متفرق مضامین

محمدؐ عربی بادشاہِ ہر دو سَرا

(حافظ نعمان احمد خان ۔ استاد جامعہ احمدیہ ربوہ)

خالقِ کائنات، باعثِ کون و مکاں، خدائے علیم وحکیم نےاپنی بے پایاں اور عمیق در عمیق قدرتوں کےتحت وجہِ تخلیقِ کائنات، فخرِ موجودات سیّدناحضرت اقدس محمد مصطفیٰﷺ کوسرورِدوعالَم، سیّدِ کونین اور شافعِ روزِ جزا بنا کر مبعوث فرمایا۔ خدائےحمید و مجیدنےآپؐ کو شمس الضحیٰ، بدرالدجیٰ اور نور الہدیٰ قرار دیتے ہوئے خاتم النبیین اور رحمة للعالمین کےمرتبۂ عالی مقام پر سرفرازفرمایا تو ہردو جہاں کی جہاں بانی اور بادشاہی آپؐ کے قدموں پر ڈھیر ہوگئی۔ جو محبوبِ کبریا ٹھہرا اورجس نےکنزِ مخفی کے عرفان کو اپنی ذات میں منعکس کرکے لاکھوں مُردوں کو عرفانِ الٰہی کی مَے پلادی وہی کائناتِ عالَم کے ذرّے ذرّے کےلیے یٰسٓقرار پایا۔ اسی کی اتباع نے خدا تک پہنچنے کی راہوں کو منوّر کیا اور اسی کی پیروی سالکوں کا راستہ بنی۔ وہ سراجِ منیر کہ جس کی کرنوں سے چراغ جلانے والے بڑے بڑے قطب اور غوث بن گئے۔ وہ دُرِّ یتیم کہ جس کی چوکھٹ پر جبیں رگڑنےوالوں کو خدائے لَمْ یَزَلْ نے اپنے محبوب کے صدقے دنیا کی بادشاہتیں عطا کردیں۔ وہ محبوبِ کبریاجو منصبِ نبوت پرتب سرفراز تھا جب آدم ابھی بَیْنَ المَاءِ وَالطِّیْنِ تھا۔ وہ ’آدمِ توحید‘ کہ جس نے ’اَلَسْتُ بِرَبِّکُمْ‘ کے سوال پر سب سے پہلے ’بَلٰی‘کا نعرہ بلند کیا۔ وہ شاہِ لولاک جس کی دنیاوی بادشاہت جنّ و اِنس، روح و مَلَکسب پر وسیع ہے اور اس کی روحانی بادشاہت تاقیامت قائم رہنے والی ہے۔ وہی ساقی ٔکوثربادشاہ ہردوسَرا ہے جس کی شفاعت کےطفیل عالَمِ ثانی میں فلاح وکامرانی کی امید ہے۔

صد ہزاراں یوسفے بینم دریں چاہِ ذقن

وآں مسیح ناصری شد از دمِ او بےشمار

تاجدارِ ہفت کشور آفتابِ شرق و غرب

بادشاہِ ملک و ملّت ملجاء ہر خاکسار

(آئینہ کمالاتِ اسلام، روحانی خزائن جلد5صفحہ 27)

(ترجمہ)مَیں رسولِ خداﷺ کے صرف چاہِ ذقن ہی میں یوسف نبی اللہ جیسےلاکھوں حسِین دیکھتا ہوں اور مسیح ناصری جیسےنبی تو اس کے روحانی نفخ سے لاتعداد پیدا ہوسکتے ہیں۔ وہ کہ جو تمام جہانوں کا شہنشاہ، مشرق و مغرب کا آفتاب، ہر قوم و ملّت کا بادشاہ اور ہرعاجز وبےکس کی پناہ ہے۔

اس عالَمِ آب و گِل میں یہ عام مشاہدۂ انسانی ہے کہ فرمانروا، حکمراں اور حاکم اپنے تئیں خودمختار رئیس سمجھ کر خودسری، آمریت اور مطلق العنانیت کا شکار ہوجاتے ہیں۔ وہ بھلا بیٹھتے ہیں کہ ایک حاکمِ بالا نے انہیں یہ سروری اور فرمانروائی امانتاً عطا کر رکھی ہے۔ غرورِ حاکمیت کے سبب اُن کی گردن میں ایسا سریا آجاتاہے جو نہ تو انہیں مالک الملک کے آگے جھکنے دیتا ہے اور نہ ہی انہیں مخلوقِ خدا دکھائی دیتی ہے۔ سو وہ اس آفاقی حقیقت کو پسِ پشت ڈال دیتے ہیں کہ

جس سر کو غرور آج ہے یاں تاجوری کا

کل اس پہ یہیں شور ہے پھر نوحہ گری کا

دنیاوی بادشاہ اپنے زورِ بازو اور اہل کاروں کی مدد سے گلیوں اور بازاروں میں امن وامان قائم رکھنے اور اپنی سوجھ بوجھ کے مطابق انصاف فراہم کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ حکمران معاشرتی معاملات میں نظم و نسق چلانے اور عوام الناس کے اسباب و اموال کی حفاظت کے لیے قوانین وضع کرتے ہیں۔ اس سب کے باوجود یہ دنیاوی رہ نما نسلِ انسانی کے صرف ظاہر اور جسم پر حکمرانی قائم کر پاتے ہیں۔ تمدنی قوانین کا احترام کرنے والے معاشروں میں یہ عام مشاہدہ ہے کہ جیسے ہی قانون کی آنکھ جھپکتی ہے لاقانونیت رقص کرنے لگتی ہے۔ بظاہر مہذب کہلانے والے معاشروں کے چہرے پر لوٹ کھسوٹ کے یہ سیاہ دھبے اس حقیقت کو آشکار کرتے ہیں کہ تمام تر قوانین کے اطلاق کے باوجود یہ نظام انسان کے ارادے، احساس اور اختیار کو رام کرنےمیں ناکام ہے۔

