سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام

احمد علیہ السلام۔ سیرت و سوانح

(’اے ولیم‘)

حضرت اقدس مسیح موعودؑ کی پاکیزہ اور مقدّس و مطہرجوانی

اَلنِّکاحُ مِن سُنَّتِی

سادہ اورپروقارشادی(حصہ دوم)

حضرت ام المومنین رضی اللہ عنہا جو کہ اب آپؑ کے شب و روز کی رازدار تھیں وہ بیان فرماتی ہیں :

’’حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کو اوائل سے ہی مرزا فضل احمد کی والدہ سے……بے تعلقی سی تھی جس کی وجہ یہ تھی کہ حضرت صاحب کے رشتہ داروں کو دین سے سخت بے رغبتی تھی اور ان کا ان کی طرف میلان تھا اور وہ اسی رنگ میں رنگین تھیں اس لئے حضرت مسیح موعودؑ نے ان سے مباشرت ترک کردی تھی ہاں آپ اخراجات وغیرہ باقاعدہ دیا کرتے تھے۔‘‘ (سیرت المہدی جلد اول روایت نمبر 41)

اور دین اسلام سے عداوت اوردوری اس وقت بہت کھل کرسامنے آگئی جب احمدبیگ وغیرہ اور اس کی پشت پناہی کرنے والے یہ سارے لوگ اس حدتک بڑھ گئے کہ گویا عیسائیوں کے ساتھ جاملے۔ تب آپؑ نے اعلانیہ ان لوگوں سے قطع تعلقی کا اعلان کردیا۔جس کی تفصیل مجموعہ اشتہارات جلداول صفحہ186-187 اشتہار بعنوان ’’اشتہار نصرت دین وقطع تعلق از اقارب مخالف دین‘‘ میں ملاحظہ کی جاسکتی ہے۔اور بالآخر آپؑ نے جب خداتعالیٰ کے الہامات کے نتیجہ میں دوسری شادی کرلی تو پہلی بیوی کو اختیار دیا کہ یاتوطلاق لے لو یا اس طرح سے اپنے حقوق چھوڑدو کہ جو نان ونفقہ ہے وہ برابرملتارہے۔ آپؑ کی پہلی بیوی نے دوسری صورت اختیار کی۔یہ ساری تفصیلات حضرت ام المومنین رضی اللہ عنہا کی اس روایت میں ہیں جسے حضرت صاحبزادہ مرزا بشیراحمدصاحب ؓ اپنی تصنیف سیرت المہدی میں یوں بیان فرماتے ہیں:

