متفرق مضامین

ہوش کر اے ناداں

(حافظ عبد الحلیم)

’’اخلا قیات کی روش پر جب سب قوم نے اجتماعی نماز جنازہ ادا کر دی ہے۔ تو سر پر بوٹ پڑے یا چپل…شیروں کی نسلیں تو ختم ہو گئیں۔ اب سر کس والے جعلی شیروں کازمانہ ہے تو وہ خاکی وردیاں پہن کر آئیں یا شیروانیاں زیب تن کر کے گھومے پھر یں کیا فرق پڑتا ہے۔ قوم کی اجتماعی موت تو ہوچکی …دفنانے کے طریقہ کار پر کیا بحث ؟(دستک)‘‘

(نوائے وقت 15؍جنوری 2020ء)

تحریر کا ایک ایک حرف کسی مصلح کی آمد کا منتظر دکھائی دیتا ہے۔ قرآن پاک کی سورۃ الجمعہ کا ابتدائی حصہ بھی اس بات کی طرف واضح اشارہ فرما رہا ہے کہ ظاہری و باطنی علوم سے بےبہرہ کے تزکیہ نفس کے لیے عزیز اور حکیم خدا کی طرف سے تعلیم کتاب اور حکمت سکھانے والامبعوث کیا جائےگا اور پھر دلچسپ بات یہ کہ انہیں آیات میں ہو بہو عکس کا مل کی بھی خبر دی گئی ہے۔ صحابہ جن کو خدا کے رسولﷺ نے پاک کیا تھا تعلیم کتاب عطا کی تھی اور حکمت و دانائی سکھائی تھی وہ ہر گز حضورﷺ کی اصالتاًًآمد کے قائل نہ تھے بلکہ سوال کیا حضورؐ وہ کون لوگ ہوں گے۔ کون خوش قسمت ہوں گے ؟ حضور اکرمﷺ نے اپنی طرف سے تین دفعہ سوال دہرانے والے کوکوئی جواب نہ دیا۔ بلکہ جب وحی الٰہی نے خبر دی پھر اس کی تسلی اس طرح کروائی کہ اگر ایمان ثریّا پر بھی چلا جائے تو فارس الاصل میں سے ایک مرد اُسے دوبارہ دنیا میں لے آئےگا۔

(بخاری کتاب التفسیر)

ایک لمبا عرصہ بارش نہ ہو تو کنووں کا پانی بھی سوکھ جاتا ہے نہ صرف پانی سُوکھ جاتا ہے بلکہ کائی جم جاتی ہے اور سڑاند پیدا ہوجاتی ہے۔ صرف ظاہرداری رہ جاتی ہے بلھے شاہ کیا ہی خوبصورت انداز میں بیان کرتے ہیں۔

رب رب کر دے بڈھے ہوگئے ملاں پنڈت سارے

رب دا کھوج کھرا نہ لبھیا سجدے کر کر ہارے

رب تے تیرے اندر وسدا وچ قرآن اشارے

بلھے شاہ رب اونہوں ملدا جیہڑا نفس نو مارے

آج کل سوشل میڈیا پر ایک بڑا دلچسپ سوال چل رہا ہے کہ مسلم اور مومن میں کیا فرق ہے ؟اس کا جواب یہ دیا جارہا ہے کہ مسلمان تو وہ ہوتا ہے جو خدا کو مانتا ہے اور مومن کا مطلب ہے کہ وہ خدا کی مانتا ہے۔ یہ سوال و جواب نہایت ہی دلچسپ رنگ میں ’نام کے اسلام‘ اور ’حقیقی اسلام‘ اور ایمان کی عکاسی کرتا نظر آرہا ہے۔ حضور اکرمﷺ نے آنے والے موعود کے ذریعے اسلام لانے کا نہیں بلکہ ایمان لانے کا فرمایا ہے۔ سو وہ جری اللہ اس وقت اکنافِ عالم میں ایمان کی دولت لٹانے میں مصروف و مشغول ہے۔ اس نے ایسی بنیاد یں ایمان کی ڈال دیں کہ خلافتِ حقّہ کے ذریعہ 213؍ممالک میں اس کے ذریعہ ایمان کا تعارف اور شناخت پیدا ہو رہی ہے۔ مگر جو اس نعمت سے محروم ہیں ان کی حالتِ زار ملاحظہ ہو۔

نائیجیریا کے شہر لاگوس میں پادری سے برکت لینے والے ایک شخص پر پادری نے غلطی سے پانی کی بجائے پٹرول چھڑک دیا۔ برکت لینے والا شخص آگ میں جھلس کر جان سے ہاتھ دھو بیٹھا۔

(نوائے وقت 7؍دسمبر 2019ء)

مزید ملاحظہ ہو !

