مخالفین کے مقابلہ میں فتح کے حصول کے لیے دعا
رَبَّنَا افۡتَحۡ بَیۡنَنَا وَ بَیۡنَ قَوۡمِنَا بِالۡحَقِّ وَ اَنۡتَ خَیۡرُ الۡفٰتِحِیۡنَ (الاعراف:90)
ترجمہ: اے ہمارے ربّ! ہمارے اور ہماری قوم کے درمیان حق کے ساتھ فیصلہ کر دے اور تُو فیصلہ کرنے والوں میں سب سے بہتر ہے۔
حضرت مصلح موعودرضی اللہ عنہ اس دعاکے متعلق فرماتے ہیں :
’’اللہ تعالیٰ نے قرآنِ کریم میں بیان فرمایاہے کہ
لَاَغْلِبَنَّ اَنَاوَرُسُلِیْ
مجھے اپنی ذات کی قسم ہے کہ میں اور میرے رسول غالب آئیں گے۔ یہ خداتعالیٰ کا قانون ہے مگر کیا اس کے لئے دعا ناواجب ہے؟ کیا آنحضرتﷺ اپنی فتح کے لئے دعائیں نہیں کرتے تھے؟ کیا آپ یہ دعا نہ کرتے تھے
رَبَّنَا افْتَحْ بَیْنَنَا وَبَیْنَ قَوْمِنَا بِالْحَقِّ وَاَنْتَ خَیْرُ الْفٰتِحِیْنَ۔
پھر کیا یہ دعا لغو تھی جبکہ اللہ تعالیٰ کا یہ قانون موجود تھا کہ
لَاَغْلِبَنَّ اَنَا وَرُسُلِیْ۔
پس ان چیزوں کی تائید میں بھی دعائیں ہوتی ہیں اور وہ جزئیات کے لحاظ سے مفید بھی ہوتی ہیں۔ مثلاً اگر وہ فتح دس سال میں ہونی ہے تو اس دعا کے ذریعہ نو سال یا آٹھ سال میں ہو جائے گی اور اس وجہ سے یہ دعائیں بھی بےاثر نہیں ہوتیں۔ ‘‘
(خطبہ جمعہ فرمودہ5؍جولائی1940ءمطبوعہ خطباتِ محمودجلد21صفحہ225)
٭…٭…٭