تعدّد ازدواج (قسط دوم۔ آخری)
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی شادیوں کی حکمت۔ مستشرقین کے بعض اعتراضات کے جوابات کی روشنی میں
آنحضرتؐ کی محبت و شفقت ایسی غالب تھی کہ ہر بیوی کو آپؐ کی رفاقت پر ناز تھا۔ وہ ہر حال میں رسول خداؐ کے ساتھ راضی اور خوش رہتی تھیں۔ ان نو بیویوں میں سے کبھی کسی بیوی نے علیحدگی کا مطالبہ نہیں کیا۔ کبھی کوئی ناراض ہوکرآپؐ سے عارضی طورپر بھی جدانہیں ہوئی
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شادیوں کی حکمت
اسوہ انسان کاملﷺ میں رقم ہے :
’’مدنی دورمیں آنحضرتﷺ کوتربیتی وقومی ضروریات کی بنا پر متعدد شادیاں کرنی پڑیں اور بیک وقت نو بیویاں تک آپؐ کے گھر میں رہیں مگر کبھی ان کی ذمہ داریوں سے گھبرائے نہیں بلکہ نہایت حسن انتظام اور کمال اعتدال اور عدل و انصاف کے ساتھ سب کے حقوق ادا کئے اور سب کا خیال رکھا۔ آپؐ نماز عصر کے بعد سب بیویوں کو اس بیوی کے گھر میں اکٹھا کر لیتے جہاں آپؐ کی باری ہوتی تھی۔ یوں سب سے روزانہ اجتماعی ملاقات ہوجاتی تھی۔
ہر چند کہ آٹھ دن کے بعد ایک بیوی کی باری آتی تھی۔ مگر آنحضرتؐ کی محبت و شفقت ایسی غالب تھی کہ ہر بیوی کو آپؐ کی رفاقت پر ناز تھا۔ وہ ہر حال میں رسول خداؐ کے ساتھ راضی اور خوش رہتی تھیں۔ ان نو بیویوں میں سے کبھی کسی بیوی نے علیحدگی کا مطالبہ نہیں کیا۔ کبھی کوئی ناراض ہوکرآپؐ سے عارضی طورپر بھی جدانہیں ہوئی۔ فتوحات و غنائم کے دور میں بیویوں کے بعض دنیوی مطالبات کے جواب میں جب سورہ احزاب کی آیت تخییر اُتری جس میں بیویوں کو مال و دولت اور اپنے حقوق لے کر رسول کریمﷺ سے علیحدہ ہوجانے کا اختیار دیا گیا…اس حکم کے نازل ہونے پر رسول کریمﷺ نے باری باری سب بیویوں سے ان کی مرضی پوچھی کہ وہ حضورؐ کے ساتھ فقر و غربت میں گذارہ کرنا پسند کرتی ہیں یا جدائی چاہتی ہیں توسب بیویوں نے بلا توقّف یہی مرضی ظاہر کی کہ وہ کسی حال میں بھی رسول خداؐ کو چھوڑنا گوارا نہیں کرتیں۔‘‘
(بحوالہ اسوۂ انسان کامل صفحہ446)
آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی شادیوں کی اغراض
حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ فرماتے ہیں :
’’اب ہم یہ بتاتے ہیں کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی شادیوں میں کون سی اغراض مدِّ نظر تھیں …۔ سو جاننا چاہئے کہ عام اغراض تو آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی شادیوں میں وہی تھیں جو اسلام نے عام طور پر نکاح اور تعدّدِ ازدواج کی بیان کی ہیں …لیکن ان عام اغراض کے علاوہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے مخصوص حالات کے ماتحت آپؐ کی شادیوں کی بعض خاص وجوہات بھی تھیں اور یہ اغراض دو تھیں۔ اوّلؔ آپؐ کے ذاتی نمونہ سے بعض جاہلانہ رسوم اور غلط عقائد کی عملی تردید۔ دومؔ بعض مناسب عورتوں کو آپؐ کی تربیت میں رکھ کر ان کے ذریعہ اسلامی شریعت کے اس حصہ کا استحکام جو مستورات کے ساتھ تعلق رکھتا ہے اور مسلمان عورتوں کی تعلیم و تربیت؛ چنانچہ اﷲ تعالیٰ قرآن شریف میں فرماتا ہے۔