افریقہ کے ملک تنزانیہ میں پادری بونی فیس موام پوسا خود کو زمین پر خدا کا نمائندہ قرار دیتا ہے عقیدت مندوں کو شفا دینے کی صلاحیت رکھنے کا دعوےدار ہے۔ اس نے اپنے جسم سے مس کر کے تیل پھینکا تو بھگدڑ مچ گئی۔ شفا کے حصول کے لیے آئے ہوئے درجنوں لوگ پائوں تلے کچلے گئے۔ 20؍ہلاک اور متعدد زخمی۔

(نوائے وقت 3؍فروری 2020ء)

بد اعتقادیوں کی انتہا۔ نئی دہلی میں 6سالہ بچہ کی کمر پر بال تھے۔ بھگوان قرار دیا۔ جاکر پوجا شروع کر دی۔

(نوائے وقت دسمبر 2019ء)

پاناما چرچ میں آسیب نکالنے کی کوشش۔ 5؍بچوں سمیت 7؍افرادہلاک۔

(نوائے وقت 24؍جنوری 2020ء )

اور آگے چلتے چلتے ملاحظہ کریں ۔غفلت کے حج اور نمازیں اور عمرے کس طرح کے نتائج پیدا کر رہی ہیں۔ کیونکہ قرآن کریم واضح طور پر فرماتا ہے۔

اِ نَّمَا یَتَقَبَّلَ اللّٰہُ مِنَ الْمُتَّقِیْنَ۔

قبولیت کے لیے تقویٰ شرط ہے۔

نوائے وقت 24؍دسمبر 2019ء کالم ’سرِ راہے‘ بعنوان عمرے کے سب سے زیادہ ویزے پاکستانیوں کو جاری ہوئے۔

یہ صورت حال ہم پاکستانیوں کے دِلوں میں حج اور عمرہ کرنے کی شدید طلب کی عکاس ہے۔ دنیا میں اور بھی بڑے بڑے اسلامی ملک ہیں۔ مگر ہر سال سب سے زیادہ پاکستانی یہ سعادت حاصل کرتے ہیں۔ اس برس بھی ریکارڈ تعداد میں ساڑھے چار لاکھ پاکستانیوں نے عمرہ کیا۔ اس حساب کو دیکھ کر تو ہونا یہ چاہیے تھاکہ پورا پاکستان ایک خوبصورت اور پاکیزہ مسلم معاشرے کی تصویر بن کر سامنے آتا۔ مگر افسوس ایسا کچھ بھی ہماری زندگیوں میں ہمارے معاشرے میں ہوتا نظر نہیں آتا۔ کروڑوں پاکستانی فریضۂ حج ادا کرچکے ہیں۔ اس کے باوجود ملک میں چوری، بے ایمانی، جھوٹ اور ناانصافی کی عملداری ہے۔ سچ، انصاف، ایمانداری اور صلہ رحمی دور تک کہیں بھی نظر نہیں آتی۔ کسی نے سچ کہا تھا کہ اگر حج اور عمرے ہماری زندگیوں کو نہ بدلیں تو پھر سمجھ لیں کہ یہ صرف سیر سپاٹا تھا۔

لاکھوں علماء مبلغ اور مشائخ دن رات اپنے بیانوں سے عوام کو جگاتے ہیں۔ مگر ان کے اپنے طرز زندگی اور بود وباش دیکھ کر لوگ حیران ہوتے ہیں۔ ہر دُکان پر مقدس ناموں کی تختی لگی ہوتی ہے جبکہ دُکان میں دو نمبر مال ہوتا ہے۔ بےایمانی سے کام ہورہا ہوتا ہے۔ نجانے ایسا کیوں ہے کیا ہم صرف دکھاوے کی عبادت اور ریاضت کرتے ہیں۔ دکھاوے کے لیے اسلام کا نام لیتے ہیں۔ جبکہ ہماری زندگیاں سراسر اسلامی تعلیمات کے خلاف بسر ہوتی ہیں۔ افسوس ہمارے اندر کوئی تبدیلی نہیں آئی۔

