گیلی لیو …عدالت کے کٹہرے میں
سترہویں صدی میں جب یورپ میں عیسائیت کا غلبہ زوروں پر تھادوسائنسدانوں کو جو مقدس بائبل کے اس نظریے سے متفق نہ تھے کہ زمین کا ئنات کا مرکز ہے۔پاپائے روم کے حکم پر قید و بند کی صعوبتیں برداشت کر نا پڑیں ۔
ذرا چشم تصوّر کے سامنے روم شہر کا نقشہ لائیں جب 17؍فروری1600ءکو ایک سائنسدان (سابقہ کیتھولک پادری) کو پبلک سکوائر Campo de‘Fioriمیں بر ہنہ جسم خچر پر بٹھا کر زبردستی لا یا گیا اور زمین میں گڑے لکڑی کے پول سے مضبوطی سے رسیوں میں جکڑ کر اس کو نذر آتش کر دیا گیا۔ اس کا قصور؟ وہ یہ دعویٰ کرتا تھا کہ ہمارے نظام شمسی کی طرح اَور بھی نظام شمسی ہیں۔ کائنات لا محدود ہے اس میں ہمارے سورج کی طرح اور بھی سورج موجود ہیں۔ نیز یہ کہ زمین سور ج کے گرد گھومتی ہے۔ وہ پولش سا ئنسدان نکولس کو پر نیکس (وفات 1543ء)کے نظام کائنات پر یقین رکھتا تھا۔ اس سائنسدان کا نام جیورڈانو برونو Giordano Bruno تھا۔ اس پر پوپ کی مذہبی عدالت Inquisitionمیں مقدمہ چلایا گیا اور کارڈینل بیلارمین Bellarmineنے فیصلہ دیا کہ اس کو زندہ نذر آتش کر دیا جائے۔ آج چار سو سال بعد اسی پبلک سکوائر میں برونو کا دیو قامت مجسمہ موجود ہے جہاں ہر سال17؍فروری کو شہر کا میئر اس کے پاؤں پر پھولوں کی چادر چڑھاتا ہے۔ برونوکو اس کے سا ئنسی خیالات کی وجہ سے موت کا پیالہ پینا پڑا کیونکہ وہ چرچ سے میل نہ کھاتے تھے۔
برونو کے سائنسی نظریات پوپ کلے منٹ ہشتم (Pope Clement VIII) کو سخت ناگوار گزرتے تھے کیونکہ ان سے بائبل کے عقائد پر کاری ضرب لگتی تھی۔ حالانکہ برونو ایک عرصہ تک بطور پادری کے عیسائیت کا پرچار کرتا رہا تھا۔ مگر جب حقیقت اس پر آشکار ہوگئی تو اس نے اس کا برملا اظہار کر دیا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ اس کو جیل میں پا بند سلاسل کردیا گیا جہاں وہ سات سال تک سختیاں جھیلتا رہا۔ آخر کار اس پر تین ججوں کی مذہبی عدالت میں مقدمہ چلایا گیا۔ پوپ نے اس کو ملحد وزندیق قرار دے دیا اور عدالت نے فیصلہ دیا کہ یہ شخص سزا کا مستحق ہے مگر اس کے خون کا ایک قطرہ بھی نہ بہنا چاہیے۔ جس کا مطلب تھا ملحد کو آگ میں جلا دو۔ جب اس کے ارد گرد لکڑیوں کو آگ لگائی جانے لگی تو وہاں موجود پادریوں کو وہ یوں مخاطب ہوا: تم لوگ اس فیصلے سے زیادہ خوف زدہ ہو جتنا کہ وہ شخص جس کے خلاف یہ فیصلہ سنا یا گیا ہے۔
