سیرت النبی ﷺمتفرق مضامین

سیرت النبیﷺ … عہد و پیمان کی پابندی کے حوالے سے

(عطاء المجیب راشد۔ امام مسجد فضل لندن)

سیرت النبیﷺ کا بابرکت موضوع ایک سچے مومن کی روح کی غذا ہے۔ یہ وہ بابرکت تذکرہ ہے جو ایمانوں کو تازگی اور مردہ دلوں کو نئی زندگی عطا کرتا ہے۔ یہ اس ذات اقدس کا تذکرہ ہے جس کی تعریف خود خدا ئے ذوالعرش نے فر مائی، جس کا اسم گرامی اور نامِ نامی محمدﷺ ہے۔ جو اپنے اسوۂ حسنہ اور روحانی فیض رسانی کے اعتبار سے ہمیشہ زندہ جاویدہے۔ حضرت مسیح پاک علیہ السلام نے کیا خوب فرمایا ہے:

’’کسی کے لئے خدا نے نہ چاہا کہ وہ ہمیشہ زندہ رہے مگر یہ بر گزیدہ نبی ہمیشہ کے لئے زندہ ہے ‘‘۔

(کشتی نوح، روحانی خزائن جلد 19صفحہ 14)

اُس کی روحانی قوتِ احیاء زندگی میں بھی بنی نوع انسان کو حیاتِ نَو عطا کرتی رہی جیسا کہ فر مایا :

اِذَادَعَا کُمْ لِمَا یُحْیِیْکُمْ ( الانفال :25)

لا رَیب اس کا مقدس تذکرہ رہتی دنیا تک نسل انسانی کو نئی روحا نی زندگی سے ہم کنار کرتا رہے گا۔ ہاں یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ

’’اس کے عالی مقام کا انتہا معلوم نہیں ہو سکتا اور اس کی تاثیر قدسی کا اندازہ کرنا انسان کا کام نہیں۔ ‘‘

(حقیقۃ الوحی، روحانی خزائن جلد 23صفحہ 118)

نا ممکن ہے کہ اس ذاتِ اقدس کی سیرت کماحقہ بیان کی جاسکے۔ آپؐ کی ذات والا صفات انسانوں کی تعریف سے مستغنی اور بہت بالا ہے اور اس موضوع پر کچھ کہنے والے کے لیے باعث ِعزت ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے کیا خوب فر مایا ہے:

اُوچہ می دارد بمدحِ کس نیاز

مدحِ اُو خود فخر ہرمدحت گرے

یعنی اُسے کسی کی تعریف کی کیا حاجت ہے اُس کی مدح کرنا تو ہر مدحت کرنے والے کے لیے باعثِ فخر ہے۔

سیرت ا لنبیﷺ کا ہر پہلو اپنے اندر ایک غیر معمولی عظمت اور انفرادیت رکھتا ہے۔ میرے ذہن میں ہمیشہ یہ مثال آتی ہے کہ جس طرح ایک خوبصورت ہیرا ہر طرف سے خوبصورت اور دلکش نظر آتا ہے اسی طرح بلکہ اس سے بہت بڑھ کر سیرت النبیﷺ کا ہرموضوع ہر اعتبار سے دلوں کو موہ لیتا ہے۔

سیرت النبیﷺ کا یہ مضمون عہد و پیمان کی پابندی اور ایفائے عہد سے تعلق رکھتا ہے۔ مذہب اسلام ایک مکمل ضابطہ ٔ حیات ہے۔ انسانی زندگی کے سب پہلوؤں کو جلا بخشنے والی اور سب انسانی ضروریات کو پورا کرنے والی تعلیمات پر مشتمل وہ آسمانی شریعت ہے جو اکمل ترین نورِ ہدایت اپنے اندر رکھتی ہے۔ اسلام کی تعلیمات میں عہدو پیمان کی پابندی اور ایفائے عہد پر غیر معمولی زور دیا گیا ہے۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے فر مایا ہے:

یٰٓاَ یُّھَا الَّذِیْنَ اٰ مَنُوْٓا اَوْفُوْ ا بِا لْعُقُوْ دِ (المائدہ :2)

کہ اے ایمان دارو! اپنے عہد و پیمان کو اور اپنے اقراروں کو پورا کیاکرو۔

پھر فر مایا :

وَاَوْ فُوْ ا بِا لْعَھْدِ اِنَّ ا لْعَھْدَ کَا نَ مَسْئوْ لًا (بنی اسرائیل:35)

کہ ہمیشہ اپنے عہد و پیمان اور وعدوں کو پورا کرو اور یاد رکھو کہ قیامت کے روز عہدو پیمان کے بارہ میں باز پرس کی جائے گی۔

آئیے ہم واقعات کی دنیا میں اُتر کر مشاہدہ کریں کہ ہمارے پیارے آ قا و مولیٰ محمد عربیﷺ نے عہد و پیمان کی پابندی اور ایفائے عہد کے باب میں کیا بے مثال نمونہ پیش فرمایاہے۔

آ نحضرتﷺ کی زندگی میں عہدو پیمان کی پابندی کا جو حسین نقشہ نظر آتا ہے وہ مکان و زمان کی قید سے بہت بالا اور ہر پہلو سے دلربا ہے۔ آپؐ کی ساری زندگی ایک کتاب مفتوح کی طرح ہمارے سامنے ہے اس کا ایک ایک باب بلکہ ایک ایک صفحہ اخلاقِ فاضلہ سے جگمگاتا نظر آتا ہے۔ ایفائے عہد کے باب میں اس کی دلکش جھلکیاں ہمیں اس دَور میں بھی نظر آتی ہیں جب آپؐ نے جوانی کی حدود میں قدم رکھا۔ اس دَور میں آپؐ کو ’امین‘ اور’صادق‘ کے خطاب سے یاد کیا جاتا تھا۔ یہ دونوں خطابات ایسے ہیں جن کا ایفائے عہد سے بہت گہرا اور بنیادی تعلق ہے۔ ’صادق ‘اور ’صدوق‘ وہ ہوتا ہے جس کی زندگی کے کسی بھی حصہ میں باطل کا شائبہ تک نہ ہو۔ اور’ امین‘ وہ ہوتا ہے جس کا ہر قول و فعل صداقت اور دیانت کے خمیر سے گوندھا گیا ہو۔ ان دونوں صفات کا عہد و پیمان کی پابندی کے ساتھ چولی دامن کا ساتھ ہے۔ پس دعویٰ نبوت سے بہت پہلے سے اہلِ مکہّ کی طرف سے آپؐ کو ان الفاظ سے یاد کیا جانا یہ ثابت کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ایفائے عہد کی صفت آپؐ کی روح میں کچھ اس طرح ودیعت فر مائی تھی کہ وہ آپؐ کے وجود کا ایک جزوِ لا ینفک تھی اور اس کے حسین جلوے ساری حیات طیبہ میں جگہ جگہ نظر آتے ہیں۔

