حضرت مصلح موعود ؓ

کوئی احمدی ایسا نہیں ہونا چاہئے جسے قرآن کریم باترجمہ نہ آتا ہو

حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ

(فرمودہ ۹؍مئی ۱۹۴۶ء بعد نماز مغرب بمقام قادیان)

حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ نے یہ روح پرور تقریر مؤرخہ ۹؍ مئی ۱۹۴۶ء کو بعد نماز مغرب قادیان میں ارشاد فرمائی۔ اس مضمون میں حضور نے حفاظت قرآن نیز مختلف قراءت پر روشنی ڈالی اور تلقین فرمائی ہے کہ کوئی احمدی بلا تفریق امیر و غریب ایسا نہیں ہونا چاہیے جسے قرآن کریم باترجمہ نہ آتا ہو۔ حضورؓ نے اس مختصر لیکچر میں فرمایا کہ تعلیم یافتہ لوگوں کا زیادہ حق بنتا ہے کہ وہ قرآنِ کریم کے ترجمے سے فیضیاب ہوں اور اس ضمن میں سستی اور غفلت کو قریب نہ آنے دیں۔

تعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:

دنیا کے تمام مذاہب میں سے اسلام کو ہی یہ فخر حاصل ہے کہ اس کی مذہبی اور الہامی کتاب یقینی اور قطعی طور پر محفوظ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کی ایسی حفاظت فرمائی ہے کہ دشمن سے دشمن بھی اس کے محفوظ ہونے کی شہادت دینے پر مجبور ہے اور قرآن کریم کا محفوظ ہونا اس کی اندرونی شہادت سے ایسا ثابت ہے کہ کوئی انکار نہیں کر سکتا۔ اگر کوئی شخص گلاب کے پھول کی دو چار پنکھڑیاں نوچ کر پھینک دے تو گلاب کے پھول کی شکل ہی بتا دے گی کہ یہ اصل صورت نہیں ہے۔ دراصل قدرت کی پیدا کی ہوئی جتنی چیزیں ہیں وہ ساری کی ساری ایسی ہیں کہ اگر ان کا کوئی حصہ کاٹا گیا ہو تو اس کا فوراً پتہ لگ جاتاہے۔ خربوزہ کتنی عام چیز ہے ایک پیسہ کے دو دو سیر بکتے تو ہم نے بھی دیکھے ہیں۔ اگر کوئی شخص خربوزہ کا کچھ حصہ کاٹ لے تو کیا یہ چوری چھپ سکتی ہے آم کا ایک ٹکڑا اگر کوئی الگ کر دے تو کیا یہ ہو سکتا ہے کہ اس کا پتہ نہ لگے؟ انگور، سردا، انار غرض جس قدر پھل یا ترکاریاں ہیں ان میں سے کسی میں ذرا بھی فرق کرو تو فوراً پتہ لگ جائے گا پھر یہ کس طرح ہو سکتا ہے کہ کوئی شخص خدا تعالیٰ کے کلام میں دست اندازی کرے اور اس کا پتہ نہ چلے۔ اگر کوئی شخص دست اندازی کرنا چاہتا ہے تو اس کے لئے ضروری ہوتا ہے کہ پہلی چیز میں کوئی نہ کوئی تبدیلی کرے اور کسی چیز میں تبدیلی ہمیشہ دو قسم کی ہو سکتی ہے۔ اوّل اتفاقی حوادث سے۔ دوم جو بِالارادہ کی جائے۔

