الفضل ڈائجسٹ
رسول کریمﷺ تربیت کی خاطر بچوں کو کبھی سزا نہ دیتے بلکہ بڑی محبت اور پیار کے ساتھ تربیت کرتے اور ان کے لیے دعا کرتے۔ فرمایا کرتے کہ اَکْرِمُوْا اَوْلَادَکُمْ یعنی اپنی اولاد کی عزت کیا کرو
اس کالم میں ان اخبارات و رسائل سے اہم و دلچسپ مضامین کا خلاصہ پیش کیا جاتا ہے جو دنیا کے کسی بھی حصے میں جماعت احمدیہ یا ذیلی تنظیموں کے زیرانتظام شائع کیے جاتے ہیں۔
آنحضورﷺ کا عفوو درگزر
ماہنامہ ’’مشکوٰۃ‘‘ قادیان جون، جولائی 2012ء میں مکرم مبشر احمد خادم صاحب نے رسول اکرمﷺ کے عفو و درگزر پر روشنی ڈالی ہے۔
آنحضورﷺ نے فرمایا ہے: میرے ربّ نے مجھے حکم دیا ہے کہ جو کوئی مجھ پر ظلم کرے مَیں اس کو قدرتِ انتقام کے باوجود معاف کردوں۔ جو مجھ سے قطع تعلق کرے مَیں اس کو ملاؤں۔ جو مجھے محروم رکھے مَیں اس کو عطا کروں، غضب اور خوشنودی دونوں حالتوں میں حق گوئی کو شیوہ بناؤں۔
تاریخ انبیاء شاہد ہے کہ اللہ کی راہ میں سب سے زیادہ دکھ اور مصائب اٹھانے والے ہمارے آقا حضرت محمد مصطفیٰﷺ تھے۔ آپؐ نے توحید کی خاطر مکّہ والوں کا ہر ظلم برداشت کیا لیکن فتح مکّہ کے دن اپنے جانی دشمنوں کو معاف کرکے دنیا کو ورطۂ حیرت میں ڈال دیا۔ ڈاکٹر گستاویل لکھتے ہیں :
’’محمدؐ نے اپنے لوگوں کے لیے ایک روشن نمونہ قائم کیا، آپؐ کے اخلاق پاک اور بے عیب ہیں۔ آپؐ کی سادگی، آپؐ کی انسانی ہمدردی، آپؐ کا مصائب میں استقلال، آپؐ کا طاقت کے وقت فروتنی اختیار کرنا، آپؐ کی مضبوطی، آپؐ کی کفایت شعاری، آپؐ کا درگزر، آپؐ کی متانت، آپؐ کا قوّت کے وقت عاجزی کا اظہار کرنا، آپؐ کی حیوانوں کے لیے رحم دلی، آپؐ کی بچوں سے محبت، آپؐ کا انصاف اور عدل کے اوپر غیرمتزلزل ہوکر قائم ہونا۔ کیا دنیا کی تاریخ میں کوئی اَور ایسی مثال ہے جہاں اس قدر اعلیٰ اخلاق ایک ہی شخص کی ذات میں جمع ہوں۔‘‘
(اُسوۂ انسان کامل صفحہ 830)
اسی طرح گیانی ترلوک سنگھ طوفان نے آنحضورﷺ کی مدح یوں کی: ‘‘اسلام دھرم کے بانی حضرت محمدؐ کو اپنی زندگی میں بہت سی تکالیف کا سامنا کرنا پڑا۔ عرب جیسے غیراخلاقی معاشرے میں ایک نیا مذہب شروع کیا جو کہ توحید اور لوگوں کی بھلائی کا مذہب ثابت ہوا۔ انہوںنے لوگوں کو بُت پوجا، چوری، جؤا، ڈکیتی،قتل اور برے اخلاق سے نجات دلاکر زندگی کے اچھے راستوں کی طرف چلایا۔ جہاں گھر کے آدمیوں نے اسلام پر بھروسہ کیا تھا وہیں ہزاروں ہی نہیں بلکہ ان کے آخری ایّام تک کوئی ڈھائی تین لاکھ عورت اور مرد اسلام کے لیے عقیدت کا اظہار کرتے ہوئے اس میں شامل ہوچکے تھے اور عرب کے ہر شہر اور گاؤں میں ایک اللہ کا نام گونجنے لگا۔ یہ سب کچھ آپؐ کے اچھے اخلاق کی وجہ سے ہی ہوا۔ آپؐ کو ایک خدا پر کامل یقین تھا اس لیے آپ اپنے مقصد سے کبھی ڈگمگاتے نہیں تھے۔ پیغمبری صفات کے ساتھ ساتھ آپؐ کے اندر انسانی صفات کی بھی بہتات تھی۔‘‘
(پوتر جیون حضرت محمد صاحب جی مہاراج صفحہ 184)