آپؐ کی جوانی کے زمانے کا واقعہ ہے کہ مکہّ کےبعض شریف النفس نوجوانوں نے ایک مجلس قائم کی جس کے سب شرکاء نے یہ وعدہ کیا کہ وہ ہمیشہ ظالم کو روکیں گے اور مظلوم کی مدد کریں گے۔ جب یہ خبر مکہّ کے امین اور صدوق نوجوان محمدعربیﷺ کو ہوئی تو آپؐ بڑے شوق سے اس مجلس میں شامل ہوگئے۔ خدا معلوم اس معا ہدہ میں شریک کسی اورشخص کو یہ عہد پورا کرنے کی توفیق ملی یا نہ ملی لیکن ہمارے ہادیٔ کاملﷺ جن کی ساری زندگی صدق و سداد سے عبارت تھی، جو ہمیشہ اپنے قول کے پکے اور وعدے کے سچے تھے۔ خدا تعالیٰ کی حکمتِ بالغہ نے آپ کو یہ عہد کرنے کی توفیق عطا فر مائی۔ آپؐ نے جوانی میں بھی اس عہد کی حفاظت کی اور باقی سب سے بڑھ کر کی اور پھریہ مقدس عہد ساری زندگی یاد رکھا اور جب بھی اس کے ایفا کا موقعہ آیا آپ بڑی جرأت اور دلیری سے مظلوم کی حمایت میں اُٹھ کھڑے ہوتے۔ مثال کے طور پر ایک حسین واقعہ پیش کرتا ہوں جو پوری تفصیل کے ساتھ تاریخ کے صفحات میں محفوظ ہے۔

اراش قبیلہ کا ایک شخص اپنے اونٹ بیچنے کے لیے مکہ آ یا۔ مکہ کے رئیس ابو جہل نے اُس سے ایک اُ ونٹ خریدا لیکن رقم ادا کرنے میں ٹال مٹول سے کام لینے لگا۔ بیچارا تاجر جب کسی طرح بھی رقم وصول نہ کر سکا تو وہ قریش کی مجلس میں آیا اور سردارانِ مکہ سے فر یاد ی ہوا کہ میرا حق دلایا جائے۔ معاہدہ حلف الفضول کے شرکاء کا فرض بنتا تھا کہ مظلوم تاجر کی داد رسی کرتے لیکن کسی ایک کو بھی ہمت نہ ہوئی کہ ظالم ابُو جہل کو مظلوم کا حق ادا کرنے کی تلقین کر سکے۔ ایک سردار کو عجیب شرارت سوجھی۔ وہ خوب جانتا تھا کہ ابو جہل، رسول پاکﷺ سے شدید دشمنی رکھتا ہے اور ایذارسانی اوراستہزا ء کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتا۔ اس علم کے باوجود اس سردار نے اسے کہا کہ تم محمدؐ کے پاس جاؤ تا وہ تمہیں تمہارا حق دلا ئے۔

وہ شخص فوراً رسولِ پاکﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ آپؐ اُس وقت مسجد حرام میں تشریف فر ما تھے۔ تاجر نے اپنی داستان سنائی اورحلف الفضول کے حوالے سے مدد کے لیے فریادی ہوا۔ اور دیکھو! صدق و وفا کا علم بردار اور عہدو پیمان کا امین اور صدوق، محمد عربیﷺ اس مظلوم کی حمایت کے لیے فوراًاُ ٹھ کھڑا ہوا۔ قریش کے سرداروں نے یہ محیر العقول نظارہ دیکھا تو ایک شخص کو اس کے پیچھے کیا کہ جاکے دیکھو تو سہی کہ آج ابُو جہل اس شخص یعنی محمدؐ کی کس طرح ذلت و رسوائی کرتا ہے۔ ذلت و رسوائی کا کیا سوال، یہ موقع تو ہمارے آقا و مولیٰ کی عزت و عظمت کے اظہار کا موقع تھا۔ آپؐ اس شخص کو لےکر سیدھے ابوجہل کے دروازے پر پہنچ گئے۔ دستک دی۔ اُس نے پوچھا کون ہے ؟ آپؐ نے فر مایا میں محمدؐ ہوں۔ فر مایا تم باہر آؤ۔ ابوجہل باہر آیا۔ آپؐ نے فرمایا اس شخص کا حق فوراً ادا کرو آپ کی جرأت اورعظمت کے سامنے ابوجہل مبہوت ہو کر رہ گیا۔ کہنے لگا۔ آپ ٹھہریں میں ابھی اس کی رقم لے کر آتا ہوں۔ چنانچہ وہ اندر گیا۔ اور ساری رقم لا کر اس شخص کو ادا کر دی۔

یہ واقعہ دیکھ کر شہر کے رؤساء نے ابوجہل کو ملامت کی کہ تم ہمیں تو یہ کہا کرتے تھے کہ محمدؐ کو ذلیل کرو اور اُس کی بات نہ مانو لیکن آج تم نے خود اس کی بات مان لی اوراس طرح اس کی عزت قائم کر دی۔ ابو جہل کہنے لگا خدا کی قسم ! اگر تم میری جگہ ہوتے تو تم بھی یہی کرتے۔ اس شخص کے دائیں بائیں خوفناک اُونٹ کھڑے تھے۔ اگر میں انکار کرتا تو وہ اُونٹ مجھے ہلاک کر دیتے۔ یہ غیر معمولی تصرف الٰہی ایک طرف نصرتِ الٰہی کا ثبوت ہے جو قدم قدم پر آپؐ کو عطا ہوئی اور دوسری طرف یہ واقعہ اس بات پر شاہد ناطق ہے کہ ہادیٔ کامل حضرت محمد مصطفیٰﷺ نے اپنی جان اور عزت کو خطرہ میں ڈال کر بھی ہمیشہ اپنے عہد و پیمان کو بڑی جرأت سے پورا کیا اور ایسا عظیم اسوۂ حسنہ قائم فرمایا جو ہر لحاظ سے عدیم النظیر ہے۔

اس ابتدائی دَور کا ایک اور واقعہ حضرت عبد اللہ بن ابی الحمساء بیان کرتے ہیں کہ بعثت سے پہلے ایک دفعہ میں نے آ نحضرتﷺ کے ہاتھ کوئی چیز فروخت کی جس کا کچھ حصہ ابھی آپؐ کے حوالےنہیں کیا تھا۔ میں نے آپؐ سے کہا کہ آپؐ اسی جگہ ٹھہریں میں وہ چیز ابھی گھر سے لا کر دیتا ہوں۔ حضرت عبدا للہ بیان کرتے ہیں کہ میں گھر آیا تو یہ بات بھول گیا۔ تین دن گزرنے کے بعد جب مجھے اپنا وعدہ یاد آیا تو میں فوراً وہ چیز لےکر اُس جگہ واپس آ یا جہاں ملنے کی بات طے ہوئی تھی تو میں نے دیکھا کہ آ نحضرتﷺ اپنے وعدے کے مطابق وہیں موجود تھے۔ آپؐ نے مجھے دیکھا اور کمال عالی ظرفی سے صرف اس قدر فر مایا کہ میں تین دن سے تمہارے انتظار میں کھڑا ہوں !

