’’دنیا کا محسن‘‘ (قسط دوم)
آپؐ سے پہلے لوگ سمجھتے تھے علم پڑھنے سے مذہب جاتا رہتا ہے۔ رسول کریمﷺ ہی وہ پہلے شخص ہیں جنہوں نے یہ خیال قائم کیا کہ مذہب خدا کا کلام ہے اور دنیا خدا کا فعل ہے۔ غرض رسول کریمﷺ نے مذہب اور سائنس میں صلح کرادی
حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ آنحضورﷺ کے تقدّس کے خلاف جو اعتراضات کیے جاتے ہیں اُن کا ذکر کرتے ہوئے میور لکھتا ہے محمد (ﷺ ) نے بے شک بعض اصلاحات کیں لیکن تین خطر ناک باتیں انہوں نے رائج کیں جو اُن کی خدمات سے بہت زیادہ خطر ناک تھیں۔ اور وہ آپؐ کی تعلیمِ طلاق کثرت ازدواج اور غلامی کے متعلق ہے۔
طلاق کے متعلق تو کچھ کہنے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ اب تمام ممالک میں اور تمام اقوام میں یہ مسئلہ جاری ہو رہا ہے کہ طلاق کا جائز نہ ہونا بہت بڑا ظلم ہے۔ بلکہ امریکہ تو طلاق کے جواز میں اسلامی احکام سے بھی آگے نکل گیا ہے۔
باقی رہا بیویوں کے متعلق اعتراض۔ سو زیادہ بیویاں کرنا اپنی ذات میں تو قابلِ اعتراض فعل نہیں ہے۔ قابلِ اعتراض بات تو عیّاشی ہے۔ یعنی بعض عورتوں کی طرف ناجائز اور حد سے بڑھی ہوئی رغبت۔ نو باتیں ایسی ہیں کہ ان کے بغیریا کم سے کم اُن میں سے بعض کے بغیر دنیا میں کوئی عیّاش نہیں ہوسکتا۔ یعنی وہ شراب، عمدہ کھانوں، عمدہ سامان، راگ رنگ، باکرہ، حسین اور کم عمر عورتوں کا دلدادہ ہوتا ہے۔ نیز عورتوں کی خواہشوں کا پابند ہوتا ہے، عورتوں میں بے انصافی کرتا ہے اور ان کی صحبت میں زیادہ وقت صَرف کرتا ہے۔ لیکن کیا یہ باتیں رسول کریمﷺ میں پائی جاتی ہیں ؟
پہلی چیز شراب ہے۔ سو دیکھو کہ محمد رسول اللہﷺ ہی کی ایک ذات ہے جنہوں نے دنیا میں شراب کو قطعاً حرام کیا ہے۔ پہلی اقوام میں شراب کو محدود کرنے کی کوشش تو کی گئی ہے لیکن اسے بالکل نہیں روکا گیا۔
کوئی شخص کہہ سکتا ہے کہ شراب کی ضرورت غموں کے غلط کرنے کے لیے ہوتی ہے اور آپؐ غموں سے آزاد تھے۔ مگر یہ دلیل بہت بودی اور لچّر ہوگی کیونکہ آپؐ کی زندگی غموں کا ایک مرقّع تھی۔ دنیا آپؐ کو دکھ دینے میں صرف لطف ہی محسوس نہیں کرتی تھی بلکہ اسے ثوابِ دَارَین سمجھتی تھی۔ مشرک ہی نہیں بلکہ یہود و نصاریٰ کی تلوار بھی آپؐ کے خلاف اُٹھ رہی تھی۔ ہر ایک کی زبان آپؐ کی ہتکِ عزت کے لیے دراز ہو رہی تھی۔ جب عرب آپؐ کے ہاتھ پر فتح ہوگیا تو تب بھی آپؐ کو امن نہ ملا۔ روم کی حکومت نے آپؐ کے خلاف کارروائیاں شروع کردیں۔ ایران کے بادشاہ نے آپؐ کے قتل کے احکام دیے۔ پس اگر عیّاشی کے لیے نہیں تو غموں ہی کے کم کرنے کے لیے آپؐ شراب کی اجازت دے سکتے تھے۔ مگر آپؐ نے شراب کو حرام اور قطعاً حرام کر دیا۔
پھر عیاش لذیذ اور مقوّی کھانے کھاتے ہیں تاکہ شہوت پیدا ہو۔ مگر محمدﷺ کے گھر کا یہ حال تھا کہ جس دن آپؐ فوت ہوئے اُس دن شام کو آپؐ کے گھر فاقہ تھا۔ بعض اوقات آپؐ کو بھوک کی وجہ سے پیٹ پر پتھر باندھنا پڑا۔ آپؐ کے پاس جو کچھ آتا اسلام کی ضرورتوں پر خرچ کردیتے۔ حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ بیسیوں وقت ایسے آئے کہ ہمیں کھانے کو کچھ نہ ملا۔ کئی وقت ایسے آئے کہ صرف کھجوریں کھا کر گزارہ کیا۔ اور کئی وقت ایسے آئے کہ صرف پانی پی کر وقت گزارا۔