انسانی روح اور دل پر حکمرانی کے لیے ایسے اسوۂ حسنہ کی ضرورت ہے جو عادات و جذبات میں خیر و شر کا فرق کرنا سکھائے۔ جو حصولِ خیر کے ذرائع بتائے اور ترک شر کی تحریص دلائے۔ جس کے الفاظ میں ایسی تاثیر ہو جو روح میں سرایت کرجائے۔ جس کا ہر عمل ایسی امتیاز ی شان لیےہو کہ جو ہر کسی کے لیے قابلِ رشک نمونہ قرار پائے۔ پس ایسی بادشاہت جو قلب و روح کو مسخر کرنے والی ہے وہ ایک ایسی عظیم ہستی ہی کی ہوسکتی ہے جو رعایا سے بےپناہ محبت کرنے والی اور بہت مہربان ہو۔ جس کےاحکام کی بجا آوری سزا کے خوف سے نہ کی جائے بلکہ اس کی اتباع کا جذبہ دل کی اتھاہ گہرائیوں سے اٹھے۔ ایسا بادشاہ کہ جس کی پیروی دنیا اور آخرت کی سرفرازی کا سامان ہو۔ وہ شہنشاہ کہ جو جلالِ الٰہی کا مظہر ہو اور خداوند تعالیٰ کی محبوبیت کے تخت پر جلوہ افروز ہو۔ ابتدائے آفرینش سے آج تک اس کارگاہِ ہستی میں صرف اور صرف حضرت اقدس محمد مصطفیٰﷺ ہی وہ مظہراتم الوہیت اور آئینہ خدانما ہستی ہیں کہ جنہیں خدا تعالیٰ نے خود

بِالْمُؤمِنِیْنَ رَؤُفٌ رَّحِیْمٌ (التوبہ: 128)

کی سند عطا فرمائی ہے۔ یعنی آپؐ مومنوں کے ساتھ محبت کرنے والے اور بہت کرم کرنے والے ہیں۔ سراپائے رحمت، سایۂ شفقت سیّدنا محمد مصطفیٰﷺ دلوں کے فاتح ہیں۔ آپؐ وہ شاہِ دو عالَم ہیں کہ جن کی اطاعت خدائے قدوس کی اطاعت ہے۔ چنانچہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے کہ

مَنْ یُّطِعِ الرَّسُوْلَ فَقَدْ اَطَاعَ اللّٰہَ (النساء:81)

یعنی جو اس رسول کی پیروی کرے تو اس نے اللہ کی پیروی کی۔ اسی طرح قرآن کریم میں اَطِیْعُو اللّٰہَ واَطِیْعُو الرَّسُوْلَ کے الفاظ میں اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کا حکم باربار دیا گیا ہے۔

حضرت جبیر بن مطعمؓ سے روایت ہے کہ نبی کریمﷺ نے فرمایا:

اِنَّ لِیْ اَسْمَاءً اَنَا مُحَمَّدٌ وَاَنَا اَحْمَدُ وَ اَنَا الْمَاحِی الَّذِیْ یَمْحُو اللّٰہُ بِیَ الْکُفْرَ وَاَنَا الْحَاشِرُ الَّذِیْ یُحْشَرُ النَّاسُ عَلیٰ قَدَمِیْ وَاَنَا الْعَاقِبُ الَّذِی لَیْسَ بَعْدَہٗ نَبِیٌّ

(شمائل النبی از امام الترمذی باب ما جاء فی اسماء رسول اللہﷺ )

میرے بہت سے نام ہیں۔ مَیں محمد ہوں، مَیں احمد ہوں۔ مَیں ماحیہوں گویا اللہ تعالیٰ میرے ذریعے کفر کو مٹادے گا۔ مَیں حاشرہوں یعنی میرے قدموں میں لوگوں کاحشر ہوگا۔ نیز مَیں عاقب ہوں اور عاقب وہ ہے کہ جس کے بعد کوئی نبی نہیں۔

اسی طرح حضرت حذیفہؓ بیان کرتے ہیں کہ مَیں نبی کریمﷺ سے مدینے کے راستے میں ملا۔ آپؐ نے فرمایا:

اَنَا مُحَمَّدٌ وَاَنَا اَحْمَدُ وَاَنَا نَبِیُّ الرَّحْمَةِ وَ نَبِیُّ التَّوْبَةِ وَاَنَا الْمُقَفّٰی وَ نَبِیُّ الْمَلَاحِمْ

(شمائل النبی از امام الترمذی باب ما جاء فی اسماء رسول اللہﷺ )

یعنی مَیں محمدؐ ہوں۔ مَیں احمدؐ ہوں اور مَیں رحمت کا نبی ہوں۔ مَیں توبہ کا نبی ہوں اور مَیں مقَفّٰیہوں (وہ جس کی اتباع کی جائے) اور مَیں نَبِیُّ الْمَلَاحِمْ ہوں یعنی جس سے جنگیں کی گئیں۔

محبوبِ کبریا، ختم المرسلین، فخر النبیین، احمد مجتبیٰﷺ کی ذاتِ والا صفات اور حیاتِ بابرکات کا ہر زاویہ اور ہرلمحہ اس بات کا شاہد و ناطق ہے کہ آپؐ تکمیلِ ہدایت، تربیت، شفقت علیٰ خلق اللہ اور تمام بنی آدم کی آبیاری اور نشوونما کے باعث اس دنیا کے حقیقی بادشاہ ہیں۔ آپؐ نے خداتعالیٰ کی طرف سے مفوضہ فرائض کو لاجواب عمدگی اور عدیم المثال کامیابی کے ساتھ نبھایا۔ محمد مصطفیٰﷺ کی بادشاہت دنیاوی حاکموں سے کس قدر مختلف اور منفرد تھی اس کا ذکر کرتے ہوئے سیّدنا حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں :

’’آنحضرتﷺ کو جو عہدہ اور شان اللہ تعالیٰ نے عطا فرمائی تھی وہ دنیاوی بادشاہوں سے کسی صورت کم نہ تھی۔ اور اگر آپ خود اپنے زہدوتقویٰ کی وجہ سے اپنی عظمت کا اظہار نہ کرتے ہوں لیکن اس میں کچھ شک نہیں کہ آپؐ ایک بادشاہ تھے اور تمام عرب آپؐ کے ماتحت ہوگیا تھااور اگر آپؐ ان سب طریقوں کو اختیار کرلیتے جو اس وقت کے بادشاہوں میں مروج تھے تو دنیاوی نقطۂ خیال سے آپؐ پر کوئی الزام قائم نہیں ہوسکتا تھا اور آپؐ دنیاوی حکومتوں کی نظر میں بالکل حق بجانب ہوتے لیکن آپؐ کی عزت اس بادشاہت کی وجہ سے نہ تھی جو شہروں اور ملکوں پر حکومت کے نام سے مشہور ہے بلکہ دراصل آپؐ کی عزت اس بادشاہت کی وجہ سے تھی جو آپؐ کو اپنے دل پر حاصل تھی۔ جو آپؐ کو دوسرے لوگوں کے دلوں پر حاصل تھی۔ آپؐ نے باوجود بادشاہ ہونے کے اس طریق کو اختیار نہ کیا جس پر بادشاہ چلتے ہیں اور اپنی عظمت کے اظہار کے لیے وہ نمائشیں نہ کیں جو سلطان کیا کرتے ہیں کیونکہ آپؐ نبی تھے اور نبیوں کے سردار تھے اور بادشاہ ہوکر جو معاملہ آپؐ نے اتباع سے کیا وہ اس بات کے ثابت کرنے کےلیے کافی ہے کہ آپؐ کا نفس کیسا پاک تھا اور ہر قسم کے بداثرات سے کیسا منزّہ تھا۔ ‘‘

