مالی قربانی… انفاق فی سبیل اللہ
اللہ تعالیٰ نے انسان کواس غرض سے پیدا کیا ہے کہ وہ خدا تعالیٰ کے قرب کے حصول کے لیے اس کی عبادت کرے۔ایک عبد کی زندگی گزارے اور قرب الٰہی کے لیے صراطِ مستقیم کی پیروی کرتا رہے۔ انسان خدا تعالیٰ کی رضا اسی وقت حاصل کر سکتا ہے جب ان ذرائع اور وسائل کو بروئے کار لاتے ہوئے ان پر عمل کرے جو خدا تعالیٰ نے خود سکھائے ہیں۔ اس سےانسان کا شمار خدا تعالیٰ کے مقربین میں ہو تاہے اور اس طرح وہ اگلے جہان میں اس کی ابدی جنت کا وارث بنتا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں جہاں عبادت کا حکم دیا وہاں اپنے اموال بھی خدا تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرنے کا حکم دیا ہے۔ انفاق فی سبیل اللہ سے مراد ہےمخلص ہو کر خدا تعالیٰ کی رضا کے لیے راہِ خدا میں اپنے اموال خرچ کرنا۔ عربی میں نَفَقَ کا مطلب ہے نقب لگانا۔ چونکہ اللہ تعالیٰ کی راہ میں مال خرچ کرنے والا اپنے مال میں ایسا سوراخ کرتا ہے جس کے ذریعہ مال اللہ تعالیٰ کی طرف جاتا ہے۔ اس لیے اللہ کی راہ میں مال خرچ کرنے کو انفاق فی سبیل اللہ کہتے ہیں۔ قرآن مجید میں خدا تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرنے کے بارے میں بہت کثرت سے بیان ہوا ہے۔ اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں فرماتا ہے:
لَنۡ تَنَالُوا الۡبِرَّ حَتّٰی تُنۡفِقُوۡا مِمَّا تُحِبُّوۡنَ ۬ؕ وَ مَا تُنۡفِقُوۡا مِنۡ شَیۡءٍ فَاِنَّ اللّٰہَ بِہٖ عَلِیۡمٌ۔ (آل عمران: 93)
تم ہرگز نیکی کو پا نہیں سکو گے یہاں تک کہ تم اُن چیزوں میں سے خرچ کرو جن سے تم محبت کرتے ہو۔ اور تم جو کچھ بھی خرچ کرتے ہو تو یقیناً اللہ اس کو خوب جانتا ہے۔
اس آیت میں خدا تعالیٰ نے مومنین کی ایک صفت یہ بیان فرمائی کہ خدا تعالیٰ کی راہ میں وہ اپنی عزیز چیز کو پیش کرنے سے نہیں گھبراتے کیونکہ خدا تعالیٰ نے وعدہ کیا ہے کہ وہ علیم ہستی خوب جانتی ہےاور اس نیکی کی جزا بے حساب واپس لوٹاتی ہے۔
اسی طرح خدا تعالیٰ نے ایک دوسری آیت میں مالی قربانی کرنے والے کوقطعی الفاظ میں بشارت دی ہے کہ تم اپنے اموال میری راہ میں خرچ کر و مَیں تمہیں بڑھا کر دوں گا۔ ہمارے خدا کا ہم پر کس قدر احسان ہے کہ اس نے ہمیں ضروریات زندگی کو بروئے کار لانے کے طریق سکھائے، کمانے کے طریق سکھائے اور پھر اسی کی عطا کردہ دولت میں سے ایک حصہ اسی کی خاطر خرچ کرنے کا ارشاد فرمایا۔اور فرمایا کہ جتنا خرچ کیا جاتاہے، خدا اسے بڑھاکر عطا کرتا ہے۔ چنانچہ فرمایا:
مَنۡ ذَا الَّذِیۡ یُقۡرِضُ اللّٰہَ قَرۡضًا حَسَنًا فَیُضٰعِفَہٗ لَہٗۤ اَضۡعَافًا کَثِیۡرَۃً ؕ وَ اللّٰہُ یَقۡبِضُ وَ یَبۡصُۜطُ ۪ وَ اِلَیۡہِ تُرۡجَعُوۡنَ۔ (البقرۃ:246)