برونو کے الفاظ حقیقت کے آئینہ دار تھے۔ فی الواقعہ روم کی اسٹیبلشمنٹ کو پرنیکس کے نظریات سے سخت خوف زدہ تھی۔ برونو کو آگ میں جلا کر انہوں نے نظریات کو ختم کرنے کی کوشش کی تھی مگر صد حیف پاپائے روم اور اس کے پیروکار یہ نہیں جانتے تھے کہ سائنس کی دنیا میں نئے نظریات کے سیلاب کو وہ اپنے فرسودہ فتاویٰ کے ذریعہ روک نہیں سکیں گے۔ انسان کو آگ میں خس و خاشاک کیا جا سکتا ہے مگر آئیڈیاز(ideas) کو نہیں۔ برونو کو تو انہوں نے سپرد آگ کر دیا مگر اب جو اس کی جگہ لینے والا تھا وہ اس سے بھی زیادہ بہادر، بے خوف اور مرد قلند ر تھا۔ اس کا نام گیلی لیو تھاجس کو ماڈرن سائنس کا جدامجد تسلیم کیا جاتا ہے۔
تجرباتی سا ئنسدان
گیلی لیو کی ولادت فروری 1564ءکو اٹلی کے شہر پیسا (Pisa) میں ہوئی تھی جو’’ لیننگ ٹاور ‘‘کی وجہ سے دنیا بھر میں مشہور ہے۔ اس کے والد نے اس کو شہر کی یو نیورسٹی میں میڈیکل کی تعلیم کے لیے داخل کرایا مگر اس کو اس میں دلچسپی نہیں تھی اس لیے وہ سارا وقت ریاضی کے لیکچر ہال کے باہر گزار دیتا تھا۔ ایک روز اس نے جیو میٹری پر لیکچر سنا جس کے بعد اس نے سائنس میں اپنا مستقبل بنانے کا عزم کر لیا۔ ابھی وہ23سال کا تھا کہ اس کا تقرر اسی یونیورسٹی میں ریاضی کے پروفیسر کے طور پر ہو گیا۔ اس کے والد بذات خود ایک قابل ریاضی دان تھے جس کے سات بچے تھے۔ گیلی لیو سب سے بڑا بیٹا تھا۔
گیلی لیو کی پرورش مذہبی ماحول میں ہوئی۔ ایک روز وہ شہر کے کیتھیڈرل میں صبح کے وقت گیا تو اس نے مشاہدہ کیا کہ کھڑکی سے آتی ہوا کے جھونکوں سے چھت سے لٹکا لیمپ ایک طرف سے دوسری طرف جھول رہا تھا۔ جوں ہی ہوا کا زور کم ہواتو لیمپ کی گردش بھی کم ہو گئی۔ مشاہدہ کی بات یہ تھی کہ لیمپ کی سوِنگ (swing)چاہے لمبی تھی یا مختصر دونوں میں ایک جیسا وقت لگتا تھا اور یہ دیکھنے کے لیے کہ کتنا وقت لگتا تھا اس نے اپنی نبض کو گھڑی کے طور پر استعمال کیا۔ اس معمولی مشاہدے سے اس نے لاء آف پنڈولم دریافت کر لیا۔ بعد میں اس نے اپنی لیبارٹری میں پتہ لگایا کہ اس پنڈولم کے کونے پر لگے وزن کا اس کی سوِنگ (swing) پر کوئی اثر نہیں پڑتا تھا۔ بعد میں اسی اصول پر ایسی گھڑیاں بنا ئی گئیں جن میں پینڈولم لگا ہوتا تھا۔
چاند سا خوبصورت؟
