احمد علیہ السلام۔ سیرت و سوانح
حضرت صاحبزادہ مرزا سلطان احمد صاحبؒ
(حصہ دوم)
ایک صاحب طرزادیب،شاعراورفلسفی
حضرت مرزا سلطان احمد صاحب ابن’’سلطان القلم‘‘ تھے۔قلم ہاتھ میں پکڑتے تو سینکڑوں صفحات بے تکان لکھتے چلےجاتے۔گزشتہ قسط میں محترم میرمحموداحمدصاحب کی روایت درج ہوئی ہے کہ دومقدموں کے درمیان تھوڑے سے وقفہ میں آپ مضمون لکھناشروع کردیاکرتے تھے۔درجنوں کتب تصنیف کیں اور سینکڑوں مضامین مختلف اخبارات ورسائل میں شائع ہوئے۔اس زمانے میں شایدہی کوئی ادبی رسالہ اور اخبارہوگاکہ جس کی خواہش اور تمنا یہ نہ ہوکہ کاش میرے رسالے میں خان بہادرمرزاسلطان احمدصاحب کامضمون شائع ہو۔اوران رسالوں کے مدیر درخواست کرکے یہ مضامین لکھواتے اورفخرسے شائع کرتے۔یونیورسٹیوں میں آپ کی کتب بطورنصاب شامل کی جاتیں۔
ایک ادبی جریدہ نیرنگ خیال آپ کے ادبی مقام ومرتبہ کاذکرکرتے ہوئے لکھتاہے :
ذوقِ شعروسخن اس کے سواتھاجوکہ آپ کو وراثت میں ملا تھا۔ آپ کےو الد ماجد حضرت مسیح موعود بھی اردو، عربی اور فارسی میں نہایت بلند پایہ شعر کہتے تھے، آپ کی منظومات و غزلیات پر مشتمل ایک کتابچہ ’’چند نثری نظمیں‘‘ کے عنوان سے شائع شدہ ہے۔ علاوہ ازیں آپ اردو وفارسی شاعری کا نہایت گہر امطالعہ اور انتہائی اعلیٰ ذوق رکھتے تھے۔ اپنی رواں تحریر میں نہایت عمدہ اشعار اور مصرعوں کا بے ساختہ اور برمحل استعمال اس بات کا واضح ثبوت پیش کرتا ہے۔ آپ کی تحریریں پڑھ کر دیکھیں تو یوں لگتا ہے کہ کسی ماہر سنار نے سونے کے زیورات میں نگینے جڑ دیئے ہوں۔ آپ کے شعری ذوق کی وسعت و عظمت اور گہرائی کا اندازہ آپ کے ان سینکڑوں مضامین سے بخوبی ہو سکتا ہے جو آپ نے زبان و ادب اور شعر کے متعلق تحریر کئے۔ علاوہ ازیں آپ نے ’’فن شاعری‘‘ کے عنوان سے ایک انتہائی شاندار کتاب تحریر کی جس میں فن شعر پر فلسفیانہ تنقید و تبصرہ کیا ہے۔
’’اردو زبان کا وہ زبردست فلسفی، مضمون نگار اوربلند پایہ مصنف جو قریباً نصف صدی تک اردو کی ادبی دنیا پر چھایا رہا اور جس کے زمانہ میں اردو کا کوئی ادبی اور علمی رسالہ اپنی ابتدانہیں کیا کرتا تھا اور نہ کر سکتا تھا جب تک اپنے قلمی معاونین کی فہرست میں بکمال امتیاز و اختصاص و افتخار مرزا سلطان احمد مرحوم کا نام سرِ لوح درج نہ کر لیتا ہو۔‘‘
(نیرنگ خیال جُوبلی نمبر۔ مئی، جون 1934ء صفحہ 279)
حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ تحریر فرماتے ہیں:
’’خان بہادر مرزا سلطان احمد صاحب جو قادیان کے مشہور مغل خاندان سے تعلق رکھتے تھے جناب مرزا غلام احمد صاحب قادیانی بانی جماعت احمدیہ کے زوجہ اول سے فرزند اکبر تھے۔ مرزا سلطان احمد صاحب غالباً 1859ء میں یا اس کے قریب پیدا ہوئے اور اسّی (80) سال کی عمر پا کر 1931ء میں فوت ہوئے… مرزا سلطان احمد صاحب نائب تحصیلدار کے عہدے سے اپنی ملازمت کا آغا زکر کے افسر مال کے عہدے تک پہنچے اور چند دن تک گوجرانوالہ میں قائم مقام ڈپٹی کمشنر بھی رہے تھے۔ پنشن کے بعد ریاست بہاولپور میں وزیر مال کے جلیل القدر عہدہ پر بھی کچھ عرصہ کام کیا۔ ملازمت کے دوران مرزا صاحب موصوف کا دامن ہر جہت سے بے داغ رہا۔ آپ کے دل میں مسلمانوں کی ہمدردی کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی۔ مگر دوسری قوموں کے ساتھ بھی انصاف کا اعلیٰ نمونہ دکھایا۔ تصنیف میں بھی مرزا سلطان احمد صاحب کو خاص شغف تھا اور کبھی کبھی شعر کا شغل بھی کر لیتے تھے۔ ان کی تصنیفات میں ایک اعلیٰ ہستی، علوم القرآن، اساس القرآن، فنون لطیفہ، ضرب الامثال، زمیندارہ بنک، اور چند نثر نما نظمیں زیادہ معروف ہیں۔‘‘
(روزنامہ الفضل 5 اکتوبر 1993ء صفحہ 3 جلد 78/43 نمبر222)
حضرت مرزا سلطان احمد صاحب کی دیگر مطبوعہ و غیر مطبوعہ کتب کی تعداد 50کے قریب ہے۔
صاحبزادہ مرزاسلطان احمدصاحب کی قبولیت احمدیت
صاحبزادہ صاحب نے اپنے والدبزرگوار کے حین حیات حضرت اقدسؑ کی بیعت کاشرف نہ پایا۔ لیکن اس کا مطلب ہرگزہرگزیہ نہیں تھا کہ صاحبزادہ صاحب آپؑ کونعوذباللہ جھوٹا سمجھتے تھے۔ اورنہ ہی آپ نے کبھی آپؑ کی مخالفت کی یامخالفین کاساتھ دیا۔بس ایک خاموشی تھی۔ ایک گہری خاموشی جس کی تہ میں، ادب واحترام اور محبت وعقیدت کاایک طوفان چھپاہوا تھا۔چنانچہ ایک مرتبہ حضرت مسیح موعودؑ کے وصال کے بعد جب مخالفین نے حضرت مرزا سلطان احمد صاحب کے خلاف شر انگیز خبریں اڑائیں اور یہ کوشش شروع کی کہ کسی طرح آپ کو حضرت مسیح موعودؑ کی دوسری زوجہ محترمہ حضرت اماں جان سیدہ نصرت جہاں بیگم صاحبہ کی اولاد کی مخالفت پر آمادہ کیا جائے تو اس پرآپ نے ایک دوست کے نام مندرجہ ذیل خط تحریر فرمایا جو کہ پیسہ اخبار میں شائع ہوا۔ اس خط میں لکھتے ہیں:
’’مکرم بندہ!
