حضرت مصلح موعودؓ کا پہلا تاریخی دورۂ یورپ: قادیان میں ورود مسعود اور آپ کا نہایت شاندار پرجوش اور پر خلوص استقبال
[نوٹ: الفضل انٹرنیشنل میں ’’تاریخ احمدیت سے ایک ورق‘‘کے نام سے ایک سلسلہ جاری ہے۔
10؍جولائی 2020ء کو حضرت مصلح موعودؓ کے پہلے دورۂ یورپ کی روئیداد سے اس کالم کا آغاز ہوا۔ دیگر اہم تاریخی واقعات کے ساتھ ساتھ یہ روئیداد بھی شائع کی جاتی رہی۔ حضورؓ کی واپس قادیان کامیاب مراجعت کی روئیداد کے ساتھ دورۂ یورپ1924ء کی رپورٹس کا سلسلہ دو قسطوں میں اختتام پذیر ہو رہا ہے۔
انشاء اللہ تعالیٰ اس کالم میں آئندہ بھی منفرد چنیدہ تاریخی اوراق کے مزید تاریخی سلسلے ساتھ ساتھ جاری رہیں گے۔]
آج ہر ذرّہ سرِ ُطور نظر آتا ہے
جس طرف دیکھو وہی نور نظر آتا ہے
للہ الحمد شنیدیم کہ آں می آید
سوئے گلشن چہ عجب سرو رواں می آید
لندن سے روانگی اور بمبئی میں ورود
حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ نے 24؍ اکتوبر 1924ء کو مسجد فضل لندن میں پہلا جمعہ پڑھایا۔ اور لندن سے روانگی سے پہلے حضورؓ نے فرمایاکہ میرے نزدیک انگلستان کی فتح کی بنیاد رکھ دی گئی ہے۔ آسمان پر اس کی فتح کی بنیاد رکھ دی گئی ہے اور اپنے وقت پر اس کا اعلان زمین پر بھی ہو جائے گا۔ دشمن ہنسے گا اور کہے گا یہ بے ثبوت دعویٰ تو ہر ایک کر سکتا ہے مگر اس کو ہنسنے دو کیونکہ وہ اندھا ہے اور حقیقت کو دیکھ نہیں سکتا۔
حضورؓ25؍اکتوبر1924ءکو لندن سےروانہ ہوئے۔ واٹرلو اسٹیشن پر (جہاں سے حضورؓ مع خدام گاڑی پر سوار ہوئے) بہت سے یورپین مردوں اور عورتوں کے علاوہ ہندوستانی اور افریقن لوگ بھی الوداع کرنے کے لئے موجود تھے۔ نہایت محبت آمیز مصافحوں کے بعد ہر ایک نے خدا حافظ کہا اور فوٹو گرافروں نے فوٹو لئے۔ لندن سے گاڑی ساؤتھمپٹن پہنچی۔ جہاں سے حضورؓ معہ رفقاء نے رات کے بارہ بجے بحری جہاز سے رودبار انگلستان عبور کی اور26؍ اکتوبر کو ساڑھے آٹھ بجے کی گاڑی سے سوار ہو کر پیرس پہنچے۔ پیرس میں حضورؓ کا قیام بہت مختصر مگرکامیاب رہا۔ روزانہ اخبارات کے نمائندے ملاقات کے لئے آئے۔ پیرس کی سرکاری نو تعمیر مسجد میں پہلی نماز حضورؓ نے پڑھائی۔ پریس کے نمائندوں اور سینما کی کمپنیوں نے فوٹو لئے جو روزانہ اخبارات میں شائع ہوئے۔
حضورؓ 31؍اکتوبر کو پیرس سے روانہ ہوئے۔ 2؍نومبر کی رات کو وینس (اٹلی) سے جہاز پر سوار ہو کر18؍ نومبر 1924ء کو بمبئی کے ساحل پر اترے۔
