1928ء میں سیرت النبیﷺ کے بابرکت جلسوں کےانعقاد سے ناموسِ رسالت کا حقیقی اور عملی تحفظ (قسط اوّل)
حضرت مصلح موعودؓ کا مہتم بالشان کارنامہ: منفرد، بین الاقوامی اور بین المذاہب جلسہ سیرت النبیﷺ کی بنیاد
رسول کریمﷺ کی سوانح پر اس کثرت سے اور اس قدر زور کے ساتھ لیکچر دئیے جائیں کہ ہندوستان کا بچہ بچہ آپ کے حالات زندگی اور آپﷺ کی پاکیزگی سے آگاہ ہو جائے۔ اور کسی کو آپ کے متعلق زبان درازی کرنے کی جرأت نہ رہے
مجالس سیرت النبیﷺ کی تجویز اور اس کا پس منظر
1928ء کا نہایت مہتم بالشان اور تاریخ عالم میں سنہری حروف سے لکھے جانے کے لائق حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کے ہاتھوں سیرت النبیؐ کے جلسوں کی بنیاد ہے ۔ان جلسوں نے برصغیر ہند و پاک کی مذہبی تاریخ پر خصوصاً اور دنیا بھر میں عموماً بہت گہرا اثر ڈالا ہے۔ اور جو اب ایک عالمگیر تحریک کی صورت اختیار کرتی جا رہی ہے۔
اللہ تعالیٰ نے اس اہم تحریک کی تجویز حضورؓ کے دل میں 1927ء کے آخر میں اس وقت القا فرمائی جبکہ ہندوؤں کی طرف سے کتاب ‘‘رنگیلا رسول’’اور رسالہ ‘‘ورتمان’’میں آنحضرتﷺ کی شان مبارک کے خلاف گستاخیاں انتہا کو پہنچ گئیں۔ اور ملک میں فرقہ وارانہ کشیدگی نہایت خطرناک شکل اختیار کر گئی۔ حضورؓ نے اس مرحلہ پر آنحضرتﷺ کی ناموس و حرمت کی حفاظت کے لیے ملکی سطح پر جو کامیاب مہم شروع فرمائی۔ یہ مہم اسلامی دفاع کا ایک شاندار نمونہ تھی۔ جس نے نہ صرف مخالفین اسلام کی چیرہ دستیوں کا سدباب کرنے میں مضبوط دیوار کا کام دیا۔ بلکہ نبی کریمﷺ کے نام لیواؤں کو عشق رسول کے عظیم الشان جذبہ سے ایک پلیٹ فارم پر مجتمع کر دیا۔ مگر حضورؓ کے مضطرب اور درد آشنا دل نے اسی پر قناعت کرنا گوارا نہ کیا۔ اور آپ سب وشتم کی گرم بازاری کو دیکھ کر اس نتیجہ پر پہنچے کہ جب تک آنحضرتﷺ کی مقدس زندگی کے حالات اور آپﷺ کے عالمگیر احسانات کے تذکروں سے ہر ملک کا گوشہ گوشہ گونج نہیں اٹھے گا۔ اس وقت تک مخالفین اسلام کی قلعہ محمدی پر موجودہ یورش بدستور جاری رہے گی۔ اور دراصل یہی خیال تھا۔ جس کو عملی جامہ پہنانے کے لئے آپ نے ‘‘سیرت النبیﷺ ’’ کے جلسوں کی تجویز فرمائی۔ چنانچہ حضورؓخود ہی ارشاد فرماتے ہیں :
‘‘لوگوں کو آپؐ پر (یعنی رسول کریمﷺ پر۔ ناقل)حملہ کرنے کی جرأت اسی لئے ہوتی ہے۔ کہ وہ آپ کی زندگی کے صحیح حالات سے ناواقف ہیں۔ یا اسی لئے کہ وہ سمجھتے ہیں دوسرے لوگ ناواقف ہیں اور اس کا ایک ہی علاج ہے۔ جو یہ ہے کہ رسول کریمﷺ کی سوانح پر اس کثرت سے اور اس قدر زور کے ساتھ لیکچر دئیے جائیں کہ ہندوستان کا بچہ بچہ آپ کے حالات زندگی اور آپﷺ کی پاکیزگی سے آگاہ ہو جائے۔ اور کسی کو آپ کے متعلق زبان درازی کرنے کی جرأت نہ رہے جب کوئی حملہ کرتا ہے تو یہی سمجھ کر کہ دفاع کرنے والا کوئی نہ ہوگا۔ واقف کے سامنے اس لئے کوئی حملہ نہیں کرتا کہ وہ دفاع کر دے گا۔ پس سارے ہندوستان کے مسلمانوں اور غیر مسلموں کو رسول کریمﷺ کی پاکیزہ زندگی سے واقف کرنا ہمارا فرض ہے اور اس کے لئے بہترین طریق یہی ہے کہ رسول کریمﷺ کی زندگی کے اہم شعبوں کو لے لیا جائے۔ اور ہر سال خاص انتظام کے ماتحت سارے ہندوستان میں ایک ہی دن ان پر روشنی ڈالی جائے تا کہ سارے ملک میں شور مچ جائے اور غافل لوگ بیدار ہو جائیں۔’’
(تقریر سالانہ جلسہ 1927ء۔ مطبوعہ الفضل 10؍ جنوری 1928ء)
نیز فرمایا :‘‘آنحضرتﷺ ان وجودوں میں سے ہیں جن کے متعلق کسی شاعر نے کہا ہے کہ
آفتاب آمد دلیل آفتاب
سورج کے چڑھنے کی دلیل کیا ہے؟ یہ کہ سورج چڑھا ہوا ہے کوئی پوچھے اس بات کی کیا دلیل ہے کہ سورج چڑھا ہوا ہے تو اسے کہا جائے گا۔ دیکھ لو سورج چڑھا ہوا ہے۔ تو کئی ایسے وجود ہوتے ہیں کہ ان کی ذات ہی ان کا ثبوت ہوتی ہے اور رسول کریمﷺ کی ذات ستودہ صفات انہی وجودوں میں سے ہے بلکہ یہ کہنا چاہیےکہ اس وقت تک جو انسان پیدا ہوئے یا آئندہ پیدا ہوں گے وہ سب کے سب رسول کریمﷺ سے نیچے ہیں اور آپﷺ سب پر فوقیت رکھتے ہیں ایسے انسان کی زندگی پر اگر کوئی اعتراض کرتا ہے تو اس کی زندگی کو بگاڑ کر ہی کر سکتا ہے اور بگاڑے ہوئے حالات سے وہی متاثر ہو سکتا ہے جسے صحیح حالات کا علم نہ ہو…. رسول کریمﷺ کی ذات پر اسی طرح حملے کئے جاتے ہیں ایسے حملوں کے اندفاع کا بہترین طریق یہ نہیں ہے کہ ان کا جواب دیا جائے بلکہ یہ ہے کہ ہم لوگوں کو توجہ دلائیں کہ وہ رسول کریمﷺ کے حالات خود پڑھیں اور ان سے صحیح طور پر واقفیت حاصل کریں۔ جب وہ آپﷺ کے حالات پڑھیں گے تو انہیں معلوم ہو جائے گا کہ آپ کی ذات نور ہی نور ہے اور اس ذات پر اعتراض کرنے والا خود اندھا ہے۔ ’’
(خطبہ جمعہ فرمودہ 27؍اپریل 1928ء مطبوعہ الفضل4؍مئی 1928ء)
وسیع سکیم
اس اہم قومی و ملی مقصد کی تکمیل کے لیے آپ نے ایک وسیع پروگرام تجویز فرمایا جس کے اہم پہلو مندرجہ ذیل تھے :
اول :ہر سال آنحضرتﷺ کی مقدس سوانح میں سے بعض اہم پہلوؤں کو منتخب کر کے ان پر خاص طور سے روشنی ڈالی جائے۔ 1928ء کے پہلے ‘‘سیرت النبیﷺ ’’ کے جلسے کے لئے آپ نے تین عنوانات تجویز فرمائے۔
(1)رسول کریمﷺ کی بنی نوع انسان کے لیے قربانیاں۔
(2) رسول کریمﷺ کی پاکیزہ زندگی
(3) رسول کریمﷺ کے دنیا پر احسانات
دوم :ان مضامین پر لیکچر دینے کے لیے آپ نے سالانہ جلسہ 1927ء پر ایسے ایک ہزار فدائیوں کا مطالبہ کیا۔ جو لیکچر دینے کے لیے آگے آئیں تا انہیں مضامین کی تیاری کے لیے ہدایات دی جا سکیں اور وہ لیکچروں کے لیے تیار کئے جا سکیں۔ جلسوں کے اثرات سے قطع نظر صرف یہی بہت بڑا اور غیر معمولی کام تھا کہ حضور ﷺکی سیرت پر روشنی ڈالنے والے ہزار لیکچرار تیار کر دئیے جائیں۔