پھر عیاشی میں لذّت کے لیے عمدہ سامان جمع کئے جاتے ہیں مگر رسول کریمﷺ کے گھروں کا یہ حال تھا کہ بعض گھروں میں صرف بھیڑ بکری کی ایک کھال تھی جس پر میاں بیوی اکٹھے سو رہتے تھے۔ چنانچہ حضرت عائشہؓ کہتی ہیں ہمارے گھر میں ایک ہی بستر تھا اور ہمیں اکٹھے سونا پڑتا۔ جب رات کو رسول کریمﷺ نماز کے لیے اٹھتے تو اُسی بچھونے پر نماز پڑھتے اور مجھے اپنی ٹانگیں اکٹھی کر لینی پڑتیں۔
پھر عیاش باکرہ عورتوں کا دلدادہ ہوتا ہے۔ رسول کریمﷺ نے مکہ میں ایک باکرہ حضرت عائشہؓ سے شادی کی۔ مگر جب صاحبِ اختیار بادشاہ ہوئے تو کوئی نکاح کسی باکرہ سے نہ کیا۔ کئی باکرہ عورتوں نے خود کو نکاح کے لیے پیش بھی کیا مگر آپؐ نے ان کا نکاح دوسروں سے کرادیا۔
پھر عیاش زیادہ حسین عورتیں تلاش کرتا ہے جو پہلی عورتوں سے زیادہ اس کی شہوات کو پورا کرسکے۔ مگر اِروِنگ جیسا سخت دشمن بھی آپؐ کے متعلق شہادت دیتا ہے: ‘‘یہ بیوی (عائشہؓ ) جس سے آپؐ نے اس کے عنفوان ِ شباب میں بیاہ کیا ایسی تھی کہ جس پر نبی اپنی تمام دوسری بیبیوں سے جو بعد میں بیاہی گئیں زیادہ فریفتہ تھا’’۔ اگر آپؐ عیاش ہوتے تو عائشہؓ کے بعد اُن سے زیادہ خوبصورت اور نوجوان بیویوں کو تلاش کرتے۔ مگر آپؐ نے ایسی عورتوں سے شادی کی جو عائشہؓ کا مقابلہ اپنی عمر اور ظاہری خوبی کے لحاظ سے نہیں کرسکیں۔
پھر ایسے لوگ تو ہوسکتے ہیں جو عیاش نہ ہوں اور باجے سنیں مگر کوئی ایسا عیاش نہیں ہوسکتا جو مزامیر نہ سنتا ہو۔ مگر رسول کریمﷺ نے فرمادیا کہ مزامیر شیطانی آلے ہیں۔ اگر آپؐ نَعُوْذُ بِاللّٰہِ عیاش ہوتے تو پھر یہ کس طرح ممکن تھا؟
پھر عیاش انسان عورتوں کی خواہشوں کا پابند ہوتا ہے۔ مگر آپؐ کایہ حال تھا کہ فتح خیبر کے بعد جب وہاں کے ٹیکس کی معقول رقم آنے لگی اور مسلمان گھروں میں فراوانی آگئی تو آپؐ کی بیویوں نے بھی، جن میں سے اکثر آسودہ حال گھرانوں سے تھیں، خواہش کی کہ پہلے تو روپیہ تھا ہی نہیں۔ لیکن اب جبکہ روپیہ آگیاہے اور سب کو حصہ ملا ہے تو ہماری آسودگی کا بھی انتظام ہونا چاہیے۔ اس خواہش کے جواب میں آنحضورؐ کا جواب قرآن کریم میں یوں محفوظ ہے کہ: اے نبی! ان بیویوں سے کہہ دو کہ اگر تم دنیا کے مال اور زینت کے سامان کی خواہش رکھتی ہو تو آؤ تم کو مال دے دیتا ہوں۔ مگر اس حالت میں تم میری بیویاں نہیں رہ سکتیں۔ مال لے کر تم مجھ سے جدا ہو جاؤ۔ لیکن اگر تم اللہ اور اس کے رسول کی محبت رکھتی ہو او ر آخرت کی بھلائی چاہتی ہو تو پھر ان اموال کا مطالبہ نہ کرو۔ اور یاد رکھو کہ اللہ تعالیٰ نے تم میں سے ان کے لئے جو پوری طرح خدا کے احکام کی پابندی کرنے والیاں ہوں گی بہت بڑے اجر مقرر کر چھوڑے ہیں۔ (الاحزاب:30,29)۔ اس طرح عورتوں کی خواہشات کو ٹھکرا دینے والا اور اُن کی مال و زینت کی خواہش پر طلاق لینے کا کہنے والا کیا عیاش کہلا سکتا ہے؟
پھر عیاش انسان عورتوں میں بے انصافی کرتا ہے۔ جسے خوبصورت سمجھے اُس کی طرف زیادہ رغبت رکھتا ہے اور باقیوں کو چھوڑ دیتا ہے۔ مگر رسول کریمﷺ کا یہ حال تھا کہ جب آپؐ بیمار ہوئے تو اس حالت میں بھی دوسروں کے کندھوں پر ہاتھ رکھ کر اُس بیوی کے ہاں چلے جاتے جس کی باری ہوتی۔ وفات سے تین دن قبل تک ایسا ہی کرتے رہے۔ حتّٰی کہ آپؐ کی یہ حالت دیکھ کر حضرت فاطمہؓ رو پڑیں اور آپؐ کی بیویوں نے بھی کہا کہ آپؐ ایک جگہ ٹھہر جائیے، ہم بخوشی اس کی اجازت دیتی ہیں۔ تب آپؐ ایک جگہ ٹھہر گئے۔ جو انسان بیویوں میں انصاف کرنے کا اس قدر پابند ہو کہ مرضُ الْموت میں بھی دوسرے کے کندھوں کا سہارا لے کر ان کے ہاں باری باری جاتا ہو اسے کون عیاش کہہ سکتا ہے!