کون ہے جو اللہ کو قرضہ حسنہ دے تاکہ وہ اس کے لئے اسے کئی گنا بڑھائے۔ اور اللہ (رزق) قبض بھی کر لیتا ہے اور کھول بھی دیتا ہے۔ اور تم اسی کی طرف لوٹائے جاؤ گے۔
ایک اور جگہ فرمایا:
اَلَّذِیۡنَ یُنۡفِقُوۡنَ اَمۡوَالَہُمۡ بِالَّیۡلِ وَ النَّہَارِ سِرًّا وَّ عَلَانِیَۃً فَلَہُمۡ اَجۡرُہُمۡ عِنۡدَ رَبِّہِمۡ ۚ وَ لَا خَوۡفٌ عَلَیۡہِمۡ وَ لَا ہُمۡ یَحۡزَنُوۡنَ (البقرۃ: 275)
وہ لوگ جو اپنے اموال خرچ کرتے ہیں رات کو بھی اور دن کو بھی، چھپ کر بھی اور کھلے عام بھی، تو ان کے لئے ان کا اجر اُن کے ربّ کے پاس ہے اور ان پر کوئی خوف نہیں ہو گا اور نہ وہ غم کریں گے۔
قرآن مجید میں متعدد بار اس کا ذکر ملتا ہے تاکہ انسان خدا تعالیٰ کی راہ میں خرچ کر کے خدا کی مخلوق کا خیال رکھے۔ ایسے لوگوں کو خدا تعالیٰ کبھی ضائع نہیں کرتا۔
قربانی کیا ہے؟یہ اپنے اپنے وقت اور زمانے کے حالات پر منحصر ہے۔ مثلاً آنحضرتﷺ کے زمانے میں مال کی قربانی کے ساتھ ساتھ جہاد کرتے ہوئے، جنگوں میں جان کی قربانی بھی اہمیت رکھتی تھی کیونکہ کفار کی طرف سے مسلمانوں پر مظالم کا ایک سلسلہ جاری تھا اور انہی مظالم کے تحت مسلمانوں کو میدان جنگ میں بھی لا کھینچا گیا تھا۔ مالی قربانی کے اعلیٰ نمونے ہمیں آنحضرتﷺ کے دَور میں صحابہ کرامؓ کی قربانیوں سے ملتے ہیں جو ہمارے لیے مشعل راہ ہیں۔
احادیث میں انفاق فی سبیل اللہ کا ذکر
حضرت ابوہریرہؓ سےروایت ہے کہ ایک شخص آنحضرتﷺ کے پاس آیا اور کہنے لگا یا رسول اللہﷺ ! اللہ کی راہ میں خرچ کیے ہوئے کس مال کا ثواب زیادہ ملے گا ؟ آپﷺ نے فرمایا:
’’جب تو تندرستی کی حالت میں مال کی خواہش ہوتے ہوئے، محتاجی سے ڈر کر، مال داری کی طمع رکھ کر خرچ کرے اور اتنی دیر مت کر کہ جان حلق میں آن پہنچے تو اس وقت تو کہے کہ فلاں کو اتنا دینا اور فلاں کو اتنا دینا، حالانکہ اب تو وہ مال کسی اَور کا ہو چکا۔‘‘
(صحیح بخاری کتاب الزکوٰۃ باب ای الصدقۃ افضل حدیث 1419)
حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ آنحضرتﷺ نے فرمایا:
’’ہر صبح دو فرشتےاترتے ہیں۔ ان میں سے ایک کہتا ہے۔ اے اللہ ! خرچ کرنے والے سخی کو اَور دے اور اس کے نقش قدم پر چلنے والے اَور پیدا کر۔ دوسرا کہتا ہے اے اللہ!روک رکھنے والے کنجوس کو ہلاکت دے اور اس کا مال و متاع برباد کر دے۔ ‘‘
(صحیح بخاری کتاب الزکوٰۃ)
مالی قربانی کی عظمت کا معیار اس کی مقدار سے نہیں بلکہ اس خلوص، جذبہ اور نیت سےہوتا ہے جس سے وہ قربانی پیش کی جاتی ہے۔