سوم :سیرت النبیﷺ پر تقریر کرنے کے لیے آپ نے مسلمان ہونے کی شرط اڑا دی اور فرمایا رسول کریمﷺ کے احسانات سب دنیا پر ہیں اس لیے مسلمانوں کے علاوہ وہ لوگ جن کو ابھی تک یہ توفیق تو نہیں ملی کہ وہ رسول کریمﷺ کے اس تعلق کو محسوس کر سکیں۔ جو آپ کو خدا تعالیٰ کے ساتھ تھا۔ مگر وہ یہ محسوس کرتے ہیں کہ آپ نے اپنی قربانیوں سے بنی نوع انسان پر بہت احسان کیے ہیں وہ بھی اپنے آپ کو پیش کر سکتے ہیں ان کی زبانی رسول کریمﷺ کے احسانات کا ذکر زیادہ دلچسپ اور زیادہ پیارا معلوم ہوگا۔ پس اگر غیر مسلموں میں سے بھی کوئی اپنے آپ کو اس کام کے لئے پیش کریں گے تو انہیں شکریہ کے ساتھ قبول کیا جائے گا اور ان کی اس خدمت کی قدر کی جائے گی۔
چہارم :غیر مسلموں کو سیرت رسولﷺ کے موضوع سے وابستگی کا شوق پیدا کرنے کے لیے یہ اعلان کیا گیا کہ جو غیر مسلم اصحاب ان جلسوں میں تقریریں کرنے کی تیاری کریں گے اور اپنے مضامین ارسال کریں گے ان میں سے اول، دوم اور سوم پوزیشن حاصل کرنے والوں کو علی الترتیب سو، پچاس اور پچیس روپے کے نقد انعامات بھی دئیے جائیں گے۔
پنجم :حضور کے سامنے چونکہ‘‘میلاد النبیﷺ ’’ کے معروف رسمی اور بے اثر اور محدود جلسوں کے مخصوص اغراض کی بجائے ‘‘سیرت النبیﷺ ’’ کے خالص علمی اور ہمہ گیر جلسوں کا تصور تھا اس لیے آپ نے ان کے انعقاد کے لیے 12؍ربیع الاوّل کے دن کی بجائے (جو عموماً ولادت نبوی کی تاریخ تسلیم کی جاتی ہے) دوسرے دنوں کو زیادہ مناسب قراردیا۔
چنانچہ1928ء میں آپ نے یکم محرم 1347ھ بمطابق20؍ جون کو یوم سیرت منانے کا اعلان کیا۔ جسے شیعہ فرقہ کے مسلمانوں کی بآسانی شمولیت کے پیش نظر17؍ جون میں تبدیل کر دیا۔
[نوٹ:تعجب کی بات یہ تھی کہ پہلی تاریخ بدلنے کا سوال اہلسنت و الجماعت کے بعض اصحاب میں پیدا ہوا حالانکہ اس دن لیکچر دینے والوں میں کئی شیعہ حضرات نے بھی نام لکھوایا تھا اور جلسہ کو کامیاب بنانے میں ہر ممکن تعاون کی پیشکش کی تھی اور گو کسی شیعہ کو شہیدان کربلا کے دردناک حالات کے ساتھ سیرت رسولﷺ پر روشنی ڈالنے سے اعتراض نہیں ہو سکتا تھا۔ مگر حضورؓ نے محض اس وجہ سے کہ محرم کے دنوں میں فسادات رونما ہو جانے کا خطرہ ہوتا ہے اور حکومت امن و امان کی بحالی کے لیے بعض جگہ جلسوں کی ممانعت کر دیتی ہے۔ 17؍ جون کا دن جلسوں کے لیے مقرر فرما دیا۔ (الفضل 4؍مئی 1928ء)]
حضورؓ نے اس عظیم الشان پروگرام کے شایان شان جماعت احمدیہ اور دوسرے مسلمانوں کو تیاری کرنے کی طرف بار بار توجہ دلائی اور اس بارے میں کئی اہم مشورے دیےمثلاً اصل جلسوں کی اہمیت بتانے کے لیے مختلف موقعوں پر مختلف محلوں میں جلسے کریں، جلسہ کی صدارت کے کئی بارسوخ اور سربرآوردہ لوگ منتخب کیے جائیں جلسہ گاہ کا ابھی سے مناسب انتظام کرلیں۔ اسی طرح جلسہ کے لئے منادی اور اعلان کے متعلق ابھی سے تیاری شروع کر دیں۔ اور یہ ذمہ اٹھائیں کہ وہ اپنے ماحول میں دو دو تین تین گاؤں میں جلسے منعقد کرائیں گے۔