پھر عیاش اپنا زیادہ وقت عورتوں کی صحبت میں گزارتا ہے۔ مگر آپؐ کی یہ حالت تھی کہ صبح سے شام تک باہر رہتے اور رات کو جب گھر جاتے تو کھانا کھا کر لیٹ جاتے اور پھر رات کو اُٹھ کر عبادت کرتے۔
پس آپؐ کی کئی شادیوں کو دیکھ کر یہ نہیں کہا جاسکتا کہ نَعُوْذُ بِاللّٰہ آپؐ عیاش تھے۔ دیکھنا یہ چاہیے کہ کس غرض کو مدّنظر رکھ کر آپؐ نے شادیاں کیں : خدا کے لئے یا اپنے نفس کے لیے ؟ اگر خدا کے لئے کیں تو آپؐ کا زیادہ بیویاں کرنا عیاشی کی دلیل نہیں۔ آپؐ نے مختلف خاندانوں کی عورتوں سے شادیاں کیں تاکہ وہ دین کے اُس حصہ کو جو عورتوں سے تعلق رکھتا ہے سیکھ کر وہ اپنی ہم جنسوں کو تعلیم دیں۔ اور یہ ایک محض لِلّٰہی غرض تھی۔ آپؐ کا زیادہ شادیاں کرنا اور ان میں انصاف قائم رکھنا ایک بہت بڑی قربانی تھا نہ کہ عیاشی۔ اور جب آپؐ نے امّت کے لوگوں کو ایک سے زیادہ بیویوں کی اجازت دی ہے جو آپؐ کی طرح عورتوں سے معاملہ کر سکیں تو اس حکم سے کسی ظلم کا نہیں بلکہ دنیوی ترقی کے لیے قربانی اور اخلاقی درستی کے لیے ایک تدبیر کا دروازہ کھلا رکھا گیا ہے۔
رسول کریمﷺ پر غلامی کا اعتراض ایک علمی مسئلہ ہے۔ کہا جاتا ہے کہ آپؐ نے غلامی کو رائج کر کے دنیا پر ظلم کیا ہے۔ مَیں کہتا ہوں کہ آپؐ کی زندگی پر غور کر کے دیکھو کہ کیا آپؐ غلاموں کے حامی تھے یا غلامی کے حامی؟ اور یہ بھی کہ غلام آپؐ کے دوست تھے یا آپؐ کے دشمن ؟ کیونکہ ہر ایک قوم اپنے فوائد کو دوسروں کی نسبت زیادہ سمجھ سکتی ہے۔
حضرت خدیجہؓ سے شادی کے وقت آپؐ کی عمر پچیس سال کی تھی اور اس عمر میں انسان کا دماغ حکومت کے خیالات سے بھرا ہوا ہوتا ہے۔ حضرت خدیجہؓ نے اپنا سب مال اور اپنے سب غلام آپؐ کے سپرد کردیے۔ اور آپؐ نے سب سے پہلا کام یہ کیا کہ اپنے سب غلاموں کو آزاد کردیا۔ کیا یہ شخص غلامی کا حامی کہلاسکتا ہے یا غلاموں کا!۔
نبوت کے پہلے سات سال میں جو 40آدمی آپؐ پر ایمان لائے ان میں سے کم سے کم 15 غلام تھے یا غلاموں کی اولاد تھے۔ گویاکُل تعداد میں 33فیصدی غلام تھے۔ تب مکہ کی آبادی دس بارہ ہزار کی تھی جس میں پانچ چھ سو غلام ہوں گے۔ پس کیا یہ عجیب بات نہیں کہ بارہ ہزار میں سے تیس آدمی ایمان لائے اور پانچ چھ سو میں سے پندرہ آدمی۔ کیا غلاموں کا اس کثرت سے آپؐ پر ایمان لانا اس امر پر دلالت نہیں کرتا کہ غلام آپؐ کو اپنا رہائی دہندہ سمجھتے تھے؟
رسول کریمﷺ پر ایمان لا کر سب سے زیادہ تکلیفیں غلاموں نے اٹھائیں۔ چنانچہ خباب بن الارت ایک غلام تھے جو لوہار تھے۔ وہ ابتدائی ایام میں آپؐ پر ایمان لائے۔ لوگ انہیں سخت تکالیف دیتے حتّٰی کہ انہی کی بھٹی کے کوئلے نکال کر اُن پر انہیں لِٹا دیتے تھے اور چھاتی پر پتھر رکھ دیتے تاکہ آپ کمر نہ ہلا سکیں۔ ان کی مزدوری کا روپیہ جن کے ذمہ تھا وہ روپیہ ادا کرنے سے منکر ہوگئے مگر وہ ہمیشہ ایمان پر ثابت قدم رہے۔ حضرت عمرؓ کے دَور میں انہوں نے اپنے گزشتہ مصائب کا ذکر کیا تو حضرت عمرؓ نے اُن سے پیٹھ دکھانے کو کہا۔ جب انہوں نے پیٹھ پر سے کپڑا اٹھایا تو تمام پیٹھ پر جلنے کے ایسے سفید داغ نظر آئے جیسے کہ برص کے داغ ہوتے ہیں۔
