الفضل ڈائجسٹ
آنحضور ﷺ کا مقامِ عبودیت
ماہنامہ ’’مشکوٰۃ‘‘ قادیان جون، جولائی 2012ء میں مکرم طاہر احمد بیگ صاحب نے رسول اکرم ﷺ کے مقام عبودیت پر روشنی ڈالی ہے۔
اللہ تعالیٰ نے انسان کو احسن تقویم یعنی بہترین صورت میں اپنی فطرت پر پیدا کیا ہے جیسا کہ فرمایا
فِطْرَتَ اللّٰہِ الَّتِیْ فَطَرَالنَّاسَ عَلَیْھَا(الروم :31)۔
اس آیت کی روشنی میں انسان کو ہمیشہ درِمولیٰ سے پیوست رہنا اور عبدحقیقی بننا چاہیے۔ اس پس منظر میں جو کامل انسان ہمیں نظر آتا ہے وہ آنحضور ﷺ تھے جن کے دَور میں ہر طرف حقیقی بندگی کا فقدان تھا اور آپؐ تن تنہا دنیاومافیہا سے بےرغبتی کا اظہار کرتے ہوئے غارحرا میں اپنے ربّ کے حضور سربسجود تھے۔ بعدمیں اللہ تعالیٰ نے آپؐ کو مخاطب ہوکر فرمایا:
فَاِذَا فَرَغْتَ فَاَنْصَبْ۔ وَاِلٰی رَبِّکَ فَارْغَبْ۔
کہ جب تُو دن بھر کی ذمہ داریوں سے فارغ ہو تو رات کو اپنے ربّ کے حضور کھڑا ہوگا۔
حضرت عائشہؓ کی روایت ہے کہ آغازِ اسلام میں نماز دو رکعت ہوتی تھی، ہجرتِ مدینہ کے بعد چار رکعت ہوگئی۔
آنحضورﷺ نے نمازوں کی ادائیگی کا حق ایسا ادا کیا کہ دشمن بھی کہنے پر مجبور ہوئے کہ محمدﷺ تو اپنے ربّ کے عاشق بن گئے ہیں۔ لیکن دوسری طرف وہ بدبخت عبادت کرنے پر آپؐ کو بہت دکھ دیتے۔ ایک بار تو کسی اونٹنی کی غلیظ نجاست سے بھری ہوئی بچہ دانی ایک بدبخت اٹھاکر لایا اور خانہ کعبہ میں سجدہ کی حالت میں آنحضورﷺ کی پشت پر ڈال دی۔ حضرت فاطمہؓ کو اطلاع ملی تو بھاگ کر آئیں اور بوجھ کو آپؐ کی پیٹھ سے ہٹایا۔ ایک اَور موقع پر ایک بدبخت نے آپؐ کے گلے میں چادر ڈال کر مروڑنا شروع کیا۔ جب آپؐ کا دَم گھٹنے لگا تو حضرت ابوبکرؓ نے دھکا دے کر اُسے ہٹایا اور کہا:کیا تم ایک شخص کو اس لیے قتل کرنا چاہتے ہو کہ وہ کہتا ہے کہ اللہ میرا ربّ ہے۔
نماز تو رسول کریم ﷺ کی روح کی غذا تھی۔ ایک بار گھوڑے سے گرجانے کے باعث جسم کا دایاں پہلو شدید زخمی ہوگیا۔ کھڑے ہوکر نماز ادا نہ فرماسکے۔ بیٹھ کر نماز پڑھائی مگر نماز میں ناغہ پسند نہ فرمایا۔ جنگوں کے دوران بھی نماز نہ چھوڑی۔ آخری بیماری میں تپ محرکہ کی نازک حالت میں بھی بار بار نماز کا ذکر فرماتے رہے۔ حضرت عائشہؓ کا بیان ہے کہ نماز و نوافل ادا کرنے کے باعث پاؤں متورم ہوجاتے۔ آپؐ فرماتے کہ میری آنکھوں کی ٹھنڈک نماز ہے۔حضرت ابی بن کعبؓ فرماتے ہیں کہ دوتہائی رات گزرنے پر آپؐ بآوازِ بلند فرماتے کہ لوگو! خدا کو یاد کرو۔ زلزلہ قیامت آنے والی ہے۔ … پھر بعض اوقات باقی ساری رات عبادت میں گزار دیتے۔