گیلی لیونے اپنی خود کی بنائی ٹیلی سکوپ سے چاند کے شبانہ روز اور حسابی مطالعہ کے بعد یہ نتیجہ اخذ کیا کہ یہ ہموار نہیں ہے بلکہ اس کی سطح پر لکیریں اور بڑے بڑے کھڈے(craters) ہیں، اس میں وادیاں بھی ہیں جن میں اس نے سایہ دیکھا۔ وہ پہاڑ جن کا رخ سورج کی طرف تھا وہ روشن تھے۔ اس لیے ان حقائق سے یہ نتیجہ اخذ ہوتا کہ یہ جمیل و حسین چاند ہماری زمین کی طرح سورج کی روشنی سے چمکتا تھا بذات خود اس کی کوئی روشنی نہیں تھی۔ یہ تمام مشاہدات اس نے1610ءمیں شائع ہونے والی کتاب Starry Messenger میں درج کر دیے۔
پھر ایک رات وہ مشتری (Jupiter) کے مشاہدہ میں مصروف تھا تو اس نے اس کے ارد گرد تین چاند دیکھے۔ بعد میں جو چار چاند نکلے اور آج کل کی تازہ تحقیق کے مطابق اس کے سولہ سیٹیلائٹ ہیں۔ عجیب بات یہ کہ یہ چاند مشتری کے ارد گرد گھوم رہے تھے۔ گیلی لیو نے جتنی تہلکہ خیز دریافتیں کیں ان میں سے مشتری کے چار چاند پر اس کو بہت ناز تھا۔ کیونکہ اس سے کو پر نیکس کے کائنات کے سسٹم کا واضح اور ٹھوس ثبوت ملتا تھا۔ اسی سال انسانی تاریخ میں اس نے پہلی باردریافت کیا کہ نظام شمسی کے چھٹے سیارے زحل کے ارد گرد چھلے (Rings of Saturn) ہیں۔ اس سائنسی دریافت کے بعد اس نے ایک اور دریافت کی کہ زہر ہ (Venus) جو کہ سورج سے سب سے نزدیک ہے اس کی ہمارے چاند کی طرح مختلف منازل (Phases) تھیں۔ جس طرح ہم ہلال دیکھتے، پھر نصف چاند اور پھر چودھویں کا چاند بالکل اسی طرح زہرہ سیارے کی مختلف منازل تھیں۔ اس سے یہ بات ثابت ہوتی کہ زہرہ سورج کے گرد گھومتا تھا۔ یہ کوپرنیکس کے پیش کردہ نظام ہیئت کا ایک اور ثبوت تھا۔ نیز یہ بطلیموس کے جیو سینٹرک ماڈل کی قطعی تردید تھی جس کی حمایت کیتھولک چرچ کرتا تھا۔ گیلی لیو کے نظریات ارسطو اور بطلیموس کے بہت سارے نظریات کی قطعی تردید کرتے تھے جو کیتھولک چرچ کے نظریات و عقائدپر کاری ضرب لگاتے تھے۔
یاد رہے کہ گیلی لیو سے قبل اٹلی کے سا ئنسدان جیور ڈانو برونو کوپھانسی پر لٹکا یا گیا تھا کیونکہ اس نے دعویٰ کیا تھا کہ کائنات لا محدود ہے اور اس میں اور بھی دنیا ئیں پائی جاتی ہیں۔ اس کے مقدمے میں بیلارمینBellarmino Father نے حصہ لیا تھا جیسا کہ اب وہ گیلی لیو کے مقدمے میں ملوث تھا۔
گیلی لیو کو اب تک بہت سارے اعزازات سے نوازا گیا تھا مگر حیرت کی با ت یہ کہ اس کی زندگی پر400کتابیں شائع ہو چکی تھیں جن میں چا لیس فی صد اس کی تعریف و توصیف میں تھیں۔ ان میں 170کتابیں اٹلی سے با ہر دیگر ممالک میں شائع ہوئی تھیں۔ 1611ءمیں ٹیلی سکوپ کا لفظ ایجاد ہوا، اس سے پہلے اس کو سپائی گلاس کہا جاتا تھا۔ ٹیلی سکوپ پر پہلی کتاب1618ءمیں شائع ہوئی جس کا مصنف میلان کا شہری سرٹوری (Sirtori) تھا۔
