کوئی ایسا نبی آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے بعد نہیں آسکتا جس کے پاس مہر نبوت محمدی نہ ہو
آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے نقش قدم پر چلنا جس کے لوازم میں سے محبت اور تعظیم اور اطاعت آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم ہے اس کا ضروری نتیجہ یہ ہے کہ انسان خدا کا محبوب بن جاتا ہے اور اس کے گناہ بخشے جاتے ہیں اور اگر کوئی گناہ کی زہر کھا چکا ہے تو محبت اور اطاعت اور پیروی کے تریاق سے اس زہر کا اثر جاتا رہتا ہے اور جس طرح بذریعہ دوا مرض سے ایک انسان پاک ہوسکتا ہے ایسا ہی ایک شخص گناہ سے پاک ہوجاتا ہے اور جس طرح نور ظلمت کو دور کرتا ہے اور تریاق زہر کو زائل کرتا ہے اور آگ جلاتی ہے ایسا ہی سچی اطاعت اور محبت کا اثر ہوتا ہے ۔دیکھو آگ کیونکر ایک دم میں جلادیتی ہے۔ پس اسی طرح پر جوش نیکی جو محض خدا کا جلال ظاہر کرنے کے لئے کی جاتی ہے وہ گناہ کا خس وخاشاک بھسم کرنے کے لئے آگ کا حکم رکھتی ہے ۔جب ایک انسان سچے دل سے ہمارے نبی صلی اللہ علیہ و سلم پر ایمان لاتا ہے اور آپ کی تمام عظمت اور بزرگی کو مان کر پورے صدق وصفا اور محبت اور اطاعت سے آپ کی پیروی کرتا ہے یہاں تک کہ کامل اطاعت کی وجہ سے فنا کے مقام تک پہنچ جاتا ہے تب اس تعلق شدید کی وجہ سے جو آپؐ کے ساتھ ہوجاتا ہے وہ الٰہی نور جو آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم پر اترتا ہے اس سے یہ شخص بھی حصہ لیتا ہے۔تب چونکہ ظلمت اور نور کی باہم منافات ہے وہ ظلمت جو اس کے اندر ہے دور ہونی شروع ہوجاتی ہے یہاں تک کہ کوئی حصہ ظلمت کا اس کے اندر باقی نہیں رہتا ۔اور پھر اس نور سے قوت پاکر اعلیٰ درجہ کی نیکیاں اس سے ظاہر ہوتی ہیں۔ اور اس کے ہر عضو میں سے محبت الٰہی کا نور چمک اٹھتا ہے تب اندرونی ظلمت بکلی دُور ہوجاتی ہے اور علمی رنگ سے بھی اس میں نور پیدا ہوجاتا ہے اور عملی رنگ سے بھی نور پیدا ہوجاتا ہے۔ آخر ان نوروں کے اجتماع سے گناہ کی تاریکی بھی اس کے دل سے کوچ کرتی ہے ۔یہ تو ظاہر ہے کہ نور اور تاریکی ایک جگہ جمع نہیں ہوسکتے لہٰذا ایمانی نور اور گناہ کی تاریکی بھی ایک جگہ جمع نہیں ہوسکتی اور اگر ایسے شخص سے اتفاقاً کوئی گناہ ظہور میں نہیں آیا تو اس کو اس اتباع سے یہ فائدہ ہوتا ہے کہ آئندہ گناہ کی طاقت اُس سے مسلوب ہوجاتی ہے اور نیکی کرنے کی طرف اس کو رغبت پیدا ہوجاتی ہے۔(ریویو آف ریلیجنزجلد 1نمبر5صفحہ202)
جس کامل انسان پر قرآن شریف نازل ہوا اُس کی نظر محدود نہ تھی اور اس کی عام غم خواری اور ہمدردی میں کچھ قصور نہ تھا۔ بلکہ کیا باعتبار زمان اور کیا باعتبار مکان اس کے نفس کے اندر کامل ہمدردی موجود تھی اس لئے قدرت کی تجلّیات کا پورا اور کامل حصّہ اُس کو ملا۔ اور وہ خاتم الانبیاء بنے۔ مگر ان معنوں سے نہیں کہ آئندہ اُس سے کوئی روحانی فیض نہیں ملے گا بلکہ ان معنوں سے کہ وہ صاحبِ خاتم ہے بجُز اُس کی مُہر کے کوئی فیض کسی کو نہیں پہنچ سکتا۔ اور اس کی اُمّت کے لئے قیامت تک مکالمہ اور مخاطبہ الٰہیہ کا دروازہ کبھی بند نہ ہوگا اور بجُزاُس کے کوئی نبی صاحب خاتم نہیں ایک وہی ہے جس کی مُہر سے ایسی نبوت بھی مل سکتی ہے جس کے لئے اُمتی ہونا لازمی ہے۔ اور اُس کی ہمّت اور ہمدردی نے اُمّت کو ناقص حالت پر چھوڑنا نہیں چاہا۔اوراُن پر وحی کا دروازہ جو حصول معرفت کی اصل جڑھ ہے بند رہنا گوارا نہیں کیا۔ ہاں اپنی ختم رسالت کا نشان قائم رکھنے کے لئے یہ چاہا کہ فیضِ وحی آپ کی پیروی کے وسیلہ سے ملے اور جو شخص اُمتی نہ ہو اُس پر وحی الٰہی کا دروازہ بند ہو سو خدا نے اِن معنوں سے آپ کو خاتم الانبیاء ٹھہرایا۔ لہٰذا قیامت تک یہ بات قائم ہوئی کہ جو شخص سچی پیروی سے اپنا اُمتی ہونا ثابت نہ کرے اور آپ کی متابعت میں اپنا تمام وجود محو نہ کرے ایسا انسان قیامت تک نہ کوئی کامل وحی پا سکتا ہے اور نہ کامل ملہم ہو سکتا ہے کیونکہ مستقل نبوت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر ختم ہوگئی ہے مگر ظلّی نبوت جس کے معنی ہیں کہ محض فیضِ محمدیؐ سے وحی پاناوہ قیامت تک باقی رہے گی تا انسانوں کی تکمیل کا دروازہ بند نہ ہو اور تا یہ نشان دنیا سے مٹ نہ جائے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ہمت نے قیامت تک یہی چاہا ہے کہ مکالمات اور مخاطبات الٰہیہ کے دروازے کھلے رہیں اور معرفتِ الٰہیہ جو مدارِ نجات ہے مفقود نہ ہو جائے۔
(حقیقۃ الوحی،روحانی خزائن جلد 22صفحہ 29تا30)
کوئی ایسا نبی آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے بعد نہیں آسکتا جس کے پاس مہر نبوت محمدیؐ نہ ہو۔ ہمارے مخالف الرائے مسلمانوں نے یہی غلطی کھائی ہے کہ وہ ختم نبوت کی مہرکو توڑ کر اسرائیلی نبی کو آسمان سے اُتارتے ہیں۔ اور مَیں یہ کہتا ہوں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی قوتِ قدسی اور آپ کی ابدی نبوت کا یہ ادنیٰ کرشمہ ہے کہ تیرہ سو سال کے بعد بھی آپؐ ہی کی تربیت اور تعلیم سے مسیح موعود آپ کی امت میں وہی مہر نبوت لے کر آتا ہے۔ اگر یہ عقیدہ کفر ہے توپھر مَیں اس کفر کو عزیز رکھتا ہوں لیکن یہ لوگ جن کی عقلیں تاریک ہو گئی ہیں جن کو نور نبوت سے حصہ نہیں دیا گیا اس کو سمجھ نہیں سکتے۔ اور اس کو کفر قرار دیتے ہیں۔ حالانکہ یہ وہ بات ہے جس سے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کا کمال اور آپ کی زندگی کا ثبوت ہوتا ہے۔
(الحکم 10؍جون 1905ءصفحہ2)
تمام نبوتیں اور تمام کتابیں جو پہلے گذر چکیںاُن کی الگ طور پر پیروی کی حاجت نہیں رہی کیونکہ نبوت محمدیہؐ اُن سب پر مشتمل اور حاوی ہے۔ اور بجز اس کے سب راہیں بند ہیں۔تمام سچائیاں جو خدا تک پہنچاتی ہیں اسی کے اندر ہیں نہ اس کے بعد کوئی نئی سچائی آئے گی اور نہ اس سے پہلے کوئی ایسی سچائی تھی جو اس میں موجود نہیں اس لئے اس نبوت پر تمام نبوتوں کا خاتمہ ہے اورہونا چاہئے تھاکیونکہ جس چیز کے لئے ایک آغاز ہے اس کے لئے ایک انجام بھی ہے لیکن یہ نبوت محمدیہؐ اپنی ذاتی فیض رسانی سے قاصر نہیں بلکہ سب نبوتوں سے زیادہ اس میں فیض ہے۔
( رسالہ الوصیت روحانی خزائن جلد 20 صفحہ311)