اگر پہلی بات لو تو قرآن کریم کی آیات میں اتفاقی حادثہ کے رنگ میں کسی قسم کی تبدیلی بھی ثابت نہیں۔ اتفاقی حادثہ یہ ہو سکتا تھا کہ مثلاًرسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو قرآن کریم کی کسی لمبی عبارت کا کوئی فقرہ بھول جاتا اور آپ اس کی جگہ کوئی اور فقرہ رکھ دیتے مگر یہ اعتراض نہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں کسی کافر نے کیا اور نہ ہی مسلمانوں میں سے کبھی کسی نے کہا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو قرآن کریم کا کوئی فقرہ بھول گیا تھا۔ بعد میں بے شک دشمنوں نے اس قسم کی خرافات آپ کی طرف منسوب کرنے کی کوشش کی ہے مگر بعد کی بنائی ہوئی بات کو کون درست تسلیم کر سکتا ہے ہر شخص اسے دشمنی اور عداوت پر ہی محمول کرے گا۔باقی رہا قرآن کریم کے کسی حصہ کا بِالارادہ نکال دینا سو اس کے مدعی مسلمانوں میں سے صرف شیعہ ہیں جوکہتے ہیں کہ قرآن کریم کے بعض حصے ارادتاً چھوڑ دیئے گئے ہیں مگر ان کی غلطی آپ ہی ظاہر ہے۔ مَیں سمجھتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کی ہی حکمت ہے کہ حضرت علیؓ آخری خلیفہ ہوئے اگر وہ حضرت ابوبکرؓ یا حضرت عمرؓ یا حضرت عثمانؓ کے زمانہ میں فوت ہو جاتے تو شیعہ کہتے کہ ان کے پاس جو قرآن کا حصہ تھا وہ ان کے ساتھ ہی چلا گیا مگر خدا تعالیٰ نے حضرت علیؓ کو ان خلفاء کے زمانہ میں زندگی دی اور حضرت عثمانؓ کے بعد خلافت پر بٹھایا۔ اب بے شک کوئی شیعہ یہ کہے کہ حضرت علیؓ نے اُس وقت بھی قرآن کریم کا وہ حصہ چھپائے رکھا جو اُن کے پاس تھا مگر اس کو کون درست سمجھ سکتا ہے ہر شخص یہی کہے گا کہ حضرت علیؓ جب خود بادشاہ بن گئے تھے تو انہوں نے قرآن کریم کا وہ حصہ کیوں ظاہر نہ کیا۔ غرض کوئی اعتراض قرآن کریم پر ایسا نہیں پڑتا جو معقول ہو اور قرآن کریم کی حفاظت کے متعلق شبہ پیدا کر سکے۔ پھر قرآن کریم کے بیسیوںحُفّاظ اُس وقت موجود تھے اِس وجہ سے بھی قرآن کریم میں خرابی کا امکان نہیں ہو سکتا۔ یہ شرف بھی صرف قرآن کریم کو حاصل ہے کہ ایک وقت میں اس کے بیسیوں حافظ موجود تھے اور پھر وہ سینکڑوں کی تعداد میں ہوگئے، پھر سینکڑوں سے ہزاروں کی تعداد میںہوگئے اور اِس وقت لاکھوں کی تعداد میں حفاظ موجود ہیں سوائے قرآن کریم کے دنیاکی کوئی الہامی کتاب ایسی نہیں جس کوحفظ کیا جاتا ہو۔ اللہ تعالیٰ نے اسے ایسی اعلیٰ ترتیب کے ساتھ اُتارا ہے کہ اس کا یاد کرنا بہت آسان ہے۔ میرا بیٹا ناصر احمد حافظ ہے اور اِس نے پندرہ سال کی عمر میں ہی قرآن کریم حفظ کر لیا تھا اور اس گئے گزرے زمانہ میں بھی جبکہ مسلمان اسلام سے بے اعتنائی کررہے ہیںلاکھوں حافظ موجود ہیں۔

ابتداء میں رسول کریم ﷺ کی قوم لکھنے کو عار سمجھتی تھی لیکن رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے اپنی زندگی میں ہی صحابہؓ کی تعلیم کا انتظام کر دیا تھا جس کے نتیجہ میں مسلمانوں نے بہت جلد لکھنے پڑھنے میں مہارت پیدا کرلی اور قرآن کریم بھی لکھا جانے گا۔ چنانچہ پہلے حضرت ابوبکرؓ نے قرآن کریم کو جو الگ الگ ٹکڑوں میں لکھا ہوا تھا ایک جلد میں لکھایا۔ پھر حضرت عمرؓ اور حضرت عثمانؓ نے حفاظ سے اس کی نظر ثانی کرائی تاکہ لکھنے والوں سے اگر لکھنے میں کوئی غلطی ہو گئی ہو تو اصلاح کروا دی جائے۔ اس کے علاوہ اصل کام حضرت عثمانؓ نے قرآن کریم کی حفاظت کے متعلق یہ کیا کہ کئی جلدیں لکھواکر تمام اسلامی ممالک میں بھجوا دیں تا کہ لوگوں میں تلاوت کا جو اختلاف تھا وہ مٹ جائے۔ مختلف علاقوں میں مختلف الفاظ ایک ہی مفہوم ادا کرنے کیلئے بولے جاتے ہیں اور جب تعلیم عام ہو جاتی ہے تو وہ اختلاف مٹ جاتا ہے۔