(سیرت النبیﷺ، صفحہ 85)

خواجہ و مر عاجزاں را بندۂ

بادشاہ و بےکساں را چاکرے

آں ترحمہا کہ خلق از وے بدید

کس ندیدہ درجہاں از مادرے

ناتوانان را برحمت دستگیر

خستہ جاناں را بہ شفقت غمخورے

(براہینِ احمدیہ حصّہ اوّل، روحانی خزائن جلد 1صفحہ 18)

(ترجمہ)وہ اگرچہ سردار ہے مگر عاجز و کمزوربندوں کے لیے غلام ہے۔ وہ اگرچہ بادشاہ ہے مگر بےکسوں کا خدمت گارہے۔ عنایت و مہربانی کے جونظارے مخلوق نے اس سے دیکھے۔ ویسی عنایتیں کسی نے اپنی ماں سے بھی نہیں پائیں۔ کمزوروں کا رحمت کے ساتھ ہاتھ تھامنے والا ہے۔ مایوس ہونے والوں کےلیے پُرشفقت غم خوار ہے۔

رسولِ خداﷺ نے اپنے متبعین کی تربیت اپنے پاک اور مثالی نمونے سے کی۔ ہر تکلیف جھیلنے، ہر خطرے میں کودنے اور ہر آزمائش سے گزرنے میں آنحضورﷺ اپنے اصحاب کے شانہ بشانہ بلکہ ان سے آگے آگے نظر آتے۔ خواہ گھر کے کام کاج میں اہلِ خانہ کا ہاتھ بٹانا ہو، خواہ مسجد کی تعمیر کے لیے اینٹیں ڈھونی ہوں، خواہ خطرے کے وقت دشمن کی خبر لینے جانا ہو ہمیں رسولِ خداﷺ خود آگے بڑھ کر ہر کام خودکرتے اور اپنے نمونے سے اُن اصحاب کی تربیت کرتے نظر آتے ہیں کہ جنہوں نے آئندہ دنیا کا معلّم بننا تھا۔

حضرت براء بن عازبؓ بیان کرتے ہیں کہ مَیں نے رسول اللہﷺ کو غزوۂ احزاب (خندق) کے موقعے پر دیکھا۔ آپﷺ مٹی ڈھو رہے تھے۔ مٹی سے آپؐ کے پیٹ کی سفیدی چھپ گئی تھی۔ آپؐ مٹی ڈھوتے جاتے اور فرماتے جاتے کہ اے خدایا! اگر تیرا فضل نہ ہوتا تو ہمیں ہدایت نصیب نہ ہوتی اور نہ ہم صدقہ دیتے نہ نمازیں پڑھتے۔ ہم پر اپنی جناب سے سکینت نازل فرما۔ بصورتِ جنگ ہمارےقدموں کوثبات بخش۔ یقیناً ان کفّارنے ہم سے سرکشی اور بغاوت کی ہے کیونکہ جب انہوں نے ہمیں فتنے میں مبتلا کرنا چاہا تو ہم نے انکار کردیا۔

(بخاری کتاب الجہادوالسیر باب حفر الخندق)

رسولِ خداﷺ کس طرح ہرخطرے میں ثابت قدم رہ کر بہادری کے ساتھ مشکلات کا مقابلہ کرتے اورکس طرح اپنے پاک نمونے سے ایسے نازک موقعے پر بھی صحابہ کی تربیت کا اہتمام فرماتے۔ جنگوں اور غزوات کی تاریخ ایسے لاتعداد واقعات سے بھری پڑی ہے۔ ایسے ہی ایک موقعے کے متعلق حضرت براء بن عازبؓ کی ہی ایک اور روایت ہے۔ آپؓ سے کسی نے پوچھا کہ اے ابو عمارہ! کیا آپ لوگوں نے یعنی مسلمانوں کے لشکر نےجنگِ حنین میں پیٹھ پھیر لی تھی؟ تو براء بن عازبؓ نے فرمایا کہ نہیں۔ خدا گواہ ہے کہ محمد رسول اللہﷺ نے ہرگز پیٹھ نہیں پھیری تھی۔ البتہ جلدباز لوگ میدانِ جنگ سے بھاگ کھڑے ہوئے تھے۔ قبیلہ ہوازن نے ان لوگوں پر تِیر برسانے شروع کیے تو اُس وقت رسول اللہﷺ اپنے سفید خچر پر سوار تھے اور ابوسفیان بن حارث اس کی لگام تھامے ہوئے تھے۔ آنحضرتﷺ اس خطرے کے وقت یہی فرمارہے تھے کہ مَیں نبی اللہ ہوں اور اس بات میں جھوٹ کا کوئی شائبہ نہیں۔ مَیں عبدالمطلب کا بیٹا ہوں۔

(بخاری کتاب الجہادوالسیر باب بغلة النبیﷺ البیضاء)

جنگوں اور خونی معرکوں میں جب ایسی نازک صورت آتی ہے تو بڑے بڑوں کا پتہ پانی ہوجاتا ہے۔ یہ بھی ایک عام حقیقت ہے کہ فوج کے کمانڈر کی جگہ پر سب سےزوردار حملہ ہوتا ہے۔ ایسے میں بزدل شخص کا ذہن چھپنے اور آفت سے بچنےکے لیے بہت سی توجیہات بھی فراہم کردیتا ہے۔ لیکن رسول اللہﷺ جو اشجع الناستھے آپؐ ہر ایسے پُرخطر معرکے میں ہمیں سب سے آگے آگے نظر آتے ہیں۔ چھپنے یا سپاہیوں کی اوٹ لینے کا تو سوال ہی کیا آپؐ تو اس خطرے میں اور بڑھ کر اپنی نبوت کا اعلان کرتے اور سواری پر سوار ہوکر اپنی پہچان ظاہر کرتے دکھائی دیتے ہیں۔

آپؐ نے اپنے اسوۂ حسنہ سے سادگی اور بےتکلفی کے بھی ایسے باکمال نمونے ظاہر فرمائے کہ کسی دنیاوی جاہ و حشمت کے دلدادہ بادشاہ تودرکنار، کسی معمولی صاحبِ اختیار کی زندگی میں بھی ایسی دل فریب سادگی کی مثالیں نہیں مل سکتیں۔ کھانا کھانے میں اہتمام اور تصنع سے اس حد تک بچتے کہ ابو جحیفہؓ سے روایت ہے کہ آپؐ نے فرمایا