اب غور کرو اگر محمدﷺ غلامی قائم کرنے کے لیے آتے تو چاہیے تھا کہ خبابؓ آپؐ کی گردن کاٹنے کے لیے جاتا، نہ یہ کہ آپؐ کی خاطر گرم کوئلوں پر لَوٹتا۔
پھر حضرت خدیجہؓ کے غلام زید بن حارثہؓ جو عیسائی قبیلہ میں سے تھے۔ حضرت خدیجہؓ نے شادی پر سب جائیداد سمیت انہیں بھی آنحضرتﷺ کے سپر د کردیا اور آپؐ نے انہیں آزاد کر دیا۔ اُن کا باپ اور چچا اُن کو تلاش کرتے ہوئے مکّہ پہنچے اور آپؐ سے کہا کہ ان کو آزاد کردیں۔ آپؐ نے فرمایا مَیں نے آزاد کیا ہوا ہے۔ اِس پر زیدؓ نے اپنے باپ سے کہا کہ آپ کی میرے حال پر بڑی مہربانی ہے مگر بات یہ ہے کہ محمدﷺ سے پیارا مجھے کوئی نہیں ہے اس لیے میں انہیں چھوڑ کر نہیں جا سکتا۔ اب غور کرو اس نوجوان غلام کے دل پر ماں باپ کی یاد کے نقش جمے ہوئے ہیں۔ مگر وہ کہتا ہے کہ مجھے محمدﷺ کی صحبت سے اَور کوئی چیز اچھی نہیں لگتی۔ پھر زیدؓ آپؐ کے دعویٰ کے وقت آپؐ پر ایمان لاتا ہے اور آخرکار اپنے خون سے حقِ رفاقت ادا کرتا ہے۔ کیا یہ فدائیت اور محبت ایک غلام کو اُس شخص سے ہوسکتی تھی جوغلامی کا حامی تھا۔
ایک بلالؓ تھے جو رسول کریمﷺ کے جانی دشمن امیہ بن خلف کے غلام تھے۔ وہ ابتدائی ایام میں ہی ایمان لے آئے تو امیہ انہیں جلتی ریت پرلِٹا دیتا اور توبہ کے لیے کہتا۔ اگر رسول کریمﷺ غلاموں پرظلم کرنے والے ہوتے تو بلالؓ، امیہ جیسے دشمنِ رسول کے گھر میں رہ کر آپؐ کے خلاف کیا کیاشوخیاں نہ کرتے۔ لیکن وہ گرم ریت پر لیٹ کر احد احد کہتے رہتے۔ اس پر اُمیہ انہیں اَور تکالیف دیتا اور رسّی اُن کے پاؤں سے باندھ کر لڑکوں کے سپرد کر دیتا جو انہیں گلیوں میں گھسیٹتے پھرتے تھے حتّٰی کہ بلالؓ کی پیٹھ کا چمڑا اُتر جاتا مگر رسول کریمﷺ کی محبت کا نشہ پھر بھی نہ اُترتا۔
پھر ایک لونڈی سمیّہؓ تھیں جن کو ابوجہل سخت دکھ دیا کرتا تھا تاکہ وہ ایمان چھوڑ دیں۔ لیکن جب اُن کے پائے ثبات کو لغزش نہ ہوئی تو ایک دن اس نے شرمگاہ میں نیزہ مار کر اُن کو ماردیا۔ انہوں نے جان دیدی مگر رسول اللہﷺ پر ایمان کونہ چھوڑا۔ اب سوچو کہ لونڈیوں نے، جو شدید ترین دشمنوں کے گھر میں تھیں، کتنی قربانی کی۔ اگر وہ یہ دیکھتیں کہ آپؐ غلامی کے حامی ہیں تو کیاصنفِ نازک میں سے ہوتے ہوئے وہ آپؐ کے لیے اپنی جان قربان کر سکتی تھیں ؟
ایک مثال عمارؓ کی ہے جو سمیّہؓ کے بیٹے تھے۔ انہیں جلتی ریت پرلِٹایا جاتا تھا۔ پھر ایک غلام صہیبؓ تھے جو روم سے پکڑے آئے۔ عبداللہ بن جدعان کے غلام تھے جنہوں نے ان کو آزاد کردیا تھا۔ وہ بھی رسول کریمﷺ پر ایمان لائے اور آپؐ کے لیے بہت سی تکالیف اٹھائیں۔
ایک غلام ابو فکیہہؓ بھی ابتدائی ایام میں ایمان لائے۔ انہیں بھی گرم ریت پرلِٹایا جاتا۔ ایک دفعہ رسّی باندھ کر انہیں کھینچا جارہا تھا کہ پاس سے کوئی جانور گزرا۔ اُن کے آقا نے اُن کی طرف اشارہ کر کے انہیں کہا: یہ تمہارا خدا ہے۔ انہوں نے کہا :میرا اور تمہارا خدا ایک ہی ہے۔ اس پر اس ظالم نے ان کا گلا گھونٹا اور پھر بھاری پتھر ان کے سینہ پر رکھ دیا جس سے ان کی زبان باہر نکل آئی اور لوگوں نے سمجھا کہ مر گئے ہیں۔ دیر تک مَلنے مَلانے سے انہیں ہوش آئی۔
