تحریک جدید کی اہمیت اور اِس کے اغراض ومقاصد (قسط ہشتم)
حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ
میں نے وقف زندگی کی تحریک کی اورمیں نے بڑی وضاحت سے جماعت کے نوجوانوں کو باربار سمجھایا کہ دیکھو! تمہیں بطور حق کے ایک پیسہ بھی نہیں ملے گا، تمہیں اپنے پاس سے کھانا کھانا پڑے گا، تمہیں پیدل سفر کرنا پڑے گا، تمہیں فاقے کرنا پڑیں گے، تمہیں ماریں کھانی پڑیں گی، تمہیں ہر قسم کی تکالیف برداشت کرنی پڑیں گی اور تمہارا فرض ہوگا کہ ان تمام حالات میں ثابت قدم رہو اور استقلال سے خدمتِ دین میں مصروف رہو۔ یہ سبق میں اپنے خطبات میں دُہراتا اور بار بار دُہراتا ہوں پھر میں اس پر اکتفا نہیں کرتا بلکہ نوجوانوں کو خود انٹرویو کے لئے اپنے سامنے بلاتا ہوںاور کہتا ہوں دیکھو! تم نے میرے خطبات تو پڑھ لئے ہوں گے اب پھر مجھ سے سن لو تمہیں کوئی پیسہ نہیں ملے گا کیا تمہیں منظور ہے؟ وہ کہتے ہیں منظور ہے۔ پھرکہتا ہوں تمہیں پیدل سفر کرنا پڑے گا کیا اس کے لئے تیار ہو؟ وہ کہتے ہیں پوری طرح تیار ہیں۔پھرکہتا ہوں تمہیں جنگلوں میں جانا پڑے گا کیا اس کے لئے تیار ہو؟ وہ کہتے ہیں ہم جنگلوں میں جانے کے لئے بھی تیار ہیں۔پھر کہتا ہوں تمہیں فاقے بھی آئیں گے کیا تم فاقہ کے لئے تیار ہو؟ وہ کہتے ہیں ہم فاقہ کے لئے بھی تیار ہیں۔ میں کہتا ہوں تمہیں لوگوں سے ماریں کھانی پڑیں گی کیا تم اس کے لئے بھی تیار ہو؟ وہ کہتے ہیں ہم ماریں کھانے کے لئے بھی تیار ہیں۔ غرض یہ سبق انہیں خوب یاد کرایا جاتا اور بار بار ان کے سامنے دُہرایا جاتا ہے۔ اس کے بعد جب ہم سمجھ لیتے ہیں کہ یہ سبق ان کو خوب یاد ہو چکا ہوگا تو ہم کہتے ہیں جاؤ سندھ میں جو سلسلہ کی زمینیں ہیں اُن پر کام کرو،منشی کا کام تمہارے سپرد کیا جاتا ہے جاتے ہیں تو تیسرے دن مینیجر کی طرف سے تار آجاتا ہے کہ منشی صاحب بھاگ گئے ہیں کیونکہ وہ کہتے تھے میرا دل یہاں نہیں لگتا۔کوئی ایک مثال ہو تو اُسے برداشت کیا جائے، دومثالیں ہوں تو اُنہیں برداشت کیا جائے مگر ایسی کئی مثالیں ہیں کہ بعض نوجوانوں نے ہر قسم کی تکالیف برداشت کرنے کا عہد کرتے ہوئے اپنی زندگیاں وقف کیں مگر جب اُن کو سلسلہ کے کسی کام پر مقرر کیا گیا تو بھاگ گئے محض اس لئے کہ تکالیف ان سے برداشت نہیں ہو سکتیں۔ اس قسم کے مواد کو لے کر کوئی جرنیل کیا لڑسکتا ہے۔