اَمَّا اَنَا فَلَا آکُلُ مُتَّکِئًا (شمائل النبی از امام الترمذی باب ماجاء فی صفة اکل رسول اللہﷺ )

یعنی جہاں تک میرا تعلق ہے مَیں تکیہ لگا کر نہیں کھاتا۔

اسی سلسلے میں ایک روایت حضرت انسؓ سےمروی ہے۔ حضرت انسؓ بہت چھوٹی عمر میں رسول اللہﷺ کی تربیت میں آگئے تھے اورگھر کے ایک فرد کی طرح آپؓ نے اپنا بچپن رسولِ خداﷺ کےپاس گزارا تھا۔ چنانچہ انسؓ نے بڑے قریب سے رسول خداﷺ کی گھریلو زندگی کا مشاہدہ کیا۔ آپؓ فرماتے ہیں کہ نبی کریمﷺ نے کبھی تخت پر بیٹھ کر کھانا نہیں کھایا نہ تشتریوں میں قسم ہا قسم کے کھانے اور چپاتیاں کھائیں۔ راوی کہتے ہیں کہ مَیں نے قتادہ سے پوچھا کہ پھرآپؐ کس چیز پر کھانا کھاتے تھے توانہوں نے بتایا کہ سفرہیعنی چمڑے کے سادہ دسترخوان پر کھانا کھایا کرتے تھے۔

(بخاری کتاب الأطعمة باب ماکان النبیﷺ و أصحابہ یأکلون)

اسلامی ریاست کے سربراہ کے طور پر آپؐ عمّال اور افسران کے تقرر میں اس بات کا بےحد خیال رکھتے کہ اہل اور امانت دار افرادکو لوگوں کی خدمت پر مامور کیا جائے۔ چنانچہ تربیت کے ذیل میں آنحضورﷺ کا یہ بھی اصول تھا کہ کسی کی درخواست یا خواہش پر اس کے سپرد کوئی کام نہ کرتے۔ اس ضمن میں حضرت ابو موسیٰ اشعریؓ بیان کرتے ہیں کہ مَیں اپنےقبیلے کے دو آدمیوں کو لےکر نبی کریمﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ ان دونوں افراد نے آنحضورﷺ سے عہدے کی درخواست کی۔ اس پر مَیں نے عرض کی کہ یا رسول اللہﷺ مجھے علم نہیں تھاکہ یہ دونوں کسی ملازمت کے خواہش مند ہیں۔ آپؐ نے فرمایا ہم اسے جو خود خواہش کرے اپنے عمّال میں ہرگز استعمال نہیں کریں گے۔

(بخاری کتاب الاجارة باب استجار الرجل الصالح)

اس واقعے کے متعلق حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں:

’’درحقیقت اگر غور کیا جائے تو ایک شخص جب کسی عہدے کی درخواست کرتا ہے تو صاف ثابت ہوتا ہے کہ اس کی کوئی غرض ہے اور کچھ تعجب نہیں کہ اس عہدے پر قائم ہوکر وہ لوگوں کو دکھ دے اور ان کے اموال پر دست اندازی کرے۔ مگر جس شخص کو اس کی درخواست کے بغیر کسی عہدے پر مامور کیا جائے تو اس سے بہت کچھ امید ہوسکتی ہے کہ وہ عدل و انصاف سے کام لےگا اور لوگوں کے حقوق تلف نہ کرے گا کیونکہ اسے اس عہدے کی خواہش ہی نہ تھی بلکہ خود بخود اسے سپرد کیا گیا ہے۔‘‘

(سیرت النبیﷺ، صفحہ108)

اسی طرح آنحضرتﷺ اقرباپروری کےسخت خلاف تھے۔ جنگِ بدر میں جب کفارِ مکہ قیدی بن کر آئے تو ان قیدیو ں کو مسجدِ نبوی کے ستونوں سے باندھ دیا گیا۔ ان میں رسول اللہﷺ کے چچا حضرت عباسؓ بھی شامل تھے۔ جب انہیں رسیوں میں جکڑا گیا توانہوں نے درد کی شدت سے کراہنا شروع کیا۔ رسول اللہﷺ اپنے چچاکی اس تکلیف سےبےقرار ہوگئے۔ صحابہ نے رسولِ خداﷺ کی کیفیت کو بھانپتے ہوئے حضرت عباسؓ کی رسیاں خاموشی سے ڈھیلی کردیں۔ جب کچھ دیر عباسؓ کے کراہنے کی آواز سنائی نہ دی تو آپؐ نے دریافت فرمایاکہ اب عباسؓ کے کراہنے کی آواز کیوں نہیں آتی۔ عرض کیا گیا کہ ان کی رسیاں ڈھیلی کردی گئی ہیں۔ اس پر آپؐ نے خفگی کا اظہار فرمایا اور حکم دیاکہ یا تو عباسؓ کی رسیاں بھی کس دو یا باقی قیدیوں کی رسیاں بھی ڈھیلی کردو۔

حضورِاکرمﷺ نے عدل و انصاف کے آفاقی اصول نہ صرف یہ کہ بیان فرمائے بلکہ بطور سربراہِ ریاست ان اصولوں کولاگو بھی کرکے دکھایا۔ یہاں تک کہ انصاف کی فراہمی میں کسی طبقے سے بھی کوئی رعایت نہ کی۔ قومی مجرموں کو کیفرِ کردار تک پہنچایا اور اس سلسلے میں کسی سفارش کو کبھی قبول نہ کیا اور یوں رہتی دنیا کے لیے عدل وانصاف کے روشن مینار قائم فرمائے۔

حضرت عائشہؓ بیان کرتی ہیں کہ ایک مرتبہ بنومخزوم کی ایک عورت نے چوری کی اور یہ معاملہ قریش میں بڑی اہمیت اختیار کرگیا۔ لوگوں نے بہت سوچنے کےبعد حضرت اسامہؓ سے کہا کہ وہ رسول اللہﷺ سےاس عورت کی سفارش کریں۔ حضرت اسامہؓ آنحضورﷺ کو بہت عزیز تھے لیکن جب انہوں نے اس معاملے سے متعلق سفارش کرنا چاہی تو آپؐ نے انہیں روک دیا اور فرمایا کہ کیا تم اللہ کی حدود میں سفارش کرنے آئے ہو۔ پھر آپؐ کھڑے ہوئے اورسب کو مخاطب کرکے فرمایا کہ اے لوگو! تم سے پہلے لوگ اس لیے گمراہ ہوئے کہ جب ان میں کوئی بڑا آدمی چوری کرتا تو اسے چھوڑ دیتے لیکن جب کم زور چوری کرتا تو اس پر حد قائم کرتے تھے۔ اللہ کی قسم! اگر فاطمہ بنت محمد(ﷺ ) بھی چوری کرتی تواس کا ہاتھ بھی ضرور کاٹا جاتا۔