حضرت عائشہؓ کے ہاں ایک سرد رات آپؐ کی باری تھی۔ لحاف میں داخل ہوئے تو فرمایا: عائشہ! اگر اجازت دو تو آج کی رات مَیں اپنے ربّ کی عبادت میں گزار دوں؟ بخوشی اجازت دی گئی اور آپؐ ساری رات عبادت میں مشغول رہے۔ حضرت عبداللہ بن مسعودؓ فرماتے ہیں کہ مَیں نے ایک رات رسول اللہ ﷺ کے ساتھ نماز پڑھی۔ آپ اتنی دیر نماز میں کھڑے رہے کہ مَیں نے اس بُری بات کا ارادہ کرلیا کہ رسول اللہﷺ کو چھوڑ کر بیٹھ جاؤں۔
رمضان المبارک میں آپؐ کی عبادت میں بہت اضافہ ہوجاتا۔ خصوصاً رمضان کے آخری عشرے میں کمرِہمّت کس لیتے۔خود بھی راتوں کو زندہ کرتے اور اہل بیت کو بھی جگالیتے۔حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ مَیں نے حضورﷺ سے عرض کیا کہ یا رسول اللہؐ! آپ کے تو تمام اگلے اور پچھلے گناہ معاف فرمادیے گئے ہیں پھر آپ اس قدر عبادت کیوں فرماتے ہیں؟ فرمایا:
یَاعَائِشَۃ! اَفلَا اَکُوْنَ عَبْدًا شَکُوْرًا۔
یعنی جس خدا نے مجھے اس مقام پر فائز فرمایا، کیا مَیں اُس کا شکرگزار بندہ نہ بنوں۔
جنگ بدر میں فتح و نصرت اور غلبے کی اطلاع قبل از وقت آپؐ کو دے دی گئی تھی لیکن آپؐ ساری رات اپنے ربّ کے حضور مصروفِ دعا رہے۔
اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں حقیقی عباد کی صفات بیان کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ جب اُن پر خدا کی آیات پڑھی جاتی ہیں تو وہ روتے ہوئے خدا کے حضورسجدہ ریز ہوجاتے ہیں اور خشوع الی اللہ میں بڑھ جاتے ہیں۔ روایات میں آتا ہے کہ جب آنحضورﷺ کے سامنے کلامِ الٰہی سنایا جاتا تو آپؐ پر رقّت طاری ہوجاتی اور آنکھوں سے آنسو جاری ہوتے۔ آپؐ نے ایک روز حضرت عبداللہ بن مسعودؓ سے فرمایا قرآن سناؤ۔ جب وہ اُس آیت پر پہنچے کہ ساری امّتوں پر تجھے گواہ کے طور پر لایا جائے گا تو آپؐ کی آنکھوں سے آنسو بہہ نکلے اور ہاتھ کے اشارے سے فرمایا: بس کرو۔ اسی طرح حضرت ابوبکرؓ فرماتے ہیں کہ مَیں نے ایک سفر کی رات آنحضورﷺ کو دیکھا کہ آپؐ نے بسم اللہ کی تلاوت شروع کی اور رو پڑے یہاں تک کہ روتے روتے گرگئے۔ بیس مرتبہ بسم اللہ پڑھی اور ہر دفعہ گر پڑے اور فرمایا:وہ شخص بہت ہی نامراد ہے جس پر رحمٰن اور رحیم خدا بھی رحم نہ کرے۔
اسی بندگی کا نتیجہ تھا کہ معبود حقیقی نے فرمایا:
یَاأَیَّتُہَا النَّفْسُ الْمُطْمَئِنَّۃُ۔ ارْجِعِیْ إِلَی رَبِّکِ رَاضِیَۃً مَّرْضِیَّۃً۔ فَادْخُلِیْ فِیْ عِبَادِیْ۔ وَادْخُلِیْ جَنَّتِیْ۔
………٭………٭………٭………
آنحضورﷺ بطور رحمۃللعالمین
آنحضرتﷺ تمام جہانوں کے لیے مجسّم رحمت بناکر بھیجے گئے۔ اگرچہ آپؐ ایسی وحشی قوم میں مبعوث ہوئے جو جانوروں سے بھی بدتر تھی مگر آپؐ نے انہیں ایسا باخدا انسان بنادیا کہ وہ انسانوں کے علاوہ جانوروں سے بھی شفقت اور رحمت سے پیش آنے لگے۔