حضور اکرمﷺ پیشگوئی کرتے ہوئے فرماتے ہیں :

عنقریب لوگوں پر ایسا زمانہ آئےگا کہ اسلام کا صرف نام باقی رہ جائےگا اور قرآن صرف رسم کے طور پر استعمال ہوگا ان کی مساجد بظاہر آباد ہوں گی مگر ہدایت کے اعتبار سے خالی ہوں گی اور ان کے علماء آسمان کے نیچے بد ترین مخلوق ہوں گے۔ اِنہی سے فتنے نکلیں گے اور انہیں میں فتنے لوٹائے جائیں گے۔

( مشکوٰۃ کتاب العلم )

اب دیکھ لیں بظاہر مساجد آباد ہیں مگر وہیں سے بعض اوقات ایسی خبریں بھی آتی ہیں کہ دل دہل جاتے ہیں۔ ایسا بھی ہوتا ہے کہ ’منبر‘ کے مقدس مقام پر بیٹھ کر دین کی خوبصورتیاں لوگوں کے سامنے پیش کرنے کی بجائے دین کے ٹھیکیدار اس مقدس نام پر لوگوں کو لڑانے میں مصروف نظر آتے ہیں۔ اپنی کمزوریوں سے صرفِ نظر مگر دوسروں پر فتویٰ بازی۔ حتیٰ کہ اپنے تربیت یافتوں کی جیبوں میں جنت کی پرچیاں ڈال کر انہیں سینہ کے ساتھ بم باندھ کر دوسروں کو ’واصل جہنم‘ کرنے کے ٹارگٹ دے کر قتل وغارت گری کے بازار گرم کیے جاتے ہیں۔ ورنہ تعلیم تو یہ تھی کہ اپنی کمزوریوں پر نظر ڈالو، اپنے آپ کو پاک صاف بنائو اور نیکی کو محبت سے پھیلائو مگر یہاں تو معاملہ ہی بالکل اُلٹ ہے۔ میاں محمد بخش کیا خوب فرماگئے۔

بد بندہ میں لبھن ٹریا تے بد نہ لبھیا کوئی

جے میں اندر جھاتی ماری تاں میتھوں بد نہ کوئی

ایمان کو ثریّا سے لانے والے کی گفتگو سنیے۔ فرماتے ہیں :

’’ہمارا زندہ حی وقیوم خدا ہم سے انسان کی طرح باتیں کرتا ہے۔ ہم ایک بات پوچھتے ہیں اور دُعا کرتے ہیں تو وہ قدرت کے بھرے ہوئے الفاظ کے ساتھ جواب دیتا ہے۔ اگر یہ سلسلہ ہزار مرتبہ تک بھی جاری رہے ۔تب بھی وہ جواب دینے سے اعراض نہیں کرتا۔ وہ اپنے کلام میں عجیب در عجیب غیب کی باتیں ظاہر کرتا ہے۔اور خارق عادت قدرتوں کے نظارے دکھلاتا ہے۔ یہانتک کہ وہ یقین کرا دیتا ہے کہ وہ وہی ہے جس کو خدا کہنا چاہئے۔دُعائیں قبول کرتا ہے۔ اور قبول کرنے کی اطلاع دیتا ہے۔ وہ بڑی بڑی مشکلات حل کرتا ہے اورجو مُردوں کی طرح بیمار ہوں ۔ان کو بھی کثرتِ دُعا سے زندہ کر دیتا ہے۔ اور یہ سب ارادے قبل از وقت اپنے کلام سے بتلا دیتا ہے۔ خدا وہی خدا ہے ۔جو ہمارا خدا ہے۔ وہ اپنے کلام سے جو آئندہ کے واقعات پر مشتمل ہوتا ہے۔ ہم پر ثابت کرتا ہے۔ کہ زمین و آسمان کا وہی خُدا ہے۔ ‘‘

(نسیم دعوت روحانی خزائن جلد19صفحہ448ایڈیشن1984ء)