فَلَمَّا قَضٰی زَیۡدٌ مِّنۡہَا وَطَرًا زَوَّجۡنٰکَہَا لِکَیۡ لَا یَکُوۡنَ عَلَی الۡمُؤۡمِنِیۡنَ حَرَجٌ فِیۡۤ اَزۡوَاجِ اَدۡعِیَآئِہِمۡ اِذَا قَضَوۡا مِنۡہُنَّ وَطَرًا ؕ وَ کَانَ اَمۡرُ اللّٰہِ مَفۡعُوۡلًا
(الاحزاب:38)
یعنی ’’اے رسول! جب تیرے مُنہ بنائے بیٹے زید بن حارثہ نے اپنی بیوی زینب کو طلاق دیدی تو ہم نے اس کی شادی کی تجویز خود تیرے ساتھ کر دی تاکہ اس ذریعہ سے یہ جاہلانہ رسم مِٹ جاوے کہ مُنہ بُلایا بیٹا اصل بیٹے کی طرح ہو جاتا ہے اور اس کی مطلقہ بیوی یا بیوہ بیٹا بنانے والے شخص کے لیے جائز نہیں ہوتی اور آئندہ کے لیے مومنوں کے دلوں میں اس امر کے متعلق کوئی دبدہ یا خلش باقی نہ رہے۔‘‘
اس آیت میں پہلی غرض بیان کی گئی ہے اور وہ یہ کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے عملی نمونہ کے ذریعہ سے بعض ان جاہلانہ رسوم کا استیصال کیا جاوے جو عربوں کی طبیعت میں اس قدر راسخ ہو چکی تھیں کہ ان کا حقیقی استیصال بغیر اس کے ناممکن تھا کہ آپ اس معاملہ میں خود ایک عملی نمونہ قائم کریں ؛ چنانچہ متبنّٰی بنانے کی رسم عرب میں بہت راسخ اور رائج تھی اور اس معاملہ میں الٰہی حکم نازل ہونے سے پہلے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے اپنے آزاد کردہ غلام زید بن حارثہ کو متبنّٰی بنایا ہوا تھا، اس لیے جب یہ حکم نازل ہوا کہ کسی شخص کو محض منہ بولا بیٹا بنالینے سے وہ اصل بیٹا نہیں ہو جاتا اور اس کے بعد یہ واقع پیش آگیا کہ زید بن حارثہ نے اپنی بیوی زینب بنت جحش کو طلاق دیدی تو آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے خدائی حکم کے ماتحت زینب کے ساتھ خود شادی فرمائی اور اس طرح اس جاہلانہ رسم کا استیصال کیا جو آپؐ کے عملی نمونہ کے بغیر پوری طرح مِٹنی محال تھی۔ علاوہ ازیں آپؐ نے زینب کے ساتھ شادی کر کے اس بات میں بھی عملی نمونہ قائم فرمایا کہ کسی طلاق شدہ عورت کے ساتھ شادی کرنا کوئی عیب کی بات نہیں ہے۔
پھر فرماتا ہے:
یٰۤاَیُّہَا النَّبِیُّ قُلۡ لِّاَزۡوَاجِکَ اِنۡ کُنۡـتُنَّ تُرِدۡنَ الۡحَیٰوۃَ الدُّنۡیَا وَ زِیۡنَتَہَا فَتَعَالَیۡنَ اُمَتِّعۡکُنَّ وَ اُسَرِّحۡکُنَّ سَرَاحًا جَمِیۡلًا۔ وَ اِنۡ کُنۡـتُنَّ تُرِدۡنَ اللّٰہَ وَ رَسُوۡلَہٗ وَ الدَّارَ الۡاٰخِرَۃَ فَاِنَّ اللّٰہَ اَعَدَّ لِلۡمُحۡسِنٰتِ مِنۡکُنَّ اَجۡرًا عَظِیۡمًا۔ … یٰنِسَآءَ النَّبِیِّ لَسۡتُنَّ کَاَحَدٍ مِّنَ النِّسَآءِ اِنِ اتَّقَیۡتُنَّ…وَ اَقِمۡنَ الصَّلٰوۃَ وَ اٰتِیۡنَ الزَّکٰوۃَ وَ اَطِعۡنَ اللّٰہَ وَ رَسُوۡلَہٗ ؕ اِنَّمَا یُرِیۡدُ اللّٰہُ لِیُذۡہِبَ عَنۡکُمُ الرِّجۡسَ اَہۡلَ الۡبَیۡتِ وَ یُطَہِّرَکُمۡ تَطۡہِیۡرًا۔ وَ اذۡکُرۡنَ مَا یُتۡلٰی فِیۡ بُیُوۡتِکُنَّ مِنۡ اٰیٰتِ اللّٰہِ وَ الۡحِکۡمَۃِ ؕ اِنَّ اللّٰہَ کَانَ لَطِیۡفًا خَبِیۡرًا۔
(الاحزاب:29تا30۔33تا35)
یعنی ’’اے نبی! تم اپنی بیویوں سے کہدو کہ اگر تمہیں یہ خواہش ہے کہ دنیا کی زندگی کا سازوسامان تمہیں مل جاوے تو آؤ میں تمہیں دنیا کا مال و متاع دیئے دیتا ہوں، مگر اس صورت میں تم میری بیویاں نہیں رہ سکتیں بلکہ پھر میں احسان و مروت کے ساتھ تمہیں رخصت کر دوں گا۔ لیکن اگر تم خدا اور اس کے رسول کی خواہش رکھتی ہواور آخرت کا اجر چاہتی ہو تو سُن لو کہ تم میں سے ان نیکو کاروں کے لیے جو خدا کے منشاء کو پورا کریں خدا نے بہت بڑا اجر تیار کیا ہے ……
