رسول پاک صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم سے اظہارِ محبت و عقیدت کے لیے کیا درود شریف کا ورد ہی کافی ہے؟
حضرت خاتم الانبیاء محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی اعلیٰ و ارفع شان کے پیشِ نظر قرآنِ کریم میں حکم ہے کہ ’’یقیناً اللہ اور اس کے فرشتے نبیؐ پر رحمت بھیجتے ہیں۔ اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! تم بھی اس پر درود اور خوب خوب سلام بھیجو۔‘‘(الاحزاب:57)
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ ’’اللہ تعالیٰ نے …اس قسم کی آیت کسی اَورنبی کی شان میں استعمال نہ کی۔ آپؐ کی روح میں وہ صدق و وفا تھا اور آپؐ کے اعمال خدا کی نگاہ میں اس قدر پسندیدہ تھے کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیشہ کے لیے یہ حکم دیا کہ آئندہ لوگ شکر گزاری کے طور پر درود بھیجیں۔‘‘(ملفوظات جلد اول صفحہ 37-38)
نبیٔ رحمت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ
مَنْ صَلّٰی عَلَیَّ وَاحِدًا صَلّٰی اللّٰہُ عَلَیْہِ عَشْراً (مسلم )
یعنی جو شخص مجھ پر ایک دفعہ درود بھیجے اللہ تعالیٰ اس پر دس دفعہ رحمت نازل کرتا ہے ۔نیز فرمایا کہ جس شخص نے مجھ پر درود پڑھا اللہ تعالیٰ اس پر دس گنا رحمتیں نازل فرمائے گا۔ (مسند احمد)ایک مرتبہ فرمایا کہ قیامت کے دن لوگوں میں سے سب سے زیادہ میرے نزدیک وہ شخص ہو گا جو مجھ پر سب سے زیادہ درود بھیجنے والا ہو گا۔(ترمذی)ایک مرتبہ تو یہ عظیم الشان خوش خبری عطا فرمائی کہ جو شخص بھی مجھ پر سلام بھیجے گا اس کا جواب دینے کے لیے اللہ تعالیٰ (گویا)میری روح کو واپس لوٹا دے گا تاکہ میں اس کے سلام کا جواب دے سکوں۔(ابوداؤد)
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجنے کے روحانی و جسمانی فوائد کا تذکرہ جہاں بہت سی روایات میں آتا ہے وہاں ان کا ثبوت صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین، بزرگانِ سلف، نیز حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام و خلفائے کرام و صحابہ حضرت اقدسؑ کی تحریرات و ارشادات نیز ان تمام بزرگان کی سیرت میں تلاش کیا جا سکتا ہے۔
قرآنِ حکیم اور نبی کریم ؐکی سیرتِ مبارکہ سے واقفیت رکھنے والا جانتا ہے کہ محمد عربیؐ جیسا بادشاہِ ہر دو سَرا نہ ہوا اور نہ ہو گا۔ اور اس بات میں بھی مبالغہ نہیں کہ ایک مہینے کی مسافت کے برابر رعب رکھنے کے باوجود آپؐ سے زیادہ بے نفس اور عاجز انسان بھی نہ کبھی گزرااور نہ ہو گا۔ چنانچہ عرب کے اس عظیم الشان بادشاہ کا دربارایک مسجد کی بظاہر معمولی سی عمارت میں لگتا۔ اس کی آرام گاہ ایسی چٹائی ہوتی جس پر سونے سے جسم پر نشان پڑ جاتے۔ ڈھیروں ڈھیر مال آنے کے باجود کبھی اس کے گھر میں زائد چیز نہ پائی جاتی اور وہ لوگوں میں ایسے گھل مل کر بیٹھتا کہ اجنبی بعض اوقات مطاع اور مطیع میں فرق نہ کر پاتا۔ تو پھر دنیاوی وجاہت و جلال سے بے نیاز وجود کا اپنے لیے درود مانگنے اور پھریہ حکم دینے کا کیا مقصد ہو سکتا ہے کہ ’’اس ذات کی قسم جس کے قبضہ میں میری جان ہے۔ تم میں سے کوئی اس وقت تک کامل مومن نہیں ہو سکتا یہاں تک کہ میں اس کے ہاں اس کے والد، اس کی اولاد اور تمام لوگوں سے زیادہ عزیز نہ ہو جاؤں۔‘‘ (بخاری)
حضرت اقدس مسیح موعودؑ اور خلفائے کرام کے ارشادات سے پتہ لگتا ہے کہ جن کا نطق
وَحْیٌ یُّوْحٰی
کے علاوہ اَور کچھ نہ تھا اور جنہیں