اس واقعہ سے جو ابو داؤد میں مذکور ہے یہ مراد تو نہیں ہوسکتی کہ آپؐ مسلسل تین دن اور تین رات اسی جگہ ٹھہرےرہے بلکہ یہی مراد ہو سکتی ہے کہ آپ مناسب اوقات میں کئی بار وہاں جاکر عبداللہ کا انتظار کرتے رہے۔ لیکن یہ بات کتنی عظیم ہے کہ آپؐ نے ایک شخص سے جو بھی وعدہ فر مایا اس کا اس قدر پاس رکھا کہ تکلیف اُ ٹھا کر بھی اس کی ایسی پابندی فر مائی جس کی مثال ملنی محال ہے۔

سیرت نبویؐ کے مطالعہ سے یہ بات بہت نمایاں ہوکر سامنے آئی ہے کہ آ نحضرتﷺ کی ساری زندگی حق و صداقت اور دیانت و امانت سے عبارت تھی۔ عہد وپیمان کی حفاظت اور اپنے ہر وعدہ کو پورا کرنے کا وصف زندگی کے ہر موڑپر بڑی عظمت کے ساتھ جگمگاتا نظر آ تا ہے۔ انتہائی متعصب اور شدید ترین دشمنوں نے اپنی جہالت اور لا علمی کی وجہ سے آپؐ کو مختلف الزامات کا نشانہ بنایا ہے اور طرح طرح کے اعتراضات سے آپ کی سیرت ِمطہرہ کو داغدار کرنے کی ناپاک سعی کی ہے۔ لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ کسی اشدترین دشمنِ اسلام نے بھی کبھی ہمارے پیارے آقا حضرت محمد مصطفیٰﷺ پر عہد شکنی کا الزام لگانے کی جرأت نہیں کی۔ انہوں نے جھوٹ کے طومار کھڑے کر دیے اور بے بنیاد الزامات کے انبار لگا دیے لیکن کسی دشمن ِاسلام کی طرف سے کوئی ایک مثال بھی کبھی پیش نہیں کی جاسکتی کہ آپؐ نے اپنے کسی وعدہ کو توڑا ہو یا معاہدہ کی خلاف ورزی کی ہو!

رسولِ پاکﷺ نے اپنی حیات طیبہ میں اپنے دشمنوں سے اور اپنے حلیفوں سے متعد د معاہدات کیے۔ آپؐ سے معاہدہ کرنے والوں نے بار ہا اپنے وعدوں کو توڑ ا اور معاہدات کی شرائط کو نظر انداز کیا لیکن کبھی ایک بار بھی تو ایسا نہیں ہوا کہ آپؐ سے اس معاملہ میں کبھی کوتاہی سر زد ہوئی ہو۔ آپؐ کا نمونہ تو یہ تھا کہ آپ نے اُن لوگوں سے کیے ہوئے معا ہدات کا بھی احترام کیا جو عہد شکنی کے مرتکب ہو چکے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ آپؐ کی زندگی میں بھی آپ کے مخالفین بلکہ آپ کے جانی دشمنوں تک نے بھی آپ پر معاہدہ شکنی کا الزام کبھی نہیں لگا یا اور نہ آج تک کوئی دشمن ِاسلام اس بارہ میں انگشت نمائی کر سکا۔

صلح حدیبیہ کے بعد کے زمانہ میں آنحضرتﷺ نے ہر قل قیصر روم کے نام ایک تبلیغی خط روانہ فر مایا، حضرت دحیہ کلبی نے یہ مکتوب ایلیا میں قیصر روم کو دیا۔ قیصر روم نے خط پڑھا تو ہدایت دی کہ اگر آپ کا کوئی واقف ساتھی یہاں ہو تو اُس کو در بار میں بلایا جائے تا کہ میں اُس سے کچھ سوالات کر سکوں کہ یہ شخص اپنے دعویٰ نبوت میں صادق ہے یا کاذب۔ ابو سفیان اُن دنوں اتفاق سے وہاں تھا۔ قیصر نے اُسے بلا یا اور اس طرز پر بٹھایا کہ اس کے ساتھی اس کے پیچھے ہوں۔ اور قیصر روم نے ان سے کہا کہ ابو سفیان غلط بیانی کرے تو سر ہلا کر مجھے بتا دینا۔ اس کے بعد سوال وجواب کا سلسلہ شروع ہوا، میرے اس مضمون کے لحاظ سے یہ بات قابل ذکر ہے کہ قیصرروم نے ابو سفیان سے جو سوالات پوچھے ان میں ایک سوال آنحضرتﷺ کے بارے میں یہ تھا کہ کیا یہ شخص کبھی اپنا عہد توڑتا ہے ؟ ابو سفیان نے بر سرِ مجلس، بر ملا اعتراف کیا کہ ہر گز نہیں۔ صرف اس قدراضافہ کیا کہ ان دنوں بھی ہمارا ایک تازہ معاہدہ ہوا ہے۔ کچھ نہیں کہا جاسکتا کہ اس کا نتیجہ کیا ہو۔

ظاہر ہے کہ یہ بات ابو سفیان نے محض ایک احتمال کے طور پر کہی وگر نہ اسے یہ تسلیم کیے بغیر کوئی چارہ نہ تھا کہ یہ شخص اپنا عہد کبھی نہیں توڑتا۔ ابو سفیان کا یہ بیان سُن کر قیصر روم نے اپنی فراست سے کیا خوب نتیجہ نکالا کہ ’’خدا کے رسولوں کا یہی مقام ہوتا ہے کہ وہ کبھی بد عہدی نہیں کرتے ‘‘قیصر روم کا یہ بیان حضرت محمد مصطفیٰﷺ کے ایفائے عہدپر ایک عظیم الشان گواہ ہے۔ یہ شدید دشمنِ حق کا اعتراف ہے جو آپؐ کے حالات سے بخوبی واقف تھا۔ وَالفَضْلُ مَا شَھِدَتْ بِہِ الْا عْدَاءُ۔

مدنی دَور کا ایک اور واقعہ ہے جو عہد و پیمان کی پابندی کا بہت دل کش نمونہ ہمارے سامنے پیش کرتا ہے۔ قریش مکّہ نے ایک شخص کو اپنا قاصد اور سفیر بنا کر رسول مقبولﷺ کی خدمت میں بھیجا۔ قاصد مدینہ آ یا، زیارت سے مشرف ہوا۔ آپﷺ کی باتوں کو سنا اور کچھ ایسا متاثر ہوا کہ اُس نے فوراً یہ فیصلہ کر لیا کہ وہ اسلام قبول کر لے گا۔ چنا نچہ اس نے بر ملا اعلان کر دیا کہ اب وہ درِ مصطفیٰﷺ سے ہر گز جدا نہیں ہو گا۔

ایک طرف قاصد کی یہ کیفیت اور اُس کا یہ عزم صمیم تھا تو دوسری طرف رسول مقبولﷺ کا یہ خیال تھا کہ اگرچہ قاصد نے اپنی پوری آزادی اور شرح صدر سے اور بغیر کسی دباؤ کے از خود یہ فیصلہ کیا ہے لیکن کوئی سوچ سکتا ہے کہ اس پر دباؤ ڈالا گیا ہے۔ سفراء کی اپنے ملک واپسی کا جو حق ہے اگرچہ اس بارے میں کوئی باضا بطہ معاہدہ تو نہیں ہوا تھا لیکن یہ بات عملاً اس کا ایک حصہ سمجھی جاتی ہے۔ اور یہ بھی گویا ایک طرح کا معاہدہ ہی ہوتا ہے۔ پس رسول مقبولﷺ جو عہد و پیمان کے لفظوں ہی کے پابند نہ تھے بلکہ اس سے بہت بڑھ کر معاہدہ کی سب جزیات اور اس کی پنہاں روح کی بھی بہت سختی سے پابندی فر ماتے تھے آپؐ نے اس قاصد سے فر مایا:

میں تمہارے جذبات کی قدر کرتا ہوں لیکن یاد رکھو کہ میں عہد شکنی نہیں کر سکتا۔ تم سر دست واپس مدینہ جاؤ اور جس مقصد کی خاطر تمہیں بھیجا گیا ہے اُسے پورا کرو۔ ہاں ! اگر تمہارے دل میں اسلام کی محبت ہے اور اس صداقت کو قبول کرنے کا فیصلہ کر چکے ہو تو ایک دفعہ جا نے کے بعد اپنی مرضی سے انفرادی حیثیت میں پھر واپس آ سکتے ہو۔

اسلام پر جبر و اکراہ کا الزام لگانے والوں سے میں پوچھتا ہوں کہ کیا طاقت اور قوت اور اقتدار کے بل بوتے پر مذہب پھیلانے والوں کا یہی کردار ہوا کرتا ہے؟ ایک شخص محمد مصطفیٰﷺ کے قدموں پر نثار ہونے کو تیار بیٹھا ہے اور آزادیٔ ضمیر کا شہنشاہ کس شان سے اُسے فر ماتا ہے کہ نہیں۔ اس حالت میں نہیں کہ تم ایک قوم کے سفیر ہو اور قاصد کی حیثیت سے آئے ہو۔ جاؤ اور اپنی ذاتی حیثیت میں پھر واپس آنا چاہو تو بڑے شوق سے آؤ۔

یہ واقعہ مذہب کی تاریخ میں ایک نرالا وا قعہ ہے اور اسلام کی طرف جبر و اکراہ کا الزام منسوب کرنے والوں کے مُنہ پر ایک زبردست طمانچہ۔ اور پھر یہ بھی دیکھو کہ اس واقعہ کا نتیجہ کیا ہوا۔ اُسوۂ نبویؐ نے اس قاصد کو اس قدر اسلام کا گرویدہ بنا دیا کہ وہ واپس مکّہ تو چلا گیا لیکن جلد ہی واپس لوٹ آیا اور فاتح ِادیانِ عالمﷺ کے جاںنثار وں میں شامل ہو گیا!

اللہ تبارک وتعالیٰ نے ہمارے پیارے آقا محسنِ انسانیت رسولِ عربیﷺ کو مکارم اخلاق کی چوٹیوں پر فائز فر مایا تھا۔ آپ نے نہ صرف اخلاق فاضلہ کے ہر میدان میں بلند ترین مقامات کو اپنے اسوۂ حسنہ سے فضیلت عطا فر مائی بلکہ ہرخُلق عظیم کی باریک در باریک گہرائیوں میں اُتر کر کچھ اس طرح اُس کو اپنایا کہ اس خُلق کے وہ گوشے بھی جگمگا اُٹھے جو کبھی کسی انسان کے وہم وگمان میںبھی نہ ہوتے۔ لاریب ! ہر خلقِ عظیم کی عظمتوں، اُس کی رفعتوں اور اُس کی گہرائیوں کا بیک وقت احاطہ کرنے والا اسوۂ حسنہ ہمارے ہادی و رہ نما، انسان کامل، محمد مصطفیٰﷺ کو عطا ہوا۔ اس کی ایک بہترین مثال وہ عظیم الشان واقعہ ہے جو غزوۂ بدر سے کچھ پہلے پیش آیا اور انسانی تاریخ میں سنہری حروف سے لکھے جانے کے قابل ہے۔ یہ اس بات کا مُنہ بولتا ثبوت فراہم کرتا ہے کہ آ نحضرتﷺ کے قلبِ اطہر میں کسی قسم کی باریک عہد شکنی اور وعدہ خلافی کا شائبہ تک نہ تھا۔ ایک پاک دل آپ کے سینۂ صا فی میں دھڑکتا تھا جو کسی طور بھی عہد و پیمان کو توڑ نا نہ جانتاتھا۔

رسول خداﷺ جب بدر کے راستہ میں زفران مقام پر پہنچے تو آپؐ نے صحابہ کو بتایا کہ اطلاعات کے مطابق تمہارامقابلہ ایک ہزار لشکر جرار سے ہونے والا ہے۔ تم اس بارے میں مشورہ دو۔ اس مشورہ کا پسِ منظر یہ تھا کہ ہجرت مدینہ سے قبل انصار ِ مدینہ کے وفود آپ سے مکّہ میں ملے تھے، اُنہوں نے نہ صرف مدینہ تشریف لانے کی دعوت دی، بلکہ یہ بھی وعدہ کیا کہ اگر مدینہ پر کسی بیرونی دشمن نے حملہ کیا تو ہم آپ کی حفاظت کی ذمہ داری لیتے ہیں۔ اور آپ کے ساتھ مل کر پورا پورا دفاع کریں گے۔ اب صورت حال یہ تھی کہ دشمن سے یہ مقابلہ مدینہ میں نہیں بلکہ مدینہ سے باہر قریباً پچاس میل کے فاصلہ پر ہونے والا تھا۔ رسولِ پاکﷺ جو معا ہدات کی پاتال میں اُتر کر اس کی حقیقی روح کی حفاظت کے علمبردار تھے۔ آپ یہ نہ چاہتے تھے کہ صحابہ کے اس عہد سے بڑھ کر اُن کو کسی بات کا مکلف کیا جائے یا اُن پر کوئی ایسی ذمہ داری زبردستی عائد کردی جائے جس کے لیے وہ تیار نہ ہوں۔ آنحضرتﷺ کے یہ مقدس خیالات ایک طرف اور دوسری طرف صحابہ کرامؓ کے عشق و محبت کا عالم بھی دیکھنے سے تعلق رکھتا تھا۔ آپؐ نے صحابہ سے مشورہ مانگا تو حضرت ابوبکرؓ اور حضرت عمرؓ نے بڑی خوبصورت تقاریر کیں اور اپنی فدائیت اور جاںنثاری کے عزائم کا اعادہ کیا۔ اس کے بعد حضرت مقداد بن اسودؓ کھڑے ہوئے اور نوجوان نسل کی طرف سے نمائندگی کا حق ادا کر دیا۔ آپؓ نے کہا یا رسول اللہ ؐ! آپؐ خدا کی رہ نمائی میں آگے بڑھیے، ہم آپ کے ساتھ ہیں۔ بنی اسرائیل کی طرح ہم یہ نہیں کہیں گے کہ اے موسیٰ! جا تو اور تیرا خدا دشمن سے لڑتے پھرو، ہم تو یہاں بیٹھے ہیں۔ اے اللہ کے رسول ! ہم آپ کے جا ںنثار خدام ہیں ہم آپ کے دائیں بھی لڑیں گے اور بائیں بھی لڑیں گے۔ آگے ہوکر بھی لڑیں گے اور پیچھے ہو کر بھی لڑیں گے اور دشمن کبھی آپؐ تک نہیں پہنچ سکتا جب تک ہماری لاشوں کو روند کر نہ جائے۔