بینہؓ ایک کنیز تھیں جو ابتدائی ایام میں اسلام لائیں۔ حضرت عمرؓ مسلمان ہونے سے پہلے انہیں تکلیف دیا کرتے تھے۔ پھر ایک کنیز زنیزہؓ بھی ابتدائی ایام میں ہی ایمان لائیں۔ حضرت عمرؓ اسلام لانے سے پہلے انہیں بھی ستایا کرتے۔ ابوجہل نے مار مار کر اُن کی آنکھیں پھوڑ دیں مگر باوجوداس کے انہوں نے رسول کریمﷺ کی رسالت کا انکار نہ کیا۔ ابوجہل غصہ سے کہا کرتا تھا کہ کیا ہم اتنے حقیر ہوگئے ہیں کہ زنیزہ نے تو سچا دین مان لیا اور ہم نے نہ مانا۔
اِسی طرح نہدیہؓ اوراُمِّ عبیسؓ دو کنیزیں تھیں جو مکّی زندگی میں اسلام لاکر سخت مصائب میں مبتلا کی گئیں۔
حضرت ابوبکرؓ کے آزاد کردہ غلام عامربن فہیرؓہ کوبھی اسلام کی وجہ سے سخت تکالیف دی گئیں۔ حمامہؓ، بلالؓ کی والدہ نے بھی اسلام کی خاطرتکالیف اٹھائیں۔ ان کے علاوہ اَور غلام اور لونڈیاں بھی تھیں جنہوں نے آپؐ پر ایمان لانے کی وجہ سے سخت تکلیفیں اٹھائیں۔
مسلمان غلاموں اور لونڈیوں کے علاوہ مکہ کے اکثر دیگر غلام اور لونڈیاں بھی رسول کریمﷺ سے ہمدردی رکھتے تھے۔ چنانچہ ایک دفعہ ابوجہل نے آپؐ کو گالیاں دیں اور مارنے کے لئے اٹھا۔ حضرت حمزہؓ کی ایک لونڈی دیکھ رہی تھی۔ اسے بہت صدمہ ہوا۔ جب حضرت حمزہؓ گھر آئے تو کسی بات کا بہانہ ڈھونڈ کر اُس نے طعنہ دیا کہ بڑے بہادر بنے پھرتے ہو لیکن تمہارے بھتیجے محمدؐ کو ابوجہل نے اس طرح دکھ دیا ہے۔ حضرت حمزہؓ ا بھی ایمان نہ لائے تھے، وہ شکار کے شائق تھے اور اِدھر اُدھر پھرنے میں وقت گزارتے تھے اور حالات سے زیادہ واقف نہ تھے۔ لونڈی سے ساری بات سُن کر غصے اور غیرت سے بیتاب ہو کر باہرنکلے اور سیدھے کفار کی مجلس میں آئے۔ مجلس میں آکر ایک دیوار سے ٹیک لگا کر کھڑے ہوگئے اور کمان پر سہارا لگالیا۔ بار بار بات کرنا چاہتے تھے مگرشدّتِ غم سے منہ سے بات نہ نکلتی تھی۔ ابو جہل کی نگاہ پڑی تو وہ بولا حمزہ تم تو اس طرح کھڑے ہو جس طرح انسان لڑائی پر آمادہ ہوتا ہے۔ اس کا یہ کہنا تھا کہ آپ نے اس کے منہ پر تھپڑ مارا اور کہا کہ تُو نے محمدؐ کو حد سے بڑھ کر ستایا ہے۔ لے مَیں بھی مسلمان ہوتا ہوں اگر طاقت ہے تو آمجھ سے لڑ لے۔ ابوجہل بھی مکہ کا سردار تھا، اٹھ کر چمٹ گیا۔ لیکن لوگوں نے دیکھا کہ یہ جھگڑا مکہ کو بھسم کر دے گا، صلح کرادی۔ اور اُس دن سے حضرت حمزہؓ کو اسلام کی طرف توجہ ہوگئی۔ ایک دو دن کے غور کے بعد اپنے ایمان کا اعلان کر دیا۔
اِسی طرح جب رسول کریمﷺ طائف گئے اور وہاں سے زخمی ہو کر واپس آئے تو ایک غلام نے ہی آپؐ سے ہمدردی کی اور آپؐ کی حالت کو دیکھ کر روتا رہا۔
دراصل غلام جانتے تھے کہ آپؐ اُن کو آزاد کرانے کے لیے آئے ہیں نہ کہ اُن کی غلامی کی زنجیروں کو اَور مضبوط کرنے کے لیے۔ ان کا شروع میں ایمان لاکر سخت تکالیف اٹھانا اور آخر تک ساتھ دینا اس امر کا ثبوت ہے کہ وہ سمجھتے تھے کہ آپؐ کی تعلیم غلاموں کو آزاد کرانے والی ہے۔
