فرمایا : ’’بیٹی رو نہیں۔ اللہ تیرے باپ کی خود حفاظت کرے گا اور یہ سب تکلیفیں دو ر ہو جائیں گی۔‘‘

(تاریخ طبری جلد2صفحہ 80مطبع استقامہ قاہرہ 1939ء)

جنگ احد میں عتبہ بن ابی وقاص کا ایک پتھر آپؐ کے چہرہ مبارک پر لگا جس سے آپؐ کا ایک دانت ٹوٹ گیا اور ایک ہونٹ بھی زخمی ہوا۔ (سیرت ابن ہشام جلد2صفحہ 79) ایک اور پتھر جسے عبداللہ بن شہاب نے پھینکا تھا اس نے آپؐ کی پیشانی کو زخمی کیا۔ ایک تیسرا پتھرجسے ابن قمۂ نے پھینکا تھا آپؐ کے رخسار مبارک پر آ لگا جس سے آپؐ کے مغفر(خود) کی دو کڑیاں آپؐ کے رخسار میں چبھ گئیں۔ (سیرت ابن ہشام جلد2صفحہ 80) آپؐ کے ناک پر بھی زخم آیا۔ بعض روایات کی رو سے آپؐ کی ناک کی ہڈی بھی ٹوٹ گئی۔ جسم مبارک کا دایاں پہلو مجروح ہو گیا۔ اور دائیں شانہ مبارک پر تلوار کا اتنا گہرا زخم آیا جو ایک مہینہ میں جا کر ٹھیک ہوا۔ آپؐ کے دونوں گھٹنوں پر سخت زخم آئے اور چہرہ مبارک سے خون بہنے لگا۔ آپؐ زخم کھا کر کھڑے نہ رہ سکے اور ایک گڑھے کے اندر گر گئے۔

شعب ابی طالب کی سختیاں جھیلنے کے بعد حضرت ابو طالب فوت ہو گئے تو ابو لہب قبیلہ کا سردار بن گیا۔ اس نے آتے ہی رسول اللہؐ کو قبیلہ بدر کر دیا (رسول اللہ کی سیاسی زندگی مصنفہ ڈاکٹر حمید اللہ صفحہ 80)اس لیے شوال 10؍نبوی میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم طائف تشریف لے گئے یہ ایک طرح کی ہجرت تھی بعض روایتوں کی رو سے زید بن حارثہ بھی ساتھ تھے وہاں پہنچ کر آپؐ نے دس دن قیام کیا اور شہر کے بہت سے رؤساء سے یکے بعد دیگرے ملاقات کی۔ مگر اس شہر کی قسمت میں بھی مکہ کی طرح اس وقت اسلام لانا مقدر نہ تھا۔ چنانچہ سب نے انکار کیا بلکہ ہنسی اڑائی۔ آخر آپؐ نے طائف کے رئیس اعظم عبدیالیل کے پاس جا کر اسلام کی دعوت دی مگر اس نے بھی صاف انکار کیا بلکہ تمسخر کے رنگ میں کہا کہ ’’اگر آپ سچے ہیں تو مجھے آپ کے ساتھ گفتگو کی مجال نہیں اور اگر جھوٹے ہیں تو گفتگو لاحاصل ہے۔‘‘ اور پھر اس خیال سے کہ کہیں آپ کی باتوں کا شہر کے نوجوانوں پر اثر نہ ہو جائے، آپؐ سے کہنے لگا۔ بہتر ہو گا کہ آپ یہاں سے چلے جائیں کیونکہ یہاں کوئی شخص آپؐ کی بات سننے کےلیے تیار نہیں ہے۔ اس کے بعد اس بدبخت نے شہر کے آوارہ لڑکے آپؐ کے پیچھے لگا دیے۔ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم شہر سے نکلے تو یہ لوگ شور کرتے ہوئے آپ کے پیچھے ہو لیے اور آپؐ پر پتھر برسانے شروع کیے جس سے آپؐ کا سارا بدن خون سے تر بتر ہو گیا۔ کئی میل تک یہ لوگ آپؐ کے ساتھ ساتھ گالیاں دیتے اور پتھر برساتے چلے آئے۔ (سیرت ابن ہشام جلد1صفحہ 419) ان واقعات کا ذکر کرتے ہوئے آپؐ نے فرمایا:

’’لوگوں کا تشدد اس قدر بڑھا کہ میں شدت غم اور تھکاوٹ کی وجہ سے یہ بھی نہ جان سکا کہ میں کس طرف جا رہا ہوں یہاں تک کہ قرن ثعالب (ایک پہاڑی چٹان) کی اوٹ میں کچھ سستانے کےلیے بیٹھ گیا وہاں پر جب میں نے اپنا سراوپر اٹھایا تو دیکھا کہ بادل سایہ کیے ہوئے ہے اور اس میں جبرئیل ہے۔ جبرئیل نے کہا کہ اللہ نے وہ تمام باتیں سن لی ہیں جو تیری قوم نے تجھے کہی ہیں اور جو تکالیف تجھے پہنچائی ہیں۔ میرے ساتھ اللہ نے پہاڑوں کے فرشتے کو بھیجا ہے تاکہ جو بھی تم اس قوم کے بارہ میں فیصلہ کرووہ اس کو بجا لاوے۔ پھر پہاڑ کے فرشتے نے بھی مجھے سلام کیا اور کہا کہ اے محمدمیں ملک الجبال ہوں اللہ نے تمہاری قوم کی باتیں جو اس نے تجھے کہی ہیں اور وہ تکالیف جو تجھے پہنچائی ہیں سن لی ہیں اور مجھے تمہاری مدد کےلیے بھیجا ہے۔ آپ مجھے جو بھی حکم دیں گے وہ میں بجا لائوں گا۔ اگر آپ کہیں کہ ان دو پہاڑوں کو (جن کے درمیان طائف کا شہرآباد ہے) آپس میں ملا دوں اور اس کے درمیان رہنے والوں کو پیس دوں تو میں ایسا کروں گا۔ اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پہاڑوں کے فرشتے کو کہا مجھے امید ہے کہ ان لوگوں کی نسل سے شرک سے بچنے والے اور خدائے واحد کی عبادت کرنے والے افراد پیدا ہوں گے اس لیے میں ان لوگوں کو نیست و نابو د کرنے کی اجازت نہیں دے سکتا۔ ‘‘

(صحیح مسلم کتاب الجہاد مالقی النبی من اذی المشرکین حدیث نمبر3352)

(جاری ہے)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button