زمین کا ئنات کا مرکزنہیں
جب اس نے یہ سارے شواہد اکٹھے کرلیے تو اس نے یونیورسٹی کے پر وفیسروں سے کہا کہ مشتری سیارے کے چاند اور زہرہ کی منازل اس بات کی بین دلیل ہیں کہ زمین اس کائنات کا مرکز نہیں بلکہ سورج ہے۔ اس کو غصہ بہت جلد آجاتا تھا مگر ٹھنڈا بھی جلد ہوجاتا تھا۔ اس کی زبان تیز و ترش (blunt and sarcastic) تھی۔ وہ بے باک ہو نے کے ساتھ صاف گو اور تمسخر آمیز بھی تھا۔ اپنی علمیت پر اس کو بہت ناز تھا۔ اسی لیے پیڈوا یو نیورسٹی میں اس کے زیادہ دوست نہیں تھے جہاں وہ اٹھارہ سال تک جیو میٹر ی اور اسٹرانومی کے لیکچر دیتا رہا تھا۔ اس کو ہوش مند اور ہونہار طالب علم پسند تھے مگر کند ذہن طالب علموں سے وہ سخت ناراض ہوتا تھا۔ صرف ذہین اور قابل طالب علموں کو وہ پرائیویٹ ٹیوشن دیتا تھا۔ یاد رہے کہ کوپرنیکس نے بھی اسی یو نیورسٹی میں تعلیم حاصل کی تھی۔
کچھ عرصہ بعد اس نے سورج کے مسلسل مشاہدے کے بعد اس کی سطح پر دھبے (Sun-spots) دریافت کیے جو اس بات کی علامت تھی کہ سورج اپنے محور کے گرد گھومتا ہے بالکل اسی طرح جس طرح زمین اپنے محور پر گھومتی ہے۔ جب پادریوں اور شہر کے مذہبی علما ءکو اس دعوے کا علم ہوا تووہ بہت برافروختہ ہوئے کہ پہلے اس نے زمین کے کا ئنات کا مرکزہونے سے انکار کیا اوراب سورج پر دھبے دریافت کر بیٹھا ہے۔ یہ دریافت گیلی لیو کے لیے ساری عمرمتنازعہ بات رہی کیونکہ ایک پادری کرسٹو فر شائنر (Scheiner) نے دعویٰ کر دیا کہ گیلی لیو سے پہلے سن سپاٹس اس نے دریافت کیے ہیں۔
کوپرنیکس نے سائنسی شواہد سے ثابت کیا تھا کہ سورج کائنات کا مر کز ہے۔ اس کی تائید گیلی لیو نے کی تھی۔ اس کے قریب تین سو سال بعد سائنسی نظریات بدلنے لگے اور ہا رلو شوپیلی (Harlow Shapely)نے ثابت کر دیا کہ ملکی وے گیلکسی میں نظام شمسی مرکز میں نہیں ہے بلکہ 2/3ہٹ کر گیلکسی کے دور حصہ میں ہے۔ اس کے بعد ایڈون ہبل (Edwin Hubble) نے دریافت کیا کہ کائنات میں اور گیلکسیز بھی موجودہیں۔ آج ہمیں یہ معلوم ہو چکا ہے کہ شاید کائنات کے نظر آنےوالے حصہ میں دو ٹر یلین گیلکسیز ہیں۔ بلکہ اب تو سا ئنسدان کہہ رہے ہیں کہ ہم ایک یو نیورس نہیں بلکہ ملٹی ورس میں رہ رہے ہیں۔
گیلی لیو عدالت میں
25؍مئی1616ءکو گیلی لیو نے گھر کے دروازے پر دستک سنی، دروازہ کھولا تو کوتوال نے ہاتھ میں تھامے عدالتی پروانے کو اونچی آواز میں پڑھنا شروع کیا۔ ’’تم کو حکم دیا جاتا ہے کہ اپنے نظریات کے پرچار سے فوراََ باز آجاؤ، جو ارسطو کے نظریات کے خلاف ہیں اگر تم نے حکم عدولی کی تو پھر … ‘‘اس کو سمجھ آگئی کہ اس بار تو اس کو دھمکی سے خوف زدہ کیا جارہا ہے مگر اگلی بار ایسا نہ ہوگا۔