اے نبی کی بیویو! تم عام عورتوں کی طرح نہیں ہو۔ اگر تم تقویٰ اختیار کرو اور نماز کو اس کی اصلی صورت میں قائم کرو اور زکوٰۃ دو اور خدا اور اس کے رسول کی پوری پوری اطاعت کرو (کیونکہ خدا نے تمہیں ایک خاص کام کے لیے چُنا ہے) اے نبی کے اہلِ بیت! اﷲ تعالیٰ چاہتا ہے کہ تم سے ہر قسم کی کمزوریوں اور نقصوں کو دُور کر کے تمہیں خوب اچھی طرح پاک و صاف کر دے تاکہ تم ان آیاتِ الٰہی اور ان حکمت کی باتوں کو لوگوں تک پہنچاؤ جو نبی کے ذریعہ سے تمہارے گھروں میں سُنائی جاتی ہیں اور خدا تعالیٰ تمہارے ذریعہ سے یہ کام اس لیے لینا چاہتا ہے کہ وہ اگر بوجہ لطیف ہونے کے خود لوگوں کی نظروں سے اوجھل اور مخفی ہے تو بوجہ خبیر ہونے کے وہ لوگوں کی ضروریات سے آگاہ بھی ہے۔ پس ضروری ہے کہ وہ ہدایتِ خلق کا کام انسانوں کے واسطے سے سرانجام دے۔‘‘
اس آیت کریمہ میں آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے تعدّد ازدواج کی مخصوص غرض میں سے دوسری اور بڑی غرض بتائی گئی ہے یعنی یہ کہ آپؐ کے ساتھ مناسب مستورات کو بطور بیویوں کے رکھ کر انہیں مسلمان عورتوں کی تعلیم و تربیت کے لیے تیار کیا جاوے۔ یہ وہ خاص الخاص غرض ہے جس کے ماتحت آپؐ کی شادیاں وقوع میں آئیں اور ہر شخص سمجھ سکتا ہے کہ یہ ایک ایسی غرض ہے جو آپؐ کی ذات کے ساتھ مخصوص تھی اور اسی لیے عام مسلمانوں کے لیے جو حد بندی تعدّدِ ازدواج کی مقرر کی گئی ہے اس سے آپؐ مستثنیٰ تھے۔ دراصل چونکہ آپ ایک شرعی نبی تھے اور آپؐ کے ذریعہ سے دنیا میں ایک نئے شرعی قانون اور نئے تہذیب و تمدن کی بنیاد پڑنی تھی اس لیے صرف اس قدر کافی نہیں تھا کہ آپؐ کے ذریعہ نئے احکام کی اشاعت ہو جاتی بلکہ اس بات کی بھی ضرورت تھی کہ آپ خود اپنی نگرانی میں اس نئی شریعت کو تفصیلاً جاری فرماتے اور لوکوں کی زندگیوں کو اس جدید داغ بیل پر عملاً چلا دیتے جو اسلام نے قائم کی تھی۔ یہ کام ایک نہایت مشکل اور نازک کام تھا اور گو مردوں کے معاملہ میں بھی آپ کے رستے میں بہت سی مشکلات تھیں لیکن مستورات کے متعلق تو یہ ایک نہایت ہی مشکل کام تھا کیونکہ اوّل تو بوجہ ان کے عموماً اپنے گھروں میں رہنے اور اپنے خانگی مشاغل کی مصروفیت کے انہیں آپؐ کی صحبت سے مستفیض ہونے کے زیادہ موقعے نہیں تھے۔ دوسرے اس طبعی حیاء کی وجہ سے جو عورتوں میں ہوتی ہے وہ ان مخصوص مسائل کو جو عورتوں کے ساتھ تعلق رکھتے ہیں زیادہ آزادی کے ساتھ آپؐ سے دریافت نہیں کر سکتی تھیں اور اس کے مقابلہ میں عورتوں میں تعلیم کی نسبتاً کمی اور جاہلانہ رسوم کی پابندی نسبتاً زیادہ ہوتی ہے۔ جس کی وجہ سے وہ اپنے مقررہ طریق میں کسی قسم کی تبدیلی کرنے کے لیے جلد تیار نہیں ہوتیں ان حالات میں عورتوں کی تعلیم و تربیت کے متعلق خاص انتظام کی ضرورت تھی اور اس کی بہترین صورت یہی تھی کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم مناسب عورتوں کے ساتھ شادی کرکے انہیں اپنی تربیت میں اس کام کے قابل بنادیں اور پھر آپ کی یہ ازواج مسلمان عورتوں کی تعلیم و تربیت کا کام سرانجام دیں ؛ چنانچہ یہ تجویز کارگر ہوئی اور مسلمان عورتوں نے بڑی خوبی کے ساتھ اور نہایت قلیل عرصہ میں اپنی زندگیوں کو جدید شریعت کے مطابق بنالیا۔ حتّٰی کہ دنیاکی کسی قوم میں یہ مثال نظر نہیں آتی کہ طبقہ نسواں نے ایسے قلیل عرصہ میں اور اس درجہ تکمیل کے ساتھ ایک بالکل نئے قانون اور نئے تہذیب و تمدن کو اختیار کر لیا ہو۔