آدمی کو کم از کم یہ تو تسلی ہونی چاہئے کہ مَیں بھی جان دینے کے لئے تیار ہوں اور میرا ساتھی بھی خدا تعالیٰ کے دین کے لئے اپنی جان دینے کے لئے تیار بیٹھا ہے مگر یہاں یہ حالت ہے کہ بعض نوجوان اپنی زندگی وقف کرتے ہیں اور پھر ذرا سی محنت اور ذرا سی تکلیف پر کام چھوڑ کر بھا گ جاتے ہیں اور جب ان میں سے کسی کو سرزنش کی جاتی ہے تو جماعتیں اُس کو اپنے گلے سے لپٹا لیتی ہیں اور لکھتی ہیںکہ آپ کو اس کے متعلق کوئی غلط فہمی ہوئی ہے ورنہ یہ آدمی بڑا مخلص ہے اور سلسلہ کے لئے بڑی قربانی کرنے والا ہے۔ حالانکہ چاہئے یہ تھا کہ جب ایسا شخص واپس آتا تو بیوی اپنے دروازے بند کر لیتی اور کہتی کہ میں تمہاری شکل دیکھنے کے لئے تیار نہیں، بچے اُس سے منہ پھیر لیتے اور کہتے کہ تم دین سے غداری کا ارتکاب کر کے آئے ہو ہم تم سے ملنے کے لئے تیار نہیں،دوست اُس سے منہ موڑ لیتے کہ ہم تم سے دوستی رکھنے کے لئے تیار نہیں تم نے تو موت تک اپنی زندگی سلسلہ کی خدمت کے لئے وقف کی تھی اب تم خود واپس نہیں آسکتے تمہاری روح ہی آسکتی ہے مگر روح بھی یہاں نہیں آئے گی اللہ تعالیٰ کے حضور جائے گی اس لئے تمہارا ہمارے ساتھ کوئی تعلق نہیں مگر بعض جماعتیں ایسے لوگوں کو بڑے پیار سے اپنے گلے لگاتی اور سینہ سے چمٹانے لگ جاتی ہیں۔
ہم جب بچے تھے تو حضرت اماں جان ہمیں کہانی سنایا کرتی تھیں کہ ایک جولاہا کہیں کھڑا تھا کہ بگولا اُٹھا اور وہ اس کی لپیٹ میں اُڑتے اُڑتے کسی شہر کے پاس آگرا۔اس شہر میں ایک نیم پاگل بادشاہ رہا کرتا تھا اور اُس کی ایک خوبصورت لڑکی تھی کئی شہزادوں نے رشتہ کی درخواست کی مگر اس نے سب درخواستوں کو ردّ کر دیا اور کہا کہ میں اپنی لڑکی کی شادی کسی فرشتہ سے کروں گا جو آسمان سے اُترے گا کسی اَور کو رشتہ دینے کے لئے تیار نہیں۔ جوں جوں دن گزرتے گئے لڑکی کی عمر بھی بڑی ہوتی گئی ایک دن وہ جولاہا بگولے کی لپیٹ میں جو اُس شہر کے قریب آکر ننگ دھڑنگ گرا تو لوگ دوڑتے ہوئے بادشاہ کے پاس گئے اور کہنے لگے کہ حضور! آسمان سے فرشتہ آگیا ہے اب اپنی لڑکی کی شادی کر دیں۔ بادشاہ نے اپنی لڑکی کی جولاہے سے شادی کر دی وہ پہاڑی آدمی تھا نرم نرم گدیلوں اور اعلیٰ اعلیٰ کھانوں کو وہ کیا جانتا تھا اُسے تو سب سے بہتر یہی نظر آتا تھا کہ زمین پر ننگے بدن سوئے اور روکھی سوکھی روٹی کھا لے مگر جب بادشاہ کا داماد بنا تو اُس کی خاطر تواضع بڑھنے لگی نوکر کبھی اس کے لئے پلاؤ پکائیں،کبھی زردہ پکائیں، کبھی مرغا تیار کریں، پھر جب بستر پر لیٹے تو نیچے بھی گدے ہوتے اور اوپر بھی اور کئی خادم اسے دبانے لگ جاتے۔