لیکچراروں کی فراہمی کا مسئلہ
اس ضمن میں مشکل ترین کام یہ تھا کہ ملک کےطول وعرض میں تقریر کرنے والے ایک ہزار لیکچرار مہیا اور تیار کیے جائیں۔ شروع شروع میں یہ کام حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ نے اپنے دفتر پرائیویٹ سیکرٹری کے سپرد فرمایا مگر 14؍ مارچ 1928ء کو اس کی نگرانی صیغہ ترقیٔ اسلام کے سیکرٹری حضرت چوہدری فتح محمد صاحب سیال صاحبؓ کے سپرد فرما دی۔
حضرت چوہدری صاحبؓ نے ملکانہ تحریک کی طرح اس معاملہ میں بھی انتہائی مستعدی فرض شناسی اور فدائیت کا ثبوت دیا۔ اور زبردست سعی و جدوجہد سے ہزار سے زیادہ یعنی چودہ سو انیس لیکچرار فراہم ہوگئے۔ یہ لیکچرار وہ تھے جن کے نام رجسٹر میں درج تھے ورنہ 17؍ جون کے مقررین تعداد میں اس سے بھی بہت زیادہ تھے۔یہاں زیادہ مناسب ہوگاکہ چوہدری صاحبؓ کے قلم سے ان مخلصانہ مساعی کا نقشہ پیش کر دیا جائے۔ فرماتے ہیں :
‘‘14؍مارچ کو میں نے یہ کام اپنے ہاتھ میں لے کر مبلغین میں سے ایک صاحب کو اس کام کے لئے فارغ کر دیا۔ جس کے ساتھ عملہ دفتر دعوۃ و تبلیغ بھی بطور معاون کام کرتا رہا۔ لیکچرار مہیا کرنے کے لئے اسلامی انجمنوں، اسلامیہ سکولوں، ائمہ مساجد علماء و سجادہ نشینان، ممبران ترقی اسلام ایڈیٹران اخبارات، ممبران لیجسلیٹو کونسلز واسمبلی اور ہندو معززین و تھیوسافیکل سوسائٹیوں سے خط و کتابت کی گئی اور اس کے علاوہ متعدد اسلامی اخبارات میں پے در پے تحریکات شائع کرنے کے ساتھ صوبجات بنگال، مدراس اور بمبئی کی انگریزی اخبارات میں لیکچرار مہیا کرنے کے لئے اجرت پر اشتہارات دئیے گئے۔ ہندوستان کے علاوہ ممالک خارجہ انگلینڈ، نائجیریا، گولڈ کوسٹ، نیروبی و دیگر حصص افریقہ اور شام، ماریشس، ایران، سماٹرا، آسٹریلیا میں بھی مبلغین اور بعض دیگر احباب کو بھی خطوط لکھے گئے۔17؍جون کے جلسہ سے چند دن قبل حضرت خلیفۃ المسیح الثانی کا رقم فرمودہ ایک پوسٹر15؍ہزار کی تعداد میں چھپوا کر ہندوستان کے تمام حصوں میں بھیجا گیا جس میں مسلمانوں کو ہر جگہ17؍جون کے دن جلسہ کرنے کی تحریک کی گئی۔ ہمارا مطالبہ تمام ہندوستان سے ایک ہزار لیکچرار مہیا کرنے کا تھا۔ لیکن اللہ تعالیٰ کے فضل سے 16؍جون کو ممالک خارجہ اور ہندوستان کے لیکچراروں کی تعداد درج رجسٹر 1419؍تھی۔ گویا مطالبہ سے 419؍زیادہ لیکچرار تھے۔ اور پھر خصوصیت اس میں یہ تھی کہ مختلف علاقوں سے ہمیں 25؍ غیر مسلم لیکچرار اصحاب کے نام ملے۔ اگرچہ 17؍جون کے دن غیر مسلم لیکچراروں کی تعداد اس سے بہت زیادہ تھی جو بروقت مقامی طور پر جلسوں میں بخوشی حصہ لینے کے لئے تیار ہوگئے۔ غرض لیکچراروں کے حصول میں ہمیں امید سے بڑھ کر کامیابی ہوئی۔ ’’(رپورٹ مجلس مشاورت 1929ء صفحہ 205)