خدا تعالیٰ نے حضور اکرمﷺ کو کامل دین دے کر مبعوث فرمایا اور قیامت تک کے اتار چڑھائو کی خبریں دیں۔ جس طرح جسمانی طور پر انسان بعض دفعہ مختلف بیماریوں کا سامنا کرتا ہے اور علاج معالجہ سے اللہ تعالیٰ شفا عطا فرمادیتا ہے۔ بعینہٖ اسی طرح روحانی اُتار چڑھائو اور بیماریوں کے علاج بھی حضور اکر مﷺ نے بیان فرما دیے ہیں اور جب عالمی طور پر بگاڑ آنا تھا تو حضور اکرمﷺ نے زمینی وسائل کی نفی فرمائی ہے۔ اگر ایسا نہیں تو پھر ثریّا سے ایمان لانے والا محاورہ نہ بولا جاتا۔ معلوم ہوتا ہے اس وقت ظاہر پرستی زوروں پر ہوگی۔ اور دنیا داری غالب آجائےگی۔ وہ علماء جن سے رہ نمائی لی جانی تھی وہ خود نفس کے غلام ہو کر طرح طرح کی برائیوں میں مبتلا ہو جائیں گے۔ آج کے زمانہ میں ہم آئے دن اخبارات اور دوسرے ذرائع رسل و رسائل کے ذریعے ان نشانیوں کو پورا ہونے پر اطلاع پاتے رہتے ہیں۔ اور ایک بڑا ہی حیرت انگیز پہلو غور طلب ہے کہ مولوی کے پاس تمام ذرائع اور وسائل موجود ہیں۔ لائوڈ سپیکر، ٹی وی، ریڈیو، اخبارات کون سا ایسا ذریعہ ہےجس سے ابلاغ ہو اور وہ ان کے پاس نہ ہو مگر ان سب کے باوجود، ان سب تقاریر اور تحریرات کے باوجود قوم کی حالت خراب تر ہوتی چلی جارہی ہے۔ کسی عا م آدمی کا تجزیہ نہیں بلکہ جس کو بالاتفاق حکیم الامت گردانا جاتا ہے۔ وہ کیا کہتے ہیں!

یُوں تو سیّد بھی ہو مرزا بھی ہو افغان بھی ہو

تم سبھی کچھ ہو بتائو تو مسلمان بھی ہو

وضع میں تم ہو نصاریٰ تو تمدن میں ھنود

یہ مسلماں ہیں جنہیں دیکھ کر شرمائیں یہود

حالی ؔ نے اقبال ؔ سے بھی 70سال پہلے کہا تھا :

رہا دین باقی نہ اسلام باقی

فقط رہ گیا اِک اسلام کا نام باقی

اور دلچسپ پہلو یہ ہے کہ آج بھی یہ راگ پوری آب و تاب کے ساتھ جاری ہے۔ اخبارات سیاہ ہیں کہ کہیں اسلام کا نام نہیں، قرآن کریم پر عمل نہیں، دینی اقدار نہیں ہیں۔

غیر از جماعت علماء لا نبی بعدیوالے فقرے سے لوگوں کو مغالطہ دینے کی کوشش کرتے ہیں حالانکہ اس میں تو دو باتیں خاص طور پر بیان کی گئی ہیں۔

ایک تو یہ خبر ہے کہ میرے فوری بعد بنی اسرائیل کی طرح نبوت نہیں بلکہ خلافت کا سلسلہ جاری ہوگا اور ساتھ اس خلافت راشدہ کی عمر بھی بتائی گئی کہ قریباً تیس سال تک یہ نظام جاری رہے گا۔

دوسرا پہلو یہ بھی فراموش نہیں کرنا چاہیے کہ مسیلمہ کذاب اور اسود عنسی جیسے دعویداروں کا ردّ فرمایا گیا ہے اور خلافت علی منھاج النبوۃ کےتحفظ کی خبر دی گئی ہے۔

جب تاریکی چھا جائےگی غفلت ڈیرے ڈال لے گی اس وقت آنے والے عیسوی صفت کے حامل کوچاردفعہ نبی اللہ کے لقب سے نوازا گیا ہے۔ (مسلم)اب وہ وجودجو ان القابات اور اعزازات سے نوازا گیا ہے اس کے پُر شوکت الفاظ سُنیے اور کان دھریے اور اس کے خدا رسیدہ ہونے کی علامات دیکھیں آپؑ فرماتے ہیں :