اس امر پر بھی غور کرنا چاہیے کہ رسول کریمﷺ کے زمانے سے پہلے کوئی ملک غلامی سے پاک نہ تھا۔ ہندوستان میں دوسری قسم کی غلامی تھی۔ اچھوت اقوام غلام ہی ہیں۔ وہ اعلیٰ پیشوں سے محروم ہیں اور ان کا فرض برہمنوں کی خدمت مقرر کیا گیا ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ دوسری اقوام میں غلاموں کو کھانا کپڑا دینے کا رواج تھا۔ جبکہ یہاں غلام کا فرض تھا کہ وہ اپنے لیے بھی کمائے اور برہمنوں کی بھی خدمت کرے۔ ایران اور روم بھی غلامی میں ایک دوسرے سے بڑھے ہوئے تھے۔ ان ممالک نے غلامی دُور کرنے کا کوئی انتظام نہیں کیا۔ یہ صرف محمد رسول اللہﷺ کا لایا ہوا دین تھا جس نے یہ قانون بنایا کہ ہر آزاد کو قید کرنے والا قتل کا مجرم سمجھا جائے گا۔ پھر یہ شرط لگائی کہ غلام بنانا صرف اُس جنگ میں جائز ہے جو جنگ دشمنِ اسلام صرف اس لیے کریں کہ مسلمانوں سے تلوار کے زور سے اسلام چھُڑوائیں۔ اِس تعلیم سے پہلے تمام ممالک میں سیاسی جنگوں کے قیدیوں کو بھی غلام بنایا جاتا تھا۔ پھر اسلام نے یہ شرط بھی لگا دی کہ مذہبی جنگ کے قیدی کے ساتھ وہی سلوک کرو جو اپنے گھر والوں سے کرتے ہو۔ پھر ہر غلام کو یہ حق دیا کہ جب وہ چاہے آزاد ہو جائے۔ ہاں ایک ظالمانہ جنگ میں شریک ہونے کی وجہ سے اُس کا فرض ہے کہ وہ اپنی لیاقت کے مطابق خرچِ جنگ ادا کردے۔ پھر یہ شرط لگا دی کہ اگر غلام کے پاس روپیہ نہ ہوتو آزادی بہرحال اُس کا حق ہے اور اس کا آقا مجبور ہوگا کہ اُس کی طاقت کے مطابق خرچِ جنگ اُس پر ڈال کر اسے نیم آزاد کردے تاکہ وہ کماکر قسط وار روپیہ ادا کرکے اپنے آپ کو آزاد کرائے۔ اور جس وقت یہ قسط مقرر ہو اُسی وقت سے غلام کو عملاً آزادی حاصل ہوجائے گی۔ پھریہ حکم دیا کہ جو غلام کو مارے اس کی سزا یہ ہے کہ اس کا غلام آزاد سمجھا جائے۔ پھر کئی گناہوں کا کفارہ غلاموں کو آزاد کرنا مقرر کیا تاکہ سارے غلام آزاد ہوجائیں۔ پھر اسی پر بس نہیں کی۔ آخر یہ بھی حکم دے دیا کہ حکومت کے مال میں غلاموں کا بھی حق ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ ایک رقم ایسی مقرر کرے جس سے وہ غلام آزاد کراتی رہے۔
اب سوچو کہ غلامی تو رسول کریمﷺ سے پہلے ہی جاری تھی۔ آپؐ نے تو جاری نہیں کی۔ لیکن آپؐ نے اِس کا دائرہ محدود کر دیا اور ایسے سامان پیدا کردئیے کہ عملاً غلام آزاد ہی ہوجائیں۔ مگر پھر بھی اگر غلام باقی رہ گئے تھے تو اس کی صرف یہ وجہ تھی کہ اسلامی احکام کے ماتحت اُن کے آقا اُن کے ساتھ ویسا ہی سلوک کرنے پر مجبور تھے جیسا کہ وہ اپنے عزیزوں سے کرتے تھے۔ چنانچہ غریب اور کمزور غلام کے لیے ایک مسلمان کا غلام رہنا آزاد ہونے سے زیادہ بہتر تھا۔ پس جو اس غلامی میں آزادی سے زیادہ آسائش پاتے تھے وہ اسلامی احکام سے فائدہ اٹھاکر اپنی حالت کوبدلنا نہیں چاہتے تھے۔
رسول اللہﷺ کے احسانات