(بخاری کتاب الحدود باب کراھیة الشّفاعة فی الحدّ اذارفع الی السلطان)

تکمیلِ ہدایت اور خداتعالیٰ کے احکام کی بجا آوری کانظام قائم کرنے کےسلسلے میں آنحضورﷺ ہردم کوشاں رہتےاور کبھی کسی نوع کی نرمی برتنے کے روادار نہ ہوتے۔ طائف کے علاقے سے آکر بنو ثقیف نے جب آنحضورﷺ سے اپنے بت تین سال تک منہدم نہ کرنے کی استدعا کی تو آپؐ نے انکار فرمادیا۔ وہ میعاد کم کرتے کرتے ایک سال اور پھر ایک ماہ تک آگئے۔ لیکن آنحضورﷺ نے اس طریق کو کراہت کے ساتھ ردّ فرماتے ہوئے ابوسفیان اور مغیرہ بن شعبہ کے ذریعے ان بتوں کو گروا دیا۔

(سیرت الحلبیہ بحوالہ اسوۂ انسانِ کامل، صفحہ 45)

کسی بھی معاشرے کےلیےمعاشی اوراقتصادی سرگرمیاں انتہائی اہمیت کی حامل ہیں۔ اس سلسلے میں بھی حضورِ اکرمﷺ نےاپنےقول و عمل اور مثالی تعلیم کے ذریعے ایسا معاشرہ قائم کرکے دکھایا جو تمام دنیا کے لیے روشن چراغ کی مانند ہے۔

حضرت ابوہریرہؓ بیان کرتے ہیں کہ نبی اکرمﷺ نے اس بات سے منع فرمایا کہ کوئی شہر کا رہنے والا دلال بن کر دیہات سے تجارتی مال لانے والے کا سودا بیچے۔ آپؐ نے اس سے بھی منع فرمایاکہ بھاؤ بڑھانے کےلیے بولی دی جائے۔ فرمایا : کوئی آدمی اپنے بھائی کے سودے پر سودا نہ کرے۔

(بخاری کتاب البیوع باب بیع علیٰ بیع اخیہ ولا یسوم علی سوم اخیہ حتیٰ یأ ذن لہ أویترک)

ایک مرتبہ حضورﷺ ایک غلّے کے تاجر کے پاس سے گزرے۔ حضورﷺ نے اس کے غلّے کے برتن کے اندر ہاتھ ڈال کر دیکھا تو محسوس کیا کہ غلّہ گیلا ہے۔ آپؐ نے فرمایا تم دھوکا دیتے ہو۔ یاد رکھو! دھوکا اور فریب کاری ہم مسلمانوں کا شیوہ نہیں۔

(سنن ابن ماجہ ابواب التجارة باب النھی عن الغش)

سنن ابنِ ماجہ میں ہی ایک روایت یوں ملتی ہے کہ قیلہ امِّ بنی انمار رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ مَیں نے آنحضرتﷺ سے اپنا طریقِ تجارت بیان کیا کہ مَیں پہلے چیز کی بہت کم قیمت بتاتی ہوں اور پھر آہستہ آہستہ قیمت زیادہ کرتی جاتی ہوں اور جس قیمت پر شئے خریدنی ہو اس قیمت پر پہنچ کر مال خرید لیتی ہوں۔ اسی طرح جوچیز فروخت کرنی ہو اس کی قیمت بہت زیادہ بتاتی ہوں اور پھر دام کم کرتی جاتی ہوں۔ یہ سن کر حضورِاکرمﷺ نے فرمایا اے قیلہ! یہ طریق درست نہیں بلکہ قیمت مقرر ہونی چاہیے۔

(ابن ماجہ ابواب التجارة باب السوم)

آنحضورﷺ نے خداتعالیٰ کے مقرر کردہ فرائض کے مطابق محنت کرکے رزق کمانا فرض قرار دیا۔ آپؐ نے سچّے دیانت دار تاجر کو شہیدوں، صدیقوں اور نبیوں کی معیت کی نویدسنائی۔ فرمایا خریدو فروخت کرنے والے سچ بولیں اور اگر مال میں کوئی عیب یا نقص ہو تو اسے ظاہر کردیں کہ اسی میں برکت ہے۔

آپؐ کے تربیت یافتہ معاشرے میں چشمِ فلک نے یہ نظارے دیکھے کہ فروخت کرنے والا چیز کے عیب بتا کر قیمت کم لگاتا ہے اورخریدار قیمت زیادہ ادا کرنے پر مُصر ہے۔ یہ پاک تبدیلی کسی سرکاری نرخ نامے سے نہیں بلکہ دلوں کو فتح کرنے اور ان میں تقویٰ کا درخت لگانےسے ممکن ہوئی۔ یہ وہ کارنامہ ہے جو تاریخِ عالَم میں صرف اور صرف ایک فرماں روا کی سلطنت میں رونما ہوا اور اگر آئندہ بھی دنیا یہ منظر دیکھنا چاہے تو اسےشاہِ دوجہاں حضرت محمدمصطفیٰﷺ کی تعلیمات پر کاربند ہونا ہوگا۔ آنحضورﷺ کے پیدا کردہ اس انقلابِ عظیم کا نقشہ کھینچتے ہوئے سیدنا حضرت اقدس مسیح موعودؑ فرماتے ہیں :

’’میں بڑے زور سے کہتا ہوں کہ خواہ کیسا ہی پکّا دشمن ہو اور خواہ وہ عیسائی ہو یا آریہ جب وہ اِن حالات کو دیکھے گا جو آنحضرتﷺ سے پہلے عرب کے تھے اور پھر اس تبدیلی پر نظر کرےگا جو آپؐ کی تعلیم اور تاثیر سے پیدا ہوئی تو اسے بےاختیار آپ کی حقّانیت کی شہادت دینی پڑے گی۔ موٹی سی بات ہے کہ قرآن مجید نے اُن کی پہلی حالت کا تو یہ نقشہ کھینچا ہے۔

یَاْکُلُوْنَ کَمَا تَأْکُلُ الْاَنْعَام(محمد:13)

یہ تو ان کی کفر کی حالت تھی پھر جب آنحضرتﷺ کی پاک تاثیرات نے ان میں تبدیلی پیدا کی تو ان کی یہ حالت ہوگئی

یَبِیْتُوْنَ لِرَبِّھِمْ سُجَّدًا وَّ قِیَامًا (الفرقان:65)