جماعت احمدیہ کے قریباً دو سو نمائندوں نے جو ہندوستان کے مختلف حصوں سے تشریف لائے تھے۔ حضورؓ کا نہایت گرم جوشی کے ساتھ استقبال کیا اور پریس کے نمائندوں نے فوٹو لئے۔ حضرت مفتی محمد صادق صاحبؓ نے تمام جماعت احمدیہ ہندوستان کی طرف سے حضورؓ کی خدمت میں سپاس نامہ پیش کیا۔ یہاں سے حضورؓ لیاقت منزل میں پہنچے اور جناب سید محمد رضوی صاحب کے ہاں فروکش ہوئے۔ بمبئی کے تمام اخبارات کے نمائندوں نے حضورؓ سے سفر یورپ کے حالات دریافت کرنے کے لئے ملاقات اور گفتگو کی۔
[حاشیہ: مثلاً ٹائمز آف انڈیا نے 19؍نومبر 1924ء کو لکھا:
’’حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد امام جماعت احمدیہ سے (جو کل اپنے لمبے سفر یورپ سے واپس آئے ہیں ) ہمارے اخبار (ٹائمز آف انڈیا) کے ایک نمائندہ نے ان کے بمبئی پہنچنے سے تھوڑی دیر بعد ملاقات کی یہ ملاقات نہایت دلچسپ اور نئی روشنی دینے والی ثابت ہوئی۔ اس نئی اسلامی جماعت کے امام ایک ذی علم اور روشن دماغ نوجوان ہیں اور انگریزی خوب روانی کے ساتھ بولتے ہیں۔‘‘
(الفضل 25؍نومبر1924ء)
اسی طرح حضور نے 20؍نومبر 1924ء کو گاندھی جی کے ساتھ علی برادران اور جناب ابوالکلام صاحب آزاد کی موجودگی میں حالات حاضرہ پر گفتگو فرمائی اور اس بات پر زور دیا کہ کانگریس اس وقت تک صحیح معنوں میں قومی جماعت نہیں کہلا سکتی جب تک اس میں تمام قسم کے خیال کے لوگ شامل نہ کئے جائیں۔ اب کانگریس اپنے آپ کو قومی جماعت کہتی ہے لیکن وہ ایک خاص پارٹی کے لوگوں کی نمائندگی کرتی ہے گاندھی جی نے اس پر رضا مندی ظاہر کی اور حضورؓ سے کانگریس میں شامل ہونے کے لئے بہت اصرار کیا حضورؓ نے جواب دیا کہ چونکہ میں کلی طور پر حامی تعاون ہوں اور آئینی اور ارتقائی ترقی کا حامی ہوں اس لئے موجودہ صورت میں انڈین کانگریس میں شامل نہیں ہو سکتا۔]
بمبئی میں بخیر و عافیت پہنچنے پر حضورؓ نے جماعت احمدیہ کے نام برقی پیغام ارسال فرمایا کہ
’’میں اپنی طرف سے اور اپنے رفقاء سفر کی طرف سے تمام احباب جماعت کا دلی شکریہ ادا کرتا ہوں کہ انہوں نے ہمارے مشن کی کامیابی کے لئے دعائیں کیں۔ میں یقین رکھتا ہوں کہ وہ حیرت انگیز کامیابی جو ہمیں اس سفر کے دوران میں حاصل ہوئی محض اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم کی وجہ سے تھی۔ اس نے ہر قدم پر ہماری نصرت فرمائی اور ہمارے لئے ایسے اوقات میں دروازے کھولے جب کہ ہمیں کوئی رستہ نظر نہیں آتا تھا۔ میں تمام احباب سے درخواست کرتا ہوں کہ وہ اپنے آقا و مولیٰ کے اس خاص فضل کو یاد رکھیں اور اپنے آپ کو ان بڑی قربانیوں کے لئے تیار کریں جو انہیں ان اثمار کے حاصل کرنے کے لئے کرنی پڑیں گی۔ جو گزشتہ چار ماہ کے کام کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے ظاہر ہونے والے ہیں۔اللہ تعالیٰ ہم سب پر اپنی برکات نازل فرمائے۔‘‘