ایک واقعہ سے آنحضورﷺ کے احسانات اور قربانیوں کا اندازہ لگائیں کہ مکّہ کا سردار عُتبہ آپؐ کے پاس آکر کہنے لگا:کیا تمہیں یہ اچھا لگتا ہے کہ آپس میں خونریزی ہو اور بھائی، بھائی سے جُدا ہوجائیں ؟ اگر نہیں تو میں ایک تجویز پیش کرتا ہوں۔ ا گر تمہیں مال حاصل کرنے کی خواہش ہے تو ہم سب اپنے اموال کا ایک حصہ تمہیں دینے کے لیے تیار ہیں۔ اور اگر حکومت کی خواہش ہے تو ہم تیار ہیں کہ تمہیں اپنا سردار بنائیں۔ اور اگر خوبصورت عورت چاہتے ہو تو جس عورت کو پسند کرو وہ ہم تمہیں دینے کے لئے تیار ہیں۔ اور اگر تم بیمار ہو تو بھی بتاؤ کہ ہم علاج کروادیں۔ مگر تم یہ کہنا چھوڑ دو کہ خدا ایک ہے۔ رسول کریمﷺ نے جواب میں چند آیاتِ قرآن کی تلاوت فرمائی جن میں توحید کی تعلیم تھی۔ ان آیات کو سن کر عتبہ پر اتنا اثر ہوا کہ اس نے واپس جا کر کہا یہ نہ جھوٹا ہے اور نہ ساحر ہے، اس کی مخالفت چھوڑ دو۔
دراصل احسان کئی قسم کے ہیں۔ ایک احسان وقتی ہوتے ہیں اور دوسرے لمبے عرصے کے لیے۔ پھر ان کی بھی دوقسمیں ہیں :(1)طبعی یعنی فطرت کے تقاضا کے ماتحت۔ جیسے ماں بچے کو پالتی ہے۔ (2)عقلی مثلاً مظلوم کی رحم کھاکر مدد کردینا یا کسی کو جاہل دیکھ کر اس کو پڑھا دینا۔
عقلی احسان بھی دو قسم کا ہے: (1) ایسا احسان جس کے بدلے کی امید ہوتی ہے۔ مثلاً کسی کو پڑھائیں تو امید ہوتی ہے کہ وہ ہمارے خیالات کی آگے اشاعت کرے گا۔ (2)طبعی عقلی یعنی انسان احسان کرنے کے لیے بے چین ہوجاتا ہے۔
طبعی عقلی کی آگے پھر دو قسمیں ہیں۔ ایک وہ احسان جو خود کو خطرے میں ڈالے بغیر کیا جاتا ہے جیسے اپنے مال سے کسی کی مدد کرنا۔ دوسری قسم یہ ہے کہ انسان خود کو خطرے میں ڈال کر مدد کرتا ہے۔ مثلاً کسی گھر کو آگ لگ جائے تو اس میں کُود کر کسی کے مال کو یا لوگوں کو بچانے کی کوشش کرتا ہے۔
احسان کی ان قسموں کو مدّنظر رکھ کر معلوم ہوگا کہ رسول کریمﷺ نے صرف احسان ہی نہیں کیا بلکہ اعلیٰ سے اعلیٰ احسان کیا۔ مثلاً آپؐ کے احسانات صرف عارضی نہیں ہیں اکثر دائمی ہیں۔ پھر آپؐ کے احسانات صرف رشتہ داروں تک محدود نہیں ہیں بلکہ دوستوں سے نکل کر ناواقفوں تک پھیل گئے ہیں۔ پھر یہ کہ آپؐ کو کسی نفع کی امید نہ تھی بلکہ وہ احسانات ایسے ہی طبعی تھے جیسے کہ ماں بچے سے کرتی ہے۔ اور پھر اپنی جان کو خطرہ میں ڈال کر احسانات کیے۔ پس احسان کی تمام اقسام میں سے بہترین کا ظہور آپؐ سے ہوا ہے۔
دنیا پر آپؐ کا پہلا احسان شرک کو دور کرنا ہے۔ آپؐ نے ایک خدا کی پرستش دنیا میں قائم کی اور سارے ملک کو اپنا دشمن بنا کر اور سخت تکالیف برداشت کر کے اس صداقت کو قائم کیا اور نہ صرف اپنے زمانہ کے لوگوں کو بلکہ بعد میں آنے والوں کو بھی اپنا ممنونِ احسان کیا۔ یہ احسان صرف مذہبی پہلو سے ہی نہیں بلکہ دنیوی پہلو سے بھی ہے جو دنیوی ترقی میں بھی مُمِد ہے۔ مثلاً اگر لوگ اُن چیزوں کو جنہیں خداتعالیٰ نے ہمارے فائدہ کے لیے پیدا کیا ہے خدا سمجھنے لگیں تو کبھی بھی اُن کے طبعی فوائد پر غور نہیں کریں گے۔ لیکن جب ایک خدا کے قائل ہوکر سب مخلوق کو انسان کے فائدہ کے لیے قرار دیں گے تو پھر ان اشیاء کے فوائد کو حاصل کرنے اور ان کو اپنی خدمت میں لگانے کی بھی کوشش کریں گے اور اس طرح سائنس اور علم کی بھی ترقی ہوگی۔ پس رسول کریمﷺ نے توحید کی تعلیم دے کر نہ صرف ایک عظیم الشان مذہبی احسان دنیا پر کیا ہے بلکہ علمی ترقی کا بھی رستہ کھول دیا ہے۔