حضرت ابوہریرہؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہﷺ کی خدمت میں عرض کیا گیا کہ مشرکوں پر بددعا اور لعنت کیجیے۔ آپؐ نے فرمایا کہ مَیں لعنت کرنے والے کی حیثیت سے مبعوث نہیں ہوا بلکہ رحمت بناکر بھیجا گیا ہوں۔
غزوۂ احد میں آنحضورﷺ کے چار دانت شہید ہو گئے، سر اور چہرۂ مبارک بھی زخمی ہوگیا۔ صحابہ نے رنج اور اضطراب کی حالت میں گزارش کی: یا رسول اللہ! کاش آپؐ ان دشمنان دین پر بددعا کرتے۔ آپؐ نے فرمایا: مَیں لعنت اور بددعا کرنے کے لیے نہیں بھیجا گیا بلکہ لوگوں کو راہ حق کی طرف بلانے کے لیے بھیجا گیا ہوں۔
اس کے باوجود جب قریش کے رویّے میں کوئی تبدیلی نہیں آئی اور اُن کے مظالم کا سلسلہ حد سے بڑھ گیا تو صحابہؓ نے پھر عرض کیا کہ ان ظالموں کے حق میں بددعا کیجیے۔ مگر حضورؐ نے قریش کے حق میں یہ دعا کی کہ الٰہی! میری قوم کو بخش دیجیے کہ یہ لوگ بےخبر ہیں۔
………٭………٭………٭………
اُسوۂ رسولﷺ تربیتِ اولاد کی رُو سے
ماہنامہ ’’مشکوٰۃ‘‘ قادیان جون،جولائی2012ءمیں مکرم مولوی سفیر احمد شمیم صاحب نے تربیتِ اولاد کی رُو سے رسول اکرمﷺ کی سیرت پر روشنی ڈالی ہے۔
حدیث میں آتا ہے کہ بیوی کا انتخاب چار باتوں کی وجہ سے کیا جاتا ہے یعنی مال، حسب و نسب، حسن و جمال یا دین اور اخلاق۔ پھر فرمایا کہ اخلاق اور دین کو مقدّم رکھو ورنہ نقصان اٹھاؤگے۔ اس حدیث میں اس طرف اشارہ ہے کہ ماں کا اثر اولاد کی پیدائش سے بھی پہلے شروع ہوجاتا ہے گویا تربیت کا سلسلہ بھی تب سے ہی شروع ہوجائے گا۔ اسلام نے پیدائش کے بعد تربیت کا آغاز بچے کے دائیں کان میں اذان اور بائیں میں اقامت سے شروع کیا۔
پھر بچپن کا زمانہ بھی ماں کے ساتھ ہی گزرتا ہے اور اُسی سے متأثر ہوتا ہے۔ اگر ماں چاہے تو بچے کو جنّت کی طرف رہ نمائی کردے گویا جنّت ماں کے قدموں کے نیچے ہے۔
حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ لکھتے ہیں کہ مَیں ہزاروں گھروں کے حالات کا مطالعہ کرکے اسی نتیجے پر پہنچا کہ اگر بچوں کی ماں نیک ہو اور تربیت کا تھوڑا بہت بھی مادہ رکھتی ہو تو علیٰ قدر مراتب ایسی ماں کے اسّی فیصد بچے نیک نکلتے ہیں سوائے اس کے کہ بڑے ہوکر باہر کی صحبت سے خراب ہوجائیں۔
رسول کریمﷺ تربیت کی خاطر بچوں کو کبھی سزا نہ دیتے بلکہ بڑی محبت اور پیار کے ساتھ تربیت کرتے اور ان کے لیے دعا کرتے۔ فرمایا کرتے کہ اَکْرِمُوْا اَوْلَادَکُمْ یعنی اپنی اولاد کی عزت کیا کرو۔ کیونکہ اگر کسی غلطی پر بھی محبت سے سمجھانے کی بجائے مارا یا ڈانٹا جائے تو آئندہ وہی غلطی ہوجانے پر بچہ سچ کا دامن چھوڑ دے گا اور جھوٹ بول دے گا۔ حضرت فاطمہؓ جب آپؐ کے پاس آتیں تو آپؐ کھڑے ہوجاتے، اپنی جگہ اُن کو بٹھاتے اور بڑے پیار سے پیش آتے۔