بمبئی سے بٹالہ تک
حضورؓ 20؍ نومبر 1924ء کو بمبئی سے بی بی اینڈ سی آئی ریلوے کے ذریعہ روانہ ہو کر اگلے دن 21؍ نومبر 1924ء کو آگرہ پہنچے۔ آگرہ آتے ہوئے آپ نے اکرن کا مشہور مقام دیکھا جو مائی جمیا کا گاؤں اور جماعت احمدیہ کے معرکہ جہاد کا اہم میدان رہا ہے۔ آگرہ اسٹیشن پر آپ کا مخلصانہ استقبال کیا گیا۔ مرزا عرفان علی بیگ صاحب نے آپ کے گلے میں پھولوں کے ہار پہنائے۔
[حاشیہ: ڈاکٹر حشمت اللہ خان صاحب کا بیان ہے کہ جب حضورؓ ریلوے اسٹیشن آگرہ سے گھوڑا گاڑی پر سوار شہر میں جائے قیام پر تشریف لے جا رہے تھے کہ ایک احمدی دوست نے حضورؓ کی خدمت میں قادیان سے آمدہ تازہ تار پیش کیا۔ جس میں یہ اطلاع تھی کہ امتہ الحی صاحبہ سخت بیمار ہیں حضور جلد از جلد قادیان تشریف لائیں۔ یعنی آگرہ کا ایک روزہ قیام منسوخ فرما دیں۔ مگر حضورؓ نے فرمایا کہ یہ دینی کام جو مقررہ پروگرام کے مطابق ہے چھوڑ نہیں سکتا اور ساتھ ہی اپنے اس طبی خادم حشمت اللہ کو فوراً قادیان روانہ کر دیا چنانچہ میں حضور کے ورود قادیان سے 31؍گھنٹے پہلے قادیان پہنچ گیا حضرت امۃالحئی صاحبہ کو میرے پہنچنے سے خوشی ہوئی۔]
صوفی محمد ابراہیم صاحب بی ایس سی امیر المجاہدین آگرہ کی طرف سے اخبار الفضل 6؍ دسمبر 1924ء صفحہ 7پر حسب ذیل خبر شائع ہوئی۔
حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓ کا ورود آگرہ میں
’’21؍ نومبر بوقت 8؍بجے شام حضرت خلیفۃ المسیح الثانی مع خدام آگرہ فورٹ پر گاڑی سے اترے جہاں سلسلہ احمدیہ کے قریباً ایک سو قائم مقاموں نے جو یو پی کے مختلف مقامات سے جمع ہوئے تھے مع چند رؤساء قریباً چالیس غیر احمدی پنجابی تاجروں کے استقبال کیا۔ حضور کے گلے میں پھولوں کے ہار ڈالے گئے۔ حضور نے سب لوگوں کو مصافحہ سے مشرف کیا۔ پھر مع خدام الاحمدیہ دارالتبلیغ میں تشریف لائے۔ آتے ہی حضور نے نمازیں ادا کیں اور علاقہ مین پوری کے چند مہمانوں کی بیعت لی۔ پھر کھانا تناول فرمایا اور مجاہدین و جماعت احمدیہ آگرہ کی طرف سے مولوی غلام احمد صاحب مولوی فاضل نے ایڈریس پیش کیا جس کے جواب میں حضور نے اپنی کامیابی کو محض فضل الٰہی سے ثابت کرتے ہوئے جماعت کو آئندہ ترقی کی شاہراہ پر گامزن ہونے کی تلقین فرمائی اور مزید قربانیوں کے لئے تیار ہونے کا حکم دیا۔ اگلی صبح حضور کا مع خدام فوٹو لیا گیا اور موٹر پر تاج محل کو دیکھتے ہوئے موضع ساندھن تشریف لے گئے‘‘۔