حضرت مقدادؓ کا یہ عزم دیکھ کر رسول خداﷺ کا چہرہ مبارک خوشی سے تمتما اُٹھا۔ اس کے باوجود آپﷺ نے پھر بھی مشورہ طلب فر مایا۔ در اصل آپ کو ایفائے عہد کے باریک پہلوؤں کا اس شدت سے احساس تھا کہ مہاجرین کی طرف سے اس پُر جوش اظہار کے باوجود آپﷺ انصار مدینہ کی رائے بھی سننا چاہتے تھے لیکن آپﷺ کی پاکیزگی اور حیا کا یہ عالم تھا کہ آپﷺ کھل کر اُن کو مخاطب بھی نہ فرماتے تھے مُبادا اِس میں انصار مدینہ پر دباؤ کا کوئی پہلو نکلتا ہو۔ دوسری طرف انصار اپنی فدائیت اور اخلاص کے باوجود اس وجہ سے اظہار بیان سے رُکے ہوئے تھے کہ حملہ آور لشکر میں مہاجرین کے قریبی رشتہ دار بھی تھے جن سے پرانے تعلقات چلے آتےتھے۔ دونوں طرف ایک عجیب جذباتی کشمکش کا عالم تھاکہ بالآ خر حضرت سعدبن معاذؓ نے نہایت ادب سے عرض کیا کہ یا رسو ل للہؐ !کیا آپ کا روئے سخن ہماری طرف ہے ؟ آپﷺ نے اِثبات میں جواب عطا فر مایا۔ اس پر حضرت سعدؓ نے سارے انصار مدینہ کی نمائندگی میں عرض کیا :

یا رسو ل اللہؐ ! ہم نے آپﷺ سے یہ پختہ عہد باندھا ہوا ہے کہ ہم آپؐ کی بات سنیں گے اور اطاعت کریں گے۔ یارسول اللہؐ! آپؐ آگے بڑھیے، ہم آپ کے ساتھ ہیں۔ اُس ذات کی قسم جس نے آپﷺ کو حق کے ساتھ مبعوث کیا ہے۔ ہمارے سامنے یہ سمندر ہے اگر آپ ہمیں اس میں کود جانے کا حکم دیں تو ہم بےدھڑک اس میں کود جائیں گے اور ہم میں سے کوئی ایک فرد بھی پیچھے نہیں رہے گا۔ ہم لڑائی میں صابر و شاکر رہیں گے اور د شمن سے مقابلہ میں صدق کا نمونہ دکھائیں گے۔ ہم اُ مید کرتے ہیں کہ خدا ہمارے وجود میں آپ کو وہ نظارہ دکھائے گا جو آپﷺ کی آنکھوں کی ٹھنڈک کا باعث ہوگا۔

اس ایمان افروز بیان کو سن کر رسول پاکﷺ نے آگے بڑھنے کا فیصلہ فر مایا۔ اس عظیم الشان واقعہ کا عمیق نظر سے مطالعہ کرنے والا بخوبی جان سکتا ہے کہ کس طرح ہمارے آقا ومولیٰؐ اپنے عہد و پیمان کی باریکیوں میں اُتر کر، وعدہ کی حقیقی روح کو مد نظر رکھتے ہوئے اس کی ایسی کامل پابندی اور رعایت رکھتے تھے کہ وہ ساری دنیا کے لیے مشعل راہ ہے۔

دنیا میں عام مشاہدہ یہ ہے کہ عموماً زمانہ جنگ میں معاہدات کی پابندی نہیں کی جاتی۔ جنگ کا مطلب ہی یہ سمجھا جاتا ہے کہ اب کسی بھی قانون اور معاہدہ کی ضرورت نہیں رہی۔ ایسی حالت میں اگر کوئی شخص اپنی ذاتی حیثیت میں فریق مخا لف سے کوئی معاہدہ کر لے تو جماعتی طور پر اس کی پابندی کسی بھی اخلاقی ضابطہ کے تحت ضروری خیال نہیں کی جاتی اور اگر وہ معاہدہ اور وعدہ ہو بھی ایسا جو اس شخص سے زبر دستی لیا گیا ہو تو جبرو اکراہ سے لیے گئے ایسے عہد و پیمان کو ذرّہ برابر بھی اہمیت نہیں دی جاتی، اس کی پابندی کا سوال تو ذہنوں میں پیدا ہی نہیں ہوتا !

یہ کیفیت اہل دنیا کی ہے جو اپنے آپ کو بہت مہذب خیال کرتے ہیں اور اخلاقی رفعتوں کو چھونے کے بلند بانگ دعاوی کرتے نہیں تھکتے لیکن دیکھیے کہ اخلاق کی حقیقی عظمت کیا ہے اور انتہائی غیر معمولی حالات میں معاہدات کی پابندی کس طرح کی جاتی ہے۔

حضرت حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں غزوۂ بدر میں شمولیت کی سعادت سے محروم رہا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ جب میں اپنے ایک ساتھی کے ساتھ جنگ میں شمولیت کی نیت سے روانہ ہوا تو راستہ میں کفار مکّہ نے ہمیں پکڑ لیا اور کہا کہ تم محمدﷺ کے پاس اس نیت سے جا رہے ہو کہ اُس کے ساتھ مل کر ہمارے خلاف لڑائی میں حصہ لو۔ ہم نے جواباً کہا ہماری ایسی کوئی نیت نہیں۔ ہم تو صرف مدینہ جانے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ اس پر کفار مکّہ نے ہمیں آزاد کر دیا۔ لیکن چھوڑتے وقت ہم سے یہ پختہ عہد لیا کہ ہم ہر گز کفار مکّہ کے خلاف لڑائی میں شامل نہ ہوں گے۔

حضرت حذیفہؓ بیان کرتے ہیں کہ جب ہم آنحضرتﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور غزوۂ بدر کے لیے تیاری شروع ہوئی تو ہمارے دل میں یہ شدید خواہش پیدا ہوئی کہ ہمیں بھی یہ سعادت نصیب ہو۔ ہم نے جہاد میں شریک ہونا چاہا تو رسولِ پاکﷺ نے ہمیں اس کی اجازت نہ دی اور فر مایا تم لوگ واپس چلے جاؤ اور جو عہد تم نے کیا ہے اس کی پابندی کرو۔ نیز فر مایا کہ ہم اللہ سے ہی مدد چاہتے ہیں اور اُسی کی نصرت پر ہمارا بھروسہ ہے۔