لیکچراروں کی رہ نمائی کے لیے مفصل نوٹوں کی طباعت اور الفضل کے ’’خاتم النبیین نمبر‘‘ کی اشاعت
جہاں تک لیکچراروں کو مواد فراہم کرنے کا تعلق تھا اس کے لیے حضرت چوہدری صاحبؓ نے یہ انتظام فرمایاکہ مجوزہ مضامین کے متعلق مفصل نوٹ تیار کرائے اور وہ (پانچ ہزار کی تعداد میں ) طبع کرا کے لیکچراروں کو بھجوا دئیے۔ جس سے ان کو بہت مدد ملی۔ علاوہ بریں حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کے ارشاد پر ادارہ ‘‘الفضل’’ نے پانچ روز قبل 12؍ جون 1928ء کو 72صفحات پر مشتمل نہایت شاندار۔ ‘‘خاتم النبیین نمبر’’شائع کیا جس میں حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ اور دوسرے ممتاز بزرگان احمدیت و علمائے سلسلہ اور احمدی مستورات کے علاوہ بعض مشہور غیر احمدی زعماءاور غیر مسلم اصحاب کے نہایت بلند پایہ مضامین تھے۔
تحریک سے متعلق عجیب وغریب غلط فہمیاں پھیلانے کی کوشش
یہ تحریک تمام اقوام عالم کے لیے عموماً اور مسلمانوں کے لیے نہایت مفید و بابرکت تحریک تھی۔ لیکن تعجب اور افسوس کی بات یہ ہے کہ بعض مسلم حلقوں میں شروع ہی سے اس کی مخالفت میں آواز اٹھائی گئی اور اس کے متعلق عجیب و غریب اعتراضات کیے گئے مثلاً بعض نے کہا یہ تحریک حکومت کے منشاء کے تحت اور حکومت سے تعاون کرنے کی تلقین کے لیے کی گئی ہے۔ یہ بھی کہا گیا کہ ان جلسوں میں چندہ جمع کیا جائے گا۔ بعض نے کہا کہ احمدی اس طرح اپنے عقائد کی تبلیغ کرنا چاہتے ہیں اور یہ تحریک خود غرضی پر مبنی ہے۔ ایک سوال یہ اٹھایا گیا کہ مذہبی معاملہ میں غیر مسلم کیوں شریک کیے گئے۔
[نوٹ: یہ تینوں باتیں غلط تھیں اور واقعات نے ان کا غلط ہونا ثابت کر دیا (1) مولوی ابوالکلام صاحب آزاد ڈاکٹر کچلو صاحب۔ ڈاکٹر مختار صاحب انصاری اور سردار کھڑک سنگھ صاحب جیسے کانگریسی لیڈر یا تو بعض جلسوں کے پریذیڈنٹ ہوئے یا اس کے داعی بنے جس سے ظاہر ہےکہ حکومت کے ساتھ اس تحریک کا کوئی تعلق نہیں تھا۔ (2) ان جلسوں پر جماعت احمدیہ کا پندرہ ہزار کے قریب روپیہ صرف ہوا۔ لیکن جماعت نے کسی ایک پیسہ کا بھی چندہ نہ مانگا البتہ لکھنؤ اور کئی دوسرے مقامات میں مسلمانوں نے خود جلسہ کے انعقاد کے لیے رقوم بھیجیں جو انہیں کے انتظام کے ماتحت اس کام پر خرچ ہوئیں۔ (3)سارے ہندوستان میں منعقد ہونے والے جلسوں میں سے صرف ایک تقریر کے متعلق کہا گیا کہ اس میں احمدیت کی تبلیغ کی گئی …پھر ان جلسوں میں مولوی ثناء اللہ صاحب امرتسری، حیدر آباد دکن کے صدر الصدور مولوی حبیب الرحمٰن خان صاحب شروانی، علماء فرنگی محل اور جناب ابوالکلام صاحب آزاد کا کسی نہ کسی رنگ میں حصہ لینا بھی اس بات کا ثبوت ہے کہ انہیں ایسے جلسوں میں احمدیت کے مخصوص عقائد کی تبلیغ ہونے کا کوئی اندیشہ نہیں تھا۔ (الفضل 24؍جولائی 1928ء)]