اس بات کا ایک عملی ثبوت کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی شادیاں نفسانی اغراض کے ماتحت نہیں تھیں بلکہ دینی اغراض کے ماتحت تھیں اس بات سے بھی ملتا ہے کہ آپؐ نے بعض ایسی عورتوں کے ساتھ شادی فرمائی جو اتنی عمر کو پہنچ چکی تھیں کہ وہ اولاد پیدا کرنے کے قابل نہیں رہی تھیں۔ مثلاً حضرت ام سلمہؓ جن سے آپؐ نے ۴ ہجری میں شادی فرمائی۔ ان کی عمر شادی کے وقت پیدائش اولاد وغیرہ کی حد سے تجاوز کر چکی تھی۔ چنانچہ انہوں نے اس بناء پر عذر بھی کیا، مگر چونکہ آپؐ کی غرض و غایت دینی تھی اور اس غرض کے لیے وہ بہت مناسب تھیں۔ اس لیے آپؐ نے ان کو باصرار رضا مند کر کے ان کے ساتھ شادی فرمالی۔
( سیرت خاتم النبیین صفحہ441تا444)
’’…جو پابندیاں تعدّدازدواج کے متعلق اسلام عائد کرتا ہے اورجن پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم خود عملاً کاربند تھے ان کے ماتحت ایک سے زیادہ بیویوں کے ساتھ شادی کرنا ہرگز عیش وعشرت کاذریعہ نہیں بن سکتا بلکہ حق یہ ہے کہ ان شرائط کے ماتحت تعدّدازدواج ایک بہت بڑی قربانی ہے جومرد اورعورت دونوں کو اپنے ذاتی یاخاندانی یاقومی یاملکی یادینی مصالح کے ماتحت اختیار کرنی پڑتی ہے اوراس قربانی کو اختیار کرنے والا شخص خانگی عیش وعشرت اورخانگی راحت وخوشی سے اس شخص کی نسبت بہت زیادہ دور ہوتا ہے جس کے مال اورجس کی توجہ اورجس کے وقت اورجس کی ظاہری محبت کی مالک صرف ایک عورت ہوتی ہے۔ پھر یہ بات بھی یاد رکھنی چاہئے کہ جو شخص عیش وعشرت کے خیال سے زیادہ شادیاں کرتا ہے، وہ لازماًاپنی بیویوں کی خوراک اورپوشش اوررہائش وغیرہ کا خاص خیال رکھتا ہے اوران کے لئے ہرطرح کا سامان عیش وعشرت مہیا کرتا ہے۔ مگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں بالکل اس کے خلاف نظارہ نظرآتا ہے۔ …یقیناً یقیناً ہرنئی بیوی جوآپؐ کے گھر آتی تھی وہ آپؐ کی خانگی تنگی کو زیادہ کرنے والی ہوتی تھی اوریہ آپؐ کی عظیم الشان قربانی کی روح تھی جس کی وجہ سے آپؐ نے اپنے دین اوراپنی قوم اوراپنے ملک کی خاطر ان تنگیوں کوخوشی کے ساتھ برداشت کیا اور اپنی زندگی کے امن اور قرار کو برباد کر کے ایک بالکل درویشانہ اور مسافرانہ زندگی اختیار کی۔
آپؐ کے پیش کردہ مسئلہ تعدّدازدواج میں ایک حکمت یہ بھی تھی کہ اس سے وہ علائق کمزور ہو جائیں جو دنیا میں انسان کے ساتھ لگے ہوئے ہیں۔ …چونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم انسان کے اندران فرائض کے پورا کرنے کے لئے بہترین قابلیت پیدا کرنا چاہتے تھے جوبنی نوع انسان کی اجتماعی زندگی کے ساتھ تعلق رکھتے ہیں اس لئے آپؐ نے بعض حالات میں خاص شرائط کے ماتحت تعدّدازدواج کی اجازت دے کر مرد اورعورت کے اس رشتے کو ایسی صورت دے دی ہے کہ اس کے اندر محویت کا عالم نہ پیدا ہوسکے۔ اوراس اصل کے ماتحت آپؐ کا تعدّد ازدواج پرعمل کرنا علائق خانگی کوکمزور کرنے کی غرض سے تھا نہ کہ انہیں مضبوط کرنےکے واسطے۔ … آپؐ نہ صرف خود اپنی توجہ کوخدا کے لئے اوراپنے منصب رسالت کے لئے وقف رکھنا چاہتے تھے بلکہ اپنی بیویوں کے متعلق بھی آپ کے دل میں یہی خواہش تھی کہ ان کا آپ کے ساتھ تعلق محض خدا کے لئے اورآپ کے منصب رسالت کے لئے اورآخرت کے لئے ہو۔‘‘
( سیرت خاتم النبیین صفحہ 478تا480)
حضرت عائشہؓ سے نکاح پر اعتراض
عیسائیوں نے بالخصوص آنحضورؐ کی تعدد ازدواج اور حضرت عائشہؓ کے ساتھ کم عمری کی شادی پر اعتراض کیے ہیں۔
حضرت خدیجہؓ کی وفات کے بعد آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے حضرت عائشہ صدیقہؓ کے ساتھ شادی فرمائی تھی یہ سنہ نبوی کا دسواں سال اور شوال کا مہینہ تھا۔ حضرت عائشہؓ 4؍نبوی کے شروع میں پیدا ہوئیں اور آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی ہجرت 14؍نبوی کے ربیع الاوّل میں ہوئی۔ اس طرح ہجرت تک حضرت عائشہ ؓکی عمر دس سال کچھ ماہ بنتی ہے۔ ہجرت کے بعد شوال 2؍ہجری تک جبکہ حضرت عائشہؓ کا رخصتانہ ہوا دو سال سے کچھ کم کا عرصہ ہوتا ہے۔ ان دونوں عرصوں کو ملانے سے حضرت عائشہؓ کی عمررخصتانہ پر بارہ سال بنتی ہے۔
( ماخوذ از سیرت خاتم النبیین، صفحہ423تا429)
اس حساب سے اگر دیکھا جائے تو عرب کے ماحول اور آب وہوا کے لحاظ سے سنِ بلوغت میں شمار ہوتی ہے۔ آپؓ کی عمر مبارک کے بارے میں مختلف روایات اسلامی لٹریچر میں مذکور ہیں جن کو بنیاد بنا کر مستشرقین اسلام کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات مبارکہ پہ فحش گوئی کا موقع مل جاتا ہے۔ اس تمام غیر اہم تفاصیل کو چھوڑتے ہوئے میں ان اہم نکات کی جانب قارئین کی نگاہ مبذول کروانا چاہوں گی جو کہ اس مبارک نکاح کی اصل اغراض تھیں۔ اگر غیرمتعصبانہ نگاہ ڈالیں تو علم ہوگا کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی تمام بیویوں میں سے صرف حضرت عائشہؓ ہی وہ بیوی تھیں جو باکرہ ہونے کی حالت میں آپؐ کے نکاح میں آئیں۔ باقی سب بیوہ یا مطلقہ تھیں اور اس خصوصیت کو حضرت عائشہ بسااوقات اپنے امتیازات میں شمار کیا کرتی تھیں۔
حضرت عائشہؓ سے شادی کرنے کی حکمت
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہانے مسلمان خواتین کی اصلاح اور تعلیم و تربیت کاوہ کام سرانجام دیا جس کی نظیر تاریخ عالم میں نہیں ملتی۔ مسائل کی سمجھ اور احکام کو یاد رکھنے میں تمام ازواج میں سب سے بہتر تھیں اس بنا پر شوہر کی نظر میں سب سے زیادہ محبوب تھیں۔ آ پؓ کایہ اصول یہ تھا کہ جب تک وہ واقعہ کو اچھی طرح سمجھ نہیں لیتی تھیں اس کی روایت نہیں کرتی تھیں اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی کوئی بات ان کی سمجھ میں نہیں آتی تھی تو آپؐ سے اس کو بار بار پوچھ کر تسکین کرتی تھیں۔ آنحضرت کی وفات کے بعد ہی بڑے بڑے جلیل القدر صحابہؓ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہاکے علم و فضل سے اُن کا لوہا مانتے اور فیض یاب ہوتے نظر آتے ہیں حتّٰی کہ حدیث میں آیاہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد صحا بہؓ کوکوئی علمی مشکل ایسی پیش نہیں آئی کہ اس کا حل حضرت عائشہؓ کے پاس نہ مل گیا ہو۔