آنحضورﷺ بچوں کے ساتھ باتیں کرتے، کھیلتے، اُن کی دوڑیں لگواتے اور جیتنے والے کو انعام دیتے۔ کھیل کھیل میں اُن کی تربیت کرتے۔ چھوٹے بچے آپؐ کے کندھے پر چڑھتے، گود میں بیٹھتے۔ آپؐ بچوں کو ساتھ بٹھاکر کھانا کھلاتے تو بھی اُن کو کھانے کے آداب سکھاتے۔ حضرت انسؓ بیان کرتے ہیں کہ مَیں نے آپؐ سے زیادہ بچوں سے محبت کرنے والا نہیں دیکھا۔
آنحضورﷺ ہمیشہ بچوں کو پہلے سلام کرنے کی کوشش کرتے۔ اس نمونے کی وجہ سے بعد میں بچے بھی آپؐ کو سلام کرنے میں پہل کرنے لگتے۔
حدیث ہے کہ بچہ سات برس کا ہوجائے تو اُس کو نماز پڑھنے کی تلقین کرو، جب دس سال کا ہوجائے اور نماز سے بے رغبتی دکھائے تو ہلکی پھلکی سزا بھی دو۔ کیونکہ جو بچہ خدا سے جُڑ جائے گا وہ دنیا میں کبھی ناکام نہیں ہوگا۔ اور نیک اولاد کو پیچھے چھوڑنے والا صدقہ جاریہ کا مستحق ہوجاتا ہے۔
آنحضورﷺ بچوں کی تربیت کے لیے حُسنِ سلوک کے ساتھ انصاف کا معاملہ بھی رکھتے۔ ایک بار جب آپؐ حضرت فاطمہؓ کے ہاں گئے ہوئے تھے تو حضرت حسینؓ نے کچھ پینے کے لیے مانگا۔ آپؐ نے ایک بکری کا دودھ دوہنا شروع کیا جس کا دودھ پہلے ہی دوہا جاچکا تھا۔ جب دودھ دوہ لیا تو حضرت حسنؓ بھی آپؐ کے پاس آگئے۔ لیکن آپؐ نے اُن کو پیچھے ہٹاکر دودھ حضرت حسینؓ کو دے دیا۔ حضرت فاطمہؓ نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! یہ آپ کا زیادہ عزیز ہے؟ آپؐ نے فرمایا کہ نہیں بلکہ پہلے اس نے مانگا تھا۔
ایک مرتبہ آنحضورﷺ کے دائیں جانب ایک بچہ اور بائیں جانب حضرت ابوبکرؓ تشریف فرما تھے۔ کسی صحابی نے کوئی مشروب پیش کیا تو آپؐ نے کچھ نوش فرمانے کے بعد اُس بچے سے دریافت فرمایا کہ کیا مَیں تم سے پہلے حضرت ابوبکرؓ کو یہ گلاس دے دوں ؟ بچے نے کہا کہ اگر رسول اللہ کا حکم نہ ہو تو مَیں آپؐ کے تبرک پر کسی کو ترجیح نہیں دوں گا۔ چنانچہ آپؐ نے گلاس بچے کو دے دیا۔
ایک حدیث میں ہے کہ اگر کوئی دو بچیوں کی اچھی تربیت کرکے ان کی شادی کرے تو وہ اپنے اس فعل کے ذریعے جنت کا وارث ہوجاتا ہے۔
اولاد کی تربیت کا ایک بہترین ذریعہ دعا ہے۔ حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں کہ بچوں کو مارنا شرک میں داخل ہے۔ گویا بدمزاج مارنے والا ہدایت اور ربوبیت میں اپنے تئیں حصہ دار بنانا چاہتا ہے۔ جس طرح اور جس قدر سزا دی جاتی ہے کاش! دعا میں لگ جائیں اور بچوں کے لیے خاص سوز دل سے دعا کرنے کو اپنا دستور بنالیں۔ اس لیے کہ والدین کی دعا کو بچوں کے حق میں خاص قبول بخشا گیا ہے۔
حضور علیہ السلام نے یہ بھی فرمایا کہ جب تک اولاد کی خواہش اس غرض سے نہ ہو کہ وہ دیندار اور متقی ہو اور خداتعالیٰ کی فرمانبردار ہوکر اُس کے دین کی خادم بنے، بالکل فضول بلکہ معصیت اور گناہ ہے۔ لیکن اگر کوئی شخص یہ کہے کہ مَیں صالح اور خداترس اور خادم دین اولاد کی خواہش کرتا ہوں تو اس کا کہنا بھی نرا ایک دعویٰ ہی ہوگا جب تک کہ وہ خود اپنی حالت میں ایک اصلاح نہ کرے۔
