الفضل ڈائجسٹ
اس کالم میں ان اخبارات و رسائل سے اہم و دلچسپ مضامین کا خلاصہ پیش کیا جاتا ہے جو دنیا کے کسی بھی حصے میں جماعت احمدیہ یا ذیلی تنظیموں کے زیرانتظام شائع کیے جاتے ہیں۔
آنحضرتﷺ کا توکّل علی اللہ اور حفاظتِ الٰہی
تمام انبیائے کرام اللہ تعالیٰ کی ذات پر محکم ترین ایمان رکھنے والے اور کُلیۃً اُسی کی ذات پر بھروسہ کرنے والے ہوتے ہیں۔ آنحضورﷺ کی حیات طیبہ میں یہ فضیلت بھی اپنی معراج پر نظر آتی ہے گویا اس مقام میں بھی آپؐ کو خاتَم مقام عطا فرمایا گیا ہے۔ قرآن کریم نے بھی آنحضورﷺ کے متوکّل ہونے کی گواہی بار بار دی ہے۔ سورۃالرعد آیت 31، سورۃالتوبہ آیت 129 اور سورۃالشوریٰ آیت 24 میں یہی مضمون ہے کہ مَیں اپنے ربّ پر توکّل کرتا ہوں اور اُسی کی طرف جھکتا ہوں۔
رسول کریمﷺ کے توکّل علی اللہ اور حفاظتِ الٰہی سے متعلق مکرم مولانا عطاءالمجیب راشد صاحب کا ایک تفصیلی مضمون ماہنامہ ’’خالد‘‘ ربوہ نومبر و دسمبر 2012ء کی زینت ہے۔
٭… حضرت عمرؓ ننگی تلوار ہاتھ میں لیے آنحضورﷺ کو قتل کرنے کے ارادے سے گھر سے نکلے تو خدا کی تقدیر اُنہیں اسی حالت میں دارِ ارقم کے دروازے پر لے گئی لیکن دل ایمان سے منور ہوچکا تھا۔ دارارقم میں موجود صحابہؓ نے دشمنِ اسلام کو اس حالت میں دیکھا تو ڈرے لیکن رسول اللہﷺ کے توکّل علی اللہ اور جرأت کا یہ عالم تھا کہ کسی توقّف کے بغیر صحابہ سے فرمایا کہ ڈرو نہیں اور دروازہ کھول دو۔ حضرت عمرؓ اندر داخل ہوئے تو آپؐ نے پوچھا: عمر! کس ارادے سے آئے ہو؟ عمرؓ نے عرض کیا: یا رسول اللہ! مسلمان ہونے آیا ہوں۔ آپؐ نے بلند آواز سے اللہ اکبر فرمایا تو صحابہؓ کے پُرجوش نعروں سے مکّہ کی وادی گونج اُٹھی۔
٭… ایک رات مدینہ میں اچانک شور سنائی دیا جیسے کسی نے حملہ کردیا ہو۔ یہ اُن دنوں کی بات ہے جبکہ قیصر کی فوجوں کے حملے کا خطرہ تھا۔ آدھی رات کو شور سن کر صحابہ پریشانی کی حالت میں گھروں سے نکلے اور ابھی ارادہ ہی کر رہے تھے کہ حقیقت معلوم کرنے باہر جائیں تو دیکھا کہ رسول اللہﷺ بغیر زین والے گھوڑے پر سوار چلے آرہے ہیں۔ آپؐ نے فرمایا کہ فکر نہ کرو، کوئی خطرے کی بات نہیں۔ سیّدالقومﷺ کی بہادری، جرأت اور توکّل علی اللہ کا یہ کیا ہی ارفع مقام ہے۔
٭… جب رسول کریمﷺ نے مختلف بادشاہوں کو تبلیغی خطوط ارسال فرمائے تو شہنشاہِ فارس کسریٰ نے بڑے تکبّر سے آپؐ کا خط ٹکڑے ٹکڑے کردیا۔ جب آپؐ کو اس کا علم ہوا تو کامل توکّل کے نتیجے میں فرمایا: ’’خدا خود ان لوگوں کو پارہ پارہ کردے۔ ‘‘
کسریٰ نے یمن کے گورنر کے ذریعے آپؐ کو گرفتار کرنے کے لیے دو سپاہیوں کو خط دے کر پہلے سے ہی بھجوا رکھا تھا۔ آپؐ نے خط کا مضمون سنا جس میں لکھا تھا کہ فی الفور اپنے آپ کو ان لوگوں کے سپرد کردیں۔ اس خطرناک موقع پر آپؐ نے کسی گھبراہٹ کا اظہار کیے بغیر ایلچیوں سے فرمایا کہ آج رات یہاں ٹھہرو، کل تمہیں جواب دوں گا۔ پھر اگلی صبح آپؐ نے ان نمائندوں کو فرمایا: تم واپس چلے جاؤ اور اپنے آقا (والیٔ یمن) سے جاکر کہہ دو کہ میرے ربّ نے آج رات تیرے ربّ یعنی کسریٰ کو قتل کردیا ہے۔