حضرت ابوہریرہؓ بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ آنحضرتﷺ نے یہ قصہ بیان فرمایاکہ ایک آدمی بےآب وگیاہ جنگل میں جا رہا تھا، بادل گھرے ہوئے تھے۔ اس نے بادل سے آواز سنی کہ اے بادل فلاں انسان کے باغ کو سیراب کر۔ وہ بادل اس طرف کو ہٹ گیا، پتھریلی سطح مرتفع پر بارش برسی۔ پانی ایک چھوٹے سے نالے میں بہنے لگا۔ وہ شخص بھی اس نالے کے کنارے پر چل پڑا۔ کیا دیکھتا ہے کہ یہ نالہ ایک باغ میں جا داخل ہوا ہے اور باغ کا مالک کدال سے پانی ادھر ادھر مختلف کیاریوں میں لگا رہا ہے۔ اس آدمی نے باغ کے مالک سے پوچھا۔ اے اللہ کے بندے !تمہارا نام کیا ہے؟ اس نے وہی نام بتایا جو اس مسافر نے اس بادل میں سے سنا تھا۔ پھر باغ کے مالک نے اس مسافر سے پوچھا۔ اے اللہ کے بندے ! تم مجھ سے میرا نام کیوں پوچھتے ہو؟ اس نے کہا میں نے اس بادل میں سے جس کی بارش کا تم پانی لگا رہے ہو یہ آواز سنی تھی کہ اے بادل فلاں آدمی کے باغ کو سیراب کر۔ تم نے کون سا ایسا نیک عمل کیا ہے جس کا یہ بدلہ تجھ کو ملا ہے؟ باغ کے مالک نے کہا۔ اگر آپ پوچھتے ہیں تو سنیں۔ میرا طریق کار یہ ہے کہ اس باغ سے جو پیداوار ہو تی ہے اس کا ایک تہائی خدا تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرتا ہوں، ایک تہائی اپنے اور اپنے اہل وعیال کے گزارہ کے لیے رکھتا ہوں اور باقی ایک تہائی دوبارہ ان کھیتوں میں بیج کے طور پر استعمال کرتا ہوں۔
(صحیح مسلم، کتاب الزھد)
صحابہ رسولﷺ کی قربانیوں کے چند ایمان افروز واقعات
اسلام کی تاریخ انفاق فی سبیل اللہ کے نمونوں سے بھری پڑی ہے۔ عشاق اسلام کی قربانیا ں ہمارے لیے مشعل راہ ہیں جو ہمارے ایمان کو تازہ کرنے کا بھی سبب بنتی ہیں۔
مالی قربانی کے میدان میں جو ابواب حضرت محمدﷺ اور آپؐ کے صحابہؓ نے رقم کیے ان کی نظیر مذاہب کی تاریخ میں نہیں ملتی۔
آنحضرتﷺ کی اقتدا میں صحابہ کرامؓ نے جانی اور مالی قربانیاں پیش کیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے نہ صرف قبول فرمایا بلکہ قرآن مجید میں امتیازی القاب سے نوازا کہ
رَضِیَ اللّٰہُ عَنۡہُمۡ وَ رَضُوۡا عَنۡہُ
یعنی اللہ تعالیٰ ان سے راضی ہوا اور وہ اللہ سے راضی تھے۔
کیا شان ہے ان پاک وجودوں کی جن کے بارے میں آنحضرتﷺ نے فرمایا کہ میرے صحابہ کی مثال ستاروں کی مانند ہے تم ان میں سے جس کسی کی پیروی کرو گے ہدایت پاؤ گے۔
قربانی کی داستانوں کی ایک مثال حضرت ابوبکرصدیقؓ اور حضرت عمرفاروقؓ کی مسابقت کا واقعہ ہے۔