ایک بار حضرت اقدس علیہ السلام نے فرمایا کہ حضرت داؤد علیہ السلام کا قول ہے کہ مَیں بچہ تھا، جوان ہوا اور اب بوڑھا ہوگیا۔ مَیں نے متقی کو کبھی ایسی حالت میں نہیں دیکھا کہ اسے رزق کی مار ہو اور نہ اس کی اولاد کو ٹکڑے مانگتے دیکھا۔ اللہ تعالیٰ تو کئی پشت تک رعایت رکھتا ہے۔
………٭………٭………٭………
رسول اکرمﷺ کی مذہبی رواداری
مذہبی رواداری سے مراد یہ ہے کہ اپنے مذہب کو صحیح سمجھتے ہوئے مختلف مذہبی عقائد رکھنے والوں کے وجود کو تسلیم کرنا، اُن کے آزادیٔ ضمیر و عقیدہ کے حق کو قبول کرنا اور اُن کے حقوق کا تحفظ کرنا، نیز اختلافِ عقیدہ کو عدل اور معروف معاشرتی تعلقات کے رستہ میں حائل نہ ہونے دینا۔ ماہنامہ ’’مشکوٰۃ‘‘ قادیان جون، جولائی 2012ء میں مکرم سیّد میر محمود احمد ناصر صاحب کے قلم سے رسول اکرمﷺ کی مذہبی رواداری کے حوالے سے ایک تفصیلی مضمون رسالہ ’’الفرقان‘‘ ربوہ کی ایک پرانی اشاعت سے منقول ہے۔
1۔ آنحضورﷺ نے دنیا کے تمام لوگوں کو مخاطب کرکے فرمایا کہ مَیں تم سب کی طرف اللہ کا رسول بناکر بھیجا گیا ہوں۔ اور دیگر اقوام کے ماضی میں بلند روحانی مدارج پر فائز ہونے کے حوالے سے آنحضورﷺ نے فرمایا کہ اہل کتاب یہ نہ سمجھیں کہ روحانی بادشاہت اب اُن سے چھن رہی ہے بلکہ اگر وہ ایمان لائیں اور تقویٰ اختیار کریں تو اس بادشاہت کے دروازے پہلے سے بڑھ کر اُن پر کھولے جائیں گے۔ آخرت میں جنّت ملے گی اور دنیا کی نعماء بھی دی جائیں گی۔
2۔ مذہبی عدم رواداری کا ایک بڑا محرک اہلِ مذاہب کا یہ احساس ہوتا ہے کہ اُن کے پاس جو تعلیم ہے وہ ایسی نادر و نایاب ہے جس سے دیگر مذاہب کلیۃً محروم ہیں۔آنحضورﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے موجودہ روحانی سلسلہ کی حضرت آدمؑ کے ذریعہ داغ بیل ڈالتے ہوئے ہی میری بشارت اِنِّیْ جَاعِلٌ فِی الْاَرْضِ خَلِیْفَۃ کے الفاظ میں دے دی تھی۔ اور میری تعلیم سابقہ مذاہب کی تعلیمات کا تسلسل اور تکمیل ہے۔ اور میرے ظہور سے تمہارے انبیاء کی پیشگوئیاں پوری ہوئی ہیں۔
3۔ آنحضورﷺ نے اسلام کی سچائی سے بھری ہوئی تعلیم مخالفین کے سامنے پیش کرنے کے بعد اور نہ ماننے کی صورت میں عواقب سے ڈرانے کے بعد فرمادیا: لَااِکْرَاہَ فِی الدِّیْن۔ یعنی ماننا یا نہ ماننا تمہارا اختیار ہے۔
4۔ جو دشمنی مشرکین اور یہود نے مسلمانوں کے ساتھ کی اُس کے مقابلے میں آنحضورﷺ نے عدل و انصاف کا وہ معیار پیش کیا جورواداری سے کہیں بڑھ کر تھا۔ (سورۃ المائدہ)
5۔ آنحضورﷺ نے مخالفین کے ظلم و ستم کے جواب میں حسن و احسان کا جو سلوک فرمایا وہ قرآن کریم کی اس تعلیم کے مطابق تھا کہ قضاو قدر کے مطابق اور مخالفین کی طرف سے تم پر جانی و مالی مصائب کے پہاڑ ٹوٹیں گے اور اُن کی دل آزار باتیں سنوگے لیکن اگر تم صبر کرو اور خدا کو اپنی پناہ کا ذریعہ بناؤ تو یہ ایک عظیم کارنامہ ہوگا۔