چشم فلک نے عہد کی پابندی کا ایسا حسین نمونہ کب دیکھا ہوگا ؟ ذرا اندازا لگائیے کہ اُس وقت کیا صورت حال تھی۔ جنگ کی تیاری ہو رہی ہے، ایک ہزار مسلح اور تجربہ کار فوج کے مقابلہ میں صرف تین سو تیرہ نہتے اور نا تجربہ کار صحابہ جن میں بعض بچے بھی تھے۔ ایسی حالت میں ایک ایک سپاہی کی اشد ضرورت تھی۔ عین اُس وقت دوجاںنثار اپنے آپ کو پیش کرتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ اُن کے لشکر میں شمولیت سے اسلامی فوج کو بہت تقویت مل سکتی تھی۔ ا ور یہ بات بھی قابل توجہ ہے کہ ان دو صحابہ سے متحارب دشمن نے جنگ نہ کرنے کا جو وعدہ لیا تھا وہ جبراً لیا گیا تھا اور کسی بھی معروف ضابطۂ اخلاق کے مطابق اس کا ایفاء لازم نہ تھا، لیکن عہد و پیمان کی پابندی کے عظیم ترین علمبردار، محسنِ انسانیت حضرت محمد مصطفیٰﷺ نے اِن سب حالات کے باوجود اُن دو صحابہ کو اسلامی لشکر میں شمولیت کی اجازت نہ دی۔ میدانِ جنگ میں، شدید ضرورت اور احتیاج کے باوجود نقصان اُٹھا کر اور خطرہ مول لے کر بھی دوسروں سے کیے ہوئے عہد وپیمان کی پابندی کرنے والا اور پابندی کروانے والا محمدﷺ کے سوا اور کون ہو سکتا ہے ! جتنا بھی غور کیا جائے عہد و پیمان کی پابندی کے باب میں یہ ایک عجیب واقعہ ہے جو قلب ِ محمدﷺ کے پا کیزہ جذبات و احساسات کی بہترین تر جمانی کرتا ہے۔

سرورِ کائنات حضرت محمد مصطفیٰﷺ کی معدنِ سیرت میں ایفائے عہد کے بے شمار واقعات ملتے ہیں جو اپنی جدّت اور تنوع کے اعتبار سے ایک خاص دلکشی اپنے اندر رکھتے ہیں۔ ہر واقعہ اپنے اندر ایک انفرادیت اور جا ذبیت رکھتا ہے۔ یہ بھی مدنی دَور کا ہی ایک واقعہ ہے کہ ایک دفعہ ایک تجارتی قافلہ مدینہ آیا اور شہر سے باہر پڑاؤ ڈالا۔ آ نحضرتﷺ کا ادھر سے گزر ہوا تو آپﷺ نے سُرخ رنگ کے ایک اُونٹ کا سودا طے کیا اور اُ ونٹ کی مہار تھام کر مدینہ واپس آ گئے۔ عجیب واقعہ یہ ہوا کہ نہ آپﷺ نے اُونٹ کی نقد قیمت ادا کی اور نہ ہی کسی اور نے اونٹ دینے سے قبل آپؐ سے اس کا مطالبہ کیا۔ جب آپﷺ اُ ونٹ لے کر چلے گئے تو بعد میں قافلہ والوں کو جو آپﷺ سے کوئی واقفیت نہ رکھتے تھے، سخت پریشانی ہوئی کہ ہم نے اُ ونٹ ایک انجان شخص کے حوالے کر دیا ہے۔ اس کی قیمت کا کیا بنے گا۔ قافلے میں ایک عورت بھی تھی۔ اُس نے قافلے والوں کو یقین دلایا کہ گھبراؤ نہیں تمہاری رقم ضا ئع نہیں ہو گی اور جو شخص اونٹ لے کر گیا ہے وہ ضرور اس کی رقم ادا کردے گا۔ لوگ حیران ہوئے کہ تم کیسے یہ بات کہہ سکتی ہو ؟

اُس خاتون نے جواب دیا ’’میں نے اپنی ساری زندگی میں کسی شخص کا چہرہ اتنا روشن نہیں دیکھا جتنا روشن چہرہ اُس شخص کا تھا وہ تو گویا چودھویں کے چاند کی طرح چمک رہا تھا۔ یقین کرو، ایسے نورانی چہرہ والا شخص کبھی دغا باز نہیں ہو سکتا۔ اُس نے جو قیمت طے کی ہے وہ اپنے وعدہ کے مطابق ضرور ادا کرے گا۔‘‘

اُس خاتون کی فراست کو کن الفاظ میں داد دی جائے کہ اس نے کتنا صحیح مشاہدہ کیا۔ خوب نتیجہ نکالا اور کس بلاغت سے اُسے بیان کیا۔ اُ س زیرک خاتون کی گواہی بالکل درست نکلی۔ اُسی رات ہمارے آقا و مولیٰ حضرت محمد مصطفیٰﷺ نے نہ صرف اُس اُونٹ کی طے شدہ پوری رقم بھجوا دی بلکہ اُس سے کچھ زائد بھی دے دی۔ کس قدرعظمت ہے ایفائے عہد کی اس مثال میں کہ ایک بات زبانی طے پاتی ہے، کوئی تحریر نہیں، کوئی گواہ نہیں، اور آپﷺ کو پہچاننے والا بھی کوئی نہیں کہ مدینہ آ کر مطالبہ ہی کر سکے۔ لیکن یہ باتیں تو وہاں ضروری ہوا کرتی ہیں جہاں دیانت اور ایفائے عہد کی اقدار مفقود ہوں۔ یہ تو اُس ہستی کی مثال ہے جو عہد وپیمان کی پابندی اور ایفائے عہد میں ساری دنیا کا معلّم اور ان سب کا رہ نما تھا۔ آپؐ نے کس تعہد سے نہ صرف اپنے وعدہ کو پورا فر مایا بلکہ اُن سے حسن سلوک بھی فر مایا۔ قافلہ والوں نے عہد کا پابند اور حسن سلوک کرنے والا ایسا خریدار اس سے پہلے کب دیکھا ہوگا؟

