ملفوظات حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اور فارسی ادب (قسط نمبر 53)
ابتلاء اور ہمّ وغم کا فائدہ
فرمایا:
’’اﷲ تعالیٰ چاہتا تو انسان کو ایک حالت میں رکھ سکتا تھا۔ مگر بعض مصالح اور امور ایسے ہوتے ہیں کہ اس پر بعض عجیب وغریب اوقات اور حالتیں آتی رہتی ہیں۔ان میں سے ایک ہم و غم کی بھی حالت ہے۔ان اختلاف حالات اور تغییر وتبدیل اوقات سے اﷲ تعالیٰ کی عجیب در عجیب قدرتیں اور اسرار ظاہر ہوتے ہیں۔ کیا اچھا کہا ہے:
اگر دنیا بیک دستور ماندے
بسا اسرار ہا مستور ماندے
جن لوگوں کو کوئی ہم وغم دنیا میں نہیں پہنچتا اور جو بجائے خود اپنے آپ کو بڑے ہی خوش قسمت اور خوشحال سمجھتے ہیں وہ اﷲ تعالیٰ کے بہت سے اسرار اور حقائق سے ناواقف اور ناآشنا رہتے ہیں۔اس کی ایسی ہی مثال ہے کہ مدرسوں میں سلسلہ تعلیم کے ساتھ یہ بھی لازمی رکھا گیا ہے کہ ایک خاص وقت تک لڑکے ورزش بھی کریں۔اس ورزش اور قواعد وغیرہ سے جو سکھائی جاتی ہے۔ سررشتہ تعلیم کے افسروں کا یہ منشا تو ہو نہیں سکتا ۔کہ ان کو کسی لڑائی کے لیے تیار کیا جاتا ہے اور نہ یہ ہوسکتا ہے کہ وہ وقت ضائع کیا جاتا ہے اور لڑکوں کا وقت کھیل کود میں دیا جاتا ہے۔ بلکہ اصل بات یہ ہے کہ اعضاء جو حرکت کو چاہتے ہیں۔ اگر ان کو بالکل بیکار چھوڑ دیا جائے تو پھر ان کی طاقتیں زائل اور ضائع ہو جاویں اور اس طرح پر اُس کو پورا کیا جاتا ہے۔ بظاہر ورزش کرنے سے اعضاء کو تکلیف اور کسی قدر تکان اُن کی پرورش اور صحت کا موجب ثابت ہوتی ہے۔ اسی طرح پر ہماری فطرت کچھ ایسی واقع ہوئی ہے کہ وہ تکلیف کو بھی چاہتی ہے تا کہ تکمیل ہو جاوے۔ اس لیے اﷲ تعالیٰ کا فضل اور احسان ہی ہوتا ہے۔ جو وہ انسان کو بعض اوقات ابتلاؤں میں ڈال دیتا ہے۔ اس سے اس کی رضا بالقضا اور صبر کی قوتیں بڑھتی ہیں۔ جس شخص کو خدا پر یقین نہیں ہوتا ان کی یہ حالت ہوتی ہے کہ وہ ذرا سی تکلیف پہنچنے پر گھبرا جاتے ہیں اور وہ خود کشی میں آرام دیکھتا ہے۔مگر انسان کی تکمیل اور تربیت چاہتی ہے کہ اس پر اس قسم کی ابتلا آویں۔اور تاکہ اﷲ تعالیٰ پر اس کا یقین بڑھے۔‘‘
(ملفوظات جلد سوم صفحہ 199-200)
اس گفتگو میں سیدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلا م نے فارسی کا یہ شعر استعمال کیاہے ۔
اَگَرْ دُنیَا بِیِکْ دَسْتُوْر مَانْدِے
بَسَا اَسْرَارْہَا مَسْتُوْر مَانْدِے
ترجمہ: اگر دنیا ایک ہی ڈھب پر رہتی تو کئی اسرار چھپے ہی رہتے ۔
مولوی عبدالحق صاحب رامہ کی تحقیق کے مطابق یہ شعر مولوی عبد الرحمان جامی کا ہے۔
٭…٭…٭