والا نامہ پہنچا۔ مشکور فرمایا۔ ہمیشہ لوگ اپنی ذات اور اپنے نفس پر دوسروں کا فیصلہ کیا کرتے ہیں۔ ذاتی کاوشوں کو مذہبی رنگ میں لا کر نتائج نکالنے کے عموماً عادی ہیں۔ جن جلدبازوں نے میری نسبت قادیان کے متعلق یہ خبریں اڑائیں انہوں نے اپنے خیال میں یہ سمجھا کہ سچا اسلام صرف یہی ہے کہ ایک لڑکا اپنے باپ کے مرنے پر شرارت اٹھائے قفل بند کر دے۔ لیکن ان کو یہ معلوم نہ تھا کہ میں اس قسم کے اسلام سے بیزار ہوں اور میری رائے میں جو اسلام یہ سکھاتا ہے کہ باپ کی بے عزتی اور بے وقری کی جاوے اور باپ کے پسماندگان کے ساتھ فساد کیا جاوے وہ کفر اور ارتداد سے بھی بدتر ہے۔ اگر ایسے شرمناک اسلام کی وجہ سے بہشت بھی مل سکے تو میری رائے میں وہ دوزخ سے بھی زیادہ تر خوفناک ہے۔ لعنتی ہے وہ بیٹا اور کم بخت ہے وہ لڑکا جو باپ کی میت کو خراب کرے اور چھوٹے بھائیوں سے ناحق الجھے۔ مسلمان ایک طرف تو یہ کہتے ہیں کہ ماں باپ کے قدموں کے نیچے بہشت ہےاور دوسری طرف یہ امید رکھتے ہیں کہ ایک سمجھدار لڑکا باپ کی تخریب کا موجب ہو۔ اور دین و دنیا میں روسیاہی سہیڑے۔ اور اگر میں یہ حرکت کرتا بھی تو کیا اس قصور پر کہ قادیان میں ان کی بدولت شب و روز قرآن کریم کی تلاوت اور اذان کی گونج رہتی ہے۔ میں تو سست اعمال تھا۔ مجھے اسلامی جوش اس قدر مجبور کرتا اور میں اس قدر مومن ہو جاتا کہ قرآن خواں جماعت کو قادیان سے نکالنے کی فکر کرتا۔ حاشا و کلّا…
قادیان کی جماعت خدا کے فضل و کرم سے بمقابلہ میرے ہزارہا درجہ نیک اور متقی، عامل شریعت، عاشق رسول عربیؐ ہے۔ قرآن ان کے ہاتھوں میں ہے اور درود ان کی زبان پر۔ شب بیدار اور پرستار خدائے لا یزال ہیں اور میرے اعمال خود آپ جانتے ہیں کیا ہیں۔ باوجود ان اعمال کے ایسی جماعت کی مخالفت کر سکتا ہوں۔ لوگ انہیں کافر سمجھیں اور قابل دار۔ لیکن وہ مجھ سے صد درجہ نیک اور قابل عزت ہیں…
(الحکم 10جولائی 1908ء صفحہ 16 جلد 12نمبر40)
آپ کایہ خط حضرت اقدسؑ کی ذات اورآپ کے دعاوی اور آپ کوماننے والوں کے متعلق صاحبزادہ صاحب کے قلبی خیالات وجذبات کاعکاس وترجمان ہے۔اس خط میں آپ نے اپنے بھائیوں کے متعلق بھی جس محبت کااظہارفرمایاہے۔اس کااظہارایک اورمرتبہ بھی ہوا۔چنانچہ ایک دفعہ چند متعصب لوگ جو غیر از جماعت تھے حضرت صاحبزادہ مرزاسلطان احمدصاحب کے پاس آئے اور کہنے لگے کہ آپ کی زمین کے دو چھوٹے ٹکڑے میاں محمود (حضرت خلیفۃالمسیح الثانی) آپ کی اجازت کے بغیر زیر کاشت لے آئے ہیں۔ اس پر آپ ان لوگوں پر سخت ناراض ہوئے اور فرمایا:
’’فوراً یہاں سے چلے جاؤ۔ میاں محمود میرے بھائی ہیں۔ اگر وہ میرے مکان کی چھت پر بھی ہل چلوا دیں تو بھی میں ان سے اختلاف نہیں کروں گا۔‘‘