یعنی وہ اپنے رب کے حضور سجدہ کرتے ہوئے اور قیام کرتے ہوئے راتیں کاٹ دیتے ہیں۔ جو تبدیلی آنحضرتﷺ نے عرب کے وحشیوں میں کی اور جس گڑھےسے نکال کر جس بلندی اور مقام تک انہیں پہنچایا۔ اس ساری حالت کے نقشہ کو دیکھنے سے بےاختیار ہوکر انسان رو پڑتا ہے کہ کیا عظیم الشان انقلاب ہے جوآپؐ نے کیا۔ دنیا کی کسی تاریخ اور کسی قوم میں اس کی نظیر نہیں مل سکتی۔ یہ نری کہانی نہیں۔ یہ واقعات ہیں جن کی سچائی کا ایک زمانہ کو اعتراف کرنا پڑا ہے۔‘‘

(ملفوظات جلد 5صفحہ 117)

رسولِ خداﷺ کی مشفق و مہربان شخصیت میں موجود خداداد نرم دلی اورکریمانہ فیض رسانی کا یہ اعجاز تھاکہ ایک قوم عشّاقِ شمعِ نبوت بن کر مثلِ پروانہ آپؐ کے گرداکٹھی ہوگئی تھی۔ پیار بھرےاور ہمدردانہ سلوک کےباعث؛ بچے، بوڑھے، عورتیں، غلام حتیٰ کہ بےزبان جانور بھی رحمۃ للعالمین کے سایۂ عاطفت میں خود کو محفو ظ ومامون خیال کرتے تھے۔ گھر کے اندر شاہِ دوجہاںﷺ کا نمونہ یہ تھا کہ خود فرمایا

خَیْرُکُمْ خَیْرُکُمْ لِاَھْلِہٖ وَاَنَا خَیْرُکُمْ لِاَھْلِیْ(سنن ابن ماجہ کتاب النکاح)

کہ تم میں سے بہتر وہ ہے جو اپنے گھروالوں سے بہتر سلوک کرے اور مَیں گھر والوں کے ساتھ سلوک کرنے میں تم سب سے بہتر ہوں۔ مخلوقِ خدا کے ہر طبقے کے ساتھ سرورِ کونینﷺ کا کیسا بہترین سلوک تھا اس کی گواہی خود خدا تعالیٰ نے ان الفاظ میں دی کہ

فَبِمَا رَحْمَةٍ مِّنَ اللّٰہِ لِنْتَ لَھُمْ (اٰل عمران:160)

یعنی خداتعالیٰ کی رحمت کے طفیل آپؐ نرم دل اور نرم خُو واقع ہوئے ہیں۔ پھر اگلےفقرے میں اس بات کی منطقی دلیل یہ بیان فرمائی کہ

وَلَوْ کُنْتَ فَظًّاغَلِیْظَ الْقَلْبِ لَانْفَضُّوْا مِنْ حَوْلِکَ

یعنی اگر آپؐ تند خو اور سخت دل ہوتے تو یقیناً آپؐ کے اردگرد موجود لوگ بھاگ جاتے۔ رسولِ خداﷺ کو اپنے غلاموں اور رعایا کے ساتھ جو عشق اور محبت تھی دنیا اس کی نظیر پیش کرنے سے عاجز ہے۔ کوئی دنیاوی بادشاہ، کوئی سلطان، کوئی حاکم اپنی رعایا کی اس درجہ فکراورمحبت کرہی نہیں سکتاجو آپؐ نے کرکے دکھائی۔ مومنوں کا تکلیف میں پڑنا آپؐ پر کس درجہ بوجھل تھا اس کی گواہی خود کتاب اللہ نے دی ہے۔ فرمایا:

لَقَدْ جَاءَکُمْ رَسُوْلٌ مِّنْ اَنْفُسِکُمْ عَزِیْزٌ عَلَیْہِ مَا عَنِتُّمْ حَرِیْصٌ عَلَیْکُمْ … (التوبہ:128)

یقیناً تمہارے پاس تمہی میں سے ایک رسول آیا۔ اسے بہت سخت شاق گزرتا ہے جو تم تکلیف اٹھاتے ہو (اور) وہ تم پر (بھلائی چاہتے ہوئے) حریص (رہتا) ہے…

رسول اللہﷺ اپنے کمزور و ناتواں لوگوں سے کس قدر محبت کرتے تھے اس کا ثبوت آپؐ کا یہ بےساختہ جملہ ہے کہ اَلْفَقْرُ فَخْریْ یعنی مجھے اپنے فقر پر فخر ہے۔ آپؐ دعا کیا کرتے کہ اے اللہ! مجھے مسکین ہونےکی حالت میں زندہ رکھ، مسکینی کی حالت میں وفات دے اور قیامت کے دن مسکینوں کےساتھ مجھے اٹھانا۔

(ترمذی ابواب الزہد باب ماجاء ان فقراء المہاجرین)

آپؐ کی یہ شفقت صرف مومنوں اور اپنے عزیزوں تک محدود نہ تھی بلکہ اس سے غیر بلکہ کفّار بھی فیضیاب ہوئے۔ چنانچہ فتح مکّہ کے روز ایک کافر خوف سے کانپتا ہوا حضوراکرمﷺ کےسامنےپیش ہوا تو آپؐ نے نہایت دل فریب انداز میں اس سے فرمایا ’’گھبراؤ مت! مَیں توقریش کی اس عورت کا بیٹا ہوں جو سوکھا گوشت کھایا کرتی تھی۔‘‘

غزوۂ حنین سے واپس لوٹتے ہوئے کچھ بدوی آپؐ کے پیچھے پڑ گئے اور بڑے اصرار سے سوال کرتے رہے۔ جب حضورِ اکرمﷺ انہیں عطا کرنے لگے تو انہوں نے اتنا رش کرلیا کہ مجبوراً آپؐ کو درخت کا سہارا لیناپڑا۔ ان اجڈ دیہاتیوں نے حضورِ اکرمﷺ کی چادر تک چھین لی۔ آپؐ نے فرمایا کہ میری چادر مجھے لوٹادو۔ پھر کیکروں کے وسیع جنگل کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا اگرمیرے پاس اس جنگل کے برابر اونٹ ہوں تو مَیں اُن کو تقسیم کرنے میں خوشی محسوس کروں گا۔ تم مجھے کبھی بھی بخل کرنے والا یا بزدلی دکھانے والا نہ پاؤ گے۔

(بخاری کتاب الجہاد والسیر باب الشجاعة فی الحرب والجبن)