عہد و پیمان کی پابندی اور ایفائے عہد کے الفاظ جو اس مضمون میں بار بار استعمال ہو رہے ہیں ان کا ظاہری مفہوم اور مطلب بہت سادہ اور عام فہم ہے۔ ایک عام انسان کی نظر میں یہ بات خوب واضح ہے کہ جب انسان کوئی معاہدہ کرے تو اس کی خلاف ورزی نہ کرے۔ اور جو عہد کرے اُسے پورا کرے۔ اس سادہ مفہوم کے مقابل پر جب ہم ہادیٔ کامل حضرت محمد مصطفیٰﷺ کی حیات طیبہ پر نظر کرتے ہیں اور ان واقعات کا مطالعہ کرتے ہیں جو آپؐ سے ظہور میں آئے تو عہد و پیمان کی پابندی اور ایفائے عہد کے ایسے گہرے اور پُر معارف معانی ہم پر آشکار ہوتے ہیں جو عام انسان کی فکرو نظر سے بہت بالا ہیں۔ حضور اکرمﷺ نے جب بھی زبانی یا تحریری کوئی معاہدہ کیا یا دورانِ گفتگو کوئی ایسی بات فر مائی جو اپنے اندر معاہدہ اور ذمہ داری کا کوئی پہلو رکھتی تھی تو آپ نے ہمیشہ اُس کو پورا فر مایا۔ دوست ہو یا دشمن ہو، آپﷺ نے اس لحاظ سے کبھی کوئی تفریق نہ فر مائی اور ہر معاہدہ کا احترام فر ماتے۔ وعدہ تنہائی میں کیا گیا تھا یا برسر عام، نبوت پر فائز کیے جانے سے پہلے تھا یا بعد میں، معاہدہ کے وقت کے حالات اور تھے اور بعد میں بدل گئے، دوسرے فریق معاہدہ نے اس کو ملحوظ رکھا یا نہیں، معاہدہ کی پابندی کرنے میں کیا کیا نقصانات اور خطرات کا احتمال ہو سکتا تھا۔ یہ سب امور اپنی جگہ لیکن سرورِ دو عالم حضرت محمد مصطفیٰﷺ کا یہ نمونہ دنیا کی تاریخ میں بے مثال اور عدیم النظیر ہے کہ آپﷺ نے اپنےہر عہد اور معاہدہ اور ہر قول کی لفظاً اور معناً پابندی فر مائی اور کبھی کسی فائدہ کو ملحوظ رکھ کر یا کسی نقصان کا عذرپیش کر کےعہد شکنی نہیں کی۔ بڑے سے بڑا خطرہ مول لے لیا اور بڑی سے بڑی قربانی پیش کر دی لیکن کبھی نہ کسی معاہدے کو توڑا اور نہ اپنے کسی صحابی کو ایسا کرنے کی اجازت دی۔ دنیا کے لوگ تومعاہدات کے الفاظ کی موشگافیوں میں پڑ کر راہِ فرار تلاش کرنے لگ جاتے ہیں اور بعض لوگ لفظوں کی آڑ لے کر معاہدات کی اصل رُوح کوکلیۃً فرا موش کر دیتے ہیں۔ لیکن ایسی کوئی ایک مثال بھی ہمارے پیارے آقا محمد عربیﷺ کی مبارک زندگی میں نظر نہیں آتی، بلکہ اس کے بر عکس ایسی مثالیں نظر آتی ہیں کہ آپﷺ نے مفہوم کی بھی پابندی فرمائی جو اگرچہ الفاظ میں تو مذکور نہ تھا لیکن بین السطور مضمون کے طور پر دیانتداری کے لحاظ سے معاہدہ میں شامل سمجھا جا سکتا ہے۔ اس قدر باریکی میں اُتر کر معاہدات کی لفظی اور معنوی پابندی کرنا اور معاہدات کی حقیقی اور سچی رُوح کے مطابق اُن کی سب تفاصیل اور جز ئیات پر عمل پیرا ہونا، یہ مقدس نمونہ اگر کسی لیڈر میں نظر آتا ہے تو بلا خوف ِتر دید کہا جا سکتا ہے کہ یہ ہمارے پیارے آقا حضرت محمد عربیﷺ کی بابرکت زندگی میں نظر آتا ہے جو نہ صرف انسانِ کامل تھے بلکہ سب نبیوں کے سرتاج اور خاتَم تھے۔ لاکھوں درود وسلام ہوں اُس شاہِ مکی و مدنی پر جنہوں نے اخلاقِ فاضلہ کے اس میدان میں بھی وہ اسوہ ٔحسنہ پیش فر مایا جو ہمیشہ بنی نوع انسان کے لیے مشعل راہ کا کام دیتا رہے گا!

سیرت نبوی کے بحر ذخَّار سے چند اَور مثالیں پیش خدمت ہیں۔ صلح حدیبیہ کے موقعہ پر مشرکین مکّہ کی طرف سے ایک یہ شرط رکھی گئی تھی کہ مکّہ سے جو شخص بھی مسلمان ہو کر مدینہ جائے گا وہ اہل مکّہ کے مطالبہ پر واپس کر دیا جائے گا۔ اس شرط پر باہم سخت اختلاف ہوا اور ابھی اس شرط پر کوئی حتمی فیصلہ نہیں ہوا تھا اور نہ تحریر مکمل ہوئی تھی کہ عین اس موقعہ پر قریش مکّہ کے سفیر سہیل بن عمر و کا لڑکا ابو جندل بیڑیوں اور ہتھکڑیوں میں جکڑا ہوا، گرتے پڑتے کسی طرح اس مجلس میں آپہنچا اور رسولِ خداﷺ سے فر یادی ہوا کہ مجھے واپس نہ کیا جائے۔ تمام مسلمان یہ دردناک منظر دیکھ کر تڑپ اُٹھے۔ جذبات کا ایک عجیب عالم تھا۔ امتحان کا ایک کڑا موقع تھا۔ معاہدہ ابھی پوری طرح طے بھی نہیں ہوا تھا، لیکن کفار مکّہ کا اصرار تھا کہ شرط کو تسلیم کیا جائے اور اس کی فوری تعمیل ہو اور دوسری طرف ایک مظلوم بھائی نہایت درد انگیز انداز میں اپنے زخم دکھا دکھا کر فر یاد کر رہا تھا کہ میں مسلمان ہو کر آیا ہوں مجھے ان ظالموں کی طرف واپس نہ لوٹایاجائے۔

اس نازک موقع پر ہمارے آقا محمد عربیﷺ نے کس عظمت کے ساتھ ایفائے عہد کی حقیقی رُوح کو سر بلند رکھا۔ آپؐ نے ابو جندل کو واپس مکہ جانے کی ہدایت فرمائی اور دردمندانہ الفاظ میں فر مایا :

’’اے ابو جندل ! صبر سے کام لو۔ اور خدا کی طرف نظر رکھو۔ خدا تمہارے لیےاور تمہارے ساتھ کے دوسرے کمزور مسلمانوں کے لیے ضرور کوئی راستہ کھولےگا۔ لیکن ہم اس وقت مجبور ہیں کیونکہ اہل مکّہ کے ساتھ معاہدہ کی زبانی بات ہو چکی ہےاور ہم اس معاہدہ کے خلاف کوئی قدم نہیں اُ ٹھا سکتے۔ ہم بد عہدی نہیں کر سکتے۔ ‘‘

لارَیب ہمارے آ قاﷺ کے یہ الفاظ آبِ زر سے لکھے جانے والے ہیں۔ عہد و پیمان کی پابندی اور معاہدہ کی حقیقی روح کی حفاظت کے باب میں دنیا کی ساری تاریخ میں اس جیسی مثال نہیں ملتی!

صلح حدیبیہ کے بعد آپﷺ واپس مدینہ تشریف لائے تو اس طرح کا ایک اور واقعہ پیش آیا۔ مکّہ کا ایک شخص ابو بصیر مکہ والوں کی حراست سے بھاگ کر مدینہ پہنچ گیا۔ مکہ والوں نے اُس کی واپسی کا بھی مطالبہ کر دیا۔ آنحضرتﷺ نے فوراً ابو بصیر کو واپس جانے کا حکم دیا۔ ابو بصیر نے بڑے درد سے فریاد کی یہ مکّہ والے مجھ پر بہت ظلم و ستم کریں گے اور مجھے اسلام سے منحرف ہونے پر مجبور کردیں گے۔ ہمارے آقا ومولیٰﷺ جو صداقت کے امین اور عہدو پیمان کی حفاظت کے علمبردار تھے۔ آپؐ نے فرمایا:

’’خواہ کچھ بھی ہو، جو بات بطور معاہدہ طے پا چکی ہے ہم کسی صورت میں بھی اس کی خلاف ورزی نہیں کر سکتے۔‘‘

آپؐ کا یہ ارشاد اور حکم سُن کر نا چار ابو بصیر ان لوگوں کے ساتھ واپس روانہ ہوگیا لیکن راستہ میں وہ ان ظالموں کی گرفت سے چھوٹ گیا اور موقع پا کر آنحضر تﷺ کے قدموں میں حاضر ہو گیا اور عرض کیا یا رسول اللہ !آپ نے مجھے قریش کے حوالےکر دیا تھا آپ نے اپنا معاہدہ پورا کر دیا۔ اب خدا نے مجھے پھر اُن سے نجات دے دی ہے۔ اب آپ پر میری کوئی ذمہ داری نہیں۔ کوئی اَور ہوتا تو یہ بات ضرور تسلیم کر لیتا لیکن ہمارے ہادئ کامل، حضرت محمد مصطفیٰﷺ جو عہد و پیمان میں کسی قسم کے ظاہری یا باطنی تخلف کے روادار نہ تھے آپؐ نے اس عذر کو بھی ردّ فر مادیا اور ابو بصیر کو مدینہ میں رہنے کی اجازت نہ دی اور ایفائے عہد کےعَلَم کو سربلند رکھا!