6۔ قرآن کریم کے فرمان کے مطابق کہ ’’جن چیزوں کو تمہارے مخالفین خدا کے مقابلے میں پکارتے ہیں اُن کو بھی بُرابھلا نہ کہو، گالی نہ دو ورنہ وہ نادانی میں اللہ کو گالیاں دینے لگیں گے …۔ ‘‘ (الانعام:108) ایک دوسری جگہ مسلمانوں کو دفاعی جنگ کی اجازت دیتے ہوئے دیگر مذاہب کے معابد کی بے حرمتی کرنے سے منع فرمادیا۔ بلکہ آنحضورﷺ نے تو محض دوسروں کے جذبات کی خاطر خود کو دیگر انبیاء کے مقابلے میں فضیلت دینے سے بھی منع فرمادیا۔
7۔ مذہبی اختلاف ایک حد تک معاشرتی تعلقات کو محدود کرتا ہےمگر اسلام نے تمام پاکیزہ چیزیں جائز قرار دیتے ہوئے اہل کتاب کا کھانا اور پاکدامن اہل کتاب عورتوں سے نکاح کی اجازت دی۔ (المائدہ:6)آنحضورﷺ نے صرف ایسے معاشرتی تعلقات رکھنے سے منع فرمایا جو دینی غیرت کے خلاف ہوں۔
8۔ اسلام نے پہلے دیگر مذاہب کے ساتھ باہمی مذہبی اختلافات پر پردہ ڈالنے اور مشترکہ تعلیم پر اکٹھے ہونے کی بات کی کہ یہ وہی دین ہے جو نوحؑ، ابراہیمؑ، موسیٰؑ اور عیسیٰؑ کو دیا گیا تھا۔ (شوریٰ:14) پھر سورۃالکافرون میں وضاحت فرمادی کہ یہ اشتراک خدائے واحد کی عبادت پرنہیں ہوسکتا۔
9۔ اسلام نے جہاں اپنے نقطۂ نظر کو پیش کرنے اور تبلیغ کرنے کی نصیحت کی ہے وہاں فساد اور جھگڑے سے سختی سے منع فرمایا ہے۔ اور کسی کے جھگڑنے پر اس کا معاملہ خدا کے سپرد کرنے کی ہدایت کی ہے۔ (آل عمران:21)
10۔ آنحضورﷺ نے سارے مذاہب کے توحید پر اکٹھے ہونے کی جو تجویز پیش فرمائی ہے اُس کی مثال ماضی میں کسی مذہب میں نہیں ملتی۔ (آل عمران:64)
11۔ مذہبی عدم رواداری کا ایک باعث وہ کیفیت ہے جس میں دوسرا کسی اَور کا موقف سننے یا غور کرنے پر آمادہ نہیں ہوتا۔ اس کا علاج قرآن کریم نے سفر بتایا ہے جس کے نتیجے میں عقل سے کام لینے والا دل اور دوسروں کی بات سننے والے کان عطا ہوتے ہیں۔ (الحج:64)
12۔ مذہبی عدم رواداری کے نتیجے میں انسان اپنے مخالفین کی حقیقی خوبیوں کا بھی منکر ہوجاتا ہے۔ جبکہ قرآن کہتا ہے کہ سب اہل کتاب ایک جیسے نہیں۔ ان میں سے ایسے لوگ بھی ہیں جو اپنے عہد پر قائم ہیں، رات کو آیت اللہ پڑھتے اور سجدے کرتے ہیں۔ …… ایسے لوگ جو نیکی بھی کریں اس کی ناقدری نہیں کی جائے گی۔ (آل عمران:14تا 16)
13۔ آنحضرتﷺ نے کبھی کسی قوم پر جارحیت نہیں کی حتی کہ اپنا وطن بھی چھوڑ دیا۔ ہمیشہ صرف اپنے دفاع میں ہی تلوار اٹھائی۔ بلکہ دشمن جارحانہ حملے کے بعد صلح کی طرف مائل ہوا تو آپؐ نے صلح کو ترجیح دی۔ حتیٰ کہ صلح حدیبیہ کے وقت جب آپؐ کی پوزیشن مخالفین کے مقابلے میں بہت مضبوط تھی لیکن آپ نے اپنی فتح کو صلح پر قربان کردیا اور بظاہر ایسے معاہدہ پر دستخط فرمائے جس میں ذلّت آمیز شرائط کو قبول کیا۔ کفّار نے اس معاہدے کو اپنی فتح سمجھا، صحابہؓ اس معاہدے کو ظاہری نظر میں اپنی توہین سمجھتے تھے مگر عرش پر خدا فرما رہا تھا:
اِنَّا فَتَحْنَا لَکَ فَتْحًا مُّبِیْنًا …… (سورۃ الفتح)۔
نتائج نے خداکے اس ارشاد کی تصدیق کی۔
14۔ آنحضورﷺ کی دشمنوں سے مذہبی رواداری کا ایک عظیم پہلو وہ دردبھری دعائیں ہیں جو مخالفین کے ظلم کے بعد اُن کی ہدایت کے لیے آپؐ کے دل سے اٹھیں۔