(ترمذی باب مناقب عائشہ)
حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ لکھتے ہیں :
’’…کہ باوجود اس صغر سنی کے حضرت عائشہ کا ذہن اور حافظہ غضب کا تھا اور آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی تعلیم و تربیت کے ماتحت انہوں نے نہایت سرعت کے ساتھ حیرت انگیز طور پر ترقی کی اور دراصل اس چھوٹی عمر میں ان کو اپنے گھر میں لے آنے سے آپ کی غرض ہی یہ تھی کہ تا آپ بچپن سے ہی اپنے منشاء کے مطابق ان کی تربیت کر سکیں اور تا انہیں آپؐ کی صحبت میں رہنے کالمبے سے لمبا عرصہ مل سکے اور وہ اس نازک اور عظیم الشان کام کے اہل بنائی جاسکیں جو ایک شارع نبی کی بیوی پر عاید ہوتا ہے، چنانچہ آپؐ اس منشاء میں کامیاب ہوئے اور حضرت عائشہ نے مسلمان خواتین کی اصلاح اور تعلیم و تربیت کا وہ کام سرانجام دیا جس کی نظیر تاریخِ عالم میں نہیں ملتی۔ احادیثِ نبویؐ کا ایک بہت بڑا اور بہت ضروری حصہ حضرت عائشہ ہی کی روایات پر مبنی ہے حتّٰی کہ ان کی روایتوں کی کل تعداد دو ہزار دو سو دس تک پہنچتی ہے۔ ان کے علم و فضل اور تفقہ فی الدین کا یہ عالم تھا کہ بڑے بڑے جلیل القدر صحابہ ان کا لوہا مانتے اور ان سے فیض حاصل کرتے تھے۔ حتّٰی کہ حدیث میں آتا ہے کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے بعد صحابہ کو کوئی علمی مشکل ایسی پیش نہیں آئی کہ اس کا حل حضرت عائشہ کے پاس نہ مل گیا ہو۔ اور عروہ بن زبیر کا قول ہے کہ میں نے کوئی شخص علمِ قرآن اور علم میراث اور علم حلال و حرام اور علمِ فقہ اور علمِ شعر اور علمِ طِب اور علمِ حدیثِ عرب اور علمِ انساب میں عائشہؓ سے زیادہ عالم نہیں دیکھا۔ زہد و قناعت میں ان کا یہ مرتبہ تھا کہ ایک دفعہ ان کے پاس کہیں سے ایک لاکھ درہم آئے انہوں نے شام ہونے سے پہلے پہلے سب خیرات کر دیئے ! حالانکہ گھر میں شام کے کھانے تک کے لیے کچھ نہیں تھا۔ انہی اوصافِ حمیدہ کی وجہ سے جن کی جھلک آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے زمانہ میں ہی نظر آنے لگ گئی تھی۔ آپؐ انہیں خاص طور پر عزیز رکھتے تھے اور بعض اوقات فرماتے تھے کہ سب لوگوں میں عائشہ مجھے محبوب ترین ہے۔ ایک دفعہ فرمایا کہ مردوں میں تو بہت لوگ کامل گذرے ہیں لیکن عورتوں میں کاملات بہت کم ہوئی ہیں۔ پھر آپؐ نے آسیہ اہلیہ فرعون اور مریم بنت عمران کا نام لیا اور پھر فرمایا کہ عائشہ کو عورتوں پر وہ درجہ حاصل ہے جو عرب کے بہترین کھانے ثرید کو دوسرے کھانوں پر ہوتا ہے۔‘‘
( سیرت خاتم النبیین، صفحہ 430تا431)
حضرت امّ المومنین زینب بنت جحشؓ سے عقدِمبارک پر اعتراض
حضرت زینب کی شادی پر منافقین مدینہ کی طرف سے بہت اعتراضات ہوئے اورانہوں نے برملاطورپر طعن کیے کہ محمد صلی اﷲ علیہ وسلم نے اپنے بیٹے کی مطلقہ سے شادی کرکے گویا اپنی بہو کواپنے اوپر حلال کرلیا ہے۔ لیکن جبکہ اس شادی کی غرض ہی عرب کی اس جاہلانہ رسم کو مٹانا تھی توان مطاعن کا سننا بھی ناگزیرتھا۔