دوسرا احسان آپؐ کا یہ ہے کہ آپؐ نے مذہب اور سائنس کی لڑائی کو دُور کردیا ہے۔ آپؐ سے پہلے لوگ سمجھتے تھے علم پڑھنے سے مذہب جاتا رہتا ہے۔ رسول کریمﷺ ہی وہ پہلے شخص ہیں جنہوں نے یہ خیال قائم کیا کہ مذہب خدا کا کلام ہے اور دنیا خدا کا فعل ہے۔ غرض رسول کریمﷺ نے مذہب اور سائنس میں صلح کرادی اور فرمایا
طَلَبُ الْعِلْمِ فَرِیْضَۃٌ عَلٰی کُلِّ مُسْلِمٍ وَ مُسْلِمَۃٍ۔
اِس وقت غیرمذاہب والے کہتے ہیں کہ مسلمان جاہل ہیں۔ مگر یہ ہمارا قصور ہے ہمارے رسولؐ کا نہیں ہے۔ کیونکہ اُس وقت جب مکہ والے علم حاصل کرنا ذلت سمجھتے تھے اور سارے مکہ میں صرف سات آدمی پڑھے لکھے تھے، آپؐ نے یہ فیصلہ فرمایا تھا کہ پڑھنا لکھنا ہر مسلمان مرد اور عورت کا فرض ہے۔ آپؐ کے ارشاد کا ہی نتیجہ ہے کہ مسلمانوں نے پچھلے علوم کو قائم رکھا اور نئے علوم کی بنیاد ڈالی جن سے آج دنیا فائدہ اٹھارہی ہے۔ اگر مسلمان پہلے علوم کی حفاظت نہ کر تے تو ارسطو کا فلسفہ اور بقراط کی حکمت آج کوئی نہ معلوم کر سکتا۔ مسلمانوں نے اُن کی کتب کے ترجمے کرائے اور ان کتب کو محفوظ کردیا۔ مسلمانوں کے ذریعے سے یہ علوم اور خود مسلمانوں کے ایجادکردہ علوم سپین میں پہنچے اور اُس وقت جب کہ مسیحی علماء علم کا حصول کفر قرار دے رہے تھے مسلمانوں کے ذریعہ سے یورپ نے علوم کوسیکھا اور پھر ان پر مزید ترقی کر کے آج کل کے علوم کی بنیاد رکھی۔ چنانچہ ایک پورپین مصنّف لکھتا ہے کہ ‘‘اہلِ یورپ کب تک دنیا کی آنکھوں میں خاک جھونکتے اوریہ کہتے رہیں گے کہ مسلمانوں نے علم کی خدمت نہیں کی حالانکہ واقع یہ ہے کہ اگر سپین میں مسلمانوں کے ذریعہ علوم نہ پہنچتے تو ہم آج جہالت کی نہایت ابتدائی حالت میں ہوتے۔ ’’ غرض رسول کریمﷺ کی ہی تعلیم کا نتیجہ تھا کہ دنیا میں علوم کی ترقی کا وہ تسلسل قائم رہا جس کے بغیر علمی ترقی بالکل ناممکن تھی۔
تیسرا احسان آپؐ کا یہ ہے کہ پہلی بار آپؐ نے اِس امر کی تعلیم دی کہ علم کبھی ختم نہیں ہوتا۔ دنیا میں تمام علوم اور قوموں کے تنزل کا موجب ہی یہ ہے کہ ایک حد تک پہنچ کر یہ خیال کر لیا جاتا ہے کہ اِس سے اوپر اَور کیا ترقی ہوگی۔ ہم لوگ اپنے ایمان کے لحاظ سے یہی مانتے ہیں کہ آپؐ سب سے بڑے عالم تھے۔ مگر آپؐ بھی یہ دعا کیا کرتے تھے کہ رَبِّ زِدْنِیْ عِلْمًا۔ پس ہمیشہ اضافۂ علم کی خواہش آپؐ کے دل میں موجزن رہی۔
پھر آپؐ نے یہ تعلیم دی کہ ہر انسانی ضرورت کا خداتعالیٰ نے علاج مقرر کیا ہے۔ چنانچہ آپؐ فرماتے ہیں کہ ہر مرض کا علاج خداتعالیٰ نے مقرر فرمایا ہے۔ اگرچہ اطباء ہر زمانے میں کہتے ہیں کہ کئی بیماریوں کا کوئی علاج نہیں۔ مگر رسول کریمﷺ فرماتے ہیں کہ تجسّس کرو علاج پالو گے۔ آپؐ کے اس حکم کے ماتحت مسلمانوں نے علمِ طب کی طرف توجہ کی اور بیسیوں بیماریوں کا علاج معلوم کرلیا۔ لیکن یہ تعلیم صرف امراض ہی کے متعلق نہیں بلکہ دوسری ضروریات کے متعلق بھی ہے اور اس اصل پر عمل کرنے والے ہمیشہ کامیابی کا منہ دیکھتے رہیں گے۔
(باقی آئندہ)