متفرق شعراء
نعت
اہلِ دنیا کو نجانے اور کیا اچھا لگا
اہلِ دل کو بس محمد مصطفیٰؐ اچھا لگا
روشنی پر جان دینے پھر پتنگے آ گئے
شب گزیدہ قوم کو روشن دیا اچھا لگا
پیار کرنا جرم ہے تو سُن زمانے غور سے
وہ ہمیں تھوڑا نہیں بے انتہا اچھا لگا
درد کے صحرا میں بارش وصل کی جل تھل ہوئی
ہجر کے ماروں کو موسم وہ بڑا اچھا لگا
اُس کی خاطر زخم جو آئے وہ سارے پھول تھے
اُس کے کوچے تک ہمیں ہر ابتلا اچھا لگا
پیار کیسے ہو گیا یہ واقعہ ہے مختصر
ہم دکھی تھے اور ہمیں دکھ آشنا اچھا لگا
جس نے چومے ہاتھ اُسکے وہ بھی خوشبو ہو گیا
اہلِ دل کو عشق کا یہ معجزہ اچھا لگا
آج میرے خواب میں اُس نے مجھے اپنا کہا
آج پہلی بار مجھ کو آئینہ اچھا لگا
کیا عجب روزِ قیامت وہ مبارک یوں کہیں
میرے اِس شاعر نے اُس دن جو کہا اچھا لگا
(مبارک صدیقی )