آنحضورﷺ نے غربا کی خبرگیری، حاجت مندوں کی حاجت روائی اورمقروض کو سہولت دینے کا حکم دیا۔ پِسےہوئے اور نادار طبقات کو بلند کرنےکےلیے نہ صرف خودکوشاں رہے بلکہ عمّال اور حکّام کو ہمیشہ یہی نصیحت فرمائی کہ خود کو غریبوں اور ناداروں سے دُور نہ کرو۔ حضرت ابودرداؓء بیان کرتے ہیں کہ مَیں نے نبی کریمﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ مجھے کمزوروں میں تلاش کرو، مَیں اُن کے ساتھ ہوں۔ کمزوروں کی مدد کرکے تم میری رضا حاصل کرسکتے ہو۔ یاد رکھو تم کمزوروں اور غریبوں کی وجہ سے ہی اللہ کی مدد حاصل کرتے ہواور رزق کے مستحق بنتے ہو۔ (ترمذی ابواب الجھاد) اس حدیثِ مبارکہ سے علم ہوتا ہے کہ حضورِاکرمﷺ کو عدم مساوات، حد سے بڑھے ہوئے طبقاتی تفاوت اور بےجا فخر و تکبر سے کیسی نفرت تھی۔ کمزوروں کے لیے آپؐ کی شفقت اس درجہ بڑھی ہوئی تھی کہ قیامت تک کےلیے یہ حکم صادر فرمادیا کہ میری رضا جو دراصل خداتعالیٰ کی رضا کی ضمانت ہے اگر اس کے طالب ہو تو کمزوروں اور لاچاروں کی مدد میں کوشاں رہو۔ پھر آپؐ کا یہ فرمان کہ ’’یاد رکھو تم کمزوروں اور غریبوں کی وجہ سے ہی اللہ کی مدداور رزق حاصل کرتے ہو۔ ‘‘ کیسی آفاقی سچائی پر مشتمل ہے۔ اس حقیقت کو کون جھٹلا سکتا ہے کہ کاروبارِ دنیا محنت کَش مزدوراور دہقان کے پسینےہی سے اپنا تنفس کشید کرتا ہے۔ اسی لیے آپؐ نے فرمایا کہ مزدور کی اجرت اس کا پسینہ خشک ہونے سے پہلے ادا کرو۔ افسوس کہ آج بھی سرمائے اورمحنت کا عدم توازن برقرار ہے۔ آج بھی بندۂ مزدور کے اوقات تلخ اورعرصۂ حیات تنگ ہےاور آج بھی استحصالی قوّتیں دنیا کے وسائل پر قابض ہیں۔

آج بھی سپراؔ اس کی خوشبو مِل مالک لےجاتا ہے

مَیں لوہے کی ناف سے پیدا جو کستوری کرتا ہوں

پس انسانی معاشرے کی مجموعی فلاح رحمۃ للعالمینﷺ کے انہی زندگی بخش اور حیات آفریں فرامین میں پوشیدہ ہے۔

حضرت اقدس محمد مصطفیٰﷺ کی بادشاہت کا ایک منفرد اور ممتاز پہلو یہ ہے کہ جہاں دنیاوی سلاطین کی سلطنت اور رعب و دبدبہ چندروزہ اور سراسر عارضی ہے۔ وہاں رسولِ خداﷺ ایک لازوال اور سرمدی بادشاہت کے مالک ہیں۔ جہاں خلقِ خدا اس ورلی زندگی میں ہر آن اور ہر لمحہ آپؐ کے چشمۂ رواں سے بہریاب ہورہی ہے وہاں اُخروی زندگی میں بھی حضورؐ کے ساتھ کامل اتّصال پیدا کرنے والی ارواحِ سعیدہ

’یاشافعِ روزِ جزا پُرساں توئی پرساں توئی‘

کی صدا بلند کرتے ہوئےآپؐ کے فیض رساں بحرِ کمال میں غوطہ زن ہوجائیں گی۔

رسولِ خداﷺ بنی نوع انسان کو یہ دائمی خوش خبری سناتے ہوئے اپنی فضیلت کا اعلان یوں فرماتے ہیں :

’’سن لو! مَیں اللہ کا حبیب ہوں اور کوئی فخر نہیں۔ مَیں قیامت کے دن حمدکا جھنڈا بلند کرنے والا ہوں اور کوئی فخر نہیں۔ مَیں ہی قیامت کے دن سب سے پہلا شفیع ہوں اور سب سے پہلے میری ہی شفاعت قبول کی جائے گی اور کوئی فخر نہیں۔ سب سے پہلے جنّت کا کُنڈا کھٹکھٹانے والا بھی مَیں ہوں۔ خدا اسے میرے لیے کھولے گا اور مجھے داخل کرے گا۔ میرے ساتھ نادار اور غریب مومن ہوں گے اور کوئی فخر نہیں۔ مَیں اوّلین وآخرین میں سب سے زیادہ مکرّم ہوں اور کوئی فخر نہیں۔

(ترمذی ابواب المناقب)

حضرت انس بن مالکؓ سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا: ’’قیامت کے روز سب سے پہلے مَیں ہی اٹھنے والا ہوں۔ جب لوگ وفد بن کر جائیں گے تو مَیں ہی اُن کا خطیب ہوں گا۔ وہ ناامید ی میں ہوں گے تو مَیں انہیں خوشخبری سنانے والا ہوں گا۔ اس روز خدا کی حمد کا پرچم مَیں نے تھام رکھا ہوگا۔ مَیں اپنے ربّ کے حضور سب سے زیادہ مکرّم ہوں اور کوئی فخر نہیں۔ ‘‘(ترمذی باب المناقب)

اسی طرح فرمایا :’’مَیں قیامت کے دن بنی آدم کا سردار ہوں گا مگر کوئی فخر نہیں۔ نبیوں میں سب کے سب میرے جھنڈے تلے ہوں گے اور کوئی فخر نہیں۔ سب سے پہلے میرے واسطے زمین شقّ کی جائے گی اور کوئی فخر نہیں۔ ‘‘

(ترمذی ابواب المناقب باب ما جاء فی مناقب النبیﷺ )

انسان فطرتاً کمزور پیداکیا گیا ہے جیسا کہ ارشادِ ربّانی ہے

خُلِقَ الْاِنْسَانُ ضَعِیْفًا (النساء: 29)

چنانچہ نفسِ انسانی اندرونی اور بیرونی طور پر بےشمار وسوسوں، لغزشوں اور آفتوں کی جولان گاہ ہے۔ انسانی ضمیر خود یہ گواہی دیتا ہے کہ وہ دنیا کی رنگینیوں اوراپنے نفس کے اندرونی حملوں سے بچنے کے لیے تنہا کافی نہیں۔ ضعف اور لاچاری کا یہ احساس شہادت دیتا ہے کہ انسان ان مصائب سے محفوظ رہنے کےلیے کسی ایسی زبردست طاقت کا محتاج ہے جو اسے ان بکھیڑوں سے بچائے۔