گیلی لیو کے پوپ کے ساتھ ایک عرصے سے دوستانہ تعلقات تھے۔ مثلاََ 1615ءمیں وہ روم گیا تو اس نے چرچ کے حکام کو کو پرنیکس کے نظام شمسی میں دلائل دے کر قائل کرنے کی کوشش کی مگر پوپ پال پنجم (Pope Paul V) اس کی اس حرکت سے خفا ہو گیا۔ پوپ نے زمین کی گردش پر تحقیق کےلیے کمیشن مقرر کر دیا۔ چنانچہ1616ءمیں کیتھولک چرچ کی مذہبی عدالت انکو ئے زیشن (Inquisition) نے اعلان کر دیا کہ ایسی تمام کتابیں جن میں سورج کے کائنات کا مرکز ہونے کے دلائل تھے ان کو ضبط کر لیا جائے۔ اس کی کتاب ڈائیلاگ (Dialogo di Galileo) کو ممنوعہ کتب کی فہرست یعنی ’’ انڈیکس آف فار بڈن بکس‘‘ میں شامل کر دیا گیا۔
گیلی لیو کو پرنیکس کے سائنسی نظریات کا زبردست حامی تھا یعنی اس بات کا کہ زمین کا ئنات کا مر کز نہیں۔ یہ بات صریحاََ بائبل کی تعلیم [the Sun Stands Still (Joshua 10:12)]کے خلاف اور چرچ کے عقائد پر کاری ضرب تھی۔
گیلی لیو کو حکم دیا گیا کہ heliocentric تھیوری کے حق میں تھیوریزکی تعلیم دینے، دلائل دینے اور ان کاتقریر یا تحریر میں دفاع کرنے سے باز رہے۔ اس سال گیلی لیو کو دھمکی دی گئی تو اس نے مکمل خاموشی اختیار کر لی۔ اگلے تین سال تک اس نے کوئی کتاب شائع نہ کی۔ 1623ءمیں اس نے کتاب Assayerشائع کی اور اس کے اگلے سال1624ء میں وہ روم گیا تا نئے منتخب پوپ سے درخواست کرے کہ اس کے خلاف پہلا تادیبی حکم منسوخ کر دیا جائے۔ پوپ نے ایسا تو نہ کیا البتہ پرانی دوستی اور واقفیت کی بنا پر اس کو کتاب لکھنے کی اجازت دے دی۔ اس شرط پر کہ اس میں زمین کی گردش کے حق میں اور اس کے خلاف تمام دلائل فراہم کیے جائیں۔
اس نئی کتاب کا نام Dialogue Concerning the Two Chief World Systems تھا جو1632ء میں زیور طبع سے آراستہ ہوئی تھی۔ اس کتاب میں کو پرنیکس کی تھیوریز کی تائید کی گئی اور ثابت کیا گیا کہ ہماری زمین دیگر سیاروں کی طرح ہی ہے۔ سائنس کے جن قوانین کا روئے ارض پر اطلا ق ہوتا ہے ان ہی کا اطلاق دوسرے سیاروں پر بھی ہوتا ہے۔ اس کتاب میں گیلی لیو نے زمین کی ڈبل موشن (double motion) کا بھی ذکرکیا۔ نیز مد و جزر کی سا ئنسی وجہ بیان کی کہ یہ چاند کی کرہ زمین پر کشش ثقل کے اثر سے وقوع پذیر ہوتی ہیں۔ اس نے دلیل دی کہ مد و جزر اس بات کا بین ثبوت ہے کہ زمین حرکت کرتی ہے۔ یہ کتاب بہت مقبول ہوئی اوراپنے دَور کی بیسٹ سیلر تھی۔