سہ ماہی ’’الناصر‘‘ اکتوبر تا دسمبر 2012ء میں آنحضورﷺ کی بنی نوع انسان اور جانوروں کے ساتھ رحمت و شفقت کے منتخب واقعات مکرم سلطان احمد مغل صاحب کے قلم سے شامل اشاعت ہیں۔
غلاموں کے لیے مجسّم رحمت
آنحضورﷺ نہ صرف دوسروں کو غلاموں سے حسن سلوک اور اُن کو آزادی عطا کرنے کی تعلیم دیتے بلکہ حضرت خدیجہؓ نے شادی کے بعد جب اپنی دولت اور غلام آپؐ کو پیش کردیے تو آپؐ نے وہ غلام آزاد فرمادیے۔
آپؐ یہ بھی فرمایا کرتے تھے کہ اپنے غلام سے اتنا ہی کام لو جتنا وہ کرسکتا ہے اور جب اُس سے کام لوتو اُس کام میں اُس کی مدد بھی کردو تاکہ وہ ذلّت محسوس نہ کرے۔
ایک صحابی کو آنحضورﷺ نے دیکھا کہ وہ اپنے غلام کو مار رہے ہیں۔ آپؐ نے اونچی آواز میں فرمایا: خدا کو تم پر اس سے زیادہ اختیار ہے۔ صحابی نے چونک کر آپؐ کی طرف دیکھا اور خدا کی خاطر اُسی وقت غلام کو آزاد کردیا۔ آپؐ نے فرمایا کہ اگر تم ایسا نہ کرتے تو دوزخ کی آگ تمہیں پہنچتی۔
کسی اعرابی نے آنحضورﷺ سے پوچھا مَیں اپنے غلام کو روزانہ کتنی بار معاف کروں؟ فرمایا: ستّر مرتبہ۔
غرباء کے لیے مجسّم شفقت
آنحضورﷺ اکثر یہ دعا کیا کرتے کہ اے اللہ! مجھے مسکین ہونے کی حالت میں زندہ رکھ، مسکین ہونے کی حالت میں وفات دے اور مساکین کے زمرے میں ہی قیامت کے دن اُٹھا۔ حضرت عائشہؓ نے جب اس دعا کی وجہ دریافت کی تو آپؐ نے فرمایا کہ مساکین دولت مندوں سے پہلے جنت میں جائیں گے۔ پھر مزید فرمایاکہ عائشہ!کسی مسکین کو اپنے دروازے سے خالی ہاتھ نہ لَوٹاؤ۔ کچھ نہ ہو تو چھوہارے کا ایک ٹکڑا ہی دے دیا کرو۔ غریبوں سے محبت کرو، اُنہیں اپنے سے نزدیک رکھو تو خدا بھی تم کو اپنے نزدیک کرے گا۔
ایک دفعہ کسی امیر شخص کے گزرنے پر آنحضورﷺ نے اپنے قریب بیٹھے ایک صحابی سے پوچھا کہ اس شخص کے بارے میں تمہاری کیا رائے ہے؟ اُس نے عرض کی کہ یہ معزّز اور امیر ہے۔ کسی لڑکی سے نکاح کی خواہش کرے تو اس کی درخواست قبول کی جائے گی اور اگر کسی کی سفارش کرے تو سفارش مانی جائے گی۔آپؐ یہ سن کر خاموش ہوگئے۔ کچھ دیر بعد ایک نادار شخص وہاں سے گزرا تو آپؐ نےاُس کے بارے میں رائے پوچھی۔ عرض کیا گیا کہ غریب ہے اور اس لائق ہے کہ کسی لڑکی سے نکاح کی درخواست کرے تو قبول نہ کی جائے اور اگر کسی کی سفارش کرے تو نہ مانی جائے اور اگر یہ کوئی بات کہنا چاہے تو اس کی طرف توجہ نہ کی جائے۔ یہ سن کر آنحضورﷺ نے فرمایا کہ اس غریب آدمی کی قیمت اس سے بھی زیادہ ہے کہ ساری دنیا سونے سے بھردی جائے۔
غیروں اور دشمنوں کے لیے رحمت