’’دنیا میں ایک نذیر آیا پر دنیا نے اُس کو قبول نہ کیا لیکن خدا اُسے قبول کرے گا اور بڑے زور آور حملوں سے اُسکی سچائی ظاہر کر دیگا۔ ‘‘یہ انسان کی بات نہیں خدا تعالیٰ کا الہام اور ربّ جلیل کا کلام ہے۔ اور میں یقین رکھتا ہوں کہ ان حملوں کے دِن نزدیک ہیں۔ مگر یہ حملے تیغ و تبر سے نہیں ہوں گے اور تلواروں اور بندوقوں کی حاجت نہیں پڑے گی بلکہ روحانی اسلحہ کے ساتھ خدا تعالیٰ کی مدد اُترے گی اور یہودیوں سے سخت لڑائی ہوگی۔ وہ کون ہیں ؟ اس زمانہ کے ظاہر پر ست لوگ جنہوں نے بالاتفاق یہودیوں کے قدم پہ قدم رکھا ہے ان سب کو آسمانی سیف اللہ دو ٹکڑے کرے گی اور یہودیت کی خصلت مٹا دی جائےگی اور ہر ایک حق پوش دجّال دنیا پرست یک چشم جو دین کی آنکھ نہیں رکھتا حجّت قاطعہ کی تلوار سے قتل کیا جائےگا اور سچائی کی فتح ہوگی اور اسلام کے لئے پھر اس تازگی اور روشنی کا دِن آئے گا جو پہلے وقتوں میں آچکا ہے اور وہ آفتاب اپنے پورے کمال کے ساتھ پھر چڑھے گا جیسا کہ پہلے چڑھ چکا ہے۔ ‘‘

( فتح اسلام، روحانی خزائن جلد 3صفحہ9تا10)

مگر افسوس ان پر کہ آنےوالے کی طرف پیٹھ کی ہوئی ہے اور دَجّال کی اُن چالوں کو سینے سے لگانے کی سعی کی جارہی ہے جس کے ذریعہ دنیا بد کاریوں کی آماجگاہ بن گئی ہے۔

14؍دسمبر 2019ء کی اخباری رپورٹ میں بتایا گیا کہ سعودی عرب میں 4؍کروڑ 20؍لاکھ ڈالرز میں دوسراسینما گھر تعمیر ہوگیا ہے۔ لطیفہ یہ ہے کہ جب اس مادر پدر آزادی کے بیج بونے کے بعد پھل ملنے لگے ہیں تو حکام گرفتاریوں پر آگئے ہیں ذیل کی خبریں ملاحظہ ہوں۔

31؍ دسمبر 2019ء ؍ یکم فروری 2020ء ؍ اور 28؍ جنوری 2020ء کے اخبارات میں اِن پھلوں کا ذکر ہے جو سینما کا بیج بو کر حاصل ہورہے ہیں۔ متعدد مرد اور خواتین نامناسب لباس پہن کر گھومتے پکڑے گئے اور حوالات میں بند کر دیے گئے۔

بہت بچپن میں پڑھا اور سُنا تھا کہ کسی مولوی کے پاس لوگ گئے کہ کنویں میں کتا گر گیا ہے پانی پاک کیسے ہوگا ؟اس نے کہا 20بوکے پانی نکال لو۔ مگر پانی میں بُو پھر بھی نہ گئی تو کسی سیانے نے کہا پہلے کتا نکالو پھر بیس بوکے پانی نکالنا۔

ساری دنیا میں فلم انڈسٹری کے نتیجہ میں مخرب الاخلاق پیدا ہوگئے۔ بے پردگی بے حیائی میں بدل گئی۔ عریانی فحاشی میں بدل گئی۔ نئی نسلیں خراب ہو گئیں۔ وائے افسوس اے مقدس سرزمین کے باسیو!تم نصاریٰ اور یہود کے قدم بقدم چل کر بےپردگی اور بے حیائی کی تشہیرکر رہے ہو۔جب نشانہ بالکل ٹھیک لگتا ہے اور لوگ جن میں خواتین بھی شامل ہوتی ہیں بازاروں میں ناچنے گانے والیوں کے لباس میں نکل کھڑے ہوتے ہیں تو تم پریشان ہو کر ان کو گرفتار کر تے ہو۔

میرؔ سادہ ہیں بیمار ہوئے جس کے سبب

اسی عطار کے لونڈے سے دوا لیتے ہیں

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button