کچھ عرصہ کے بعد وہ اپنی ماں سے ملنے کے لئے آیا ماں نے اُسے دیکھا تو گلے سے چمٹا لیا اور رونے لگی کہ معلوم نہیں اتنے عرصہ میں اس پر کیا کیا مصیبتیں آئی ہوں گی۔ جولا ہا بھی چیخیں مار مار کر رونے لگ گیا اور کہنے لگا اماں! میں تو بڑی مصیبت میں مبتلا رہا ایک ایک دن گزارنا میرے لئے مشکل تھا کوئی ایک تکلیف ہو تو بیان کروں میرے تو پور پورمیں دکھ بھرا ہوا ہے۔اماں! کیا بتاؤں مجھے صبح شام لوگ کیڑے پکا کر کھلاتے (چاول جو اسے کھانے کے لئے دیئے جاتے تھے اُن کا نام اُس نے کیڑے رکھ دیا) پھر وہ نیچے بھی روئی رکھ دیتے اور اوپر بھی اور مجھے مارنے لگ جاتے یعنی دبانے کو اُس نے مارنا قرار دیا اس طرح ایک ایک کر کے اُس نے سارے انعامات گنانے شروع کئے۔ ماں نے یہ سنا تو چیخیں مار کر رونے لگ گئی اور کہنے لگی ’’ہے پُت تجھ پہ یہ یہ دُکھ‘‘ یعنی اتنی چھوٹی سی جان اور یہ یہ مصیبتیں۔ یہی حال بعض واقفین کا ہے کہ جماعتیں ان کو گلے لپٹاتی ہیں سینہ سے لگاتی ہیں اور کہتی ہیں ’’ہے پُت تجھ پہ یہ یہ دُکھ‘‘۔ بہرحال ہمیں واقف چاہئیں مگر بُزدل اور پاگل واقف نہیں بلکہ وہ ہر قسم کے شدائد کو خوشی کے ساتھ برداشت کرنے کے لئے تیار ہوں۔ میں جہاں واقفین میں سے اس حصہ کی مذمت کرتا ہوں وہاں میں دوسرے حصہ کی تعریف کئے بغیر بھی نہیں رہ سکتا۔ خدا تعالیٰ کے فضل سے نوجوانوں میں ایسے واقفین زندگی بھی ہیں جنہیں ہر قسم کے خطرات میں ہم نے ڈالا مگر اُنہوں نے ذرا بھی پرواہ نہیں کی، وہ پوری مضبوطی کے ساتھ ثابت قدم رہے اور انہوں نے دین کی خدمت کے لئے کسی قسم کی قربانی پیش کرنے سے دریغ نہیں کیا۔ چونکہ ہمیں اسلام کی تبلیغ وسیع کرنے کے لئے ابھی مبلّغین کے ایک لمبے سلسلہ کی ضرورت ہے اس لئے میں جماعت کے نوجوانوں کو پھر وقف زندگی کی تحریک کرتا ہوں اور ماں باپ کو اس کی اہمیت کی طرف توجہ لاتے ہوئے کہتا ہوں کہ جب تک ہر باپ یہ اقرار نہیں کرتا کہ میں اپنی اولاد اسلام کے لئے قربان کرنے کو تیار ہوں،جب تک ہر ماںیہ اقرار نہیں کرتی کہ وہ دین کے لئے اپنی اولاد کو قربان کرنا اپنے لئے سعادت کا موجب سمجھے گی اُس وقت تک ہم دین کی ترقی کے لئے کوئی مضبوط اور پائیدار بنیاد قائم نہیں کر سکتے۔ہم میں سے ہر مرد اور ہر عورت کا یہ ایمان ہونا چاہئے کہ اگر دین کے لئے اس کی اولاد قربان ہو جائے گی تو اُس کی موت انتہائی سُکھ کی موت ہو گی اور اگر سلسلہ کے لئے اس کی اولاد ہرقسم کی قربانی سے کام نہیں لے گی تو اُس کی موت کی گھڑیاں انتہائی دُکھ اور تکلیف میں گزریں گی۔ یہ ایمان ہے جو ہمارے اندر پیدا ہونا چاہئے۔ جب تک ہم میں سے ہر مرد اور عورت میں فدائیت اور جان نثاری کا یہ جذبہ پیدا نہ ہو اُس وقت تک ہم ایک مضبوط اور ترقی کرنے والی قوم کی بنیاد نہیں رکھ سکتے۔