گیلی لیو کا ٹرا ئل (trial)
انکوئے زیشن کی مذہبی عدالت میں 1633ء میں اس کے خلاف مقدمہ دائر کیا گیا۔ اس کو مجبور کیا گیا کہ وہ اپنی تھیوری کا انکار کر ے کہ زمین سورج کے گرد گھومتی ہے۔
روم میں اس کا قیام پہاڑی پر واقع Villa Medici میں تھا۔ مقدمہ12؍ اپریل کو شروع ہوا اور22؍جون1633ء کو ختم ہوا۔ اگرچہ جرح (انٹیروگیشن)12؍اپریل سے لے کر10؍مئی تک ہوئی تھی۔ پوپ نے اپنا فیصلہ16؍جون کو دیااور سزا چھ دن بعد سنائی گئی۔ مقدمہ کی سماعت روم کے پین تھیان کے قریب واقع سانٹا میریا کان وینٹ (Santa Maria) میں لاطینی میں شروع ہوئی۔ انکوئے زیشن (Congregation of Holy Office) کے ممبران10کارڈینلز پر مشتمل تھے۔ انٹیرو گیشن کا انچارج کارڈینل میکالانو (Maculano) تھا۔ عقو بت اور جسمانی سزا کے خوف سے اس نے توبہ کر لی جو کہ درحقیقت plea bargainingتھی۔ لیکن جب وہ عدالت کے کمرے سے باہر جا رہا تھا تو اس نے زیر لب کہا کچھ بھی ہو یہ گھومتی ضرور ہے (E pur i muove)۔ جب22؍جون کو عدالت میں اسے سزا سنائی گئی تو گیلی لیو اپنے گھٹنوں پرجھکا ہوا تھا ۔ اس پر یہ الزام عائد کیا گیا کہ تم پر الحاد کا شک کیا جاتا ہے یعنی تم ایک ایسے سا ئنسی نظرے پر یقین رکھتے ہو جو کہ مقدس کتاب کے خلاف ہے یعنی یہ کہ سورج دنیا کا مرکز ہے اور یہ مشرق سے مغرب کی جانب نہیں جاتا۔ یہ کہ زمین حرکت پذیر ہے اور یہ کائنات کا مرکز نہیں ہے۔ سزا کے فیصلے میں لکھا گیا کہ ہو لی آفس کے اختیار میں ہے کہ اس کو کتنی مدت کے لیے پابند سلاسل کیاجائے، مزید یہ کہ وہ تین سال تک ہفتے میں ایک بارزبور Psalms کا ورد سات دفعہ کرے اور نئی کتابDialogo کو ضبط کر لیا جائے جو کہ دو افراد کے مابین مکالمہ ہے۔ گھٹنوں پر جھک کر اس نے اعتراف جرم کرتے ہوئے کہا: ’’میں اپنے خیالات سے تو بہ کرتا ہوں، ان پر لعنت بھیجتا ہوں، اور بیا ن کی گئی غلطیوں اور کفر سے منکر ہوتا ہوں۔‘‘
یاد رہے کہ رومن انکوئے زیشن کا مطالعہ زیادہ نہیں کیا گیا کیونکہ اس کے آرکائیوز1998ءتک سکالرز کے لیے بند تھے۔ تمام ریکارڈ ٹرینٹی کالج ڈبلن میں محفوظ ہے۔ اس کو عمر بھر قید کی سزا دی گئی مگرپوپ کے حکم پر اگلے روز اس کی ضعیفی، نا بینائی اور گنٹھیا جیسے عوارض کے پیش نظر سزا کم کر کے ہاؤس اریسٹ کر دیا گیا۔ گیلی لیودسمبر1633ءسے اگلے نو سال فلورنس Arcetriمیں اپنے گھر میں نظر بند رہا۔ 