وہ لوگ یہ بات سن کر ہکّابکّا رہ گئےاور واپس چلے گئے۔ بعدمیں معلوم ہوا کہ اسی رات خسروپرویز کو اُس کے بیٹے شیرویہ نے قتل کردیا تھا۔ یہ عظیم الشان واقعہ اللہ تعالیٰ کی معجزانہ حفاظت اور آنحضورﷺ کے بے مثال توکّل کا مظہر ہے۔
٭… آنحضورﷺ جب غزوۂ بدر کے لیے روانہ ہوئے تو ایک مشرک نے، جو اپنی بہادری کی وجہ سے مشہور تھا، آپؐ سے لشکر میں شامل ہونے کی خواہش کا اظہار کیا عددی قلّت کے وقت ایک تجربہ کار اور جنگجوبہادر کا مل جانا ایک غیرمعمولی بات تھی اور صحابہؓ بھی خوش ہورہے تھے۔ لیکن رسول اللہﷺ کی شانِ توکّل تھی کہ آپؐ نے کسی مُشرک کی مدد لینے سے انکار کردیا۔ وہ شخص دوبارہ آیا اور اپنی خواہش بیان کی لیکن آپؐ کا جواب پہلے والا ہی تھا۔ تب وہ تیسری دفعہ آیا اور اپنی خواہش دہراکر یہ بھی عرض کیا کہ مَیں مسلمان ہوتا ہوں۔ اس پر آپؐ نے اجازت عطا فرمائی۔
٭… ایک غزوے سے واپسی پر آرام کی غرض سے رسول کریمﷺ ایک درخت کے نیچے لیٹے تھے کہ ایک دشمن جو آپؐ کی گھات میں تھا اُس نے درخت سے لٹکی ہوئی آپؐ کی ہی تلوار سونت لی اور آپؐ کو بیدار کرکے بولا: اب تمہیں میرے ہاتھ سے کون بچاسکتا ہے؟ آپؐ نے نہایت اعتماد سے فرمایا: اللہ۔ یہ پُرشوکت الفاظ سُن کر دشمن پر کپکپی طاری ہوگئی اور تلوار اُس کے ہاتھ سے گرگئی۔ آپؐ نے تلوار ہاتھ میں لے کر حملہ آور سے پوچھا کہ اب تم بتاؤ کہ تمہیں میرے ہاتھ سے کون بچا سکتا ہے؟ وہ مبہوت ہوکر آپؐ کے قدموں میں گرگیا تو آپؐ نے اسے آزاد فرمادیا۔ واپس جاکر اُس نے اپنے ساتھیوں سے کہا کہ مَیں ایک ایسے شخص کے پاس سے آیا ہوں جو دنیا کا بہترین انسان ہے۔
٭… ایک ایمان افروز واقعہ حنین کے میدان میں رونما ہوا۔ اس غزوے کے دوران ایک ایسا نازک موقع آیا کہ رسول کریمﷺ کے ہمراہ صرف چند صحابہؓ کھڑے رہ گئے۔ تین اطراف سے دشمن کے تیراندازوں کا شدید حملہ تھا اور بچاؤ کے لیے صرف ایک تنگ راستہ تھا جس میں سے بیک وقت صرف چند آدمی گزرسکتے تھے۔ اس خطرناک راستے سے گزرے بغیر بچاؤ کی کوئی راہ نظر نہیں آتی تھی۔ ایسے میں حضرت ابوبکرؓ نے آنحضورﷺ کی حفاظت کے خیال سے نہایت لجاجت سے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! آپ تھوڑی دیر کے لیے پیچھے ہٹ جائیں تاکہ اسلامی لشکر کو پھر سے جمع ہونے کا موقع مل جائے۔ لیکن آپؐ نے اللہ تعالیٰ کی نصرت پر کامل بھروسہ کرتے ہوئے جو جرأت مندانہ اقدام فرمایا وہ ساری تاریخ میں عدیم النظیر ہے۔ آپؐ جس خچر پر سوار تھے، آپؐ نے اسے ایڑھ لگائی اور اُسی تنگ راستے پر آگے بڑھنا شروع کیا جس کے دائیں بائیں سے تیر برسائے جارہے تھے۔ آپؐ کی زبان مبارک پر اُس وقت یہ الفاظ جاری تھے:
اَنَا النَّبِیُّ لَاکَذِبْ اَنَا اِبْنُ عَبْدِالْمُطَّلِبْ
کہ مَیں خدا کا نبی ہوں اور بخدا مَیں اس دعوے میں جھوٹا نہیں، اسی لیے توکّل اور خدائی حفاظت کے نتیجے میں محفوظ ہوں وگرنہ مَیں بھی تمہاری طرح ایک انسان ہوں اور عبدالمطلب کا پوتا ہوں۔
٭… آنحضورﷺ کا مکّہ سے مدینہ ہجرت کرنے کا واقعہ غیرمعمولی عظمت کا حامل ہے جس میں آپؐ کے توکّل علی اللہ اور خدائی حفاظت کے بے شمار پہلو جلوہ گر ہیں۔ کفّار مکّہ نے دارالندوہ میں اکٹھے ہوکر طے کرلیا تھا کہ رات کے وقت آپؐ پر یکدفعہ حملہ کرکے قتل کردیا جائے اور حملہ آوروں میں تمام قبائل کے نمائندے شامل ہوں تاکہ کسی سے بھی انتقام نہ لیا جاسکے۔ اس پر علّام الغیوب خدا نے آپؐ کو اس سازش کی اطلاع دیتے ہوئے ہجرت کی اجازت عطا فرمادی۔ دنیا کے صاحبانِ اقتدار تو خطرے کے وقت سب سے آگے بھاگتے ہیں لیکن آپؐ کا نمونہ یہ تھا کہ پہلے سب کو بھجوادیا اور خود آخر وقت تک وہاں مقیم رہے۔ ایک غیرمسلم مستشرق Stanley Lane-poole لکھتا ہے:
ایک ڈوبتے ہوئے جہاز کے کپتان کی طرح نبیؐ نے اُس وقت تک جہاز کو نہ چھوڑا جب تک عملے کے سب افراد پوری طرح محفوظ نہ ہوگئے۔ (Studies in a mosque, p.60)
ہجرت کی اجازت آنحضورﷺ کو دوپہر کے وقت ملی۔ آپؐ اُسی وقت اپنے گھر سے نکلے اور مخالفانہ ماحول میں سے گزرتے ہوئے حضرت ابوبکر صدیقؓ کے گھر تشریف لے گئے اور رات کو روانگی کا پروگرام طے کرکے واپس تشریف لائے۔ اہلِ مکّہ نے ہزار مخالفت کے باوجود اپنی امانتیں آپؐ کے پاس رکھوائی ہوئی تھی۔ آپؐ نے یہ امانتیں حضرت علیؓ کے سپرد کرکے انہیں مالکان کو واپس پہنچانے کی ہدایت کی اور اُنہیں اپنے بستر پر لٹاکر رات کی تاریکی میں تن تنہا گھر سے نکل کھڑے ہوئے۔ خون کے پیاسے گھر کا محاصرہ کیے ہوئے تھے لیکن عبدکاملؐ آسمانی فرشتوں کی حفاظت میں اُن کے سامنے سے گزر کر محفوظ و مامون نکل گیا اور کچھ ایسا الٰہی تصرف ہوا کہ وہ اُسے دیکھ نہ سکے۔ جب صبح ہوئی تو کفار پر صورت حال بھی واضح ہونے لگی۔ اس پر اُن پر عجیب دیوانگی طاری ہوگئی۔ آپؐ کی تلاش ہونے لگی اور اعلان کیا گیا کہ آپؐ کو زندہ یا فوت شدہ حالت میں لانے والے کو ایک سو سرخ اونٹ بطور انعام دیے جائیں گے۔ اس خطیر انعام کا اعلان سُن کر انعام کے متمنّی مکّہ کے چاروں طرف پھیل گئے۔ کفّار نے ایک ماہر کھوجی کی خدمات حاصل کیں جو انہیں سیدھا ثور پہاڑ کی چوٹی پر واقع اس غار کے منہ پر لے گیا جس کے اندر آپؐ اور حضرت ابوبکرؓ بیٹھے ہوئے تھے۔ کھوجی کا کہنا تھا کہ آپؐ یا تو اس غار میں ہیں اور یا پھر آسمان پر چلے گئے ہیں۔ ایسے میں اضطراب اور غم کی ناقابلِ بیان کیفیت میں حضرت ابوبکرؓ کی زبان سے نکلا: یارسول اللہ! میرے ماں باپ آپؐ پر فدا ہوں۔ اگر دشمن نے نظر جھکاکر دیکھ لیا تو پھر ہم پکڑے جائیں گے۔ لیکن آپؐ نے کامل سکینت سے فرمایا: غم نہ کر، یقیناً اللہ ہمارے ساتھ ہے۔ (التوبۃ:40)