ایک اعلان میں نے یہ کیا تھا کہ جماعت کے نوجوان اپنے آپ کو اس رنگ میں سلسلہ کی خدمت کے لئے وقف کریں کہ مرکزکی طرف سے انہیں جہاں بھی تجارت کرنے کے لئے کہا جائے گا وہاں وہ جائیں گے اور اپنے ذاتی کاروبار کے ساتھ اسلام اور احمدیت کی تبلیغ بھی کرتے رہیں گے۔ تجارت ایک ایسی چیز ہے جس میں انسان بغیر کسی خاص سرمایہ کے بہت تھوڑی محنت کے ساتھ کامیاب ہو سکتا ہے۔ جو لوگ اس طرف توجہ کریں گے وہ نہ صرف اپنے اور اپنے رشتہ داروں کے لئے روزی کا سامان پیدا کریں گے بلکہ دین کی خدمت کے لئے چندہ بھی دے سکیں گے اور سلسلہ کی اشاعت کوبھی وسیع کرنے کا موجب بنیں گے۔ ضرورت ہے کہ ہماری جماعت کے نوجوان اس تحریک کی اہمیت کو سمجھیں اور اپنے آپ کو تجارت کے لئے وقف کریں اگر انہیں کام سیکھنے کی ضرورت ہوئی تو ہم انہیں کام سکھائیں گے،انہیں تجارت کے لئے موزوں مقام بتائیں گے، انہیں کارخانوں سے مال دِلوا دیں گے اور اگر کوئی مشکل پیش آئے گی تو اُس کو دور کرنے کی کوشش کریں گے۔ افریقہ میں ایسا ہی ہوا کہ بعض لوگ وہاں تجارت کے لئے گئے تو ہم نے اپنی ضمانت پر انہیں کارخانوں سے مال دلوادیا نتیجہ یہ ہوا کہ تھوڑے عرصہ میں ہی وہ اپنے پاؤں پر کھڑے ہونے کے قابل ہوگئے۔ اگر ہماری جماعت کے نوجوان اس طرف توجہ کریں تو ہم قلیل ترین عرصہ میں ہی سارے مُلک میں اپنے تاجر اور صنّاع پھیلا سکتے ہیں اور یہ یقینی بات ہے کہ جس جس علاقہ میں ہمارا تاجر اور صنّاع ہو گا ان علاقوں میںصرف ان کی تجارت اور صنعت ہی کامیاب نہیں ہوگی بلکہ جماعت بھی پھیلے گی۔
ایک اَور امر جس کی طرف میںاس موقع پر جماعت کو توجہ دلانا چاہتا ہوں وہ سائنس ریسرچ انسٹیٹیوٹ ہے۔ اس انسٹیٹیوٹ کے ماتحت ہم مُلک کے مختلف حصوں میں بعض کارخانے کھولنے کا ارادہ رکھتے ہیں جس کے لئے ہمیں روپیہ کی ضرورت ہو گی۔ جماعت کو چاہئے کہ وہ تیار رہے اورجب مرکز کی طرف سے تحریک ہو تو اس میں پورے جوش کے ساتھ حصہ لے۔ خصوصیت کے ساتھ میں کارخانہ داروں اور تاجروں کو توجہ دلاتا ہوں کہ وہ جلد سے جلد اپنے آپ کو منظم کرنے کی کوشش کریں اور سائنس ریسرچ انسٹیٹیوٹ کے ماتحت جو کارخانے کھولے جائیں گے ان میں حصہ لیں تاکہ ہماری جماعت صنعت و حرفت کے میدان میں بھی ترقی کر سکے اور مزدوروں اور ادنیٰ طبقہ سے تعلق رکھنے والے لوگوں کی ترقی کا سامان پیدا ہو۔
(جاری ہے)
٭…٭…٭