حضرت زینب بنت جحشؓ کی عمر شادی کے وقت 35؍سال کی تھی اور عرب کے حالات کے لحاظ سے یہ عمر ایسی تھی جسے گویا ادھیڑ عمر، بڑی عمر کہنا چاہیے۔ حضرت زینبؓ ایک نہایت متقی اور پرہیز گار اور مخیر خاتون تھیں۔ چنانچہ باوجود اس کے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تمام بیویوں میں صرف زینبؓ ہی وہ بیوی تھیں جو حضرت عائشہؓ کا مقابلہ کرتی تھیں اور ان کی ہمسری کا دم بھرتی تھیں۔ حضرت عائشہؓ ان کے ذاتی تقویٰ اور طہارت کی بہت مداح تھیں اور اکثر کہا کرتی تھیں کہ میں نے زینبؓ سے زیادہ نیک عورت نہیں دیکھی اور یہ کہ وہ بہت متقی، بہت راست گو، بہت صلہ رحمی کرنے والی، بہت صدقہ و خیرات کرنے والی اور نیکی اور تقرب الٰہی کے اعمال میں نہایت سرگرم تھیں۔ بس اتنی بات تھی ان کی طبیعت ذرا تیز تھی مگر تیزی کے بعد وہ جلد ہی خودنادم ہو جایا کرتی تھیں۔ صدقہ اور خیرات میں تو ان کا یہ مرتبہ تھا کہ حضرت عائشہؓ روایت کرتی ہیں کہ ایک دفعہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم سے فرمایا کہ
اَسْرَعُکُنَّ لِحَاقًا بِیْ اَطْوَلُکُنَّ یَدًا۔
یعنی تم میں سے جو سب سے زیادہ لمبے ہاتھوں والی ہے وہ میری وفات کے بعد سب سے پہلے فوت ہو کر میرے پاس پہنچے گی۔ حضرت عائشہؓ کہتی ہیں کہ ہم نے اس سے ظاہری ہاتھ سمجھے اور اپنے ہاتھ ناپا کرتی تھیں لیکن جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد سب سے پہلے زینب بنت جحشؓ کا انتقال ہوا تو تب جا کر ہم پر یہ راز کھلا کہ ہاتھ سے مراد صدقہ و خیرات کا ہاتھ تھا نہ کہ ظاہری ہاتھ۔
حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ لکھتے ہیں کہ ہر پڑھنے والے کے، تاریخ جاننے والے کے یقیناً یہی جذبات ہوتے ہیں کہ اس بات کے مطالعہ سے مجھے ایک روحانی سرور حاصل ہوتا ہے کہ آپؐ کی عمر کے جس زمانہ میں آپؐ کی یہ شادیاں ہوئیں وہ وہ زمانہ ہے جب کہ آپؐ پر آپؐ کے فرائضِ نبوت کا سب سے زیادہ بار تھا اور اپنی ان لاتعداد اور بھاری ذمہ داریوں کی ادائیگی میں آپؐ بالکل محو ہو رہے تھے اور ہر انصاف پسند، شریف انسان کے نزدیک محض یہ منظر ہی اس بات کی ایک دلیل ہے کہ آپؐ کی یہ شادیاں آپؐ کے فرائضِ نبوت کا حصہ تھیں جوآپؐ نے اپنی خانگی خوشی کوبرباد کرتے ہوئے تبلیغ وتربیت کی اغراض کے ماتحت کی تھیں۔ پھر یہ بھی واضح ہونا چاہیے کہ اسلام میں شادی کی غرض یہ نہیں ہے کہ مرد اور عورت اپنی نفسانی خواہشات کے پورا کرنے کے لیے اکٹھے ہوسکیں بلکہ گونسلِ انسانی کے بقا کے لیے مرد وعورت کا اکٹھا ہونا نکاح کی ایک جائز غرض ہے مگر اس میں بہت سی اَورپاکیزہ اغراض بھی مدِّنظر ہیں۔ پس ایک انسان کی شادیوں کی وجہ تلاش کرتے ہوئے، جس کی زندگی کا ہرحرکت اور سکون اس کی بے نفسی اور پاکیزگی پرایک دلیل ہے، گندے آدمیوں کی طرح گندے خیالات کی طرف مائل ہونے لگنا اس شخص کوتو ہرگز کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتا جس کے متعلق یہ رائے لگائی جاتی ہے مگر رائے لگانے والے، دینے والے کے اپنے اندرونے کاآئینہ ضرورسمجھا جا سکتا ہے۔ پس اس سے زیادہ اس اعتراض کے جواب میں، مَیں کچھ نہیں کہتاکہ