مستشرقینِ یورپ نے قراء توں کے اختلاف کو ایک ایسا رنگ دے دیا ہے کہ عام انسان ان کا جواب دینے سے گھبرا جاتا ہے حالانکہ بات کچھ بھی نہیں پنجاب کے ہی مختلف علاقوں میں ایک ہی مفہوم کے ادا کرنے کے لئے مختلف الفاظ بولے جاتے ہیں۔ مثلاً قادیان کے لوگ اگر پنجابی میں یہ کہنا چاہیں کہ انہوں نے پکڑ لیا ہے تو کہیں گے ’’پھڑ لیا‘‘ لیکن گجرات وغیرہ کے لوگ کہیں گے ’’پھدلیا‘‘ اب کیا کوئی شخص شور مچاتا ہے کہ بڑا خطرہ پیدا ہو گیا ہے کہ زبانوں میں اِس قدر اختلاف ہے۔ دلّی والے یہ دعویٰ کرتے ہیںکہ ہماری اُردو اچھی ہے اور لکھنؤ والے یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ اُن کی اُردو اچھی ہے۔ دہلی والے کیچڑ کہتے ہیں لیکن لکھنؤ والے اس کو کیچ کہیں گے۔ جس طرح ہمارے ہاں زبانوں میں اختلاف ہے اسی طرح عربوں میں بھی بعض اختلاف تھے۔ بعض قبائل میم کی جگہ ب بولتے تھے جیسے مکہ کو بکہ کہہ دیتے تھے۔ جب کسی کو نزلہ و زکام ہوتو وہ میم ادا نہیں کر سکتا۔ اگر وہ میری کہے گا تو منہ سے بیری نکلے گا۔ اُس زمانہ میں آبادیاں بہت دور ہوتی تھیں اگر وہ بیمار ہوتا تو وہ خیمے میں ہی پڑا رہتا۔ جس کا نتیجہ یہ ہوتا کہ بچے جو تلفظ اس سے سنتے ویسا ہی کہنا شروع کر دیتے۔ ان کو اصل زبان کا علم کیسے ہو سکتا تھا۔ جس طرح ان کے ماں باپ نے ان کے سامنے کوئی لفظ بولا اسی طرح انہوں نے بولنا شروع کر دیا اور وہ اس جگہ کی زبان بن گئی۔ ہم نے کئی دفعہ سنا ہے۔ چھوٹے بچے میری کو میلی کہتے ہیں۔ غرض زبان کے توتلے ہونے یا کسی اور نقص کی وجہ سے جو لفظ بار بار نکلے گا وہی اس علاقے کی زبان بن جائے گا۔ جیسے پنجابی میں ’’پھڑلو‘‘ اور ’’پھدلو‘‘ بن گیا لیکن آہستہ آہستہ جب تعلیم پھیل گئی اور زبان مکمل ہوگئی تو یہ اختلاف مٹ گیا۔ پس یہ قراءت کا اختلاف ایسا نہیں جو قرآن کریم کے محفوظ ہونے کے متعلق کوئی شُبہ پیدا کر سکے۔