اسی طرح یہ حقیقت بھی عیاں ہے کہ انسان باربار گناہ کی طرف جھکتا ہے۔ نافرمانی، حکم عدولی اور انحراف سے آلودہ پیرہنِ انسانی اس لائق نہیں کہ وہ خدائے قدّوس سے براہِ راست فیضیاب ہوکرنجات پاسکے۔ سو انسانی عقل اور ضمیر اس بات کا تقاضا کرتے ہیں کہ کوئی ایسا شفیع ہونا چاہیےجو خداتعالیٰ سے کامل اتّصال کے باعث بارگاہِ ایزدی میں مقامِ محویت پر سرفراز ہو۔ اس نے خدا کے رنگ میں رنگین ہوکر صفاتِ الہٰیہ کا جامہ پہن لیا ہو اور وہ خدائے قدوس اور انسان کے درمیان واسطہ بن سکے۔ انسان اس شفیع سے کامل طور پر منسلک ہوکر اپنے پیرہن کو اس شفیع کے واسطے سے خدا کے جامے سے مسّ کرسکے اور یوں مرتبۂ نجات کا حق دار ٹھہرے۔ حضرت مسیح موعودؑ ایسے شفیع کی نسبت فرماتے ہیں کہ

’’وہ اس قسم کےانسان ہوں جن کی فطرت نے کچھ حصّہ صفاتِ لاہوتی سے لیا ہو اور کچھ حصّہ صفاتِ ناسوتی سے۔ تا بباعث لاہوتی مناسبت کے خدا سے فیض حاصل کریں اور بباعث ناسوتی مناسبت کے اس فیض کو جو اوپر سے لیا ہے نیچے یعنی بنی نوع کو پہنچادیں۔ ‘‘

(ریویو آف ریلیجنز اردو جلد اوّل بحوالہ مرزا غلام احمد قادیانیؑ اپنی تحریروں کی رُو سےجلد اوّل صفحہ420)

شفاعت کی فلاسفی بیان کرتے ہوئےآپؑ نے فرمایا:

’’شفاعت کی فلاسفی یوں سمجھنی چاہیے کہ شفع لغت میں جُفت کو کہتے ہیں۔ پس شفاعت کے لفظ میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ وہ ضروری امر جو شفیع کی صفات میں سے ہوتا ہےیہ ہے کہ اس کو دو طرفہ اتحاد حاصل ہو۔ یعنی ایک طرف اس کے نفس کو خداتعالیٰ سے تعلق شدید ہو ایسا کہ گویا وہ کمال اتحاد کے سبب حضرتِ احدیت کےلیے بطور جُفت اور پیوند کے ہو اور دوسری طرف اس کو مخلوق سے بھی شدید تعلق ہو۔ گویا وہ اُن کے اعضاء کی ایک جزو ہو۔ پس شفاعت کا امر مترتب ہونے کےلیے درحقیقت یہی دو جز ہیں جن پر ترتب اثر موقوف ہے۔‘‘

(ریویو آف ریلیجنز اردو جلد اوّل بحوالہ مرزا غلام احمد قادیانیؑ اپنی تحریروں کی رُو سےجلد اوّل صفحہ 421)

اسی مقامِ تنزّہ کا ذکر قرآن کریم نے

دَنَا فَتَدَلّٰی فَکَانَ قَابَ قَوْسَیْنِ اَوْ اَدْنٰی (النجم:10)

کے الفاظ میں فرمایا ہے۔ یعنی وہ دو قوسوں کے وتر کی طرح ہوگیا یا اس سے بھی قریب تر۔ گویا رسول ِخداﷺ قربِ الٰہی کے مقامات طے کرتے کرتےاللہ تعالیٰ کی طرف بلند ہوتےچلے گئے اور جہاں تک امکان ہے خدا کےنزدیک تر ہوگئے۔ لاہوتی مقام سے حصّہ لینے کے بعد حضورِاکرمﷺ شرطِ شفاعت کو پورا کرتے ہوئےناسوتی کمالات کے اظہار کی طرف متوجہ ہوئے اور ہمدردی خلق اور شفقت علیٰ خلق اللہ کی خوبیوں کو انتہا تک پہنچادیا۔ پس یہ ہے وہ مقامِ شفاعت جو ہمارے آقا و مطاع انسانِ کامل حضرت اقدس محمد مصطفیٰﷺ کو عطا ہوا۔ یہاں پہنچ کر سیدناحضرت اقدس مسیح موعودؑ کا وہ پیارا جملہ یاد آتا ہے کہ ’’کسی نے یہ شعر بہت ہی اچھا کہا ہے

محمدِؐ عَرَبی بادشاہِ ہَر دو سَرا

کرے ہے روح قدس جس کے در کی دربانی

اُسےخدا تو نہیں کہہ سکوں پہ کہتا ہوں

کہ اُس کی مرتبہ دانی میں ہے خدا دانی

(چشمۂ معرفت، روحانی خزائن جلد 23صفحہ 302)

حضرت اقدس مسیح موعودؑ نےیہ مضمون اپنے فارسی اشعار میں یوں بیان فرمایا ہے:

محمؐد است امام و چراغِ ہر دوجہاں

محمؐد است فروزندۂ زمین و زماں

خدا نگویمش از ترسِ حق مگر بخدا

خدا نماست وجودش برائے عالَمیاں

(کتاب البریّہ، روحانی خزائن جلد 13صفحہ 157حاشیہ)

یعنی محمدﷺ ہی دونوں جہانوں کے سردار اور چراغ ہیں۔ آپؐ ہی زمین و زماں کی روشنی ہیں۔ مَیں خوفِ خدا کے سبب آپؐ کو خدا تو نہیں کہتا مگر خدا کی قسم آپؐ کا وجودِ گرامی تمام جہانوں کے لیےخدانما ہے۔

اللّٰھمّ صلّ علیٰ محمّد وعلیٰ اٰل محمّد کما صلّیت علیٰ ابراھیم وعلیٰ اٰل ابراھیم انّک حمید مّجید۔ اللّٰھمّ بارک علیٰ محمّد وعلیٰ اٰل محمّد کما بارکت علیٰ ابراھیم و علیٰ اٰل ابراھیم انّک حمید مّجید

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

ایک تبصرہ

  1. ایک بے حد خوبصورت اور محبت سے لکھا گیا مضمون ۔ ماشأ اللہ
    It was an ultimate reading pleasure.
    ویسے تو جذبات کے اظہار میں قواعد و قوانین بہت اہمیت نہیں رکھتے لیکن یہ مضمون ایک بہت عمدہ اور مربوط تحریر ہے۔ ہر سطر بتا رہی ہے کہ مجھے لکھنے والا کوئی “استاد” ہی ہو سکتا ہے۔ حافظ صاحب سلامت رہیں۔ آمین

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button