غزوۂ تبوک کے موقع پر ایک دفعہ آنحضورﷺ نے صحابہؓ سےفرمایا کہ وہ صدقہ کریں۔ حضرت عمرؓ بیان کرتے ہیں کہ حسن اتفاق سے اس وقت میرے پاس کافی مال تھا۔ انہوں نے اپنے دل میں کہا اگر میں ابو بکرؓ سے کسی دن آگے بڑھ سکتا ہوں تو یہ آج کا دن ہی ہے۔ چنانچہ میں اپنا نصف مال لے کر حضورﷺ کی خدمت میںحاضر ہوا۔ حضورﷺ نےپو چھا گھر والوں کے لیے کیا چھوڑآئے ہو۔ میں نے کہا نصف مال۔ لیکن کچھ دیر بعد ہی حضرت ابوبکرؓ اپنے گھر کا سارا مال لے کر آگئے۔ آنحضرتﷺ نے ان سے دریافت کیا اپنے گھر والوں کے لیے کیا چھوڑ آئے ہو ؟انہوں نے کہا میں ان کے لیے اللہ اور اس کے رسولﷺ کا نام باقی چھوڑآیا ہوں۔
(جامع ترمذی کتاب المناقب ابی بکر و عمر حدیث 3608)
حضرت انسؓ بیان کرتے ہیں کہ ابو طلحہ انصاری مدینہ کے انصار میں سے زیادہ مالدار تھے۔ ان کے کھجوروں کے باغات تھے۔ جن میں سب سے زیادہ عمدہ باغ بیرحاء نامی تھاجو حضرت طلحہؓ کو بہت پسند تھا اور مسجد نبوی کے سامنے بالکل قریب تھا۔ آنحضورﷺ بالعموم اس باغ میں جاتے اور اس کا میٹھا اور عمدہ پانی پیتے۔ جب آیت نازل ہوئی کہ
لَنۡ تَنَالُوا الۡبِرَّ حَتّٰی تُنۡفِقُوۡا مِمَّا تُحِبُّوۡنَ
تو حضرت طلحہؓ آنحضورﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کی یا رسول اللہﷺ آپؐ پر اس مضمون کی آیت نازل ہوئی ہے اور میری سب سے پیاری جائیداد بیرحاء کا باغ ہے میں اسے اللہ تعالیٰ کی راہ میں صدقہ کرتا ہوں اور امید رکھتا ہوں کہ اللہ میری اس نیکی کو قبول کرے گا اور میرے آخرت کے ذخیرہ میں شامل کرے گا۔ حضورﷺ اپنی مرضی کے مطابق اس کو اپنے مصرف میں لائیں۔ آنحضرتﷺ نے فرمایا۔ واہ واہ بہت ہی اعلیٰ اور عمدہ مال ہے بڑا نفع مند ہے اور جو تو نے کہا ہے وہ بھی میں نے سن لیا ہے۔ میری رائے یہ ہے کہ تم یہ باغ اپنے رشتہ داروں اور چچیرے بھائیوں میں تقسیم کردو۔
(حدیقۃالصالحین صفحہ699تا 700، ایڈیشن2015ء)
سیدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات
حضرت اقدس مسیح موعودعلیہ السلام فرماتے ہیں:
’’ہر ایک شخص جو اپنے تئیں بیعت شدوں میں داخل سمجھتا ہے۔ اس کے لئے اب وقت ہے کہ اپنے مال میں سے بھی اس سلسلہ کی خدمت کرے۔ جو شخص ایک پیسہ کی حیثیت رکھتا ہے، وہ سلسلہ کے معارف کے لئے ماہ بہ ماہ ایک پیسہ دیوے اور جو شخص ایک روپیہ ماہوار دے سکتا ہے وہ ایک روپیہ ماہوار ادا کرے … ہر ایک بیعت کنندہ کو بقدر وسعت مدد دینی چاہیے۔ تا خدا تعالیٰ بھی انہیں مدد دے۔ اگربے ناغہ ماہ بہ ماہ ان کی مدد پہنچتی رہے گو تھوڑی مدد ہو۔ تو اس مدد سے بہتر ہے جو مدت تک فراموشی اختیار کر کے پھر کسی وقت اپنے ہی خیال سے کی جاتی ہے۔ ہر ایک شخص کا صدق اس کی خدمت سے پہچانا جاتا ہے۔ عزیزو ! یہ دین کے لئے اور دین کی اغراض کےلئے خدمت کا وقت ہے۔ اس وقت کو غنیمت سمجھو کہ پھر کبھی ہاتھ نہیں آئے گا۔ ‘‘