آنحضورﷺ اپنے دشمنوں کے لیے بھی رحمت کا وسیع سمندر تھے۔ جس نے پناہ طلب کی اُس کو پناہ دی، جس نے معافی کی درخواست کی اُس کو معاف فرمادیا۔ جس دشمن پر غلبہ پالیا پھر اُس کی توقّع سے بڑھ کر اُس کے ساتھ حُسنِ سلوک فرمایا اور اُس کا دل فتح کرلیا۔
اُمّت کے لیے مجسّم رحمت
آنحضور ﷺ کو اللہ تعالیٰ نے نبیوں کا سردار اور آپؐ کی اُمّت کو بہترین اُمّت قرار دیا ہے۔ قرآن کریم میں خداتعالیٰ خود گواہی دیتے ہوئے فرماتا ہے کہ اے لوگو! تمہارے پاس تمہی میں سے ایک عظیم الشان رسول آیا ہے۔ تمہارا تکلیف میں پڑنا اُس پر شاق گزرتا ہے۔ وہ تمہارے لیے خیر کا بھوکا ہے اور مومنوں پر بے حد شفقت کرنے والا اور بار بار رحم کرنے والا ہے(التوبۃ:128)۔ اس آیت سے آنحضورﷺ کی مخلوق سے محبت و شفقت ٹپک رہی ہے۔
یہ آپؐ کی راتوں کی گریہ و زاری ہی تھی جو آج تک اُمّت کی مشکلات میں رحمت کا رُوپ دھار کر خوش بختی کے دروازے کھول دیتی ہیں جیسا کہ فرمایا: تیری دعائیں ہیں جو ان کے لیے برکت اور اطمینان کا موجب بنتی ہیں۔ (التوبۃ:103)
حدیث میں آتا ہے کہ آنحضورﷺ ہر وقت اُمّت کے غم میں مبتلا رہتے۔ خداتعالیٰ خود آپؐ کی غم خواری ان الفاظ میں فرماتا ہے: کیا تُو اپنی جان کو ہلاکت میں ڈال دے گا اس غم میں کہ یہ لوگ مومن کیوں نہیں ہوتے۔ (الشعراء:4)
لیکن حقیقت یہ ہے کہ آپؐ اپنے ہر غم کو چھپائے رکھتے۔ ہر ایک سے مسکراکر اور خندہ پیشانی سے ملتے۔ صحابہؓ کی موجودگی میں ہشاش بشاش ہوجاتے۔ حضرت عبداللہ بن حارثؓ فرماتے ہیں کہ مَیں نے آپؐ سے بڑھ کر مسکرانے والا کوئی نہیں دیکھا۔
جانوروں کے لیے رحمت
عرب کے لوگ اپنے جانوروں پر نشان لگانے کے لیے اُن کے جسم گرم لوہے سے داغا کرتے تھے۔ نبی کریمﷺ نے مختلف مواقع پر ایسے اونٹ، گدھے وغیرہ دیکھے جن کے چہرے یا ناک کو داغا گیا تھا تو آپؐ نے اس پر ناراضگی کا اظہار فرمایا اور فرمایا کہ کاش! یہ لوگ ان جانوروں کو آگ کی اذیّت سے بچاتے اور منہ اور گوشت والے حصے پر گرم لوہے سے نہ داغتے۔ کیا انہیں احساس ہے کہ اس اذیّت کا ان سے کیا بدلہ لیا جائے گا؟ پھر آپؐ نے سمجھایا کہ اگر ضرور ہی داغنا پڑے تو اُس کی دُم کے قریب پیٹھ کی ہڈی پر نشان لگاؤ تاکہ جانور کو کم سے کم تکلیف ہو۔
آنحضورﷺ نے شرفِ انسانیت کی خاطر جہاں کسی انسان کے چہرے پر مارنے سے منع فرمایا۔ وہاں جانوروں پر بھی رحم کرتے ہوئے فرمایاکہ جانوروں کے چہرے پر نہ مارا کرو کیونکہ ہر چیز منہ سے تسبیح کرتی ہے۔
ایک دفعہ آنحضورﷺ ایسے لوگوں کے پاس سے گزرے جو اپنی سواریوں پر بیٹھے باتوں میں مصروف تھے۔ آپؐ نے فرمایا کہ سواریوں پر مناسب طریق سے سواری کرو اور پھر اچھے طریق سے ان کو چھوڑ دیا کرو۔ یعنی بازاروں اور راستوں میں باتیں کرنے کے لیے اُن کو کرسیاں بناکر کھڑے نہ ہوجایا کرو۔
………٭………٭………٭………