وَاللّٰہُ الْمُسْتَعَانُ عَلٰی مَا تَصِفُوْنَ۔
کہ اللہ ہی ہے جس سے اس بات پر مدد مانگی جا سکتی ہے جو تم بیان کرتے ہو۔
(ماخوذ از سیرت خاتم النبیین، صفحہ 549تا 555)
تعددّ ازدواج کے حوالے سےحضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں :
’’قرآن کریم میں اگر اللہ تعالیٰ نے ایک سے زیادہ شادی کا حکم دیا ہے تو بعض شرائط بھی عائد فرمائی ہیں۔ یہ بھی اسلام پر اعتراض کیا جاتا ہے اور آنحضرتﷺ پر اعتراض کیا جاتا ہے کہ ایک سے زیادہ شادی کی اجازت دے کر عورت پر ظلم کیا گیا ہے۔ یا صرف مرد کے جذبات کا خیال رکھا گیا ہے۔
اس بارہ میں خداتعالیٰ فرماتا ہے، یہ کھلا حکم نہیں ہے۔ فرمایا
وَ اِنۡ خِفۡتُمۡ اَلَّا تُقۡسِطُوۡا فِی الۡیَتٰمٰی فَانۡکِحُوۡا مَا طَابَ لَکُمۡ مِّنَ النِّسَآءِ مَثۡنٰی وَ ثُلٰثَ وَ رُبٰعَ ۚ فَاِنۡ خِفۡتُمۡ اَلَّا تَعۡدِلُوۡا فَوَاحِدَۃً اَوۡ مَا مَلَکَتۡ اَیۡمَانُکُمۡ ؕ ذٰلِکَ اَدۡنٰۤی اَلَّا تَعُوۡلُوۡا
(النساء:4)
اور اگر تم ڈرو کہ تم یتامیٰ کے بارے میں انصاف نہیں کر سکو گے تو عورتوں میں سے جو تمہیں پسند آئیں ان سے نکاح کرو۔ دو دو اور تین تین، چار چار لیکن اگر تمہیں خوف ہو کہ تم انصاف نہیں کر سکو گے تو پھر صرف ایک کافی ہےیاوہ جن کےتمہارے داہنے ہاتھ مالک ہوئے۔ یہ طریق قریب تر ہے کہ تم ناانصافی سے بچو۔
اس آیت میں ایک تو یتیم لڑکیوں کو تحفظ فراہم کیا گیاہے کہ یتیموں سے بھی شادی کرو تو ظلم کی وجہ سے نہ ہو بلکہ ان کے پورے حقوق ادا کرکے شادی کرو اور پھر شادی کے بعد ان کے جذبات کا خیال رکھو …
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اس سلسلہ میں فرماتے ہیں کہ
’’یتیم لڑکیاں جن کی تم پرورش کرو ان سے نکاح کرنا مضائقہ نہیں۔ لیکن اگر تم دیکھو کہ چونکہ وہ لاوارث ہیں، شاید تمہارا نفس ان پر زیادتی کرے تو ماں باپ اور اقارب والی عورتیں کرو جو تمہاری مؤدب رہیں اور ان کا تمہیں خوف رہے۔ ایک دو تین چار تک کر سکتے ہو بشرطیکہ اعتدال کرواور اگر اعتدال نہ ہو تو پھر ایک ہی پر کفایت کرو۔ گو ضرورت پیش آوے۔‘‘
(اسلامی اصول کی فلاسفی۔ روحانی خزائن جلد 10صفحہ 337)
’’گو ضرورت پیش آوے۔‘‘ یہ بڑا بامعنی فقرہ ہے۔ اب دیکھیں اس زمانہ کے حَکم اور عدل نے یہ کہہ کر فیصلہ کر دیا کہ تمہاری جوضرورت ہے جس کے بہانے بنا کر تم شادی کرنا چاہتے ہو، وہ اصل اہمیت نہیں رکھتی بلکہ معاشرے کا امن اور سکون اور انصاف اصل چیز ہے۔ …
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے تو ایک جگہ فرمایا ہے کہ اگر مجبوری کی وجہ سے دوسری شادی کرنی ہی پڑے تو پھر اس صورت میں پہلی بیوی کا پہلے سے بڑھ کر خیال رکھو۔
(ماخوذ از ملفوظات جلد سوم صفحہ 430جدید ایڈیشن)
(خطبہ جمعہ فرمودہ 15؍مئی 2009ء۔ مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 5؍جون2009ءصفحہ6)
اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق عطافرمائے کہ ہم صحیح معنوں میں اپنی عائلی زندگیوں کو رسول اللہﷺ کے پاک اسوہ اور خلقِ عظیم کے رنگ میں رنگین کرنے والے ہوں اور وہ پاکیزہ معاشرہ استوار کریں جس کے قیام کے لیے ہمارے سید و مولیٰ اس دنیا میں تشریف لائے۔
٭…٭…٭