4؍نومبر1900ء: رسول کریمﷺ کے اسمِ احمد کا ظہور۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی جماعت کا فرقہ احمدیہ سے موسوم ہونا
اس فرقہ کا نام مسلمان فرقہ احمدیہ اس لئے رکھا گیا کہ ہمارے نبیﷺکے دو نام تھے ایک محمدؐ۔ دوسرا احمدؐ
سلسلہ حقہ کی بنیاد اگرچہ مارچ 1889ء میں پڑ چکی تھی مگر اب تک اس کا کوئی مستقل نام تجویز نہیں کیا گیا تھا اور مسلمانوں کے دوسرے فرقوں سے امتیاز کے لیے بعض لوگ آپؑ کے ماننے والوں کو پنجاب میں ‘‘مرزائی’’اور ہندوستان کے دوسرے علاقوں میں ‘‘قادیانی’’کے نام سے پکارتے تھے لیکن اب 1901ء میں سرکاری طور پر مردم شماری ہونے والی تھی جس میں یہ التزام کیا جانے والا تھا کہ ہر ایک فرقہ جو دوسرے فرقوں سے امتیاز رکھتا ہے علیحدہ خانہ میں اس کا اندراج کیا جائے اور جس نام کو کسی فرقہ نے اپنے لئے تجویز کیا ہے وہی نام سرکاری کاغذات میں لکھا جائے۔ لہٰذا اس کے پیشِ نظر حضرت اقدسؑ نے 4؍نومبر1900ء کو ‘‘اشتہار واجب الاظہار’’کے ذریعہ سے یہ اعلان فرمایا کہ
‘‘اس فرقہ کا نام مسلمان فرقہ احمدیہ اس لئے رکھا گیا کہ ہمارے نبی صلے اللہ علیہ وسلم کے دو نام تھے ایک محمدﷺ۔ دوسرا احمدﷺ۔اور اسم محمدؐ جلالی نام تھا اور اس میں یہ مخفی پیشگوئی تھی کہ آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم ان دشمنوں کو تلوار کے ساتھ سزا دیں گے جنہوں نے تلوار کے ساتھ اسلام پر حملہ کیا اور صد ہا مسلمانوں کو قتل کیا۔ لیکن اسم احمد جمالی نام تھا جس سے یہ مطلب تھا کہ آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم دُنیا میں آشتی اور صلح پھیلائیں گے۔ سو خدا نے ان دو ناموں کی اس طرح پر تقسیم کی کہ اوّل آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کی مکّہ کی زندگی میں اسم احمد کا ظہور تھا۔ اور ہر طرح سے صبر اور شکیبائی کی تعلیم تھی اور پھر مدینہ کی زندگی میں اسم محمدؐ کا ظہور ہوا۔ اورمخالفوں کی سرکوبی خدا کی حکمت اور مصلحت نے ضروری سمجھی۔لیکن یہ پیشگوئی کی گئی تھی کہ آخری زمانہ میں پھر اسم احمد ظہور کرے گا اور ایسا شخص ظاہر ہو گا جس کے ذریعہ سے احمدی صفات یعنی جمالی صفات ظہور میں آئیں گی اور تمام لڑائیوں کا خاتمہ ہو جائے گا۔ پس اسی وجہ سے مناسب معلوم ہوا کہ اس فرقہ کا نام فرقہ احمدیہ رکھا جائے تا اس نام کو سُنتے ہی ہر ایک شخص سمجھ لے کہ یہ فرقہ دُنیا میں آشتی اور صلح پھیلانے آیا ہے اور جنگ اور لڑائی سے اس فرقہ کوکچھ سروکار نہیں۔’’
(مجموعہ اشتہارات جلد 3 صفحہ 365 تا 366ایڈیشن 1984ء)
جماعت کو نصیحت
‘‘احمدیت ’’کے نام کے ساتھ جماعت پر جو اہم ذمہ داریاں عائد ہوتی تھیں ان کی طرف توجہ دلانے کے لیے حضرت اقدسؑ نے اگلے ماہ دسمبر 1900ء میں لکھا:
‘‘خدا نے تمہیں اس عیسیٰ احمد صفت کے لئے بطور اعضا کے بنایا۔ سو اب وقت ہے کہ اپنی اخلاقی قوتوں کا حُسن اور جمال دکھلائو۔ چاہئے کہ تم میں خدا کی مخلوق کے لئے عام ہمدردی ہو اور کوئی چَھل اور دھوکا تمہاری طبیعت میں نہ ہو۔ تم اسم احمد کے مظہرہو۔ سو چاہئے کہ دن رات خدا کی حمد و ثنا تمہارا کام ہو اور خادمانہ حالت جو حامد ہونے کے لئے لازم ہے اپنے اندر پیدا کرو اور تم کامل طور پر خدا کی کیونکر حمد کر سکتے ہو جب تک تم اس کو ربّ العالمین یعنی تمام دنیا کا پالنے والا نہ سمجھو اور تم کیونکر اس اقرار میں سچّے ٹھیر سکتے ہو جب تک ایسا ہی اپنے تئیں بھی نہ بناؤ۔
…پس تم کیونکر سچے احمد یا حامد ٹھیر سکتے ہو جبکہ اس خلق کو اپنے لئے پسند نہیں کرتے۔ حقیقت میں احمدی بن جائو اور یقیناً سمجھو کہ خدا کی اصلی اخلاقی صفات چار ہی ہیں جو سورۃ فاتحہ میں مذکور ہیں۔ (1) رب العالمینسب کا پالنے والا (2) رحمان۔ بغیر عوض کسی خدمت کے خود بخود رحمت کرنے والا (3) رحیم۔ کسی خدمت پر حق سے زیادہ انعام اکرام کرنے والا اور خدمت قبول کرنے والا اور ضائع نہ کرنے والا۔ (4) اپنے بندوں کی عدالت کرنے والا۔ سو احمدوہ ہے جو ان چاروں صفتوں کو ظلی طور پر اپنے اندر جمع کرلے۔ یہی وجہ ہے کہ احمد کا نام مظہر جمال ہے۔… اور یہی جمالی حالت ہے جو حقیقت احمدیہ کو لازم پڑی ہوئی ہے۔ محبوبیت جو اسم محمد میں تھی صحابہ کے ذریعہ سے ظہور میں آئی۔ اور جو لوگ ہتک کرنے والے اور گردن کش تھے محبوب الٰہی ہونے کے جلال نے ان کی سرکوبی کی ۔لیکن اسم احمد میں شانِ محبّیت تھی یعنی عاشقانہ تذلل اور فروتنی۔ یہ شان مسیح موعود کے ذریعہ سے ظہور میں آئی۔ سو تم شانِ احمدیت کے ظاہر کرنے والے ہو۔ لہٰذا اپنے ہر ایک بیجا جوش پر موت وارد کرو اور عاشقانہ فروتنی دکھلاؤ۔ خدا تمہارے ساتھ ہو۔ آمین’’
(اربعین نمبر 4 روحانی خزائن جلد 17 صفحہ 446۔447، 448، ایڈیشن 1984ء)
(ماخوذ ازتاریخ احمدیت جلد 2صفحہ 153 و 154)