میرا جی چاہتا ہے کہ اختلافِ الفاظ کے اسباب پر ایک کتاب منن الرحمٰن کے طور پر لکھی جائے جس میں بتایا جائے کہ اختلاف کے کیا اسباب اور وجوہ ہوتے ہیں۔ قرآن کریم کی حفاظت کے لئے اللہ تعالیٰ نے ایسے سامان پیدا کر دیئے ہیں کہ اس کی حفاظت میں شُبہ ہی نہیں کیا جا سکتا۔ یہ مسلمانوں کی بدقسمتی ہے کہ انہوں نے قرآن کریم کی طرف سے توجہ ہٹا لی ہے اور دوسری طرف چلے گئے ہیں حالانکہ یہ ایک نہایت ہی قیمتی چیز خدا تعالیٰ کی طرف سے عظیم الشان نعمت کے طور پر مسلمانوں کو ملی تھی۔ اب جماعت احمدیہ کو اس کی طرف پوری توجہ کرنی چاہئے اور ہمارا کوئی آدمی ایسا نہیں رہنا چاہئے جو قرآن کریم نہ پڑھ سکتا ہو اور جسے اس کا ترجمہ نہ آتا ہو۔ اگر کسی شخص کو اُس کے کسی دوست کا کوئی خط آجائے تو جب تک وہ اُسے پڑھ نہ لے اسے چین نہیں آتا اور اگر خود پڑھا ہوا نہ ہو تو یکے بعد دیگرے دو تین آدمیوں سے پڑھائے گا تب اُسے یقین آئے گا کہ پڑھنے والے نے صحیح پڑھا ہے لیکن کتنے افسوس کی بات ہے کہ اللہ تعالیٰ کا خط آئے اور اس کی طرف توجہ نہ کی جائے۔ عام طور پر دیکھا گیا ہے کہ غرباء قرآن کریم پڑھنے کی کوشش کرتے ہیں اور امراء اِس کی ضرورت ہی نہیں سمجھتے۔ حالانکہ جو شخص دنیاوی لحاظ سے کوئی علم رکھتا ہے یا امیر ہے تو اُس کے لئے قرآن کریم کا پڑھنا زیادہ آسان ہے کیونکہ اس کو قرآن کریم کے پڑھنے کے مواقع میسر آ سکتے ہیں۔ میرے نزدیک ایسے لوگ جو کہ تعلیم یافتہ ہیں مثلاً ڈاکٹر ہیں، وکیل ہیں، بیرسٹر ہیں، انجینئر ہیں وہ خدا تعالیٰ کے نزدیک زیادہ مجرم ہیں کیونکہ وہ اگر قرآن مجید پڑھنا چاہتے تو بہت آسانی سے اور بہت جلدی پڑھ سکتے تھے پس ایسے لوگ خداتعالیٰ کے نزدیک زیادہ گنہگار ہیں۔ دوسرے لوگوں کے متعلق تو یہ خیال کیا جا سکتا ہے کہ ان کا حافظہ کام نہیں کرتا تھا لیکن ان لوگوں کے دماغ تو روشن تھے اور حافظہ کام کرتا تھا تبھی تو انہوں نے ایسے علوم سیکھ لئے۔ ایسے لوگوں سے اللہ تعالیٰ کہے گا کہ تمہیں دُنیوی علوم کے لئے تو وقت اور حافظہ مل گیا لیکن میرے کلام کو سمجھنے کے لئے نہ تمہارے پاس وقت تھا اور نہ ہی تمہارے پاس حافظہ تھا۔ ایک غریب آدمی کو تو دن میں د س بارہ گھنٹے اپنے پیٹ کے لئے بھی کام کرنا پڑتا ہے لیکن باوجود اس کے وہ قرآن پڑھنے کی کوشش کرتا ہے اور ایک امیر آدمی یا ایک ڈاکٹر جن کو چند گھنٹے کام کرنا پڑتا ہے ان کے لئے قرآن کریم پڑھنا کیا مشکل ہے۔ یہ سب سستی اور غفلت کی علامت ہے اگر انسان کوشش کرے تو بہت جلد اللہ تعالیٰ اس کے لئے رستہ آسان کر دیتا ہے۔ دوسری دنیا تو پہلے ہی دنیا کمانے میں منہمک ہے اور آخرت کی طرف آنکھ اُٹھا کر نہیں دیکھتے اگر ہماری جماعت بھی اسی طرح کرے تو کتنے افسوس کی بات ہوگی۔ حقیقت یہ ہے کہ دنیا علم و ہنر اور دوسری ایجادوں میں تو ترقی کرتی جا رہی ہے لیکن چونکہ قرآن کریم سے دور جا رہی ہے اس لئے وہی چیزیں اس پر تباہی اور بربادی لا رہی ہیں۔ جب تک لوگ قرآن کریم کی تعلیمات کو نہیں اپنائیں گے، جب تک قرآن کریم کو اپنا راہبر نہیں مانیں گے یہ اُس وقت تک چین کا سانس نہیں لے سکتے۔ یہی دنیا کا مداوا ہے ہماری جماعت کو کوشش کرنی چاہئے کہ دنیا قرآن کریم کی خوبیوں سے واقف ہو اور قرآن کریم کی تعلیم لوگوں کے سامنے بار بار آتی رہے تا کہ دنیا اس مأمن کے سایہ تلے آ کر امن حاصل کرے۔

(الفضل ۳۰؍ جون ۱۹۶۵ء)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button