تین راتیں غار ثور میں گزارنے کے بعد آپؐ نے پھر سفر کا آغاز کیا۔ ایک اونٹنی پر آپؐ اور ایک راہ نما سوار تھے اور دوسری اونٹنی پر حضرت ابوبکرؓ اور اُن کے ایک غلام۔ آپؐ نے ساحلِ سمندر کا راستہ لیا اور سفر تیزی سے طَے ہونے لگا۔ کفّارِ مکّہ کے انعام کی لالچ میں کئی لوگ اب بھی آپؐ کی تلاش میں سرگرداں تھے۔ جن میں سے ایک سراقہ بن مالک نے آپؐ کو دیکھ لیا اور اپنے گھوڑے پر سوار تیزی سے آپؐ کی طرف لپکا۔ اس انتہائی خطرناک موقع پر بھی آپؐ کسی پریشانی کا اظہار کیے بغیر قرآن کریم کی تلاوت میں مصروف رہے اور ایک بار بھی چہرہ پھیر کر پیچھے یا دائیں بائیں نہیں دیکھا۔ سراقہ نے بیان کیا کہ مَیں ان کے اتنا قریب پہنچ گیا کہ مجھے آپؐ کی تلاوت کی آواز سنائی دینے لگی۔ غم کے مارے ابوبکرؓ کا یہ حال تھا کہ اپنے محبوب کی جان کے خوف سے بار بار پلٹ کر دیکھتے۔ حضرت ابوبکرؓ روایت کرتے ہیں کہ جذباتِ خوف سے مغلوب ہوکر مَیں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! اب تو پکڑنے والا بالکل سر پر آن پہنچا ہے اور مَیں اپنے لیے نہیں بلکہ آپؐ کی خاطر فکرمند ہوں۔ اس پر آپؐ کی زبانِ مبارک سے وہی بابرکت کلمات نکلے جن سے آپؐ کی روح کا خمیر اٹھایا گیا تھا۔ یعنی غم نہ کر، یقیناً اللہ ہمارے ساتھ ہے۔ (التوبۃ:40)
سراقہ اس تعاقب میں گھوڑے سے باربار گرا اور سنبھلا اور بالآخر اپنا ارادہ ترک کرکے صلح کا ہاتھ بڑھاتے ہوئے معافی کا خواستگار ہوا۔ اُس کا گھوڑا جو ریت میں دھنس گیا تھا، آپؐ کی دعا کی برکت سے باہر نکلا۔ سراقہ کو اپنے مشاہدے کی بِنا پر کامل یقین ہوگیا کہ بالآخر آپؐ یقیناً غالب آئیں گے۔ اس خیال سے اُس نے کمال دُوراندیشی سے درخواست کی کہ مجھے امن کی تحریر عطا فرمائیں۔ چنانچہ چمڑے کے ایک ٹکڑے پر تحریر لکھ کر اُسے دے دی گئی۔ وہ واپس جانے لگا تو آپؐ نے اللہ تعالیٰ سے الہام پاکر اُس کو فرمایا: سراقہ! اُس وقت تیرا کیا حال ہوگا جب تیرے ہاتھوں میں کسریٰ کے کنگن ہوں گے!۔
یہ سن کر وہ ششدر رہ گیا اور تعجب سے پوچھا: کسریٰ بن ہرمز شہنشاہِ ایران؟ آپؐ نے فرمایا: ہاں۔
دنیاوی انعام کے لالچ میں آپؐ کا تعاقب کرنے والا سراقہ حیرت کی تصویر بنا ہوا واپس روانہ ہوا۔ کامل توکّل سے آپؐ کی فرمائی ہوئی آسمانی خبر سترہ سال بعد حضرت عمرؓ کے زمانۂ خلافت میں لفظاً لفظاً پوری ہوئی۔
آٹھ دن کا یہ سفرِ ہجرت بلاشبہ ہمارے رسول کریمﷺ کے توکّل علی اللہ اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے آنے والی غیرمعمولی حفاظت کے بے شمار جلووں پر مشتمل ہے۔ حق تو یہ ہے کہ آپؐ کی ساری زندگی اور آپؐ کا ہر قول و فعل توکّل علی اللہ اور نصرتِ الٰہی کے خمیر سے گندھا ہوا تھا۔
………٭………٭………٭………