مخالفت کرنے والی جماعتوں میں سے احمدیہ انجمن اشاعت اسلام لاہور، خلافت کمیٹی اور مسلم اخبارات میں سے اخبار ‘‘پیغام صلح’’ اور اخبار ‘‘زمیندار’’ نے تحریک کو ناکام بنانے کی ہر ممکن کوشش کی۔ خلافت کمیٹی کے ساتھ تعلق رکھنے والے لوگوں نے تو آخر ملک اور عام پبلک کا رجحان اس تحریک کی طرف دیکھ کر اس سے عدم تعاون کی پالیسی ترک کر دی (سوائے چند جگہوں کے) لیکن احمدیہ انجمن اشاعت اسلام لاہور کے امیراور اخبار ‘‘پیغام صلح’’ و ‘‘زمیندار’’ نے آخر دم تک مخالفت جاری رکھی۔ حتیٰ کہ17؍ جون سے پہلے اور عین اس دن اکثر مقامات پر اس قسم کی تحریریں چھپوا کر شائع کیں جن کا نہایت برا اثر پڑ سکتا تھا۔
[نوٹ:چنانچہ مولوی محمد علی صاحب مرحوم پریذیڈنٹ احمدیہ انجمن اشاعت اسلام لاہور نے خود اقرار کیا کہ‘‘ان جلسوں میں میاں صاحب کے ساتھ ہم نے اشتراک عمل نہیں کیا’’۔ (پیغام صلح یکم ستمبر1928ء صفحہ 2) اس کے مقابل ان کا گذشتہ طرز عمل یہ تھا کہ انہوں نے ایک عرصہ قبل کانگریس کے لیڈر مسٹر گاندھی کی قیادت میں چلائی ہوئی تحریک خلافت کے ساتھ وابستگی ضروری خیال کی۔ چنانچہ احمدیہ انجمن اشاعت اسلام لاہور کے امیر جناب مولوی صدر الدین صاحب کا بیان ہے کہ‘‘میں نے انگریزی راج کے خلاف ہندوستان میں اور خود انگلستان میں متعدد لیکچر دئیے تھے اور سالہا سال تک کانگریس اور تحریک خلافت سے تعاون کرتے ہوئے کھدر پوش بنا رہا’’۔
(کامیاب زندگی کا تصور صفحہ 112 مولف پروفیسر انورول شائع کردہ مکتبہ جدید لاہور سن طبع اول مارچ 1964ء)
افسوس ان حضرات کو سیرت النبیﷺ کی عالمگیر تحریک بھی جماعت احمدیہ قادیان سے اتحاد عمل پر آمادہ نہ کر سکی۔ اور بعض غیر مبائعین نے بیان کیا کہ ہمیں انجمن نے ان میں حصہ لینے سے روکا ہے اور دو چار مقامات کے سوا بحیثیت قوم فریق لاہور نے اس کا بائیکاٹ ہی کیا۔ جس کی وجہ صرف یہ تھی کہ اس تحریک کے بانی حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ تھے اور یہ آواز قادیان سے بلند ہوئی تھی۔ مگر چونکہ غیر مسلموں کو اسلام تک لانے کی موثر ترین صورت یہی تھی جو حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ نے تجویز فرمائی تھی اس لئے بالآخر ان کو بھی تسلیم کرنا پڑا۔ کسی موقعہ پر یہ آواز بلند کر دینے سے کہ فلاں شخص نے رسول اللہﷺ کی شان میں گستاخی کر کے ہمارا دل دکھایا ہے حقیقتاً کوئی اصلاح نہیں ہوتی بلکہ بسا اوقات اپنے غیظ و غضب کے اظہار سے بڑھ کر اس سے کچھ حاصل نہیں ہوتا۔ اگر ان گستاخیوں کا سدباب کرنا ہے اگر اس ملک میں اشاعت اسلام کے لئے کوئی عملی راستہ کھولنا ہے تو اس کے لئے سب سے بڑھ کر یہ ضروری ہے کہ آنحضرتﷺ کے صحیح حالات کو ہر طبقہ کے لوگوں تک پہنچایا جائے’’۔ (پیغام صلح ضمیمہ 30؍اکتوبر 1928ء)]
(ماخوذ از تاریخ احمدیت جلد 5 صفحہ 29تا34)
٭…٭…(جاری ہے)…٭…٭