8؍جنوری 1642ءکو شام کے وقت وہ نمو نیا اور دل بند ہونے سے راہیٔ ملک عدم ہوا۔ اس کی عمر 77سال، 10 مہینے اور 20دن تھی۔ اس نے اپنے پیچھے دو بیٹیاں، ایک بیٹا Vincenzo چھوڑا جو میڈیکل ڈاکٹر تھا۔ اس کو فلورنس کےBasilica of St Croceکے چھوٹے سے نا معلوم حصے میں دفنا یا گیا۔ ایک سو سال تک وہ یہیں پر آسودہ خاک رہا مگر12؍مارچ 1737ء کو اس کواسی چرچ کی ایک اورکھلی جگہ پر دفنایا گیا جس کے اوپر شاندار یادگار تعمیر کی گئی۔ جب اس کو دوسری دفعہ دفن کیا گیا تو اس کے دائیں ہاتھ کی تین انگلیاں، ایک دانت اور، ریڑھ کی ہڈی کو محفوظ کر لیا گیا۔ فلورنس کے گیلی لیو میوزیم میں دوانگلیاں (انگوٹھا اور درمیانی انگلی)اور دانت گلاس کےمرتبان میں رکھے دیکھے جا سکتے ہیں۔ تیسری انگلی یونیورسٹی آف پیڈوا میں ہے جہاں وہ پروفیسر رہا تھا۔ لحد میں اس کی بیٹی Maria Celeste کاجسم بھی دفن ہے جس کی وفات33 سال کی عمر میں ڈائی سینٹری سے ہوئی تھی۔
چرچ کا معافی ما نگنا
نیویارک ٹائمز نے یکم نومبر1992ء میں رپورٹ کیا کہ The Earth revolves around the sun, even for the Vatican۔ گیلی لیو کی وفات کے343سال بعد پوپ جان پال دوم نے پونٹی فیشل اکیڈیمی آف سا ئنسز کے اجلاس میں اعلان کیا کہ گیلی لیوکے سائنسی نظریات ٹھیک تھے۔ پوپ نے 1979ء میں منتخب ہونے کے بعد اکیڈیمی آف سائنسز کے ممبران پر مشتمل ایک کمیٹی قائم کی کہ اس معاملے میں تحقیق کرے۔ کمیٹی نے فیصلہ سنا یا کہ انکوئے زیشن غلط تھی اور گیلی لیو صحیح تھا۔ دراصل یہ تنازعہ چرچ اور گیلی لیو کے درمیان نہیں تھا بلکہ سائنس اور مذ ہب کے درمیان تھا جس میں آخرکار پوپ کو سائنس کے آگے سر خم تسلیم کر نا پڑا۔ جب بھی کوئی نئی چیز دنیا میں سامنے آتی ہے رجعت پسند لوگ پہلے اس کی مخالفت کرتے مگر بعد میں اس کو گلے لگاتے دکھائی دیتے ہیں۔ یہ تنازعہ دانشی آزادی (intellectual freedom)، خیالات کی آزادی اور آزادیٔ اظہارپر ناروا اور رقیق حملہ تھا۔ گیلی لیو کے اس افسوس ناک مقدمے سے یہ سبق اخذ ہوتا ہےکہ مذہبی، سائنسی یا دیگر آرا رکھنے کے باعث کسی کو قید کر نا یا زبان بندی کرنا غلط ہے۔ آج اس مقدمے کی تفصیل پڑھ کر ہم انکوئے زیشن کو برا بھلا کہتے مگر گیلی لیو کو ہیرو تسلیم کرتے ہیں جس نے جا بر سلطان کے آگے کلمہ حق پڑھا۔
(1. Dan Hofstadter, The Earth Moves, NY 2009
2.Mario Livio, Galileo and the science deniers, NY 2020 )
٭…٭…٭