22؍نومبر کو حضورؓ ملکانہ تبلیغ کا بہت بڑا مرکز ساندھن دیکھنے کے لئے تشریف لے گئے یہاں کل انتظام ملکانوں نے کیا تھا۔ بڑے شاندار دروازے بنائے گئے تھے جن میں سے ایک پر ’’غلام احمد کی جے‘‘کا فقرہ لکھا ہوا تھا۔ حضورؓ کی خدمت میں ایک ایڈریس بھی پیش کیا گیا۔ جس کا حضورؓ نے جواب دیا۔ پھر بہت سے لوگوں نے بیعت کی۔ ساندھن سے روانہ ہو کر حضورؓ اچھنیرہ اسٹیشن سے سوار ہوئے اور اسی رات دہلی پہنچے۔ دہلی اسٹیشن پر بہت بڑا مجمع تھا۔ یہاں تک کہ چلنا مشکل ہو گیا۔ دہلی اور شملہ کی جماعتوں نے ایڈریس پیش کیا۔ جس کا حضورؓ نے جواب دیا اور23؍ نومبر کی صبح کو دہلی سے روانہ ہو کر انبالہ پہنچے اور انبالہ سے بٹالہ روانہ ہوئے۔
تمام درمیانی اسٹیشنوں پر جہاں گاڑی کھڑی ہوئی۔ مختلف مقامات کی جماعتوں نے آکر شرف ملاقات حاصل کیا۔ انبالہ کے اسٹیشن پر جماعت انبالہ کی طرف سے دوپہر کا کھانا پیش کیا گیا۔ راجپورہ کے اسٹیشن پر ریاست پٹیالہ، سرہند، نابھہ اور بسی وغیرہ کی جماعتیں موجود تھیں۔چاوا اور دوراہا کے اسٹیشنوں پر غوث گڑھ کی جماعت موجود تھی چاوا پر گاڑی اسٹیشن سے آگے نکل آئی تھی مگر اسٹیشن پر جماعت دکھائی دی۔ اس لئے گاڑی رکوائی گئی اور حضورنے کچھ دور پیدل چل کر اپنے خدام کو شرف مصافحہ بخشا۔
لدھیانہ اسٹیشن پر قابل دید منظر تھا۔ تمام جماعتیں جو ضلع لدھیانہ اور فیروزپور اور مالیر کوٹلہ سے آئی ہوئی تھیں۔ ایک خاص ترتیب سے صف بستہ کھڑی تھیں۔ شیخ محمد شفیع صاحب سیکرٹری جماعت لدھیانہ نے ایڈریس پڑھا۔ جس کا حضورؓ نے جواب دیا۔ لدھیانہ کے بعد گاڑی جالندھر چھاؤنی پر ٹھہری۔ جہاں ضلع جالندھر، ہوشیار پور اور کپورتھلہ کی جماعت کے نمائندے کثیر تعداد میں موجود تھے۔ حضرت منشی حبیب الرحمن صاحب رئیس حاجی پورہ نے ایڈریس پڑھا پھر گاڑی جالندھر اور بیاس اسٹیشنوں پر مختصر قیام کرتی ہوئی امرتسر پہنچی جہاں پلیٹ فارم پر تل دھرنے کی جگہ نہ تھی۔ جماعت احمدیہ کا مبارکباد اور خیر مقدم کا بلند جھنڈا لہرا رہا تھا۔ قریشی محمد حسین صاحب (موجد مفرح عنبری) قائم مقام امیر جماعت احمدیہ لاہور نے ایڈریس پڑھا اور حضورؓ نے اس کا جواب دیا۔ جماعت امرتسر کی طرف سے کھانا پیش کیا گیا گاڑی11بجے بٹالہ پہنچی۔
جماعت قادیان کی طرف سے بٹالہ میں حضورؓ کے استقبال و قیام کے انتظام کے لئے احباب موجود تھے۔ حضورؓ نے رات بٹالہ میں قیام فرمایا اور 24؍ نومبر 1924ء کو بروز ’’دو شنبہ مبارک دو شنبہ‘‘ بٹالہ سے بذریعہ موٹر قادیان کے لئے روانہ ہوئے۔
(ماخوذ از تاریخ احمدیت جلد 4صفحہ 461تا463)
(جاری ہے)
٭…٭…٭