(کشتی نوح، روحانی خزائن جلد 19صفحہ 83)
پھر آپؑ فرماتے ہیں:
’’بیکار اور نکمّی چیزوں کے خرچ سے کوئی آدمی نیکی کرنے کا دعویٰ نہیں کر سکتا۔ نیکی کا دروازہ تنگ ہے پس یہ امر ذہن نشین کر لو کہ نکمی چیزوں کے خرچ کرنے سے کوئی اس میں داخل نہیںہو سکتا کیونکہ نصّصریح ہے:
لَنْ تَنَالُوا الْبِرَّ حَتّٰى تُنْفِقُوْا مِمَّا تُحِبُّونَ
جب تک عزیز سے عزیز اور پیاری سے پیاری چیزوں کو خرچ نہ کرو گے اس وقت تک محبوب اور عزیز ہونے کا درجہ نہیں مل سکتا۔ اگر تکلیف اٹھانا نہیں چاہتے تو کیونکر کامیاب اور بامراد ہو سکتے ہو؟کیا صحابۂ کرام مفت میں اس درجہ تک پہنچ گئے جو ان کو حاصل ہوا۔ دنیاوی خطابوں کے حاصل کرنے کے لئے کس قدر اخراجات اور تکلیفیں برداشت کرنی پڑتی ہیں تو پھر خیال کرو کہ رضی اللہ عنہم کا خطاب جو دل کو تسلّی اور قلب کو اطمینان اور مولا کریم کی رضامندی کا نشان ہے کیا یونہی آسانی سے مل گیا ؟
بات یہ ہے کہ خدا تعالیٰ کی رضا مندی جو حقیقی خوشی کا موجب ہے حاصل نہیں ہوسکتی جب تک عارضی تکلیفیں برداشت نہ کی جاویں۔ خدا ٹھگا نہیں جاتا۔ مبارک ہیں وہ لوگ! جو رضائے الٰہی کے حصول کےلئے تکلیف کی پرواہ نہ کریں۔ کیونکہ ابدی خوشی دائمی آرام کی روشنی اس عارضی تکلیف کے بعد مومن کو ملتی ہے۔‘‘
(رپوٹ جلسہ سالانہ 1897ءصفحہ79۔ بحوالہ تفسیر حضرت مسیح موعودؑ جلد 3صفحہ178)
حضرت اقدس مسیح موعودؑ فرماتے ہیں:
’’اگر تم کوئی نیکی کا کام بجالاؤ گے اور اس وقت کوئی خدمت کرو گے تو اپنی ایمانداری پر مہر لگادو گےاور تمہاری عمریں زیادہ ہوں گی۔ اور تمہارے مالوں میں برکت دی جائے گی۔ ‘‘
(تبلیغ رسالت جلد دہم صفحہ 56)
مہدی آخرالزمان حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:
’’یہ ظاہر ہے کہ تم دو چیزوں سے محبت نہیں کرسکتے اور تمہارے لئے ممکن نہیں کہ مال سے بھی محبت کرو اور خدا سے بھی، صرف ایک سے ہی محبت کرسکتے ہو۔ پس خوش قسمت وہ شخص ہے کہ خدا سے محبت کرے اور اگر تم میں سے کوئی خدا سے محبت کرکے اس کی راہ میں مال خرچ کرےگا تو میں یقین رکھتا ہوں کہ اس کے مال میں بھی دوسروں کی نسبت زیادہ برکت دی جائے گی۔ کیونکہ مال خود بخودنہیں آتا بلکہ خدا کے ارادے سے آتا ہے۔‘‘
(مجموعہ اشتہارات جلد3صفحہ749)
خلفائے احمدیت کے ارشادات
حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ فرماتے ہیں:
’’پس خوب یاد رکھو کہ انبیاء جو چندے مانگتے ہیں تو اپنے لئے نہیں بلکہ انہی چندہ دینے والوں کو کچھ دلانے کے لئے۔ اللہ کے حضور دلانے کی بہت سی راہیں ہیں ان میں سے یہ بھی ایک راہ ہے۔‘‘
(حقائق الفرقان جلد1صفحہ 420)
حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ فرماتے ہیں:
’’روحانی طور پر اس انفاق کا ایک یہ بھی فائدہ ہے کہ جو شخص خدا تعالیٰ کے لئے اپنا مال خرچ کرتا ہے وہ آہستہ آہستہ دین میں مضبوط ہوتا جاتا ہے۔ اسی وجہ سے میں نے اپنی جماعت کے لوگوں کو بار ہا کہا ہے کہ جو شخص دینی لحاظ سے کمزور ہو وہ اگر اَور نیکیوں میں حصہ نہ لے سکے اس سے چندہ ضرور لیا جائے کیونکہ جب وہ مال خرچ کرے گا تو اس سے اس کو ایمانی طاقت حاصل ہوگی اور اس کی جرأت اور دلیری بڑھے گی اور وہ دوسری نیکیوں میں بھی حصہ لینے لگ جائے گا۔ ‘‘
(تفسیر کبیر جلد 2صفحہ 612)
حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ فرماتےہیں:
’’اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ سنو تمہیں اس خرچ کے لئےاس لئے بلا یا جارہا ہے کہ تم اللہ تعالیٰ کی محبت کو دنیا میں قائم کرو اور انفاق فی سبیل اللہ کرو تمہیں صرف ’’انفاق‘‘کے لئے نہیں بلا یا جاتا تم سے یہ بھی نہیں کہا جارہا کہ اپنے اموال لاؤ اور جماعت کے سامنے پیش کرو بلکہ تمہیں کہا جارہا ہے کہ اپنے اموال اس لئے لاؤ اور پیش کرو تا انسان اللہ کے راستہ پر کامیابی کے ساتھ اور بشاشت کے ساتھ اور فراخی کے ساتھ چلنا شروع کر دے اور یہ راہیں اسے اس کے محبوب ربّ تک پہنچا دیں۔ ‘‘
(خطبات ناصر جلد 2صفحہ 357)
حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ فرماتے ہیں:
’’ہمیشہ خدمت دین کی خاطر دل کھولنے والوں کے ساتھ ویسے ہی لوگ اور پیدا ہوتے رہتے ہیں جو نہ صرف اموال خرچ کرنے میں تردّدنہیں کرتے بلکہ وقت خرچ کرنے میں بھی تردّدنہیں کرتے۔ انہی کی طرح نیک بنتے چلے جاتے ہیں اور یہ سلسلے کی اہم ضرورت ہے جسے ہمیں پورا کرنا چاہئے۔ ‘‘
( خطبہ جمعہ فرمودہ26؍جون1998ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل14؍اگست1998ءصفحہ6)
حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ فرماتے ہیں:
’’خدا کی راہ میں دینے والے کبھی خالی نہیں رہے۔ رازق وہ ہے۔ وہ تو محبت اور پیار کے اظہار کے طور پر آپ کے دلوں کو پاک وصاف کرنے کے لئے آپ سے مانگتا ہے
وَاللّٰہُ الۡغَنِیُّ وَ اَنۡتُمُ الۡفُقَرَآءُ(محمد: 39)
اللہ تعالیٰ قرآن کریم فرماتا ہےکہ اللہ تو غنی ہے اسی نے تمہیں سب کچھ دیا تم پیدا بھی نہیں ہوئے تھے تو اس نے تمہارے لئے سارے انتظام کردیئے تھے۔ ساری کائنات کا مالک ہے اس کے خزائن کبھی ختم نہیں ہوتے۔ اسی کی رحمتوں اور برکتوں کے طفیل انسان رزق پاتا ہے اور رزق سے برکتیں حاصل کرتا ہے۔ ‘‘
(خطبہ جمعہ فرمودہ 10؍ستمبر1982ءمطبوعہ خطبات طاہر جلد1صفحہ 145)
حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:
’’پس یہ مالی قربانیاں کوئی معمولی چیز نہیں ہیں ان کی بڑی اہمیت ہے۔ ایمان مضبوط کرنے اور اللہ تعالیٰ کے فضلوں کا وارث ہونے کے لئے انتہائی ضروری چیز ہے۔ صحابہ کی قربانیوں کو اللہ تعالیٰ نے کس طرح پھل لگائے جس کا روایات میں کثرت سے ذکر آتا ہے۔ شروع میں یہی صحابہ جو تھے بڑے غریب اور کمزور تھے، مزدوریاں کیا کرتے تھے۔ لیکن جب بھی آنحضرتﷺ کی طرف سے کسی بھی قسم کی کوئی مالی تحریک ہوتی تھی تو مزدوریاں کرکے اس میں چندہ ادا کیا کرتے تھے۔ حسب توفیق بڑھ چڑھ کر حصہ لینے کی کوشش کیا کرتے تھےتاکہ اللہ اور اس کے رسول کا قرب پانے والے بنیں، ان برکات سے فیضاب ہونے والے ہوں جو مالی قربانیاں کرنے والوں کے لئے اللہ تعالیٰ نے مقدر کی ہیں، جن کے وعدے کئے ہیں۔ ‘‘
(خطبہ جمعہ فرمودہ6؍جنوری2006ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل27؍جنوری2006ءصفحہ7)
حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ مزید فرماتے ہیں:
’’ یہ زمانہ جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا زمانہ ہے اس میں ایک جہاد مالی قربانیوں کا جہاد بھی ہے کیونکہ اس کے بغیر نہ اسلام کے دفاع میں لٹریچر شائع ہو سکتا ہے، نہ قرآن کریم کے مختلف زبانوں میں ترجمے ہو سکتے ہیں، نہ یہ ترجمے دنیا کے کونے کونے میں پہنچ سکتے ہیں۔ نہ مشن کھولے جا سکتے ہیں، نہ مربیان، مبلغین تیار ہو سکتے ہیں اور نہ مربیان، مبلغین جماعتوں میں بھجوائے جا سکتے ہیں۔ نہ ہی مساجد تعمیر ہو سکتی ہیں۔ نہ ہی سکولوں، کالجوں کے ذریعہ سے غریب لوگوں تک تعلیم کی سہولتیں پہنچائی جا سکتی ہیں۔ نہ ہی ہسپتالوں کے ذریعہ سے دکھی انسانیت کی خدمت کی جا سکتی ہے۔ پس جب تک دنیا کے تمام کناروں تک اور ہر کنارے کے ہر شخص تک اسلام کا پیغام نہیں پہنچ جاتا اور جب تک غریب کی ضرورتوں کو مکمل طور پر پورا نہیں کیا جاتا اس وقت تک یہ مالی جہاد جاری رہنا ہے۔ اور اپنی اپنی گنجائش اور کشائش کے لحاظ سے ہر احمدی کا اس میں شامل ہونا فرض ہے۔ ‘‘
(خطبہ جمعہ فرمودہ 31؍مارچ 2006ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل21؍اپریل 2006ء صفحہ 6)
صحابہ مسیح موعودؑ کے چند ایمان افروزواقعات
حضرت مسیح موعودؑ کے ایک صحابی حضرت سائیں دیوان شاہ صاحبؓ اپنے بار بار قادیان جانےکی وجہ یوں بیان کرتے ہیں:
’’میں چونکہ غریب ہوں۔ چندہ تو نہیں دے سکتا۔ قادیان جاتا ہوں تاکہ مہمان خانہ کی چارپائیاں بُن آؤں…۔‘‘
(اصحاب احمد جلد 13صفحہ 9)