صلح حدیبیہ کی ایک شرط یہ بھی تھی کہ اگلے سال جب مسلمان عمرہ کے لیے آئیں گے تو مکّہ میں تین دن سے زیادہ قیام نہیں کریں گے۔ اس کے مطابق آپؐ ان تمام صحابہؓ کے ساتھ جو حدیبیہ میں آپؐ کے ہم راہ تھے اگلے سال عمرہ کے لیے تشریف لے گئے۔ تیسرا دن ختم ہونے سے پہلے ہی ابو سفیان اور دیگر سرداران مکّہ نے کہنا شروع کر دیا کہ دیکھو تین دن کی میعاد ختم ہونے کو ہے تمہیں اب واپسی کی تیاری کرنی چاہیے۔ وقت معینہ کے اختتام سے قبل ہی اس بے جا تقاضا پر صحابہ بہت ناراض ہوئے اور بعض نے کچھ اس طرح کا اظہار بھی کیا کہ جب ہماری مرضی ہو گی ہم جائیں گے۔ اس موقع پر ہمارے پیارے آقا محمد عربیﷺ کے اخلاق فاضلہ کی ایک اور تجلی ہوئی۔ آپ نے ایک طرف تو اپنے فدائی صحابہ کو ضبط و تحمل اور صبر کی تلقین فر مائی اور دوسری طرف قریش کو پیغام بھجوا یا کہ ہر گز فکر مند نہ ہوں، ہم خود ہی عہد کی پابندی کریں گے اور وقت مقررہ کے بعد ایک لحظہ بھی یہاں قیام نہیں کریں گے۔ چنانچہ آپﷺ نے اپنے صحابہ کرام کے ساتھ سورج غروب ہوتے ہی مکّہ سے کوچ فر مایا۔

صلح حدیبیہ ہمارے آقا و مولیٰﷺ کی بابرکت زندگی کا ایک اہم واقعہ ہے۔ اس ایک واقعہ میں قدم قدم پر عہد و پیمان کی پابندی اور ایفائے عہد کے ایمان افروز نظارے نظر آتے ہیں اور دیکھو پھر خدا ئے ذوالعرش نے کس طرح اپنے صادق الوعد محبوب بندے کو نواز اکہ دو سال کے اندر اندراِنَّا فَتَحۡنَا لَکَ فَتۡحًا مُّبِیۡنًا کے اپنے وعدہ کو پورا کر دکھایا۔ ہمارے محبوب آقاﷺ دس ہزار قدسیوں کے ہم راہ، فاتحانہ شان کے ساتھ مکّہ میں داخل ہوئے۔ لا ریب فتح مکّہ انعام تھا آپ کے ایفائے عہد کا اور شیریں پھل تھا عہد وپیمان کو پورا کرنے کا۔

جماعتی اخبارات و رسائل میں سیرت النبیﷺ کے بارے میں مضامین شائع ہوتے ہیں اور ہمارے جلسوں میں سیرت النبیﷺ کے موضوع پر تقاریر صرف اس غرض سے نہیں ہوتیں کہ آنحضرتﷺ کی سیرت کے بعض واقعات کا ذکر ہو جائے اور چند لمحوں کے لیے ہم ہادیٔ دو عالم محمد مصطفیٰﷺ کی مجلس میں جا پہنچیں اور یہ مقدس واقعات سُن کر ہم اپنے ایمانوں کو تازہ کر لیں۔ یہ سب مقاصد با لکل بجا اور بر حق ہیں لیکن ان سب فوائد سے حاصل ہونے والا آخری مقصد کبھی ہماری آنکھوں سے اوجھل نہیں ہونا چاہیے، اور وہ یہ کہ اپنے دل وجان سے پیارے محبوب آقا محمد مصطفیٰﷺ کے اخلاق فاضلہ اور سیرت طیبہ کی پیاری باتیں سُن کر اور پڑھ کر جب ہمارے دلوں میں حرارت ایمانی پیدا ہو تو ہمارے دلوں سے بے اختیار درود و سلام کے نغمات بلند ہوں اور ہم سیرت نبوی کے ان پاکیزہ واقعات کو اپنے دلوں پر کچھ اس طرح نقش کر لیں کہ ہم ادنیٰ ترین غلاموں کے کردارا ورعمل میں بھی ہمارے آقا ومولیٰ کے حُسنِ کردار کی جھلک دکھائی دینے لگے۔ پس لازم ہے کہ ہم سیرت النبیؐ کے موضوع پر تقاریر سننے یا مضامین پڑھنے پر اکتفا نہ کریں بلکہ اس بات کی فکر کریں اور ہرایک کا دل اس امر کا جا ئزہ لیتا رہےکہ کیا سیرت نبوی کے ان نقوش کی جھلک ہماری زندگیوں میں نظر آتی ہے یا نہیں ؟ کیا ہم اپنے آقاﷺ کے نقوشِ پا کی پیروی کرنے میں کوشاں ہیں یا نہیں ؟

عہد و پیمان کی پابندی اور ایفائے عہد کی مناسبت سے ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ ہم سب احمدیوں نے اس جماعت میں شامل ہو کر کچھ اور عہد و پیمان بھی کیے ہیں جن کی پابندی ہم سب پر لازم ہے۔ خدا تعالیٰ کا نام لے کر، خدا تعالیٰ کے قائم کردہ خلیفہ کے ہاتھ میں ہاتھ دے کر، بیعت اور تجدید بیعت کے وقت ہم دس شرائط بیعت کی پا بندی کا وعدہ کرتے ہیں، ان دس شرائط کے سب تقاضوں کو پورا کرنا اور صدق دل سے ان کی پابندی کرنا ہمارا فرض ہے۔ ہمارے پیارے آقا محمدعربیﷺ کااسوہ ٔحسنہ ہم میں سے ہر عاشق ِ محمدﷺ کو دعوت ِعمل دے رہا ہے کہ اگر ہم اپنےدعوئ محبت اور اطاعت میں سچے ہیں تو اپنے عہد بیعت کو اس تعہد اور وفا سے نبھائیں کہ ہر شاخ پر اعمال صالحہ کے پھل لگیں اور بستانِ احمد کا ہر شجر میووں سے لد جائے۔

خدا کرے کہ ایسا ہی ہو۔ آ مین ثم آمین

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button