(ماخوذ ازحضرت مرزا سلطان احمد مرتبہ میر انجم پرویزصفحہ50،49)
حضرت اقدس مسیح موعودؑ بھی اپنے اس سعادت مندبیٹے کی نیک بختی سے آگاہ تھے۔اوائل میں جب حضرت صاحبزادہ مرزاسلطان احمدصاحب لاہورمیں بسلسلہ ملازمت مقیم تھے تو حضورؑ لاہورتشریف لے جاتے توانہیں کے ہاں قیام فرماتے۔ایک مرتبہ 1890ء میں حضرت اقدسؑ کئی ماہ تک شدید بیمار رہے حتیٰ کہ بظاہر زندگی کی امید منقطع ہو گئی۔ بیماری کا یہ حملہ مارچ 1890ء کے آخری ہفتہ میں ہوا۔ مئی میں آپ ڈاکٹری علاج کے لئے لاہور تشریف لائے اور اپنے فرزند اکبر مرزا سلطان احمد صاحب نائب تحصیلدار کے مکان پر ٹھہرے اور مشہور ناولسٹ مسٹر احمد حسین کے والد ڈاکٹر محمد حسین صاحب کے زیر علاج رہے۔
(ماخوذ از مکتوبات احمد جلد دوم 576، 577 مکتوب بنام منشی رستم علی صاحب مکتوب نمبر 179)
بعض اوقات آپ نے اس امرکااظہاربھی کیاہے کہ آخرکیاوجہ تھی کہ وہ بیعت کرنے سے رکے رہے۔ایک دفعہ کاذکرہے کہ چند مخلص احمدی احباب جو آپ سے دوستانہ اور بے تکلفانہ تعلق رکھتے تھے آپ کی خدمت میں وفد کے طور پر حاضر ہوئے تاکہ انہیں حلقہ احمدیت میں لانے کی کوشش کریں۔ آپ نے ان کی باتوں کو سن کر فرمایا:
’’میں اپنے والد صاحب کے مقام کو آپ سے زیادہ جانتا ہوں۔ ظاہری بیعت سے جو رکا چلا آرہا ہوں تو اس کی وجہ یہ ہے کہ میں حضورعلیہ السلام کی فرمودہ تعلیم کی بجا آوری کی تاب تواں اپنے اندر نہیں رکھتا۔‘‘
(ماخوذ ازحضرت مرزا سلطان احمد مرتبہ میر انجم پرویزص49)
ہرچندکہ آپ ہمیشہ حضرت مسیح موعود ؑکی صداقت اور راستبازی، تقویٰ اور طہارت کے معترف رہے اور احمدیت میں داخل ہونے میں روک اپنی عملی کمزوری قرار دیتے۔ گویا اس وقت بھی آپ حضرت مسیح موعودؑ کے دعاوی پر کوئی اعتراض نہیں کرتے تھے۔ بلکہ ان کے عقائد کے قبول نہ کرنے کی وجہ اپنی ذاتی کمزوری بتاتے تھے۔ یہ بھی آپ کی سعادت کی بہت بڑی علامت تھی اور کیا عجب ہے کہ اس کے نتیجہ میں آپ کو حضرت مسیح موعودؑ پر ایمان لانے کا شرف حاصل ہوا۔ البتہ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ہرکام کاایک وقت،اس کی اجل مقدرہواکرتی ہے۔حضرت صاحبزادہ صاحب کابیعت سے رکے رہنا نہ جانے کن کن مصالح کے پیش نظرتھا۔یہ توخدائے علیم وحکیم ہی بہتر جانتا ہے۔شایدقدرت اس تین کوچارکرنے والے کاانتظارکررہی تھی جس کی نوید20فروری 1886ء میں دی گئی تھی۔ یاکسی اَوربات کا۔ بہرحال وہ ساعت سعدآگئی کہ جب حضرت اقدسؑ کایہ جگرگوشہ بھی مصلح موعودؓکے قدموں میں حاضرہوکراحمدیت کوقبول کرنے کی سعادت پاگیا۔
(باقی آئندہ)