………٭………٭………٭………
آنحضرتﷺ اور تعدّدازدواج
قانون فطرت اور انسان کے معاشرتی حالات کے پیش نظر تعدّد ازدواج ایک اہم ضرورت ہے۔ اسلام جو دین فطرت ہے اس نے اس انسانی ضرورت کو نظرانداز نہیں کیا تاہم چار تک بیویاں رکھنے کی اجازت بھی عدل اور مساوات کی شرط کے ساتھ دی گئی۔ آنحضورﷺ اور تعدّد ازدواج کے حوالے سے مکرم حافظ مظفر احمد صاحب کا ایک مضمون ماہنامہ ’’انصاراللہ‘‘ ربوہ نومبر 2012ء کی زینت ہے۔
بائبل کے مطابق بعض انبیاء نے فطری تقاضا کے تحت ایک سے زائد بیویاں کیں چنانچہ حضرت ابراہیمؑ کی تین بیویاں ثابت ہیں۔ حضرت یعقوبؑ کی بھی دو بیویاں لیاہ اور راخل تھیں۔ حضرت موسیٰؑ کی بھی دو بیویوں کا ذکر ملتا ہے۔ عہدنامہ قدیم کے مطابق حضرت داؤدؑ کی سات بیویاں تھیں۔ حضرت سلیمانؑ کے حرم میں سات سو بیویاں اور تین سو کنیزیں تھیں۔ گویا بنی اسرائیل میں تعدّد ازدواج کا تصور موجود تھا۔ نئے عہدنامہ میں بھی محض پاسبان اور کلیسا کے نگہبان کے لیے ایک بیوی کی شرط ہے جبکہ عام عیسائیوں کے لیے کسی پابندی کا صریحاً ذکر نہیں۔ یہی حال دیگر مذاہب کا ہے۔
بحیثیت ایک مذہبی رہ نما کے آنحضرتﷺ کی شادیوں کی مختلف اغراض تھیں۔ مثلاً حضرت زینب بنت جحشؓ سے نکاح کے ذریعے متبنّٰی کی رسم کا خاتمہ ہو۔ دوسرا بڑا مقصد مسلمان عورتوں کی تعلیم و تربیت تھی۔ چونکہ آنحضورﷺ کے ذریعے ایک نئے قانون اور تہذیب و تمدّن کی بنیاد پڑنی تھی اس لیے چار بیویوں تک کی پابندی سے آپؐ کو مستثنیٰ قرار دیا گیا۔ (الاحزاب:51)
اگر نبی کریمﷺ کی شادیاں نفسانی اغراض کی خاطر ہوتیں تو آپ ادھیڑعمر، بیوہ اور مطلقہ عورتوں سے نکاح نہ کرتے۔ آپؐ کی شادیوں میں دیگر مصالح کے علاوہ ایک اہم مصلحت بیوگان کو سہارا مہیا کرنا تھی۔ چنانچہ آپؐ کی نو بیویاں بیوگان میں سے تھیں۔ پہلی بیوی حضرت خدیجہؓ بیوہ تھیں۔ دوسری بیوی حضرت سودہؓ کے شوہر سکرانؓ ہجرت حبشہ کے دوران وفات پاگئے تھے۔ تیسری حضرت زینبؓ بنت خزیمہ کے شوہر عبیدہؓ غزوۂ بدر میں شہید ہوئے۔ چوتھی بیوی حضرت اُمّ سلمہؓ کے شوہر حضرت ابوسلمہؓ جنگ احد میں زخمی ہوکر شہید ہوئے۔ وہ خود عمر کی اُس حد کو پہنچ چکی تھیں جہاں اولاد پیدا نہیں کرسکتی تھیں۔ پانچویں بیوی حضرت حفصہؓ کے شوہر حضرت خنیسؓ بن حذافہ نے اُحد میں زخمی ہونے کے بعد مدینہ میں وفات پائی۔ چھٹی حضرت میمونہؓ تھیں جو حضرت عباسؓ کی نسبتی بہن تھیں اور اُن کی درخواست پر ہی آپؐ نے یہ رشتہ قبول فرمایا۔ حضرت اُمّ حبیبہؓ کے شوہر عبیداللہ بن جحشؓ ہجرت حبشہ کے دوران وفات پاگئے تھے۔ حضرت جویریہؓ، حضرت صفیہؓ اور حضرت ریحانہؓ بھی بیوگی کی حالت میں آپؐ کے عقد میں آئیں۔ بعض نکاحوں کی وجوہات قومی مصالح رکھتی تھیں۔ چنانچہ فتح خیبر کے موقع پر یہودی شہزادی حضرت صفیہؓ سے نکاح کے لیے صحابہؓ کا مشورہ آپؐ نے قبول فرمایا اور حضرت صفیہؓ کو آزاد کرکے اپنے حرم میں شامل فرمایا اور غلامی سے آزادی کو اُن کا حق مہر قرار دیا۔ اسی طرح سردارِمکّہ ابوسفیان کی بیٹی حضرت اُمّ حبیبہؓ اور بنومصطلق کے سردار حارث کی بیٹی حضرت جویریہؓ اور مصر کی شہزادی حضرت ماریہ قبطیہؓ کے ساتھ عقد ہوا۔ یہ دستور قدیم سے جاری تھا جیسا کہ حضرت سلیمانؑ نے بھی فرعونِ مصر کی بیٹی سے شادی کی تھی جس کے باعث اسرائیل کو مصر سے حملے کا خطرہ نہ رہا تھا۔