حَرِیْصٌ عَلَیْکُمْ بِالْمُؤْمِنِیْنَ رَؤُوْفٌ رَّحِیْمٌ (التوبہ:128)
کا خطاب دیا گیا انہوں نے اس حکم میں بھی درحقیقت اپنی ذات کی بجائے اپنی امّت کی بھلائی کو مقدّم رکھا کیونکہ درود پڑھنے سے جہاں ایک مومن اپنے درجات کی بلندی کا بھی سامان کرتا ہے (انوار العلوم جلد 17 صفحہ 191) وہاں اس کی عملی تصویر بننے سے، اس عظیم الشان نبیؐ کے لازوال اسوۂ حسنہ پر عمل کرنے سے وہ دینی و دنیوی ترقیات و نجات کے صراطِ مستقیم پر گامزن ہو جاتا ہے۔
چنانچہ جب ہم نبی اکرمﷺ کے جاں نثار صحابہؓ کا طرزِ عمل دیکھتے ہیں کہ جنہیں نبی اکرمؐ کے بعد درود و سلام اور احکامات نبوی کا ادراک سب سے بڑھ کر تھا تو ہمیں حضرت ابو بکر صدیقؓ نبی اکرمؐ کے ایک ارشاد پر اپنے گھر کا ساراسامان پیش کرتے،حضرت عمرؓگھر کا آدھا سامان نچھاور کرتے، حضرت عثمانؓ کنواں خرید کر اسے مسلمانوں کے لیے وقف کرتے اور حضرت علیؓ بظاہر بیماری کے باوجود رسولِ خداؐ کے ارشاد پر لبیک کہتے ہوئے خیبرکے قلعے پر حملے کے لیے روانہ ہوتے دکھائی دیتےہیں۔ احد سے واپسی پر ایک خاتون کی جانب سے پیش کردہ درود شریف کی عملی تصویر شاید ہی چشمِ فلک نے بھی دیکھی ہو گی:حضرت عائشہ صدیقہؓ بیان کرتی ہیں کہ مَیں میدانِ جنگ کی طرف حالات معلوم کرنے جا رہی تھی کہ راستے میں مجھے عمرو بن جموحؓ کی بیوی ہند ایک اونٹ کی مہار پکڑے مدینہ کی طرف جاتی ہوئی ملی۔ مَیں نے اس سے پوچھا میدانِ جنگ کی کیا خبر ہے۔ اس نے جواب دیا الحمد للہ سب خیریت ہے۔ حضرت محمد مصطفی ٰصلی اللہ علیہ وسلم خیریت سے ہیں۔ اتنے میں میری نظر اونٹ پر پڑی جس پر کچھ لدا ہوا تھا۔مَیں نے پوچھا یہ اونٹ پر کیا لدا ہوا ہے؟ کہنے لگی میرے خاوند عمرو بن جموحؓ کی نعش ہے، میرے بھائی عبداللہ بن عمرو کی نعش ہے، میرے بیٹے خلاد کی نعش ہے۔ یہ بات کہہ کر وہ مدینہ کی طرف جانے لگیں……(ماخوذ از خطبہ جمعہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ31؍ اکتوبر20ء) ۔ گویا اللہ کے نبیؐ کی سلامتی کے لیے خاوند، بھائی اور بیٹے کی قربانی کو بخوشی قبول کر کے رسولِ کریمؐ کو اُن سے عزیز تر جانا۔
آج دشمنان اسلام کی جانب سے نبی اکرمﷺ کی بابت ہتک آمیز کارروائیوں کا حقیقی جواب حضرت امیر المومنین خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ارشادات کی روشنی میں یہی ہے کہ تمام مسلمان درود شریف کی برکات سے فیض یاب ہوں اور صحابۂ رسولؐ کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے جہاں اپنی زبانوںکو درود شریف کے ورد سے تر کریں وہاں اسوۂ حسنہ کی پیروی کرتے ہوئے اعمالِ صالحہ، اطاعت، وفاداری اور عملی اصلاح کے تحفے اپنے خدا کے حضور پیش کریں۔ احمدی مسلمان ہونے کے ناطےہم خوش نصیب ہیں کہ درود شریف کے انعامات سے حقیقی طور پر فیضیاب ہونے کا ’صراطِ مستقیم‘ ہمارے سامنے ہے۔ وہ صراطِ مستقیم کیا ہے، اللہ تعالیٰ کی رضا کی خاطر حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کے وعدوں کے مطابق قائم ہونے والی خلافت کے پیچھے ہو کر حسنِ نیت کے ساتھ کیا الفاظ اورکیا افعال ہر طرح اپنی جان، مال، وقت اور عزّت اس پر نچھاور کرنےاور ہر امر میں اطاعت اور وفاداری کے بے مثال نمونے قائم کرنے کی کوشش میں لگے رہنا۔ اور بس!
جہاں تک ہتکِ رسول کا تعلق ہےتو اربابِ حِل و عقد کے لیے یہ بات بھی قابلِ غور ہے کہ جس ہستیؐ پر مالک دوجہاں اور اس کے فرشتوں کی جانب سے دن رات رحمتیں نازل ہوتی ہوں زمین کے کیڑے اس کی ہتک بھلا کیونکر کر سکتے ہیں!