حضرت منشی ظفر احمد صاحبؓ بذریعہ میاں محمد احمد صاحب بیان کرتے ہیں کہ چوہدری رستم علی خاں صاحب مرحوم انسپکٹر ریلوے تھے۔ ایک سو پچاس روپیہ اُن کو ماہوار تنخواہ ملتی تھی۔ بڑے مخلص اور ہماری جماعت کے قابلِ ذکر آدمی تھے۔ وہ بیس روپیہ ماہوار اپنے گھر کے خرچ کے لئے اپنے پاس رکھ کر باقی کل تنخواہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو بھیج دیتے تھے اور ہمیشہ اُن کا یہ قاعدہ تھا۔
(ماخوذ ازرجسٹر روایات صحابہؓ غیر مطبوعہ رجسٹر نمبر13صفحہ نمبر360 روایت حضرت منشی ظفر احمد صاحبؓ )
حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ فرماتے ہیں:
’’خدائے تعالیٰ نے میری بیوی کے دل میں اسی طرح تحریک کی جس طرح حضرت خدیجہؓ کے دل میں آنحضرتﷺ کی مددکی تحریک کی تھی۔ انہوں نے اس امر کو جانتے ہوئےکہ اخبار میں پیسہ لگانا ایسا ہی ہے جیسے کنویں میں پھینک دینا اور خصوصاً اس اخبار میں جس کا جاری کرنے والا محمود ہو جو اس زمانہ میں شاید سب سےزیادہ مذموم تھا۔ اپنے دو زیور مجھے دے دیئے کہ میں ان کو فروخت کر کےاخبار جاری کردوں ان میں سے ایک تو ان کے اپنے کڑے تھے۔ دوسرے ان کے بچپن کے کڑے تھے۔ جو انہوں نے اپنی اور میری لڑکی ناصرہ بیگم سلمہا اللہ تعالیٰ کےاستعمال کے لئے رکھے ہوئے تھے۔ میں زیورات کو لے کر اسی وقت لاہور گیااور پونے پانچ سو کے دو کڑے فروخت ہوئے۔ یہ ابتدائی سرمایہ الفضل کا تھا۔ الفضل اپنے ساتھ میری بے بسی کی حالت اور میری بیوی کی قربانی کو تازہ رکھے گا۔ کیا ہی سچی بات ہےکہ عورت ایک خاموش کارکن ہوتی ہے۔ اس کی مثال اس گلاب کے پھول کی سی ہے۔ جس سے عطر تیار کیا جاتا ہے۔ لوگ اس دکان کو تو یاد رکھتے ہیں۔ جہاں سے عطر خریدتے ہیں لیکن اس گلاب کا کسی کو خیال بھی نہیں آتاجس نے مر کر ان کی خوشی کا سامان پیدا کیا۔ میں حیران ہوتا ہوں کہ اگر اللہ تعالیٰ یہ سامان پیدا نہ کرتا تو میں کیا کرتااور میرے لئے خدمت کا کون سا دروازہ کھولا جاتا۔‘‘
(تاریخ لجنہ اماءاللہ جلد 1صفحہ 16)
پس ہم کتنے خوش قسمت ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں امام الزمانؑ کو ماننے کی توفیق دی۔ انہوں نے ہمیں خدا تعالیٰ سے ملنے کے راستے روشن کر کے دکھائے۔ حضرت مسیح موعودؑ اور آپ کے خلفائے کرام نے اس کی اہمیت ہم پر واضح فرمائی تاکہ اللہ تعالیٰ کے پیغام کو دنیا میں ہر فر د تک پہنچانے کا کام بخوبی ہو سکے۔
پس یہ مالی قربانی قرضہ حسنہ ہے۔ ایک ایسی تجارت ہے جس سے انسان کو کبھی نقصان نہیں اٹھانا پڑتا بلکہ فائدہ ہی ہوتا ہے۔ ہمارا فرض بنتا ہے کہ خدا تعالیٰ کے بتائے ہوئے تمام احکامات پر عمل کر کے قربانی کے اعلیٰ معیار قائم کرنے کی حتی الوسع کوشش کریں تا کہ اس کے نتیجے میں خدا تعالیٰ کے فضلوں کو سمیٹنے والے بنیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔
٭…٭…٭