مذکورہ حقائق کو ایسے مستشرقین نے بھی قبول کیا ہے جو اعتراض کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔ چنانچہ مسٹر مارگولیس اپنی کتاب ’’محمد‘‘ میں لکھتے ہیں : ’’محمدؐ کی بہت سی شادیاں بیشتر یورپین مصنفین کی نظر میں نفسانی خواہشات پر مبنی قرار دی گئی ہیں لیکن غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ زیادہ تر اس جذبے پر مبنی نہیں تھیں۔ محمدؐ کی بہت سی شادیاں قومی اور سیاسی اغراض کے ماتحت تھیں کیونکہ محمدؐ یہ چاہتے تھے کہ اپنے خاص خاص صحابیوں کو شادیوں کے ذریعے سے اپنی ذات کے ساتھ محبت کے تعلقات میں زیادہ پیوست کرلیں۔ ابوبکر و عمر کی لڑکیوں کی شادیاں یقیناً اسی خیال کے ماتحت کی گئی تھیں۔ اسی طرح سربرآوردہ دشمنوں اور مفتوح رئیسوں کی لڑکیوں کے ساتھ بھی محمدؐ کی شادیاں سیاسی اغراض کے ماتحت وقوع میں آئی تھیں۔‘‘
(مارگولیس صفحہ176-177)
سابق عیسائی راہبہ پروفیسر کیرن آرمسٹرانگ لکھتی ہیں: اگر تعدّد ازدواج کو اس کے پس منظر میں دیکھا جائے تو یہ ہرگز لڑکوں کی تسکین جنس کے سامان کے طور پر ایجاد نہیں کی گئی تھی بلکہ یہ معاشرتی قانون سازی کا ایک حصّہ تھا۔ یتیم لڑکیوں کا مسئلہ آنحضرتﷺ کو آغاز سے ہی درپیش تھا لیکن جنگ اُحد میں کئی مسلمانوں کی شہادت نے اس میں اضافہ کردیا تھا۔ شہداء نے محض بیوگان ہی پیچھے نہیں چھوڑیں بلکہ بیٹیاں، بہنیں اور دیگر رشتہ دار بھی تھے جو نئے سہاروں کے متقاضی تھے کیونکہ نئے نگران اُن یتامیٰ کی جائیدادوں کے انتظام و انصرام کے قابل نہ تھے۔ بعض جائیداد روکنے کی خاطر ان لڑکیوں کی شادی اس لیے نہ کرتے تھے اور ایک مرد کے لیے اپنے زیرکفالت عورتوں سے شادی کرنا کوئی غیرمعمولی بات نہ تھی جس کے ذریعے وہ ان کی جائیداد بھی اپنے قبضے میں کرلیں۔
(Muhammad A Biography of Prophet p.180)
اطالوی مستشرقہ ڈاکٹر لاراولیسیا وگلیری لکھتی ہیں : ’’دشمنانِ اسلام نے آپؐ کی شادیوں سے آپؐ میں ایک کمزور کردار اور اپنے مشن سے غیرمخلص ثابت کرنے کی کوشش کرکے آپؐ کو ایک عیاش طبع اور آوارہ آدمی کی صورت میں پیش کرنے کے لیے پورا زور لگایا۔ انہوں نے اس حقیقت کو مدّنظر نہ رکھا کہ آپؐ نے زندگی کے اس دَور میں جبکہ قدرتی طور پر جنسی خواہشات زورآور ہوتی ہیں صرف ایک ہی عورت سے شادی کی، باوجود یہ کہ آپؐ عربوں کے اُس معاشرے کے مکین تھے جہاں نظام ازدواجیت نہ ہونے کے برابر تھا۔ جہاں تعدّد ازدواج ایک رواج تھا اور جہاں علیحدگی نہایت آسان تھی۔ خدیجہ جو خود آپؐ سے کافی عمر رسیدہ تھیں اور آپؐ پچیس سال تک اُن کے وفاشعار اور محبوب رفیق حیات رہے۔ صرف اُس وقت جب خدیجہؓ کی وفات ہوگئی اور آپؐ پچاس سال کے ہوگئے تو آپؐ نے دوبارہ کئی شادیاں کیں۔ ہر شادی کسی معاشرتی یا سیاسی مقصد کے لیے تھی۔ آپ اپنی ازواج کے ذریعے سے پرہیزگار عورتوں کو عزت دینا چاہتے تھے یا دوسرے قبائل سے شادیوں کے ذریعے سے تعلقات استوار کرنا چاہتے تھے تاکہ اسلام کی تبلیغ میں زیادہ سے زیادہ راہ ہموار ہو۔ سوائے حضرت عائشہؓ کے آپؐ نے ایسی عورتوں سے نکاح کیا جو نہ تو کنواری تھیں، نہ جوان اور نہ ہی غیرمعمولی خوبصورت۔ کیا یہی عیاشی ہوتی ہے؟‘‘
(An Interpretation of Islam p.67-68)
سیّدنا حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں : رسول اللہﷺ پر یہ اعتراض کیا جاتا ہے کہ اُن کی کئی بیویاں تھیں اور یہ کہ آپؐ کا یہ فعل نعوذباللہ من ذالک عیّاشی پر مبنی تھا۔ مگر جب ہم اُس تعلق کو دیکھتے ہیں جو آپؐ کی بیویوں کو آپؐ کے ساتھ تھا تو ہمیں ماننا پڑتا ہے کہ یہ تعلق ایسا پاکیزہ، ایسا بےلوث اور ایسا روحانی تھا کہ کسی ایک بیوی والے مرد کا تعلق بھی اپنی بیوی سے ایسا نہیں ہوتا۔ اگر آپؐ کا تعلق اپنی بیویوں سے عیاشی کا ہوتا تو اس کا لازمی نتیجہ یہ نکلنا چاہیے تھا کہ اُن بیویوں کے دل کسی روحانی جذبے سے متأثر نہ ہوتے۔ مگر آپؐ کی بیویوں کے دل میں آپؐ کی جو محبت تھی اور آپؐ سے جو نیک اثر انہوں نے لیا تھا وہ بہت سے واقعات سے ظاہر ہوتا ہے۔ مثلاً میمونہؓ پہلی دفعہ حرم سے باہر ایک خیمے میں رسول اللہﷺ کی خدمت میں پیش کی گئیں۔ وہ آپؐ کی وفات کے بعد 50سال زندہ رہیں اور 80 سال کی عمر میں فوت ہوئیں۔ اگر آپؐ کا اُن سے تعلق کوئی جسمانی تعلق ہوتا اور آپؐ بعض بیویوں کو بعض پر ترجیح دینے والے ہوتے تو میمونہؓ نے یہ خواہش کیوں کی ہوتی کہ میری قبر مکّہ سے باہر وہاں بنائی جائے جہاں رسول کریمﷺ کا خیمہ تھا اور جہاں مجھے پہلی دفعہ آپؐ کی خدمت میں پیش کیا گیا تھا۔ دنیا کے سچے نوادر اور قصّے کہانیوں میں سے بھی کیا کوئی واقعہ اس گہری محبت سے زیادہ پُرتاثیر پیش کیا جاسکتا ہے؟
(ماخوذ از دیباچہ تفسیرالقرآن صفحہ 205-206)
………٭………٭………٭………
ماہنامہ ’’انصاراللہ‘‘ ربوہ اگست 2012ء میں مکرم جنرل محمودالحسن صاحب کا نعتیہ کلام شامل اشاعت ہے۔ اس نظم میں سے انتخاب ملاحظہ فرمائیں :
میری زبان سے ہو نہ سکے گا کبھی ادا
جو شکر تیرا، تیرے محمدؐ نے کر دیا
تُو ہے مرا خدا، پہ کہاں آگہی مجھے
پایا فقط اسی کے وسیلہ سے ہی تجھے
صحرائیوں کو اُس نے کیا عرش آشنا
اور باخُدا بنا کے بنایا خُدا نما
وہ کائنات میں ترا شہکارِ لازوال
انسانیت کا جس پہ ہوا ختم ہر کمال
حق تو یہی ہے اُس کا جہاں میں نہیں جواب
اپنی دلیل آپ ہے وہ مثلِ آفتاب
اُس کے طفیل ہی مجھے ایماں عطا ہوا
کیا بے بہا خزینۂ قرآں عطا ہوا
حمد و ثنا کروں تری اِس کے سِوا تو کیا
تُو نے مرے جہاں کو محمدؐ کیا عطا