’’والدہ صاحبہ نے فرمایا کہ میری شادی کے بعد حضرت صاحب نے انہیں کہلا بھیجا کہ آج تک تو جس طرح ہوتا رہا ہوتا رہا اب میں نے دوسری شادی کر لی ہے اس لئے اب اگر دونوں بیویوں میں برابری نہیں رکھو ں گا تو میں گنہگار ہوں گا اس لئے اب دو باتیں ہیں یا تو تُم مجھ سے طلاق لے لو اور یا مجھے اپنے حقوق چھوڑ دو میں تم کو خرچ دیئے جاوٴں گا۔انہوں نے کہلا بھیجا کہ اب میں بڑھاپے میں کیا طلاق لوں گی بس مجھے خرچ ملتا رہے میں اپنے باقی حقوق چھوڑتی ہوں۔والدہ صاحبہ فرماتی ہیں چنانچہ پھر ایسا ہی ہوتا رہا حتٰی کہ محمدی بیگم کا سوال اُٹھا اور آپ کے رشتہ داروں نے مخالفت کر کے محمدی بیگم کا نکاح دوسری جگہ کرا دیا اور فضل احمد کی والدہ نے ان سے قطع تعلق نہ کیا بلکہ ان کے ساتھ رہی تب حضرت صاحب نے ان کو طلاق دے دی۔ خاکسار عرض کرتا ہے کہ حضرت صاحب کا یہ طلاق دینا آپ کے اس اشتہار کے مطابق تھا جو آپ نے 2/مئی 1891ء کو شائع کیا اور جس کی سرخی تھی ’’اشتہار نصرت دین و قطع تعلق از اقارب مخالف دین‘‘ اس میں آپ نے بیان فرمایا تھا کہ اگر مرزا سلطان احمد اور ان کی والدہ اس امر میں مخالفانہ کوشش سے الگ نہ ہوگئے تو پھر آپ کی طرف سے مرزا سلطان احمد عاق اور محروم الارث ہوں گے اور ان کی والدہ کو آپ کی طرف سے طلاق ہوگی۔والدہ صاحبہ فرماتی تھیں کہ فضل احمد نے اس وقت اپنے آپ کو عاق ہونے سے بچا لیا۔نیز والدہ صاحبہ نے فرمایا کہ اس واقعہ کے بعد ایک دفعہ سلطان احمد کی والدہ بیمار ہوئیں تو چونکہ حضرت صاحب کی طرف سے مجھے اجازت تھی میں انہیں دیکھنے کے لئے گئی۔ واپس آکر میں نے حضرت صاحب سے ذکر کیا کہ پھجےکی ماں بیمار ہے اور یہ تکلیف ہے۔ آپ خاموش رہے۔ میں نے دوسری دفعہ کہاتو فرمایا میں تمہیں دو گولیاں دیتا ہوں یہ دے آؤ مگر اپنی طرف سے دینا میرا نام نہ لینا۔والدہ صاحبہ فرماتی تھیں کہ اَور بھی بعض اوقات حضرت صاحب نے اشارةً کنایةً مجھ پر ظاہر کیا کہ میں ایسے طریق پر کہ حضرت صاحب کا نام درمیان میں نہ آئے اپنی طرف سے کبھی کچھ مدد کر دیا کروں سو میں کر دیا کرتی تھی۔‘‘ ( سیر ت المہدی جلد اول روایت نمبر41)

حضرت اقدسؑ کی یہ پہلی بیگم کب فوت ہوئیں ؟ابھی تک کوئی ایسی روایت نہیں ملی جس کی روشنی میں کوئی تاریخ وغیرہ معین کی جاسکے۔ البتہ مذکورہ بالاروایت میں جن واقعات کاذکرکیاگیا ہے وہ مئی 1891ء کے بعد کے ہیں۔لہٰذاان سے یہ تو قیاس کیاجاسکتاہے کہ 1891ء کے بعد بھی کچھ عرصہ تک وہ زندہ رہی ہیں۔ کب فوت ہوئیں اورکہاں تدفین ہوئی۔معین طور پر کچھ کہانہیں جاسکتا۔

سیرت المہدی حصہ سوم صفحہ 686 روایت نمبر 758کے تحت قادیان کے آبائی قبرستان کا ایک نقشہ دیا گیا ہے جس میں حضرت اقدسؑ کے دادا،پڑدادا،اورآپ کی بڑی ہمشیرہ مراد بی بی اور چھوٹی ہمشیرہ جنت بی بی تک کی قبروں کی نشاندہی تو موجودہے لیکن محترمہ حرمت بی بی صاحبہ کےبارہ میں کوئی صراحت نہیں ہے۔امکاناً اورقیاساً دو ہی قبرستان ہوسکتے ہیں ایک یہی آبائی قبرستان اور ایک دوسراقبرستان جو بہشتی مقبرہ کے غربی جانب جہاں کہ مرزانظام دین اورامام دین صاحبان کی قبورہیں۔

حضرت مصلح موعودؓ اپنی انہی سوتیلی والدہ کاذکرکرتے ہوئے فرماتے ہیں:

’’مجھے یاد ہے ہماری سوتیلی والدہ ہم سے بہت محبت کیا کرتی تھیں اور باوجود اس کے کہ ہم ان کی سوکن کی اولاد تھے وہ ہمارے ساتھ بڑی محبت کا سلوک کرتی تھیں ان کی والدہ بھی جو ہماری دادی صاحبہ کے علاقہ کی تھیں ہم سے بہت پیار کرتی تھیں جب ہمارے رشتہ دار مرزا امام دین صاحب اور ان کے لڑکے اور لڑکیاں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو گالیاں دیتے تھے تو چونکہ وہ بہت اونچا سنتی تھیں اس لئے دریافت کرتی تھیں کہ یہ لوگ کس کو گالیاں دے رہے ہیں۔ اس پر جب انہیں بتایا جاتا کہ یہ مرزا غلام احمد کو گالیاں دے رہے ہیں تو وہ رو پڑتیں اور کہتیں، ہائے یہ لوگ میری چراغ بی بی کے بیٹے کو گالیاں دیتے ہیں۔‘‘

(الفضل 30؍مئی 1959ءصفحہ3کالم 2،1)

بیٹوں کی تعلیم وتربیت

جیساکہ بیان ہواہے کہ حضورؑ کے دوبیٹے تھے۔ صاحبزادہ مرزاسلطان احمدصاحبؓ اور صاحبزادہ مرزافضل احمدصاحب ،حضرت اقدسؑ نے اپنے دونوں بیٹوں کی تعلیم وتربیت کا اس ماحول کے مطابق بہترین انتظام فرمایا۔آپؑ خود بھی اپنے بچوں کو پڑھاتے اور اتالیق کا انتظام بھی کیا گیا جو قادیان میں ان بچوں کو پڑھانے پر مقررکیاگیا تھا۔جو استاد اس کام کے لئے مقرر کیا گیا ان میں سے ایک مولوی اللہ دتا صاحب ساکن لودھی ننگل بھی تھے۔

(ماخوذاز حیات احمدؑ جلداول ص327)

آپؑ خود بھی گاہے گاہے اپنے بچوں کو پڑھاتے رہے۔چنانچہ حضرت صاحبزادہ مرزا سلطان احمد صاحبؓ خود بیان فرماتے ہیں کہ

’’میں بچپن میں والد صاحب یعنی حضرت مسیح موعودعلیہ السلام سے تا ریخ فرشتہ ،نحو میر اور شائد گلستان ، بوستان پڑھا کرتا تھا اور والدصاحب کبھی کبھی پچھلا پڑھا ہوا سبق بھی سنا کرتے تھے۔مگر پڑھنے کے متعلق مجھ پر کبھی ناراض نہیں ہوئے۔‘‘

(سیرت المہدی جلد اول روایت نمبر 186)

حضرت صاحبزادہ مرزاسلطان احمدصاحبؓ اپنے والد بزرگوارکے علاوہ اپنے دادا حضرت مرزاغلام مرتضیٰ صاحب سے بھی پڑھتے رہے۔

(ماخوذاز سیرت المہدی جلد اول روایت نمبر186)

حضرت اقدسؑ کا اعلیٰ اندازتعلیم وتربیت ہی تھا کہ جس نے آپؑ کے بیٹوں خصوصاً مرزاسلطان احمدصاحبؓ کے شوق مطالعہ کو خوب مہمیز کا کام دیا۔انہیں مطالعہ کا ایسا شوق پڑا کہ اس کا ذکر کرتے ہوئے وہ بیان فرماتے ہیں کہ

’’دادا صاحب کی ایک لائبریری تھی جو بڑے بڑے پٹاروں میں رہتی تھی۔ اور اس میں بعض کتابیں ہمارے خاندان کی تاریخ کے متعلق بھی تھیں۔میری عادت تھی کہ میں دادا صاحب اور والد صاحب کی کتابیں وغیرہ…لے جایا کرتا تھا۔چنانچہ والد صاحب اور دادا صاحب بعض وقت کہا کرتے تھے کہ ہماری کتابوں کو یہ ایک چوہا لگ گیا ہے۔‘‘

(سیرت المہدی جلد اول روایت نمبر 227)

بہرحال یہ دونوں بیٹے اپنی اپنی استعدادوں اور صلاحیتوں کےموافق بڑے ہوکر برسرِ روزگارہوئے۔ان دونوں کا تفصیلی ذکر آئندہ کیا جائے گا۔

(باقی آئندہ)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button